اوکاڑہ ۔۔۔۔۔ تاریخ کے چھروکوں سے

 اوکاڑہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا مشہورشہر ہے۔ اس کو مینی لاہوربھی کہا جاتا ہے۔ اس کا پوسٹل کوڈ 56300 ہے برطانوی دور حکومت کے دوران اس جگہ پراوکان(ایک درخت کا نام) کا جنگل ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کا نام اوکاڑہ رپڑھگیا۔ اوکاڑہ لاہورشہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور یہ ایک زرعی شہر ہے۔اس کے علاوہ ٹیکسٹائل ملز کی ایک بڑی تعداد بھی اوکاڑہ میں واقع ہیں۔یہ مویشیوں کی پیداوار میں اپنی مثال آپ ہے. اوکاڑہ کے قریبی بڑے شہروں میں سے ساہیوال ہے۔جس کاپرانا نام منٹگمری تھااوکاڑہ ایشیا میں زرعی اجناس پیدا کرنے والا سب سے بڑا شہر ہے اوکاڑہ میں آلو کی منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہیں۔اوکاڑہ میں گندم، مکئی، ٹماٹر، چاول، کپاس، آم اور مالٹا کی سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہیں۔ اوکاڑہ میں قائم مشہور پاکستانی فوجی ڈیری فارم پنیر کے لئے خاص طور پر جانی جاتی ہے . مچل فارمز بھی اوکاڑہ شہر کے قریب ترین شہر، رینالہ خورد، میں واقع ہیں۔

اٹھارہویں صدی عیسوی یہاں ایک جنگل ہوا کرتا تھا۔ اس راستے سے گزرنے والے مسافر عمو ماًا س گھنے جنگل میں ٹھہراکرتے اور پھر اپنی منزل کی طرف نکل جاتے۔اوکاڑہ کو یہ نام ملنے سے پہلے دو دوسرے نام "اوکاں والا" اور "اوکاں اڈہ" بھی حاصل رہے۔1849 میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال تک پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا۔ 1851ء میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔1865ءمیں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913 میں پہلے لوئر باری دوآب اور اسکے بعد پاکپتن و دیپالپور نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔1918ءمیں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ 1925ءتک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑوں شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔ 1913ءمیں اوکاڑہ کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر 1930ءمیں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔

1936ء میں جب اوکاڑہ میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کیلئے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے۔ اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مل میں ملازمت کیلئے آکر شہر میں آباد ہو گئی۔1942ءمیں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی و فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی سکول (بوائز و گرلز)، ٹیلیفون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات دستیاب ہوگئیں۔ 1982ءمیں اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ مل گیا۔تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑہ پر مشتمل تھاتقسیم سے پہلے اوکاڑہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہندو اور سکھ آبادی پر مشتمل تھا جو کہ پاکستان بننے کے بعد انڈیا چلی گئی اور انڈیا سے ہجرت کر کے آنیوالے مسلمانوں کو اوکاڑہ میں زمینیں الاٹ کر دی گئیں، جس سے اوکاڑہ مزید پھیلتا گیا۔1967ءمیں یہاں فوجی چھاؤنی بنائی گئی۔ 1988ءمیں بابا فرید شوگر مل لگنے سے ضلع اوکاڑہ کی معاشی ترقی کو مزید تقویت ملی بعد ازاں ستلج ٹیکسٹائل مل اور بابا فرید شوگر مل کے بند ہوجانے سے اوکاڑہ کی کمرشل ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔دریائی اعتبار سے اوکاڑہ میں تین دریا مشرق میں ستلج، مغرب میں راوی اور بیاس بہتے ہیں۔ بیاس اب مکمل طور پر خشک ہوچکا ہے جبکہ ستلج میں سال کا زیادہ عرصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگست ستمبر کے مہینوں میں بارشیں ہونے اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے پر اس میں بھی طغیانی آجاتی ہے۔ رقبہ و آبادی کے لحاظ سے ضلع اوکاڑہ اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں اوکاڑہ، دیپالپور اور رینالہ خورد شامل ہیں۔ضلع اوکاڑہ کا رقبہ 4377 مربع کلومیٹر ہے۔ 1998ءکی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً بائیس لاکھ تھی جو کہ اس وقت اندازہ بتیس لاکھ ہوچکی ہے۔یہاں کی تین تحصیلوں میں رینالہ خورد، دیپالپور، اوکاڑہ میں پانچ ایم این اے اور دس ایم پی اے ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئیں حالیہ حلقہ بندیوں کے تحت ضلع اوکاڑہ کو 140 یونین کونسلوں اور سات مونسپل کمیٹیوں (اوکاڑہ، دیپالپور، رینالہ خورد، بصیر پور، حویلی لکھا، حجرہ شاہ مقیم اور منڈی احمد آباد) میں تقسیم کیا گیا ہے۔تعلیمی لحاظ سے اوکاڑہ میں بارہ ڈگری کالجز، پانچ ہائی سکینڈری سکولز، ایک سو بتالیس سکینڈری، ایک سو اکاون مڈل سکول، بارہ سو ستاون پرائمری سکول جبکہ دو یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں۔ اہم شخصیات میںمیاں منظوراحمد وٹوجو پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ معین الدین لکھوی ہیں جو ممبر قومی اسمبلی رہے اور انہیں ستارہ امتیازسے بھی نوازا گیا۔راﺅ سکندراقبال جو وزیر دفاع رہے۔ میاں محمد زمان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہے۔ان کے علاوہ رانا اکرام ربانی ، اشرف خان سوہنا ، مرزا احمد رضا بیگ، میاں یٰسین وٹواور جگنومحسن کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہیں۔کرکٹرذولفقاربابر،مشہور صحافی آفتاب اقبال ، جنیدسلیم، ادیب ظفر اقبال، شاعر اقبال صلاح دین اور پنجابی شاعر بابو راج علی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ میراتعلق بھی ضلع اوکاڑہ سے ہونے کے باوجود،میں پہلی مرتبہ میں اوکاڑہ شہر تب گیا جب میں میڑک پاس کرچکاتھا جب میںنے ایف ایس سی میں داخلہ لیا تو تھوڑے ہی عرصے میں مجھے اوکاڑہ شہر سے محبت ہوگئی ۔اور اب شہر کو چھوڑے ہوئے تقریباًچار سال گزرچکے ہیں مگراس شہر کے ساتھ میرا پیارپہلے دن جیسا ہی ہے اس شہر کے ساتھ میری ہزارہا یادیں وابستہ ہیں۔

تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند جو کہ بلوچ قبیلے رند کا سردار تھے انھوں نے 1518ءمیں اوکاڑہ کے علاقہ ستگرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ءمیں ہوئی۔ ان کا مقبرہ آج بھی ستگرہ میں موجود ہے۔احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کے گاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو ناصرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کیلئے آمادہ بھی کیا۔اوکاڑہ کے اس سورمے کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا۔
 

Abdul Waheed Rabbani
About the Author: Abdul Waheed Rabbani Read More Articles by Abdul Waheed Rabbani: 34 Articles with 38985 views Media Person, From Okara. Now in Lahore... View More