نیم حکیم خطرہِ جان
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
حکیم لقمان کی حکایت ہے کہ ـ"کہتے ہیں کہیں
ایک طبیب تھا جس نے کسی شخص کا علاج کیا مگر وہ شفایاب نہ ہو سکا اور مر
گیا، جب اسکا جنازہ لے کر جانے لگے تو معالج بھی ہمراہ ہو لیا، اور آہ بھر
رہا تھا اسی دوران وہ طبیب کہتا جاتا تھا کہ اگر مرحوم بھلے مانسوں کی طرح
رہتا تو کبھی نہ مرتا ، اگر شراب اور عیاشی ترک کر دیتا تو یہ دن نہ آتا،
اسی طرح روزمرہ کی خوراک میں اعتدال برتتا تو جوانی میں ہر گز نہ مرتا ایک
شخص ساتھ ہی تھا اس نے کہا اب کیا فرما رہے ہو، ابھی اس نصیحت کا کچھ فائدہ
نہیں ہے اگر یہ نصیحتیں اس کی زندگی میں کرتے تو بہتر ہوتا اب اس سے کیا
فائدہ ہو گا" واقعی میں دنیا میں متعدد ایسے حکماء ہیں جو مریض کے مرنے کے
بعد اپنی طباعت کا اظہار کرتے ہیں۔
بچپن سے ایک مشہور محاورہ سنتے آئے ہیں کہ نیم حکیم خطرہ ِ جان ہوتا ہے،
مگر اس محاورے کی سمجھ ہم کو ابھی جا کرہوئی ہے کہ صرف نیم حکیم ہی خطرہِ
جان نہیں ہوتا بلکہ ایسے حکیم /ڈاکٹر زبھی خطرہ ِ جان ہوتے ہیں جو کہ
انسانیت پردولت کو اس قدر فوقیت دیتے ہیں کہ بعض اوقات انسانیت و ہمدردی کا
جذبہ بھی شرم سار ہو نے لگتا ہے، میں سب ہی کی بات نہیں کرتا مگر بعض کی۔۔۔۔!ڈاکٹر
کا پیشہ ہمدردی ،دوستی اور انسانیت پرور ہونا چاہیے نہ کہ دولت و شہرت کی
سیڑھی پر چڑھنے کے لیے غریب کے گلے کو دبا کر ۔۔۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی بد
قسمتی جو دیکھنے میں آتی ہے اول تو وہ یہ ہے کہ زیادہ تر ہمارے ڈاکٹر
صاحبان اپنی سرکاری ڈیوٹی پر پہنچ سکیں یا کہ نہ ۔۔۔مگر یہ ہی ڈاکٹر ز
صاحبان اپنے اپنے مارکیٹ ، پلازے اور شاپنگ مال ٹائپ ، نالوں کے اوپر بنے
کلینکوں پر لازمی و ٹائم پر پہنچنے کو ترجیح ضرور دیتے ہیں اور کوشش کرتے
ہیں زیادہ سے زیادہ مریضوں کو جلد از جلد چیک کر کے زیادہ سے زیادہ فیس
بٹوری جائے اور اوپر سے تو لیبارٹری کے ٹیسٹ اور میڈیکل سٹورز پر اپنے
کمیشن کو ترجیح دیتے ہوئے مہنگی سے مہنگی دوائی لکھتے ہیں، جو کہ مریض کو
دوائی کا طالب ہونے کے بجائے دعا کاطالب بنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہمارے
ہاں ڈاکٹر ز بھی معافیا گروپ کی صورت دھار چکے ہیں جو ایسا معافیا ہے کہ جن
کے خلاف کوئی جلد از جلد نہ تو آواز اُٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کے اوپر کوئی
پکڑ دھکڑ ہوتی ہے، جس کو چاہیں ، جیسے چاہیں ، جسطرح چاہیں کاٹ کر دوبارہ
سی سکتے ہیں، کسی کی جیب اور کسی کا جسم کاٹنے کے یہ ماہر چند ڈاکٹرز
انسانیت کی بھی قدر نہیں کرتے۔ اکثر مریض تو ایسے ہوتے ہیں جن کو مرض کچھ
بھی نہیں ہوتی مگر ڈاکٹرز صاحبان کی مہربانیوں کی وجہ سے انکا جسم متعدد
بیماریوں کی آماج گاہ بن چکا ہوتا ہے۔ ادھر ایک مزے کی بات آپ کو بتاتا
جاؤں کہ ہمارے ہاں تو آجکل میڈیکل سٹورز کے کمپوڈرز بھی آدھے ڈاکٹر بن گئے
ہیں، کئی علاقوں میں تو ان میڈیکل سٹورز پر رش زیادہ ہوتی ہے ، اور بعض
علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں میں صرف پوسٹ مارٹم ہی ہو سکتا ہے علاج نامی
کچھ نہیں۔۔۔۔؟ یہ بات یہاں پر ہی اگر اکتفا کرے تو انسان کچھ صبر کا دامن
تھامے رکھے مگر نہیں، سرکاری ہسپتالوں کا جو دیگر سپورٹر عملہ بھرتی ہوتا
ہے وہ اپنے آپ کو کسی صدر سے کم نہیں سمجھتے اور ان کا رویہ اس قدر تند و
تیز ہوتا ہے کہ عام و مہذب انسان سرکاری ہسپتال کو جانا بھی پسند نہیں
کرتا۔ہمارے ہاں کچھ ایسی لیبارٹریز بھی موجود ہیں جن کے ٹیسٹ ایک دوسرے سے
بالکل مختلف ہوتے ہیں ، ایک ہی انسان کا ایک ہی ٹیسٹ دو مختلف لیبارٹریز
میں آنے والی مختلف رپورٹس اور فیسوں کے تضاد کو دیکھ کر انسان حیران رہ
جاتا ہے،اور ہمارے ڈاکٹرز صاحبان بھی مریض کے مرض کی تشخیص کیے بغیر ہی
ہائی ڈوز دوائی تجویز کر دیتے ہیں جو مریض کو افاقہ تو نہیں دے سکتی ہاں
البتہ مریض کے جیب اور جان دونوں پر بوجھ ضرورپڑتی ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز صاحبان
نے جو کہ تقریباََ سب ہی نے اپنے اپنے پرائیوٹ کلینک ایسی ایسی جگہ پر کھول
رکھے ہیں کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے اور ان کی صفائی اور ستھرائی کا یہ
عالم ہوتا ہے کہ جس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے یہ کسی سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر
صاحب کا کلینک ہوگا، اوپر سے ان کی فیس اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ انسان نہ
بھاگنے کے قابل رہتا ہے اور نہ ہی بتانے کے۔ انتہائی شرمندگی کا مقام تو
ہمارے لیے اس وقت ہو جاتا ہے جب گائناگالوجسٹ ڈاکٹرز صاحبان کے بے شمار
کھلے پرائیوٹ کلینک اور ہسپتالوں میں بے چاری عورت کی تذلیل کی جاتی ہے ،
اور عین الوقت مریض کو در بدر کی ٹھوکروں پر بے یار و مدد گا ر چھوڑ کر
اپنے آپ کو سبگدوش سمجھ لیتے ہیں۔فیس اگر دیکھی جائے تو نارمل کیس ہوتا بھی
ہو تو کچھ ڈاکٹرز صاحبان اتنا سنجیدہ و نازک بنا کر پیش کرتے ہیں کہ
لواحقین مریض کی جان کی پنا ہ مانگتے ہیں اور اکثر تو فیس کی پریشانی میں
اس قدر گم ہو جاتے ہیں کہ مریض کی پرواہ ہی نہیں رہتی، اگر وہ ہی سرکاری
ہسپتال میں ہو تو خون کے بندوبست کی پریشانی آ ہ ٹپکتی ہے، ہم کیا کریں
اتنے ظالم اور بے حس لوگ ہو گئے ہیں کہ ہم کو کسی کے دکھ درد کی سمجھ تو
ہوتی نہیں اور اوپر سے ایسے مریضوں کو دیکھ کر ہماری امید کی کرن جاگ جاتی
ہے کہ اب ہمارے پاس لکشمی آنے والی ہے یہ نہیں کہ مریض کی جا ن کوجلد از
جلد اور کم سے کم خرچہ میں اور چھوٹے سے چھوٹے آپریشن کے ساتھ ٹھیک کر لیا
جائے۔سرکاری ہسپتالوں کی تو یہ حالت زار ہے کہ ان کو دیکھ کر کلیجہ منہ میں
آتا ہے ، کچھ بڑے شہروں کی سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تو اونٹ کے منہ
میں زیرہ برابر کچھ علاج تو ضرور ہے مگر دیگر میں تو ایک سرنج تک آپ کو
میسر نہیں ہو تی تو باقی کسی بھی قسم کی سہولت کی توقع رکھنا تو اپنے آپ کو
خود دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ہا ں ایک بات اگر آپ کی اثر و رسوخ کے حامل
ہیں تو پھر آپ کے مزے ہیں ورنہ رسوائی کے ساتھ ساتھ گندے باتھ روم ، بینچ و
بیڈ کی کھٹمل ،راہ داریوں میں جگہ جگہ نسوار کے دھبے اور سگریٹ کے فلٹرز کے
ساتھ سپرٹ کی بدبو آپکا مقدر ہیں۔ اگر آپ کا مریض ہسپتال میں داخل ہو بھی
گیا تو اس کے علاج کی ختم شدہ ڈرپ کو نکالنے کے لیے بھی گھنٹوں آپ کو خوش
گپیوں میں مصروف ِ عمل سٹاف کا انتظار کرنا ہو گا۔ انتہائی اہم بات ان کے
ساتھ اگر غلطی سے بھی آپ نے تلخ کلامی یا بحث کر دی تو وہ سب آپ کے اور آپ
کے مریض بعض رکھتے ہوئے نشانے پر رکھیں گے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.