اب قانون کی حفاظت کون کرے؟

یو پی کی راجدھانی لکھنو کے ناکہ علاقہ میں وکیل کی لاش ملنے کی اطلاع پر اودھ بار ایسو سی ایشن کے وکیلوں نے حکومت کے ذریعہ مقتول کے گھر والوں کو پچیس لاکھ روپے معاوضہ ،ملزمان کی گرفتاری اور دوسرے کئی مطالبات کو لیکر ہائی کورٹ چوراہے پر بدھ کو پر تشدد مظاہرہ کیا ۔اس دوران وکیلوں نے حکومت کے خلاف جم کر نعرے بازی کرتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس کپتان کو ہٹانے کا بھی مطالبہ شروع کیا ۔مظاہرے کی اطلاع پر وزیر گنج ،چوک قیصر باغ تھانوں کی پولیس اور افسران موقع پر پہنچے ۔وہ سب کچھ ہوا جو دیگر مظاہرین کرتے ہیں بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے وکیلوں نے شہر کی گاڑیوں ،بسوں اور موٹر سائیکل وغیرہ پر بھی جم کر توڑ پھوڑ کی اس کے علاوہ کئی وکیلوں کو کھلے عام سڑکوں پر ریوالور لیکر فائرنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے ۔محکمہ صحت کے گیٹ پر کھڑی گاڑیوں میں آگ لگائی گئی اور زبردستی اندر داخل ہو کر دہشت کا ایسا ماحول تیار کیا کہ ملازمین اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو ئے اور پھر وہ ننگا ناچ کیا جس سے پورے علاقے میں دہشت پھیل گئی ۔کیا قانون کی حفاظت کرنیوالے بھی اب قانون توڑنے والے بن گئے ہیں کیا یہ احتجا ج کا طریقہ ان کے شایانِ شان تھا ۔نہیں ہرگز نہیں معاملہ کچھ بھی ہو کتنا ہی سنگین ہو بار ایسو سی ایشن تو چاہتا تو اس کو بہت خوش اصلوبی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہ کر قانونی کارروائی کرتے اور امید تھی کہ وہ قانونی لڑائی جیت بھی جاتے کیوں کہ یہ معاملہ کسی وکیل کے قتل سے تعلق رکھتا ہے اور اس معاملے میں تمام وکیل متحد بھی تھے ۔لیکن اس طرح کے حالات سے عام ہندوستانی کیا سبق حاصل کرے گا ۔کیا وہ بھی کسی کے قتل کے خلاف وہی رویہ اپنائے گا جو وکیلوں نے اپنا یا ہے ۔تب یہ ملک جمہوری اور عوامی نہیں بلکہ رزم گاہ میں تبدیل ہو جائے گا ۔کسی بھی ملک کیلئے امن آمان کی بحالی سب سے زیادہ ضروری ہے ۔حیرت اس بات کی ہے کہ وکالت کی تعلیم وہ ہوتی ہے جس میں انسان نہ صرف یہ کہ ملک کی آئینی قوانین سے پوری طرح واقف ہو جاتا ہے بلکہ حق و انصاف کا علمبردار بن جاتا ہے اور انصاف کی لڑائی کے لئے وہ ہر وہ قانونی اقدام کرتا ہے جس کی اجازت ملک کی عدلیہ دیتی ہے ۔لیکن لکھنو میں جس طریقے سے کسی وکیل کے قتل کے احتجاج کو درج کرایا گیا وہ کسی بھی معنی میں قانونی نہیں معلوم ہو رہا ہے بلکہ یہ تو تخریب کاروں کا روش ہے جس پر قانون داں چل پڑے ہیں ۔یہ بات اہم اس لئے ہے کہ عدلیہ کی ملک میں بہت اونچا مقام ہے عدلیہ پر تمام لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر حکومت بھی کوئی ایسا فیصلہ کرے جو عوام کے حق میں نہ ہو تو عدلیہ اس پر قدغن لگاتی ہے اور اس کی سنوائی کرتی ہے ۔جس کو ان ہی وکیلوں کے ذریعے بروئے کار لا یا جاتا ہے ۔اب اگر یہی وکیل فسادیوں کی طرح شہر میں ہنگامہ کرنے لگیں اور غیر جمہوری و غیر اخلاقی حرکت کا ارتکاب کرنے لگیں تو پھر قانون کی پاسداری کی امید کس سے کی جا سکتی ہے ۔احتجاجیوں کو سرکاری اور پرائیویٹ املاک تباہ کرنے کی کیا قانون اجازت دیتی ہے؟ہرگز نہیں تو پھر وکیلوں نے جو حرکت کی ہے اس سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سب اخلاقی زوال کی نشانی ہے تو بھی بات نہیں بنے گی چونکہ غیر اخلاقی حرکت تو وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے اعلی تعلیم حاصل ہی نہیں کی یہ پھر وہ غیر مہذب شہری ہیں ۔لیکن یہاں تو ملک کے اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل وکیل حضرات ہیں جو نہ صرف اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ با وقار ڈگری حاصل کی ہے ۔تو آخر کمی کہاں ہے ؟یہ اور اس طرح کے کئی سوالات عوام کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا تو انتظام ہے لیکن وہ تعلیمی ادارے اخلاقی تعلیم سے بے بہرہ ٹیم ملک کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ اور اس طرح کے کئی مسائل سے سماج دو چار ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم دی جائے اور انہیں ملک و آئین کی پاسداری کرنے والا بنایا جائے ۔نہیں تو آج وکیلوں نے سماج دشمن عناصر کا رول ادا کیا ہے کل نہ جانے کون کون سے با وقار عہدے اس ذد میں آکر وہ افعال انجام دینے لگے جس سے سماج میں انارکی پھیل جائے گی ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.