بجٹ توقعات و خدشات

موجودہ حکومت عنقریب اپنا چوتھا وفاقی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں موجودہ ٹیکس گزاروں پر کوئی نیا بوجھ نہ ڈالنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں عوام کو ممکنہ ریلیف کی فراہمی حکومتی منشور کا حصہ ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے لیے سفارشات جلد مکمل کر لی جائیں گی۔ موجودہ سال آنے والے بجٹ کے حوالے سے مختلف حلقوں میں متضاد باتیں ہورہی ہیں کہ یہ بجٹ کیسا ہوگا، ا س میں عوام کو ریلیف ملے گا یا مزید ٹیکس لاگو کیے جائیں گے۔ ہمیشہ کی طرح عوام نے اس بجٹ سے بھی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں کہ حکومت انہیں ریلیف دے گی اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ عوام مہنگائی،بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، تعلیم و صحت کی سہولیات کے فقدان اوردیگر بہت سے مسائل سے چھٹکارے کے لیے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں، لیکن عوام کو درپیش مسائل سے آنکھیں بند کیے حکومت کی ترجیحات یہی بتارہی رہی ہیں کہ عوام کو اس بار بھی مایوس کیا جائے گا۔حکومت کے خالی خولی دعوﺅں اور نعروں سے تو یہی لگ رہا ہے کہ اس سال پیش کیا جانے والا بجٹ بھی ہر سال کی طرح عوام دشمن ثابت ہوگا، کیونکہ میاں نوازشریف اور دیگر حکومتی ارکان جگہ جگہ صرف سڑکیں بنانے اور بسیں چلانے کو فخریہ انداز میں پیش کرتے نظر آتے ہیں، اسکے علاوہ ابھی تک وزیراعظم نے بجٹ کے حوالے سے عوام کے لیے کسی بڑے پیکج کا اعلان نہیں کیا ہے، بلکہ وہی روایتی باتیں کی گئی ہیں جو برسوں سے سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے ہیں۔ حکومتی رویے کو دیکھتے ہوئے یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ رواں سال عوام دوست بجٹ پیش کیا جائے گا۔ حالانکہ 2013ءمیں مسلم لیگ نون کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو یقین دلایا تھا کہ صرف دو سال بعد آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی، لیکن حکومت کا چوتھا سال شروع ہو چکا ہے مگر موعودہ آسانیوں کا دور دور تک نشان نہیں۔ ڈار صاحب کہہ رہے ہیں کہ نئے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشیائے صرف اور کھانے پینے کی چیزوں میں مہنگائی کو پر لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ تین سال کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ حکومت مہنگائی روکنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ حکومت کے پاس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سرے سے کوئی میکانزم ہی نہیں ہے۔اشیائے صرف اور خورونوش کی قیمتوں میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔ اب رمضان المبارک آرہا ہے، منافع خوروں نے ابھی سے لوٹ مار شروع کردی ہے اور اشیائے ضروریہ کا اسٹاک بھی کرنا شروع کردیا ہے، تاکہ بلیک میں بیچ کر زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جاسکے، لیکن حکومت نہ تو رمضان کے بابرکت مہینے میں عوام کو سہولت دینے کا کوئی منصوبہ بناسکی ہے اور نہ ہی مصنوعی قلت پیدا کر کے بلیک میں بیچنے والے تاجروں کو گرفت میں لانے کا سوچ سکی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت عام آدمی کی بنیادی ضرورت ہیں۔ عوام کو اگر معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں، بھاری اخراجات کے بغیر حاصل ہونے لگیں تو ان کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ غریب آدمی بیمار ہو جائے تو اس کے پاس علاج معالجے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ہسپتالوں کی حالت بہتر بنائیں۔ عام آدمی کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں اور دوائیں مفت فراہم کریں۔ تعلیم کے شعبے کی حالت بھی سخت ابتر ہے۔ سرکاری اسکولوں کا عالم یہ ہے کہ عمارتیں خستہ، ضروری سہولتوں کا فقدان اور سردی گرمی سے بچاﺅ کا کوئی انتظام نہیں۔ ان کا ماحول یکسر غیر تعلیمی ہے۔ بجٹ میں تعلیم، صحت اور عوام کی دیگر سہولیات کو مدنظر رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت ہمیشہ سے اپنی اس ذمہ داری سے کنی کتراتی آئی ہے۔

بجٹ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے، لیکن ہمارے ملک میں امراءکا راج ہے اورسہولیات بھی ہمیشہ امراءکو ہی ملتی ہیں جبکہ غریب ہمیشہ سے پستا آیا ہے۔ حکومت کو ا س طرح کا بجٹ دینا چاہیے، جس سے گھریلو بجٹ خراب نہ ہو، کیونکہ اگر اس بجٹ سے ہر گھر کا بجٹ خراب ہوگا تو یہ پھر یہ بجٹ نہیں محض شعبدہ بازی ہوگا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اس سال بھی ائیر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے معاشی ماہرین کہلوانے والوںکی جمع تفریق سے بننے والا بجٹ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ حکمرانوں کی جانب سے ہر بار بجٹ میں دل کھول کر جھوٹ بولا جاتا ہے اور عوام کی خواہشات کا قتل کیا جاتا ہے۔ کسی دور میں عوام بجٹ کی ”رسم“ کو کسی حد تک سنجیدہ لیتے تھے۔ اس وقت بجٹ میں کچھ حصہ عوام کا بھی رکھا جاتا تھا اور بجٹ میں کیے گئے اعلانات میں تھوڑی بہت سچائی بھی ہوتی تھی، لیکن اب وہ سنجیدگی ختم ہو چکی ہے اور بجٹ صرف جھوٹ اور فریب کا ایک پلندا بن کر رہ گیا ہے۔ بجٹ میں عوام کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی اور اگر کسی سہولت کا اعلان ہوتا بھی ہے، تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا اور عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے آئے دن چھوٹے بجٹ بم گرا کر عوام کے جذبات کو مزید مجروح کردیا جاتا ہے۔ چند روز ہی گزرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے اعلانات کے ساتھ عوام پر مہنگائی کا ایک نیا حملہ کر دیا جا تا ہے۔ اس طرح اب بجٹ سوائے دھوکے، فریب اور جعلسازی کے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومت اعداد و شمار کو مسخ کر کے اپنی ”لوٹ مار“ کو عوام کی فلاح کے طور پر پیش کرتی ہے اور حکومت سے ملی بھگت کرنے والی اپوزیشن عوام کو مزید بے وقوف بنانے کے لیے میڈیا کے سامنے اودھم مچاتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں پہلے تو عوام پر لگائے گئے ٹیکسز کی مخالفت کرتی ہیں، لیکن بعد ازاں نا معلوم وجوہ کی بنیاد پر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ بجٹ عوام دوست اسی وقت ہی کہلا سکتا ہے، جب عام آدمی کو بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے، لیکن یہاں تو ریلیف عام آدمی سے کوسوں دور ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ بجٹ میں امیروں کے لیے حکومت ٹیکسوں میں چھوٹ اور نوازشات کی بارش کردیتی ہے، جبکہ غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے عوام پر ایک سے ایک نیا ٹیکس لگادیا جاتا ہے، جس سے یقینی طور پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن حکمرانوں کو عوام کی مشکلات سے کیا لینا دینا، ان کا کام تو محض دولت جمع کرنا ہے۔ ہماری حکومتیں قرضے عالمی مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں، اس لیے بجٹ بھی انہیں کے اشاروں پر بنائے جاتے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کو تو اپنے قرضے واپس لینے ہوتے ہیں،جس کی آسان صورت ان کے سامنے یہی ہوتی ہے کہ عوام پر ٹیکس لگا دیا جائے۔ حالانکہ ان قرضوں سے بھی صرف اورصرف بڑی کرسیوں پر بیٹھے افراد کو فائدہ ہوتا ہے، عوام کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ عام شہری پر قرضوں اور ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، جس سے اس کی حالت پہلے سے ابتر ہو جاتی ہے۔

اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں انکریمنٹل بجٹ ہوتا ہے جس میں ہر سال وزارتوں کے بجٹ میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور ان سے گزشتہ بجٹ یا کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جاتا، جبکہ بجٹ انکریمنٹل نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے، کیونکہ جب وزارتوں کوعلم ہوگا کہ ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی تو وہ اپنی کارکردگی بہتر کریں گی، لوگوں کی خدمت کریں گی اور انہیں سہولیات بھی فراہم کریں گی۔ اگر بجٹ کارکردگی کی بنیاد پر بنے گا تو ہر وزارت کی کارکردگی دیکھی جائے گی، ان کے بجٹ کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور پارلیمنٹ بجٹ پاس کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لے گی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کاکام سال کے اختتام پر چیک اینڈ بیلنس کرنا ہے کہ جو بجٹ بنا تھا کیا اس پر ویسے ہی کام ہوا ہے، اخراجات صحیح ہوئے ہیں، ان میں کوئی بے ایمانی تو نہیں ہوئی اور اس کے علاوہ آڈیٹر جنرل کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے بھی دے کہ بجٹ کتنا موثر رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آڈیٹر جنرل دس سال پرانے بجٹ کی جانچ پڑتال کرتے نظر آتے ہیں جس سے ملک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ بجٹ حکومت کی اسٹرٹیجی کا عکاس ہوتا ہے، موجودہ حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے، لیکن ابھی تک حکومتی پالیسی سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ موجودہ حکومت کی اسٹرٹیجی یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جائے اور اس کے ساتھ معاہدے کیے جائیں اور ان کے احکامات پر بجٹ بنایا جائے اورعوام پر نت نئے ٹیکس لاگو کیے جائیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت معاہدے میں یہ شامل ہوتا ہے کہ اخراجات اور وسائل میں توازن قائم کیا جائے اور خسارے کو کم کیا جائے۔ ہمارے ملک میںہر سال بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لیے ایف بی آرکو ریونیو اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے طریقہ کار کو بدلنا ہوگا اور اب حکومت کو آئی ایم ایف سے معذرت کرلینی چاہیے۔ اس وقت ہمارے ادارے ختم ہوچکے ہیں، ان کا کوئی ویژن نہیں ہے، لہٰذا ہمیں ملکی ترقی کے لیے نیشنل ویژن پر کام کرنا ہوگا اور ادارے درست کرنا ہوں گے اور بجٹ بناتے وقت عالمی مالیاتی اداروں کی بجائے عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.