انتہا پسندی پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری
دنیاکا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے پوری عالمی طاقت کو اپنے
وسائل استعمال کرنا ہوگی۔ پاکستانی کے اندر مخصوص علاقوں میں دہشت گردی کی
تربیت اور انتہا پسندی کیلئے برین وشنگ اور مراکز ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ،
جیسے پاکستان کی مسلح افواج اپنی پوری قوت کے ساتھ جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش
کر رہی ہے لیکن علاقے ایک امر بیل کی صورت اختیار کرچکے ہیں ، اور ان کی
جڑیں نا جانے کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہیں ، ہم مخصوص علاقوں سے ہٹ کر اگر
جیلوں کا رخ کرتے ہیں تو جرائم کی نرسرسی تا یونیورسٹی قرار دی جانے والی
پاکستانی جیلیں ، اصلاح خانوں کے بجائے جرائم کے پیپنے کا ایک محفوظ ذریعہ
بن چکی ہیں جس کی جانب ہماری سرکار کی کوئی توجہ نہیں ہے۔پاکستانی جیلوں کا
مسئلہ مختلف جرائم کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے لیکن برطانیہ کی ایک
Belmarsh جیل کے بارے میں بڑے ہوش ربا انکشاف سامنے آئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ
جہادیوں کے گروپ 'بھائی' یا Akhi' 'سے نامی جیل کے اندر ہیں۔ ایک انتہا
پسند اسلام پسندوں کا نیٹ ورک Belmarsh جیل( ریکس) کے اندر کام کر رہا ہے۔
جیل کے سابق قیدی سے چونکانے والے انکشاف کے مطابق لندن میں Belmarsh جیل
کی زیادہ سیکورٹی ، "ایک جہادی ٹریننگ کیمپ " کی طرح بن گئی ہے.۔ اس کی
گواہی ایک مسلمان یونیورسٹی گریجویٹ نے دی جو حال ہی میں بینک فراڈ کے ایک
کیس سے بری کیا گیا ہے ، اس کا کہنا تھاکہ "گورنروں، جیل حکام اور ائمہ سب
کو اس کے بارے میں پتہ ہے" شام کے ایک سٹینڈرڈ سے خصوصی طور بات کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ Belmarsh، بہت سے سزا یافتہ دہشت گردوں اور دہشت گردی سے
متعلق مجرموں کو عام قیدیوں کے ساتھ آزادانہ طور پر ملنا بہت "بدترین" تھا.
ایک سابق قیدی کے مطابق ایک گروپ اخی( 'بھائی)' Belmarsh جیل (ریکس) کے نام
سے اندر سے کام کر رہا ہے ۔انہوں نے مزید کہا: "لیکن مسئلہ Belmarsh بھی
ایک انعقاد جیل ہے جہاں انتہائی نوجوان لوگوں کو برین واش اور نظریاتی
پراپیگنڈے کر رہے ہیں جو ان کو پھر وسیع تر جیلوں کے نظام میں باہر جانے
اور اخی ( بھائی )نیٹ ورک کو وسیع تر کرتا ہے." انکشافات آنے کے بعد پرتشدد
حملوں اور خرابی کی شکایت پہ جسٹس سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے "کہ
جیل نیٹ ورک پر خود کشی میں ایک بہت بڑا اضافہ ہوا ہے.۔ ملکہ کی تقریر سے
انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ حکومت سے جیلوں کے نظام کے وسیع تر اصلاحات کے
ساتھ ساتھ انتہاپسندی کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے نئے اقدامات کرنے کی
توقع کی جاتی ہے"۔ دہشت گردی یا دہشت گردی سے متعلق جرائم کے لئے منعقد
Belmarsh میں قیدیوں کی تعداد 2006 میں 51 تھی۔ آج کے اعداد و شمار میں کم
از کم 80 کا تخمینہ ہے تھا. " اگرچہ اس بات کی تصدیق کرنے سے وزارت انصاف
نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "ہمیں صحیح تعداد معلوم نہیں ہے" وزارت انصاف
نے بھی دہشت گردی سے متعلق جرائم پر منعقد قیدیوں کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ
آزادانہ طور پر اختلاط کرنے کے لئے کی اجازت دی لیکن ان کی پالیسی کی وضاحت
کرنے سے انکار کر دیا لیکن کہا گیا کہ اس کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔تازہ
ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ سال میں 31 دسمبر، 2014 تک ،
Belmarsh میں مسلم قیدیوں کی تعداد 265 سے زائد ہو گئی ہے یا کل قیدیوں کی
30 فیصد ہے۔ یہ رجحان لندن میں وسیع ہے. HMP میں ISIS Thamesmead اور
Feltham کے نوجوان مجرموں کے 'انسٹی ٹیوٹ میں، مسلمان قیدیوں کے بالترتیب
42 اور 34 فی صد پر مشتمل ہے ، باوجود اس کے کہ مسلمان لندن کی آبادی کا
صرف 12 فیصد ہیں۔ وزارت انصاف کے جیل سروس کے ایک ترجمان نے کہا کہ: " HMP
Belmarsh " کے بارے میں ان مخصوص دعووں کے پیچھے کوئی ثبوت نہیں ہے -ہمارے
محنتی عملے نے ایک بہت ہی مشکل قیدیوں کے گروپ کو کامیابی سے منظم
کیا۔"لیکن ہم اسلامی انتہا پسندی کی جیلوں میں خطرات کے بارے میں دور تک
مطمئن نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ریاست کے سیکرٹری نے کا ایک کمیشن کا جائزہ
لیا کہ کس طرح جیل کا نظام اس مسئلے کے ساتھ حل کرتا ہے ۔ Belmarsh جیل کے
معاملے کو اگر یورپی و مغرب تناظر میں لیا جائے تو وہ اسلامی انتہا پسندی
کے حولے سے ایک جداگانہ سوچ رکھتے ہیں ۔اپنی ملک کی سلامتی کیلئے ان کا ایک
اپنا نقطہ نظر ہے ۔ جیسے ہمارے مسلم ممالک کے مسلمان مغرب کو صلیبی نظریات
کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اس لئے اس کی حقیقت پر کتنا یقین کیا جا سکتا
ہے اس پر حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ، لیکن یہ بات طے ہے ایسے
رجحانات، جس میں کسی مسلم قیدی کو اسلامی انتہا پسندی کے جرم میں ملزم کی
حیثیت سے رکھا ایسے مغرب کی بالغ نظر جیسے ہم تنگ نظری کہتے ہیں ، یقین میں
نہیں ڈھال سکتے ، لیکن انکار بھی نہیں کرسکتے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ
پاکستان کی جیلوں میں ایسے کئی نیٹ ورک ہیں جہاں جرائم کی نرسریاں ہیں ، ان
ملزمان کے اصلاح کے بجائے انھیں مزید جرائم کی جانب راغب کرنے کیلئے رشوت
کی خواہش میں جیل کا عملہ ملوث ہوتا ہے ، قیدیوں سے لوٹ مار اور ان سے رشوت
وصولی تو ایک بہت معمولی بات ہے۔جیلوں میں جرائم پیشہ افراد کے گروپس ،
تنظیمیں ، عسکری ونگ ، کالعدم جماعتوں کے نیٹ ورک بھی کسی عام پاکستانی سے
بھی چھپی بات نہیں ہے ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارا قصور معاشرے کا ہے ،
نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملزمان کی درست تربیت کا فقدان ہے اور نہ ہی
جیلوں کو مکمل طور جرائم کے فروغ کی نرسریاں کہا جا سکتا ہے ۔ یہ سب انسان
کے اپنے عمل و اعمال و کردار پر بھی منحصر ہوتا ہے ، جب مغرب کے ترقی یافتہ
معاشرے میں Belmarsh جیل کے بارے میں حیران کن انکشاف سامنے آئیتوہمیں اس
بات پر حیرانی نہیں ہوتی کہ پاکستانی جیلوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا ۔سب
سے اہم بات یہ کہ ترقی یافتہ کا معیار کیا صرف تعلیم ہے یا کسی کو باشعور
انسان بنا کر انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے اچھاانسان بنانا ہے۔ ہم جیلوں
تک ہی کیوں محدود رہیں کہ یہ سب کچھ جیلوں میں ہوتا ہوگا بلکہ جیل سے یادہ
اس آزاد معاشرے میں وہ کچھ ہوتا ہے جس کا عشر عشیر بھی جیلوں میں کچھ نہیں۔
آپ تعلیمی اداروں میں دیکھ لیں ، پہلے تو مدارس کا نام لیا جاتا تھا لیکن
عالمی انتہا پسندوں میں جتنی گرفتاری اور نقصانات بے گناہ انسانوں کو خود
ساختہ نظریات کے تحت جدید درس گاہوں سے حاصل کرنا طالب علم پہنچا رہے یا
پہنچا چکے ہیں ۔ وہ ہم سب کے سامنے ظاہر ہے ۔ Belmarsh جیل جیسی جگہیں تو
ہمارے گلی محلوں میں قائم ہیں جہاں انسانوں کے برین وزش کرکے ایک مذہب کے
خلاف دوسرے مذہب کی بالادستی کیلئے انسانی ہتھیار تیار ہوتے ہیں ۔ Belmarsh
جیل جیسی جگہیں تو ہمارے ان گنت اداروں میں قائم ہیں جہاں ’ اخی ‘ ( بھائی)
کے نا م دوسرے بھائی کی گردنیں کاٹ دیں جاتیں ہیں ۔مغرب کے لئے مسئلہ انتہا
پسندی کے حوالے Belmarsh جیل جیسی جگہیں ہوسکتی ہیں لیکن وہ ان کا سدباب
بھی کرلیں گے لیکن پاکستان میں فروعی مفادات کیلئے ان جیسے لوگوں کی پشت
ٹھونکی جاتی ہے اور گڈ و بیڈ کے سانپ آستنوں سے نکل کر سر پر بیٹھ جاتے ہیں
اور جہاں اپنا رخ غلط موڑا وہاں یہ آستین کے چھپے وہ سانپ جو اب ، سروں کا
تاج بن بیٹھے ہیں انھیں ڈسنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ جیلوں میں اصلاحات کی
ضرورت ہے ۔ لیکن کی نہیں جاتی ، مجرم ، ملزم کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے
کی ضرورت ہے لیکن انھیں انسان نہیں سمجھا جاتا تو پھر اس کے آخری تنائج کیا
نکلیں گے اور کیا نکل رہے ہیں اس پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، جہاں
اور جب قانون کا خوف ختم ہوجاتا ہے وہاں معاشرہ سانس لیتے بے حس انسانوں کی
دنیا کہلائی جاتی ہے۔ |