وجے مالیا پارلیمان سے مستعفی

انڈیا کے مشہور تاجر وجے مالیا نے مالی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد راجیہ سبھا سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ان پر الزام ہے کہ وہ اپنی کمپنی کنگ فشر ایئر لائنز پر بھاری قرض کی وجہ سے برطانیہ میں روپوش ہیں۔وجے مالیا کوتقریباً ایک ارب ڈالر مالیت کا قرض ادا کرنا ہے۔گذشتہ ماہ انڈین حکومت نے وجے مالیا کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا تھا اور اْن کے خلاف عدالتی وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد حکام نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ مالیا کو ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کیا جائے۔وجے مالیا نے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کو ’بے جا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔مالیا کے ایک ترجمان نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انھوں نے بھارتی پارلیمان میں ایوان بالا (راجیہ سبھا) کی اپنی رکنیت سے استعفی دے دیا ہے۔‘یہ استعفیٰ راجیہ سبھا میں اخلاقی ضابطے کی کمیٹی کی اجلاس کے ایک ہفتے بعد دیا گیا ہے۔کمیٹی نے مالیا سے اْن کے رویے پر وضاحت مانگی تھی اور بینک کے قرض نادہندہ ہونے کی وجہ سے ان کی رکنیت کے خاتمے کی تجویز پیش کی تھی۔یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ کنگ فشر ایئر لائنز میں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنے والوں کے سامنے وجے مالیا حاضر ہونے سے بار بار قاصر رہے۔ان کی کمپنی سنہ 2013 میں دیوالیہ ہو گئی تھی۔وجے مالیا نے مارچ میں ٹوئٹر پر کہا تھا کہ وہ ایک بین الاقوامی تاجر ہیں اور ان کے لیے سفر کرنا ضروری ہے اور اس کی اجازت نہ ہونے کے سبب وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ ’میڈیا ٹرائل کا شکار ہیں۔‘کاروباری شخصیت وجے مالیا کنگ فشر برانڈ کے تحت بیئر کا کاروبار کرتے ہیں اور انھوں نے ہوابازی، فارمولہ ون، کرکٹ اور مشروبات کی صنعت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔حیرت اس اس بات کی ہے کہ وہ ملک سے باہر بھاگنے میں کامیاب بھی گئے اور الٹے حکومت ہند کو دھمکی بھرے انداز میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ زیادہ کچھ کیا تو ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا ہاں لیکن میں مصالحت کے لئے تیار ہوں ۔لفظ مصالحت وہاں ہوتی ہے جہاں کسی چیز کا جھڑا ہو لیکن یہاں تو جھگڑ ا نہیں ہے بلکہ اصول کا تقاضہ ہے کہ انڈین بینک کا نو سو کروڑ روپے آپ کو لوٹانا ہے چاہے وہ کسی طرح لوٹایا جا ئے ۔لیکن ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وجئے مالیا کا غیر ملک میں چالیس سے زیادہ کمپنی میں راست یا براہ راست شراکت داری ہے ۔ایسے حالات میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وجئے مالیا نے ہندوستان کے بینکوں سے قرض لیکر غیر ممالک میں سرمایا کاری کر رہے ہیں اور خود کو انڈین حکومت کے سامنے دیوالیہ بتا رہے ہیں ۔لیکن دیوالیہ بتانے والے بھی نرم ہوتے ہیں اور ان کا انداز دھمکانے جیسا نہیں ہوتا ہے بلکہ عاجزانہ طور پر ہوتا ہے ۔لیکن یہاں تو معاملہ بالکل الگ ہے ،وجئے مالیا ایک ایسے سرمایادار ہیں جن کو شروع سے لیکر آج تک سیاسی پناہ حاصل رہی اور وہ سیاسی پناہ کی حد تک راجیہ سبھا کے ممبر بھی کئی کئی پارٹیوں سے نامزد ہو گئے ۔اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی سرمایا دار کو سیاسی پناہ کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈر کی حیثیت بھی حاصل ہو جائے ۔شاید اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو گئے ورنہ عام ہندوستانیوں کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ ملک سے باہر چلا جائے ۔اب اگر ہم بینکوں کے پیسوں کا رونا روئے تو کس پر روئیں کیونکہ اصولی طور پر وہ جمہوریت کے مندر کا ممبر ہے ۔وہ ہندوستانیوں کے سفید و سیاہ کا مالک بھی تھا ایسے حالات میں اگر بد قسمتی کسی کی ہے تو عوام کی ہے اور ا ن پارٹیوں کی ہے جس نے انہیں اپنے قیمتی سیٹوں کے استعمال سے راجیہ سبھا کا ممبر بنایا تھا ۔سوالیہ نشان اگر لگتا ہے ایسے پارٹیوں پر جنہوں نے اس کی پشت پناہی کی تھی اور اسے سرمایا دار سے سیاست داں بنانے کی بتکلف کوشش کی تھی ۔اس وقت انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ وہ ملک کا استحصال کس طرح کریگا ۔غوروفکر کا مقام ہے سیاسی پارٹیوں کے لئے کہ انہیں ملک کی خدمت کرنے کیلئے کوئی غریب ہندوستانی نہیں ملتا ہے بلکہ وہ اسی کو تقویت پہنچانے کا کام کرتے ہیں جو پہلے سے ہی کافی توانا ہے اور اگر اسے مزید اثرو رسوخ مل جائے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کریگا ۔اور ہوا بھی وہی جیسا کہ ہونا چاہئے تھا ۔اس نے غریب عوام کے پیسوں سے اسی ہندوستان میں دادعیش لیا ۔کم سن اور اپنی بیٹی کی عمر کے دوشیزہ کے ساتھ عشق و عاشقی کے مناظر پورے ہندوستان کو دیکھا کر مستی میں چور ہو کر کھربوں روپے لے کر چمپت ہو گیا اور ملک کا ہر شہری حسرت و یاس کے الم میں اسے دیکھتا رہا ۔اس کی بھرپائی اسی سے ہو سکتی ہے کہ پھر کوئی مالیا ہندوستان میں پنپنے نہ پائے اور سرمایاداروں سے سیاست داں دور رہیں اور ایسے قماس افراد کو راجیہ سبھا کے سیٹ ہرگز ہر گز نہ بنائیں ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.