یونان ایک ایسی سرزمیں جس میں ایک عظیم
تہذیب نے جنم لیا اس یونانی تہذیب نے تاریخ عالم پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں
یونان کی سرزمین جس میں بہت سارے علم و عرفان والے لوگ سامنے آئے جنہوں نے
اپنے علم کی چھاپ آنے والے زمانوں پر چھوڑی انہیں عظیم لوگوں میں سے ایک
دیو جانس بھی تھا جو کہ سینوپ میں پیدا ہوا اور بعد میں اس نے ایتھنز میں
سکونت اختیار کر لی اور یہ فلسفہ کلبیت کا ماننے والا تھا فلسفہ کلبیت میں
اعلی مقام حاصل کیا اور دیونس جانس کلبی کے نام سے معروف ہویہاں تک کہ
فلسفہ کلبیت کی پہچان کے طور پر ابھرا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار دیو جانس کلبی نے اس زمانہ کے اور تاریخ عالم
کے عظیم سپہ سالار سکندر اعظم کی اس کے اپنے لشکر والوں کے ہمراہ دعوت کی
اور اپنے خادموں کو حکم دیا کہ میرے اورسکندر اعظم کے لئے الگ اور لشکر
والوں کے لئے الگ کھانے کو انتظام کیا جائے چنانچہ خادموں نے اس بات کا
پورا خیال رکھا اور دو قسم کے دستر خوان سجائے ایک د ستر خوان جو کہ عام
لشکر والوں کے لئے تھا اس میں انہوں نے کھانا لگایا اور دیو جانس کلبی کی
ہدایت کی مطابق اس دسترخوان میں جو کہ سکندر اور دیو جانس کلبی کے لئے تھا
اس میں تھالوں میں ہیرے جواہرات رکھ دئے گئے اور کھانا نہ رکھا چنانچہ دعوت
کا وقت آیا اور سکندر اعظم اپنے لشکر کے ساتھ آیا اور لشکر والے اپنے لئے
مقررہ دستر خوان پر بیٹھ گئے اور سکندر اعظم اور دیو جانس کلبی اپنے لئے
سجائے گئے دستر خوان پر ۔
سکندر اعظم نے کپڑا ہٹایا تو ان تھالوں میں ہیرے جواہرات تھے سکندر اعظم
پیچھے ہو کر بیٹھ گیا اور کھانے کا انتظار کرنے لگے انتظار جب زیادہ ہی
طویل ہو گیا تو اس نے دیو جانس سے پوچھا کہ’’ کب آئے گا کھانا؟‘‘ دیو جانس
بولا کھانا تو آپکے سامنے پڑا ہے عام لوگوں کے لئے عام کھاناہے اور آپ کے
شایانشان ہیرے جواہرات ہی ہیں وہی حاضر ہیں آپ شروع کیجئے دیو جانس کے اس
جواب پر سکندر اعظم بولا کہ ہیرے جواہرات کوئی کھانے کی چیز تو نہیں ہوتے
ہیں سکندر کا یہ جواب سننے کے بعد دیو جانس بولا کہ کھانی تو انسان نے دو
روٹیاں کی ہوتی ہیں تو آپ نے پھر دنیا بھر میں اودھم کیوں مچا رکھا ہے میں
تو سمجھا تھا کہ شاید عام کھانا تو عام انسانوں کے لئے ہوتا ہے اور آپ کے
لئے شاید کھانا ہیرے جواہرات ہوں گے اس فقرہ نے سکند ر اعظم کی آنکھیں
کھولیں اور اس کو مرتے وقت کہنا پڑا کہ’’ میرے دنوں ہاتھوں کو میرے کفن سے
باہر رکھاناتاکہ غافل لوگوں کو پتہ لگ سکے کہ آج بھری دنیا سے سکندر بھی
خالی ہاتھ جا رہا ہے۔
ہمارے ملک کے حکمرا ن بھی شاید ہیرے جواہرات کھانے کی خواہش رکھتے ہیں جس
کہ وجہ سے وہ ملکی دولت کو لوٹ لوٹ کر اپنے خزانہ بھر رہے ہیں اور اپنی
اربوں کھربوں کی جائیداد پر ٹیکس نہیں دیتے اور عوام موبائل کا 100 کا کارڈ
بھی لوڈ کریں تو 45 روپے کا ٹیکس کٹ جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں جو بچہ پیدا
ہوتا ہے اس پر ہزاروں کا قرضہ ہے اور ان بھوکے ننگے لوگوں کو دیکھ کر ہی
حبیب جالب نے کہا تھا کہ
ہر بلاول ہے قوم کو مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظریوں کے
اور اس بھوکی ننگی قوم کے حکمرانو ں کے کتے اور گھوڑے مربے کھاتے ہیں مگر
پھر بھی ہمارے حکمرانوں کے اودھم کی کوئی حد نہیں سکندر اعظم تو بہادر تھا
اور اس نے محنت کی اور اپنا خون بھی دیا اور پھر دولت کمائی مگر ہمارے
۔۔۔اعظم و اعلی لوگوں نے ملکی دولت کو لوٹا اور اپنی جائیدادیں بنائیں مگر
ہمارے ان حکمرانوں کو ابھی تک ایک بھی دیو جانس کلبی نہیں ملا جو ان کو
سمجھا سکے کہ آپ کے دونوں ہاتھ بھی خالی ہوں گے جب آپ دنیا سے جائیں گے جسے
عوام نے سمجھا کہ یہ دیو جانس کلبی بن بنے گا تو وہ بھی کرپشن کا دیو ثابت
ہوا ۔ یا اس پر بھی آف شؤر اکانٹ ہونے کا الزام لگ گیا۔
ساری قوم کسی ایسے دیو جانس کلبی کی منتظر ہے جو کہ اس کے حکمرانوں کی
اصلاح کرے مگر شاید یہ قوم کی خواہش ہی بن کر رہ جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ
بھی اسی قوم کی حالت بدلتا ہے جو کہ خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ |