جب پندرھویں صدی میں یورپ میں مذہب اور
مذہبی لوگوں کا بول بالا تھا اس دور میں سیاسی لوگوں کی ایک نا چلتی تھی
بلکہ اس دور میں پوپ کی پوری طرح حکومت پر گرفت ہوتی تھی ۔ عہدے داران پوپ
کی مرضی سے مقرر ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہ حکومت سے زیادہ پوپ کے وفادار
ہوتے تھے ۔ خوا کوئی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہو مذہبی گرفت سے وہ باہر نہ
تھا۔ عوام کو گرجا گروں کی طرف بلانے کے لئے انہوں نے چرچوں میں تبرکات
رکھے ہوئے تھے ۔ مذہبی عہدوں کو بیچا جاتا تھا۔
کبھی عہدوں کو بیچ کر کبھی معافی ناموں کی تقسیم کر کے مال اکٹھا کیا جاتا
۔ الغرض ہر طرف ہی پوپ کا راج تھا اس راج کی ایسی کیفیت تھی کہ اگر کوئی
مجرم جرم کرنے کے بعد بھاگ کر چرچ میں پناہ لیتا تھا اسے کوئی حکومتی
اہلکار گرفتار کرنے کا مجاز نہیں تھا اور مذہبی عہدیدار ن پر کسی قسم کا
کوئی مقدمہ حکومتی طور پر نہیں چلایا جا سکتا تھا۔ مذہب کو بطور ڈھال
استعمال کیا جاتا تھا بائبل کا ترجمہ کیوں کہ مختلف زبانوں میں نہیں کیا
جاتا تھا جس کی وجہ سے لوگ مذہبی راہنمائی میں اپنے پاردیوں کے محتاج تھے
اس لئے ہر طرف پادریوں کی چلتی تھی اور پوپ اوریورپ کے ایک ہی معنی تھے
یعنی پوپ کا یورپ اور یورپ کا پوپ۔ اسی طرح موجودہ پاکستان کی طرف ہم نظر
دورائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی علما اسلام کی
بجائے اسلام آباد کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب پاکستان کی آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو اس
دوران تین بڑی مذہبی جماعتیں تھیں جمعت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور مجلس
احرار ان تینوں جماعتوں کا نظریہ تھا کہ مسلم لیگ کے راہنما مغربی تعلیمات
کے علمبردار ہیں اور ان کو مسلمانوں کی راہنمائی کرنے کا نہ تو کوئی حق ہے
اور نا ہی اہل ہیں مسلمانوں کے راہنما تو ہم مذہبی لوگ ہیں خیر جب 1947 میں
پاکستان بن گیا تو جمعت علماء ہند تو ہندوستان میں ہی رہ گئی اور جماعت
اسلامی کا مرکز چونکہ پٹھان کوٹ تھا اس لئے وہ فوراً پاکستان آگئے اور
لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا تاکہ جلد از جلد پاکستان کو اسلامی ملک بنایا
جا سکے اور اس طرح انہوں نے سیاست میں داخلہ شروع کرلیا اور پاکستانی سیاست
دانوں پر خوب زور دیا کہ وہ فوراً دستورمیں اسلامی دفعات لائیں رہی احرار
تو انہوں نے اپنی ساری توجہ احمدیوں کی طرف کردی اور یہ بھی ایک راستہ تھا
کہ کسی طرح وہ بھی حکومت و طاقت میں اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کر سکیں۔
چنانچہ ان حالات میں پاکستان کا جب دستور تیار کیا گیا تو اس میں پاکستان
کو’’ اسلامی ریپبلک‘‘ ظاہر کیا گیا اور جیسے مذہب کا استعمال یہ مذہبی
جماعتیں کر رہیں تھی ایسے ہی ان کے زور کو کم کرنے کے لئے لیاقت علی خان
بھی علماء کو سامنے لا کر کیا ایک دستور تیار کروایا اور اسی دستور میں
انہوں نے پاکستان کو ’’ اسلامک ریپبلک‘‘ قرار دیا ۔ اگر پاکستان کی تاریخ
پر غور کریں تو ابتدائی سیاست دانوں نے عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور
اپنے مقاصد مذہب کو آگے کر کے پورے کئے اور مذہبی جماعتوں کو یہ موقع دیا
کہ وہ سیاست میں اہمیت حاصل کریں ان سیاسی جماعتوں کی مذہبی پشت پناہی کی
وجہ سے پاکستان میں کئی بار فرقہ وارانہ فسادات نے بھی جنم لیا ۔ جس میں
1951 میں لاہور میں ہونے والے فسادات بطور ابتداء تھے ۔
اس کے بعد کے زمانہ میں بہت سارے علماء نے مذہب کا استعمال کی 1971 میں جب
پاکستان دو لخت ہوا تو بعد کے زمانہ میں بھٹو صاحب کی حکومت پر گرفت میں
کمی آرہی تھی تو انہوں نے اسلامی سربراہی کانفرنسوں کا انعقاد کیا تاکہ
عوام میں مقبولیت حاصل کی جاسکے اس لئے1974 ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھی
علماء کے دباؤ میں مذہب کا کارڈ اپنی مقبولیت میں اضافہ کے لئے استعمال کیا
اور احمدیوں کو کافر قرار دے دیا ۔ بھٹو صاحب کا دورضیاء نے ختم کیا اور
ملک میں مارشل لا لگا دیا ضیاء صاحب بھی کسی طور پر حکومت سے باہر نہیں
ہوناچاہتے تھے اس لئے انہوں نے بھی مذہب کا بھر پور استعمال کیا ۔
1977 میں ضیا ء نے مارشل لاء لگایا تو جماعت اسلامی نے اس مارشل لاء کی
بھرپور حمایت کی تاکہ وہ اس مارشل لاء کے زریعہ سے ملک میں شریعت کو نافذ
کر سکیں ضیاء صاحب کو بھی اپنی کرسی بہت پیاری تھی اس لئے انہوں نے بھی
مذہب کو خوب استعمال کیا اور ملک میں اسلامی نظام لانے کے لئے علماء و
مشائخ کی کانفرنسیں کروائیں یہ وہ مرحلہ تھا جب مذہب نے سیاست کو سیاست نے
مذہب کو اپنے قیام کے لئے استعمال کیا اور اوپر اوپر سے’’ نظام مصطفی‘‘ کا
نعرہ لگایا گیا اور عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ ان کی فلاح و
بہبود کے لئے یہ نظام بہت ضروری ہے معاشرہ کو عربی طرز عمل پر تیار کرنے کی
کوشش کی گئی تا کہ عرب ممالک کی بھی خوشنودی کا حصول ممکن ہو ۔ اور اسی طرز
پر اساتذہ کوتربیت دی گئی اور تعلیمی نصاب میں کئی قسم کے اضافے کئے گئے
اور لوگوں کو’’ خدا حافظ ‘‘ کی بجائے ’’اﷲ حافظ‘‘ کہنے کی طرف توجہ دلائی
گئی ۔
تاریخ آگے بڑھی اور 1980 کی دہائی میں جب افغانستان میں روسیوں کے قبضہ کے
خلاف جنگ کا آغاز ہوا تو اس کے لئے امریکہ نے پاکستان کی طرف توجہ کی اور
اس جنگ کو جہاد کا نام دیا گیا اور اس آپریشن کو ’’ سائکلون آپریشن‘‘ کا
نام دیاگیا اس آپریشن میں کئی بلین ڈالر جہادی تنظیموں اور ان کی سرپرستی
کرنی والی جماعتوں میں تقسیم ہوا اور مجاہدین نے پوری دنیا سے پاکستان کا
رخ کیا ان کو سہولیات دی گئیں اور امریکی سفیروں نے مسلمان مجاہدین کو جہاد
کی اہمیت پر خطابات کئے 1970 میں صرف 30 مذہبی جماعتیں تھیں اور 1980 میں
ان کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا کہ ان کی تعداد237 سے بھی بڑھ گئی اور اس
کے ساتھ ساتھ پاکستان میں 80 کی دہائی میں مدرسوں کی تعداد میں غیر معمولی
اضافہ ہوا اور مدرسوں کی تعداد سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں تک جا پہنچی ان
تمام مذہبی جماعتوں کو مالی تعاون بھی ملا اور یہ مزید مضبوط ہو گئیں اور
چونکہ ان جماعتوں کی فنڈنگ ہو رہی تھی ان میں رقم پر اختلافات ہوئے اور وہ
مزید شاخوں میں تقسیم ہوتی چلی گئیں اور الگ الگ فنڈ کا مطالبہ کرنے لگیں
ملک میں ایسے قوانین بنائے گئے جن کہ وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوئے
اس کے بعد ضیا دور ختم ہوا تو مذہب کا استعمال سیاست میں بہت آچکا تھا تو
بے نطیر بھٹو صاحبہ کے دور میں ایک نظریہ یہ اٹھا کہ عورت کی حکمرانی اسلام
میں جائز نہیں مگر محترمہ بہت قابل سیاست دان تھیں انہوں نے اس نظریہ
کوقائم کرنیوالے کو حکومت میں حصہ دیا جس کی وجہ سے وہ نظریہ وہیں دفن
ہوگیا ۔
اور وہ مذہب جس کو ہمارے سیاست دانوں اور مذہبی لوگوں نے مل کر حکومت میں
داخل کروایا تھا آج حکومت کے ساتھ چپکا ہوا ہے اور ہمارے مذہبی لوگوں کو
اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی پرواہ ہونے لگی ہے کوئی سیاسی بحران ہو یا
امن کے حالات ہو مذہبی جماعتیں حکومتوں کے ساتھ نظر آتی ہیں حال ہی میں
پانامہ لیکس کو دیکھ لیں حکومتی پارٹی کے ساتھ جو چند اور جماعتوں کے لوگ
ہمیں نظر آتے ہیں ان میں ایک مذہبی جماعت سر فہرست ہے جو کہ حکومت کا ہر
محاذ پر دفع کرنے میں مصروف ہیں ۔
جب ہم پاکستان میں غور کرتے ہیں تو مذہب اور سیاست کی اس کشمکش میں پاکستان
میں مذہب کی بنیاد پر سیاسی تحاریک چلائی گئیں ہیں۔ اور سیاست کی بنیاد پر
کئی مذہبی تحاریک چلائی گئیں ہیں سیاسی راہنماؤں نے مذہب کا سیاسی استعمال
کیا ۔ اور علماء نے بھی مذہب کو سیاست میں داخل ہونے کے لئے استعمال کیا ۔
۔ مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا گویا یہ ایک سیکولر پارٹی تھی مگر
ایک موقعہ پر انہوں نے بھی مذہب کو استعمال کیا ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء
الحق سب اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مذہب کا استعمال کیا۔ اور ہمیں یہ
بھی یادرکھنا چاہیے کہ مذہب کے سیاست میں استعمال سے عوام کا کوئی فائدہ
نہیں ہوا اگر فائدہ ہوا تو محض حکمرانوں کا ۔ اور آج مذہبی جماعتوں کی عوام
کی تربیت اور دین کی سر بلندی اور اسلام سے توجہ ہٹ کر اسلام آباد پر مرکوز
ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاست دان بھی سیاست کے میدان
میں اور مسجد و ممبر والے بھی سیاست میں ہیں اور اسلام کا نہیں اسلام آباد
کا بول بالا کرنے میں مصروف ہیں- |