مطیع الرحمان نظامی معاف کرنا

ابھی سو شل میڈیا پہ ایک تصویر نظر سے گزر ی اور پھر نظر ہی اس پہ جم گئی نظر کے رستے دل میں اتر گئی دل میں خیال آیا اس نورانی وجدانی صورت چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ سراپا انوار وتجلیات میں ڈوبا ہوا سفید لباس میں یہ دمکتا پرنور چہر ہ اور اس چہرے پہ خاتم الانبیاء ﷺ کی سُنت گویا کہ تصویر نے دل موہ لیا کہ سفر آخرت اور اس قدر اطمینان او ر سکون گو یا کہ ابھی سوئے ہوں چند لمحوں بعد پھر اٹھیں گے اور قال اﷲ قال رسو ل اﷲ کی صدا لگائیں گے۔ ابھی تصویر کے سحر میں ہی مسحور تھا کہ برادر محترم بلال لطیف کی کال نے یکسوئی اور تسلسل توڑا اورلائن پہ آتے ہی بولے ۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون ، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی کو گزشتہ رات بھارت نواز حسینہ واجد کی کٹھ پتلی حکومت نے پھانسی دے دی ۔ یہ سنتے ہی فوراََ میرا خیال تصویر کی طرف گیا جس کی تصدیق ہو گئی کہ یہ تصویر مطیع الرحمٰن نظامی شہید ہی کی تھی جس نے مجھے مسخر کر ڈالاتھا ۔اتنی نفیس اور حلیم شخصیت جس کا چہر ہ دیکھ کر میں ایک لمحہ کیلئے بھی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کوئی مجرم یا کوئی ایسا خطرناک آدمی ہو جس نے کوئی بڑے پیمانے پر کرائم کے ریکارڈتوڑے ہوں یہی شش و پنج اور جانکاری کی جستجو مجھے آج سے 45 پیچھے لے گئی 16 دسمبر 1971 ء کا دن جب مشرقی پاکستان ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو رہا تھا ہر طرف لاشیں ہی لاشیں خون کے پھوٹتے فوارے آہ و فغاں نالہ ء شیوا گویا قیامت صغرا کامنظر تھا ۔مکتی با ہنی کا نفرت کا بویا ہوا بیج اپناا ثردکھا چکا تھا بھٹو کے اقتدار کی ہوس لا شوں کے مینارتعمیر کر چکی تھی ۔ طاقتورترین لوگ کمزور ترین ثابت ہو چکے تھے ۔نیازی کے ہتھیا رڈالتے ہیں پاکستان کی ور د ی میں ملبوس سر فروشوں کو چن چن کر مارنے کا عمل شروع ہو چکا تھا ۔ اسی اثناء میں شہید مطیع اﷲ نظامی ڈھاکہ ریلوے اسٹیشن پہنچے اور مال گاڑیوں میں مغربی پاکستان کے فوجیوں کو بھر کر بھیجا اور جس حد تک انسانی جانوں کو بچا سکتے تھے ڈٹے رہے اور اپنا فرض پو را کرتے رہے ۔بات دراصل یہ ہے کہ مطیع الرحمٰن نیازی کون تھے اور ان کو کیوں پھانسی کے پھندے پہ لٹکا یا گیا ۔ ہم سقو ط ڈھاکہ سے ہمیشہ یہ کہہ کر جان چھڑوالیتے ہیں جی یہ ہونا ہی تھا آج نہیں تو کل یہ کام ایک دن ضرور ہونا تھا ۔ نہیں اس سوال کا جواب یہ نہیں یہ ذوالفقار علی بھٹو کی انا ضد اور ہوس اقتدار کا نتیجہ تھا جب بھٹو نے کہا تھا یہ 3 ۔3 فٹ کے بونے ہماری معشیت پر بوجھ ہیں ناک انکی بہتی رہتی ہے ہر چوتھے مہینے سیلاب ان پر حملہ آور ہو جاتا ہے یہ تو ہماری معشیت پر بھی بوجھ ہیں جب بھٹو نے یہ کہاتھا اگر آج کے بعد کوئی مشرقی پاکستان گیا تو ٹانگیں تو ڑ دیں گے جس کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالستار نیازی نے جرات کی اور وفد لیکر مذاکرات کرنے مشرقی پاکستان گئے مگر وہاں جو حالات ملٹری قیادت کے تھے وہ بیان کرنا مناسب نہیں۔ بھٹو نے یہ تہیہ کر لیا تھا یہ ہمیں کیا دیں گے اور ہم نے ان سے لینا بھی کیااس کا حل یہی ہے ۔ ادھر ہم ادھر تم ، جس کے بعد انڈیا نے مکتی باہنی اور انڈین آرمی نے باقاعد ہ پاکستان کے خلاف غیراعلانیہ جنگ کرکے پاکستانی فوج کا قتل عام کیا اور بنگالی ماؤں بہنوں کی عصمت در ی میں پیش پیش انڈین فوجی اور انڈین تنظیم مکتی باہنی تھی ۔سوال یہ ہے کہ بنگالی کہتے ہیں ہم نے تیس لاکھ جانوں کا نذرانہ دے کر آزادی حاصل کی یہ شوشہ سب سے پہلے مجیب الرحمٰن نے چھوڑا ۔ جس کی تردید ( پریس ٹرسٹ آف انڈیا ) نے بنگلہ دیش کے نئے وزیر اطلاعات شیخ عبدالعزیز کی لگادی جس میں تیس لاکھ کی بجائے 10 لاکھ شہداء اور 40 ہزار عورتوں کی عصمت دری کا کہا گیا ۔سقو ڈھاکہ کی پوری تاریخ میں بنگالیوں یا انڈین کے پاس کوئی بھی ایسے شواہد موجو د نہ تھے اور ناں ہیں کہ پاکستانی فوج نے وہاں جا کر قتل و غارت کی یا وہاں 30 لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ۔ تاریخ میں سانحہ مشرقی پاکستا ن کے اصل مہرے اور نفرت کو تقو یت دینے والے کردار تین بھارتی جرنیل مانک ، اروڑ اور پیلٹ نے پاکستان کے خلاف الزامات لگاتے ہوئے بھی صرف دو باتوں کا حوالہ دیا ۔ کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یا پھر کہا گیا مجیب نے کہا تو گو یا کہ تیس لاکھ دس لا کھ بیس لاکھ افراد کی اموات کا کوئی بھی مضبوط ثبوت ان کے پاس نہیں تھا ۔ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب جاں بحق افراد کے ورثاء کیلئے مالی امداد کا اعلان کیا گیا اور رجسٹریشن کروانے کی باری آئی توصرف تین لاکھ افراد رجسٹر ڈ ہوئے تو وہ باقی افراد کدھر گئے ان کے ورثاء نے کیوں رجسٹریشن نہ کروائی ۔ تاریخی منظر نامے سے روشنی حاصل کرنے کے بعد میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ ملاء عبدالقادر شہید سے لیکر مطیع الرحمٰن نظامی شہید تک تختہ دار پر جھولنے کا یہ سفر اور اس موقع پر ہماری حکومت کی بے بسی اور قومی سلامتی کے اداروں کے بے حسی گویا کہ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ان شہدا کا قصور فقط اتنا ہی تھا کہ یہ پاکستان سے محبت کرتے تھے اور امرخداوندی سے معرض وجود میں آنیوالی ریاست کے وجود کو دو حصوں میں بانٹنا نہیں چاہتے تھے اسی عز م اور مشن کیلئے جماعت اسلامی نے بے پناہ قربانیاں دیں مگر جماعت ہمیشہ پاکستانی فوج اور پاکستانیت کا نعرہ بلند کرتی رہی آج اس نعرے کی پاکستان سے والہانہ محبت کی بھاری قیمت کچھ اس طرح چکائی جارہی ہے کہ 73 سال کے بوڑھے کو وہیل چیئر پر لاکر تختہ دار پر لٹکا یا جارہا ہے استقامت اس قدر مضبوط کے گویاجیسے پہاڑ کی مانند ہوں مطییع اﷲ نیازی نے تو حکومت بنگلہ دیش سے رحم کی اپیل تک بھی نہیں کی۔ بس
یہی کہتے ہوئے تختہ دار پر جھولتے گئے۔
تم نے وفا کے بد ے بے وفائی کی
ہم نے وفا کی سولی سینے پہ سجائی

اور کس قدر افسو س کا مقام ہے کہ وہ جن کی خاطر ہم سولی پہ چڑھ گئے ان کو خبر تک نہ ہوئی اور آج اس 73 سال کے بوڑھے کا فقط یہی قصورتھا کہ اس نے دارالسلام کو یکجا رکھنے کی قسم کھائی تھی ارض وطن تجھ پہ جاں بھی قرباں تو سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن کے گیت گائے تھے اور مادروطن کے وجود کو سلامت اور جداہونے سے بچانے کی قسم کھائی تھی اور اس کا سب سے بڑا اور سنگین جرم پاکستانیت تھا پاکستانی فوج کے جوانوں کی طرف آنے والی گولیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننا تھا اور یہی جرم سب سے خطرناک جرم تھا جس کی سزا 45 سال بعد 73 سال کی عمر میں وہیل چیئر پر لیجا کر تختہ دار پر لٹکنے کی صورت میں ملی اور قربان جاؤں پاکستان کی وزارت خارجہ کے جو 4 عظیم پاکستان کے حامیوں 70 ۔70 کے بوڑھوں کو تختہ دار پر چڑھا کر بھی وہ معاہد ے کی کاپی نہ دے سکی جس میں لکھا تھا کہ جنگی قیدیوں کو سزائیں نہیں دی جائیں گی آج تک وزارت خارجہ وہ سہ فریقی معاہدہ کی نقل ہی ڈھونڈرہی ہے ۔ اگر یہ خاموشی کا قفل نہ ٹو ٹا اور ہم نے روایتی سستی ترک نہ کی تو یقین مانئے وہ دن دور نہیں جب یہ بھٹو کہ 3 فٹ کے بونے 1971 ء کی جنگ میں پاکستانی سویلین ملٹر ی اور بیوروکریٹس اور صرف جماعت اسلامی ہی نہیں ا سوقت کی دوسر ی سیاسی جماعتوں کے اس وقت کے کرتاؤں دھرتاؤں کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا اعلان کر کے بنگالی حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیگی کیونکہ ابھی یہ آگ جماعت تک ہی ہے اور جب یہ آگ پاکستانی اداروں سیاسی رہنماؤں اور بیوروکریسی تک پہنچے گی تو تب ہم جاگیں گے تب پانی سر سے گذر چکا ہو گا اورہربار کی طرح ہم شُہدا ء کو خراج عقیدت اور پھول پیش کرنے جوگے ہی رہ جائیں گے
 
Munna Hannan
About the Author: Munna Hannan Read More Articles by Munna Hannan: 11 Articles with 9633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.