آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا

میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ میں بلانے کے لیے کیا کیا جتن اپوزیشن نے نہیں کیے تھے۔ جب میاں صاحب نے یہ کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے اس پر تو گویا ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا، اپوزیشن نے میاں صاحب کے لتے لے لیے۔ وہی نہیں بلکہ ٹی وی ٹاک شوز میں ہر اینکر پرسن میاں صاحب کے اس فیصلے کو غلط اور جمہوری اصولوں کے خلاف کہتا نظر آیا۔ مجھ سمیت کوئی کالم نگار ایسا نہیں تھا جس نے اپنے کالموں میں یہ نہ لکھا ہو کہ پارلیمنٹ سے فرار میاں صاحب کو ذیب نہیں دیتا۔ میاں صاحب نے ایسا کیوں کیا تھا؟ وہ پارلیمنٹ کو فیس کرنے سے کیوں کترا رہے تھے، اس لیے کہ پاناما لیکس کے طوفان اور اپوزیشن خاص طور پر کپتان کی سخت ترین تنقید نے میاں صاحب کو نروس کردیا تھا۔ جب وہ پہلی بار لندن علاج کی غرض سے گئے ، پھر اچانک واپس بھی آگئے یہ وہ دن تھے جب میاں صاحب محسوس کر رہے تھے کہ ان کا پاناما لیکس کے طوفان سے باہر نکلنا شاید مشکل ہو۔ اُن دنوں کی ان کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ انتہائی نروس ، افسردہ اور پریشانی کے عالم میں ہیں۔ ادھر عمران خان نے جس قسم کا طوفان پاناما لیکس کے حوالے سے ملک میں پیدا کردیا اس سے میاں صاحب اور ان کے ساتھی پریشان نظر آرہے تھے۔ انسان سوچتا کچھ ہے مالک تقدیر نے جو لکھا ہوتا ہے ، ہوتا وہ ہے۔ میاں صاحب نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا یعنی انہوں نے پہلے جمعہ 13مئی مقرر کیا قومی اسمبلی میں حاضرہونے کا پھر کچھ معاملات گھبیر ہوتے نظر آئے تو فیصلہ بدل لیا، جس پر ان پر اور زیادہ تنقید ہوئی ، آخر کار انہوں نے پیر 16مئی مقرر کی، عام خیال تھا کہ شاید میاں صاحب پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے، سرکاری حلقوں میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی، میاں صاحب کے قریبی ساتھی اپوزیشن سے ملاقاتیں کر کے میاں صاحب کی موجودگی کو ساتھ خیریت سے گزارنے، ہنگامہ آرائی نہ کرنے کی درخواستیں کررہے تھے لیکن ظاہری بھڑ کیں مار رہے تھے۔ اپوزیشن نے جو حکمت عملی تیار کی ، جو سامنے بھی آئی، وہ اس میں بری طرح ناکام ہوگئی، پارلیمنٹ میں عمران خان کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ بڑی تیاری سے ، ثبوتوں کے ساتھ آئے ہیں، لگ رہا تھا کہ عمران خان اندر ہی اندر اس سوچ میں تھے کہ میری باری تو آنے دو میاں صاحب ، تمہاری تو میں ایسی خبر لوں گا کہ یاد کروگے لیکن ایسا کیا ہوا ؟کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی، ’ہماری ویب‘ کے ایک کالم نگار سید انور محمود کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ’عمران ماموں بن گئے‘۔لیکن یہ من جانب اﷲ ہوا ، میاں صاحب کو اس طوفان سے بچانا تھا چنانچہ پوری اپوزیشن بشمول عمران خان کے ذہن ماعوف ہوگئے، ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاہ گیا۔ خورشید شاہ کی تقریر کیا تھی بس یہ اعلان تھا کہ خوش رہو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔دیکھو ہم نے اپنے لیڈر کی خوشی کو کس خوش اسلوبی سے منطقی انجام کو پہنچایا، تمہیں کس خوبصورتی سے اس بھنور سے نکال دیا اور میاں صاحب مشکل سے صاف نکل گئے۔میرادرج ذیل شعر آمد نہیں بلکہ آورد ہے ، استعارہ وزیر اعظم ہیں اور لمحۂ موجودکے ماحول سے متاثر ہوکر ؂
تمہیں بلانے کے کیا کیا جتن ہم نے نہیں کیے
تم آئے اور چلے بھی گئے، ہم دیکھتے ہی رہ گئے

اپنے لکھے ہوئے خطاب میں نواز شریف نے اپوزیشن کے چند سوالوں کے جوابات تو دیے۔ ثبوت ضروری نہیں ، ویسے بھی پاکستانی سیاست میں بغیر ثبوت کے الزامات کی روایت عام پائی جاتی ہے۔اپنی صفائی پیش کی اور جو کچھ اپنے اور اپنے خاندان کے رئیس ابن رئیس ہونے کی کہا نی سنائی وہ اپنی جگہ تھی، اپوزیشن اگر چاہتی تو بڑی اچھی طرح تنقید کا نشانہ بنا سکتی تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، باہر جاکر بھی جو کچھ اپوزیشن نے کہا اس سے بھی ان کی حکمت عملی کی ناکامی واضح تھی۔ اس موضوع پر پہلے ہی میرا تجزیہ یہ تھا کہ’ اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن بنانے پر اتفاق ہوجائے گا، ٹرم آف ریفرنس دونوں افہام و تفہیم سے بنا لیں گے، دونوں جانب سے سیز فائر ہوجائے گا، کمیشن اپنا کام سبک رفتاری سے جاری رکھے گے، اپوزیشن ٹھنڈی ہوجائے گی، حکومت سکھ کا سانس لے گی۔ جب کمیشن کی رپورٹ آئے گی میاں صاحب کے دن پورے ہوچکے ہوں گے، یعنی 2018آچکا ہوگا، الیکشن تمام پارٹیوں کو اپنی جانب متوجہ کر لے گا اور میاں صاحب جیسے اس سے پہلے بحرا نوں سے نکلتے رہے ہیں ۔ پاناما لیکس کے بحران سے بھی نکل جائیں گے‘‘۔ یہ کالم16مئی کو ہماری ویب پر ’ پاناما لیکس اوراپوزیشن کے سات سوال‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ متحدہ اپو زیشن نے جس انداز سے ایوان سے واک آؤٹ کیا ، اس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو تھا۔ وجوہات جو بھی رہی ہوں، یہ عمل پاکستان کے لیے، جمہوریت کے لیے، سیاست دانوں کے لیے، حکومت کے لیے کسی بھی اعتبار سے فائدہ مند نہیں ۔ میاں صاحب نے اپوزیشن کے اس عمل کو بھر پور طریقے سے کیش کرانے کی کوشش کی ، جلسے کیے،عمران خان پر بھر پور تنقید کی، اس لیے کہ عمران خان بھی اس معاملے میں ملوث نکلے، اب پھر سے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر تنقید بلکہ شرم ناک حد تک برا بھلا کہنے کا سلسلہ جاری ہے۔یہ سب کچھ کر کے نواز شریف دوسری بار لندن جاچکے ، مقصد علاج بتا یا جارہا ہے، پہلے بھی مقصد علاج ہی تھا، نہیں معلوم ان سیاست دانوں کو کس قسم کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں کہ جن کا علاج ملک میں نہیں ہوسکتا، لندن ہی علاج کا مرکز کیوں ہوتا ہے۔ دوسری جانب مثبت پیش رفت بھی ہوئی،اپوزیشن نے اپنی ناکام حکمت عملی سے سبق سیکھا اور حکومت سے مذاکرات اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر تیا ہوگئی۔ مشترکہ کمیٹی تشکیل پاچکی ہے، امید کی جارہی ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے لیے ایسے TRO'sتشکیل پاجائیں گے جن کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی پاناما پیپرز، آف شورکمپنیوں، قرضوں کی معافی اور کک بیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز تیار کرے گی۔

پاناما لیکس میں پاکستان کے بے شمار مقتدر سیاست دانوں ، ان کے اہل خانہ ، ارکان پارلیمنٹ اور تاجروں کے نام سامنے آچکے ہیں۔ تعداد پانچ سو سے زیادہ بتائی جارہی ہے ،پاناما لیکس نے صرف پاکستانی سیاست اور معیشت ہی کو آلودہ نہیں کیا بلکہ دنیا کے کئی ملکوں کے سربراہان، وزیر اعظم پاناما لیکس سے شرم سار ہوچکے ہیں، بعض تو اس قدر غیرت مند تھے کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہوگئے، بعض نے سرِ عام معافی طلب کی، برطانوی وزیر اعظم کو اپنی پارلیمنٹ میں جواب دہ ہونا پڑا۔ پاکستان میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے تاحال کچھ کہا نہیں جاسکتا، نواز شریف صاحب کی ظاہری حرکات و سکنات ، مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی دوڑ دھوپ، جلسوں کا اہتمام ، لندن میں زرداری صاحب سے ملاقات ، اسفند یار ولی کا پیترا بدلنا اور یہ کہنا کہ ’کسی کا باپ بھی نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکتا ‘ معاملے کی سنگینی کا پتا دے رہی ہیں۔ معاملہ سنگین ہے، میاں بہ ظاہر مسکراتے چہرے سے گفتگو فرمارہے ہیں لیکن ان کی باڈی لینگویج بتا رہی ہے کہ وہ اندر سے خوف زدہ ہیں، انہیں اقتدار ماضی کی طرح وقت سے قبل سرکتا اور ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ از خود یہ خواہش رکھتے ہوں کہ پاناما لیکس ، آف شور کمپنیوں، فلیٹس کے معاملے پروہ از خود مستعفی ہوکر عوام کی عدالت میں چلے جائیں لیکن ان کے اس فیصلے میں ان کے اپنے قریبی ساتھی ان کے ہم رکاب ساتھ نظر نہیں آتے، وہ کسی صورت وقت سے قبل اپنی وزارتوں کے مزے سے دستبردار ہونا نہیں چاہتے۔ میاں صاحب کا یہ آپشن برا نہیں ، اگر وہ اس آپشن کو لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عوام میں ان کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوگا اور بہت ممکن ہے کہ عوام انہیں چوتھی بار بھی اپنے سر کا تاج بنالیں ، ویسے بھی دیگر سیاسی جماعتوں کا حال برا ہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی میں اختلافات اوپری سطح پر صاف نظر آرہے ہیں، پنجاب میں اس کا صفایا ہوچکا ، اس کے لیڈر دیگر جماتوں میں اپنی جگہ بنانے میں مصروف ہیں، کپتان کی سیاست کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ تن تنہا عوام انہیں ذوالفقار علی بھٹو بنا دیں ، ایسا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ کپتان میں برداشت کم ہی ہے، ان کی اپنی جماعت میں اختلافات سب پر عیاں ہے، دیگر جماعتیں تو کسی گنتی میں ہی نہیں۔ نواز شریف کے مخالف کوئی بڑا اتحاد بنتا دکھائی نہیں دے رہا، اپوزیشن اتحاد کی صورت حال ہی میں پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے وقت سامنے آگئی تھی جس میں ایم کیو ایم نے اتحاد سے علیحدگی اختیا ر کرلی تھی۔ ایسی صورت حال میں نواز شریف اب بھی عوام کے لیے بروں میں کم برے کا آپشن نظر آرہے ہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437358 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More