وہ شرمندہ کرگیا۔۔۔!

 وہ شرمندہ کرگیا...!
جوس لوجوس!ٹھنڈے ٹھارجوس...بھائی صاحب جوس لے لو!مسجدسے نکلتے ہی میرے کانوں سے یہ آوازٹکرائی تومیں نے دیکھاایک آدمی جوکہ ضعیف العمرہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے بھی محروم تھا،سائیکل پربیٹھااپنے قریب سے گزرتے ایک آدمی کومخاطب تھا،مگراس شخص نے جب باباجی کی بات کی طرف بالکل بھی توجہ نہ کی تواس معذورکے لہجے میں اب لجاجت آگئی۔

بھائی صاحب میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔خودمعذوراوربوڑھاہوں مگرپھربھی حق حلال کی کمانے کی کوشش کرتاہوں کسی سے بھیک نہیں مانگتا۔صاحب صرف ایک ڈبہ جوس کاخریدلومیراتعاون ہوجائے گا۔اتنے میں میں بھی قریب پہنچ چکاتھا۔میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ جوس بیچنے والے کی التجاؤں کااس آدمی پرکوئی اثرہی نہ ہوااوروہ سرجھٹک کرایک سمت چل دیااورجوس بیچنے والے کی آنکھوں کے جلتے دیپ مایوسی سے بجھ گئے۔اس کی آنکھوں کی مایوسی دیکھ کرمجھے اس شخص پربہت ہی غصہ آیا۔کیاحرج تھااگروہ ایک جوس کاڈبہ ہی خریدلیتا۔وہ کوئی اس سے بھیک تھوڑی نہ مانگ رہاتھا۔

اتنے میں جوس بیچنے والے کی نظرمجھ پرپڑی توایک آس سے اس نے پکارا!جوس بھئی جوس،ٹھنڈے ٹھاردلبہارجوس،بھائی صاحب جوس لیں بہت ہی ٹھنڈاہے ،آپ کادل خوش ہوجائے گا۔میں توپہلے ہی لینے کاارادہ کرچکاتھالہذامیں نے اس کوجوس ایک ڈبہ دینے کاکہا۔اس نے جلدی سے لکڑی کے بنے ایک ڈبے میں سے جوس کاایک ڈبہ نکالا،جس میں اس نے جوس کے ڈبے ٹھنڈے کرنے کیلئے برف اورپانی ڈال رکھاتھا۔جو س کاڈبہ اس نے مجھے تھمادیا۔

''کتنے پیسے باباجی...؟''میں نے حقارت بھری نظروں سے اس آدمی کی طرف دیکھ کرذرااونچی آوازمیں کہاجوقریب ہی کھڑاتھاتاکہ اس کوشرمندگی توہو۔شایدوہ بھی میری طرح مسافرتھاکیونکہ یہ واقعہ میرے ساتھ ایک سفرمیں پیش آیا۔اس کی نظریں میری نظروں سے چارہوئیں میری آنکھوں میں اپنے لئے حقارت دیکھ کراس نے شرمندگی سے نظریں جھکالیں۔

''تیس روپے بیٹاصرف تیس روپے...!''باباجی نے مجھے جوس کے ڈبے کے پیسے بتائے تومیں چونک گیا۔اسلئے کہ ہمارے علاقے میں جوس کایہی ڈبہ پندرہ روپے کامل جاتاتھا۔اب مجھے دل ہی دل میں باباجی پربھی غصہ آنے لگاکہ اپنے بڑھاپے اورمعذوری کوآڑبناکرمرضی سے پیسے وصول کرتے ہیں۔بہرحال میں نے بادل نخواستہ پچاس کانوٹ نکال کرباباجی کوایسے طریقے سے تھمایاگویاکہ میں ان پراحسان کررہاہوں۔باباجی نے گیلے ہاتھوں سے بقایاپیسے مجھے دیے۔میں نے وہ پیسے پکڑکرجیب میں ڈال لئے اوروہیں قریب پڑے بینچ پرمیں بیٹھ گیا،کیونکہ گاڑی کی روانگی میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔جوس پینے کے ساتھ ساتھ میں وقتافوقتااس جوس نہ خریدنے والے کی طرف دیکھنابھی اپنافرض سمجھتارہاکہ اس کواتنابھی احساس نہیں ہواکہ ایک معذورکی مددہی کردے۔شکل سے دیکھوکیساپارسالگ رہاہے بہرحال میں جی بھرکراس سے بدگمان ہوااوردل ہی دل میں اس کوخوب سنائیں۔

میں جوس پی فارغ ہی ہواتھاکہ ایک میرے قریب لگی پٹرول کی مشین کے پاس ایک پجاروآکررکی۔اس میں تین جوان بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔کسی امیرگھرانے کے چشم وچراغ تھے جویوں بے فکری سے قہقہے لگارہے تھے۔جلدی سے پٹرول پمپ پرموجودملازم گاڑی کے قریب آیااوراس میں پٹرول ڈالنے لگا۔پجاروکودیکھ کروہ جوس والے باباجی بھی اپنی سائیکل کوگھسیٹتے ہوئے پجاروکے قریب آگئے اوراشارے سے جوس کاکہنے لگے کیونکہ پجاروکے شیشے بندتھے آوازلگانابے کارتھی۔گاڑی میں موجودنوجوانوں نے باباجی کی طرف مڑکربھی نہ دیکھا۔یہ سارامنظرمیں چونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا۔پجارووالوں کی بے اعتنائی دیکھ کرمجھے شدیدغصہ آیادل میں آیاکہ جاکران کوشرم دلواؤں کہ ایک معذورآدمی ہے، ایک دوجوس کے ڈبے خریدلینے سے ان کوفرق نہیں پڑے گا،مگراس غریب کااچھاتعاون ہوجائے گا۔جتنی بڑی گاڑی ہوتی ہے اتنے ہی کنجوس ہوتے ہیں۔بخیل کہیں کے۔ دل ہی دل میں ان پجارووالوں کوکھری کھری سنانے لگاکہ زبان سے کھری کھری سنانامہنگاپڑسکتاتھا۔

میں ابھی یہ سوچ ہی رہاتھااورپیچ تاب کھارہاتھاکہ پجاروکاشیشہ نیچے سرکاتومیں اس طرف متوجہ ہوگیا۔پجارومیں سے ایک نوجوان نے سرباہرنکالا۔باباجی تین ڈبے جوس کے دے دیں۔باباجی نے بجلی کی سرعت سے ٹھنڈے ٹھارڈبے نکالے اوران کوکپڑے سے صاف کرکے اس نوجوان کوپکڑادیے۔کیونکہ ان ڈبوں سے پانی ٹپک رہاتھا۔نوجوان نے تینوں ڈبے پکڑلیے اورایک نوٹ باباجی کی طرف بڑھادیا۔مگرباباجی نے انکارمیں سرہلایا۔میں حیران ہواکہ باباجی پیسے کیوں نہیں لے رہے؟کہیں ایساتونہیں کہ گاڑی والے پیسے کم دے رہے ہوں۔مگرجب میں نے غورکیاتوگاڑی والے کے ہاتھ میں پانچ ہزارکانوٹ چمک رہاتھا۔اورباباجی کہہ رہے تھے کہ بیٹامیرے پاس چینج نہیں ہے۔غریب آدمی ہوں۔نوجوان کے چہرے پرایک پراسرارمسکراہٹ ابھرآئی۔مجھے لگاکہ وہ جان بوجھ کرباباجی کوپریشان کرنے کیلئے پانچ ہزارکانوٹ دے رہاہے۔مگراگلالمحہ میرے لیے شدیدحیرت کاتھاجب نوجوان نے کہا''باباجی میں کب آپ سے بقایامانگ رہاہوں۔،باقی آپ رکھ لیں ،ہماری طرف سے ہدیہ ہیں۔''باباجی نہ نہ کرتے رہ گئے۔مگراس نوجوان نے ڈرائیورکواشارہ کیااس نے گاڑی آگے بڑھادی اورباباجی کاوہ ہاتھ اٹھاکااٹھارہ گیاجس میں پانچ ہزارکونوٹ دباہواتھااورباباجی کی آنکھوں سے تشکرکے آنسوچھلک پڑے۔

ادھرمیری یہ حالت تھی کہ کاٹوتوبدن میں لہونہیں، مجھے اب اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ میں جوسوچ رہاتھاکہ میں نے ایک ڈبہ تیس روپے میں خریدباباجی پراحسان کیا ہے۔میں نے بہت بڑی سخاوت کی ہے۔مجھے ایسے لگاکہ میری جیب میں موجودبقایابیس روپے جوباباجی نے پچاس میں سے بقیہ دیے تھے۔میرے ضمیرپرکچوکے لگارہے ہیں کہ تم بیس روپے بقایالے کربھی اپنے آپ کوسخیوں کی صف میں شامل کررہے ہواورجنہوں نے پانچ ہزارکابقایانہیں لیاان کوکیانام دوگے؟یہ سوچ آتے ہی میرے سرشرمندگی سے جھکتاچلاگیااورمیں اپنے کیے اورسوچ پرتوبہ واستغفارکرنے لگا۔
Mufti M Moaviya ismail
About the Author: Mufti M Moaviya ismail Read More Articles by Mufti M Moaviya ismail: 7 Articles with 13569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.