اڑتی ہوئی گرد میں ان کا بھلا ہے

 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو کہیں اسلام نظر آتا ہے اور نہ ہی کہیں جمہوریت دیکھائی دیتی ہے۔اسلام کا دیا گیا بہترین نظامِ عدل،مساوات اور مساویانہ معاشی نظام کا وجود دور دور تک اس معاشرے میں نظر نہیں آتا ہے۔ جمہوری اقدار نہ تو یہاں پنپ سکی ہیں اور نہ ہی ان کو رائج کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ پاکستانی عوام کو کبھی اسلام کے نفاذ اور کبھی جمہوریت اور عدلیہ کی بحالی کی تحریکوں میں مصروف رکھا گیا ہے۔ان کی توانائیوں کو لاحاصل کوششوں میں ضائع کیا گیا ہے۔ ہر دور کی پاکستانی قیادت نے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کر کے اپنے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب تو شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکا مگر یہ ملک اور اس کے عوام سرمایہ داروں کے شکنجے میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی آکاس بیل نے جمہوریت کے پودے کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اب یہ پودا اس وقت تک تناور درخت نہیں بن سکتا ہے جب تک اس سرمایہ دارانہ آکاس بیل کو اس سے الگ نہ کیا جائے۔

پاکستان میں پاناماپیپرز کا ہنگامہ اپنے عروج پر رہا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہنگامہ اب تفریح میں تبدیل ہو رہا ہے۔یہاں کے سرمایہ داروں نے یہ کھیل بڑی مہارت کے ساتھ کھیلا ہے۔ایک آسان اور سادہ مسلے کو پیچیدہ بنا دیا گیا اور اب اسے اتنا طول دیا جا رہا ہے کہ یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے گا۔جب پاناما سیکنڈل سامنے آیا تو پاکستانی وزیر اعظم کے بچوں کے نام کے ساتھ ساتھ چار سو کے لگ بھگ دیگر پاکستانیوں کے نام بھی سامنے آئے۔پاکستانی میڈیا نے نے اسے خوب ہوا دی۔میڈیا اور اپوزیشن نے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا مگر باقی افراد کو نظر انداز کر دیا۔ایسا دانستہ کیا گیا اور معاملے کو سیاسی بنا دیا گیا۔نواز شریف خود سرمایہ داروں کے سرخیل ہیں بھلا وہ کیوں کر چائیں گے کہ اس معاملے کی فوری اور شفاف تحقیقات ہوں۔اگر وہ سنجیدہ اور مخلص ہوتے تو ایف آئی اے اور نیب کو شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حکم دیتے۔یہ ادارے صرف اس بات کا پتہ لگاتے کہ کیا یہ سرمایہ قانونی طور پر کمایا گیا ہے ؟اور کیا اس سرمایے کو قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھیجا گیا ہے؟یہ دونوں ادارے یہ کام ہفتوں میں مکمل کر لیتے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔مگر یہاں نیتوں کے فتور تھے۔وزیر اعظم اپنے ساتھ ساتھ دیگر چار سو کے لگ بھگ سرمایہ داروں کو بھی بچانا چاہتے تھے۔پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بھی بڑے منافقانہ انداز میں ان کا ساتھ دیا۔اس منافقت کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب گزشتہ پیر کو وزیر اعظم کے قومی اسمبلی میں خطاب کے بعد اپوزیشن نے متفقہ طور پر واک آوٹ کیا۔پاکستانی عوام اور میڈیا اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ وزیر اعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن وزیر اعظم سے کڑے سوالات کرے گی۔مگر ٹاک شوز میں گرجنے والے اسمبلی نہ برسے اور یوں وزیرا عظم کے جمہوری احتساب کا موقع دانستہ طور پر گنوا دیا گیا۔پیپلز پارٹی میثاقِ جمہوریت کی بدولت مسلم لیگ ن کا ساتھ دے رہی ہے۔تحریک انصاف کے دو مرکزی لیڈروں کے نام بھی اس سکینڈل میں آچکے ہیں۔سرمایہ دار کبھی بھی کسی سرمایہ دار کا احتساب نہیں کرے گا بلکہ اس کے سرمائے کے تحفظ کے لیے ہی اقدامات کرے گا۔پاکستانی عوام اور میڈیا نے بے جا توقعات وابستہ کر لی تھیں ۔کیمونزم معاشروں میں بھی کرپشن ہوا کرتی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن نہ ہو۔مگر نہ کوئی اس کرپشن کو پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی بے رحمانہ احتساب ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ایسے میں عوام مجہول ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

اب اپوزیشن پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر راضی ہو گئی ہے 70سولات بھی ترتیب دے دیے گئے ہیں ۔نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔جانے کب ان ستر سوالوں کے جواب ملیں گے؟طوالت افادیت کھو دیتی ہے۔برطانیہ نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے جو باہر سے لائی گئی دولت کا جائزہ لے گی غیر قانونی دولت ان ملکوں کی حکومتوں کو واپس کر دی جائے گی۔پاکستانی وفد نے اس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔نواز شریف بھلا کیونکر چائیں گے کہ ان کے بچوں اور سرمایہ دار دوستوں کی دولت پاکستان آئے۔یہ سب لوگ ایسے ہی گرد اُڑائے رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس گرد میں چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔وہ اسی میں اپنا بھلا جانتے ہیں۔اب صرف قدرت سے ہی امید ہے کہ وہ منظر کو صاف کرے اور کرپٹ چہرے بے نقاب کرے۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55948 views i am columnist and write on national and international issues... View More