ادب کاپھل
(Mufti M Moaviya ismail, Makhdoom pur khanewal)
اس کانام عثمان تھا،وہ انتہائی نیک سیرت
اوراچھے جذبے والاتھا،اس کومہمان نوازی کابہت شوق تھا،جب کہیں اس کوکوئی
مسافرمل جاتاوہ اس کواپنے گھرلے آتاگھرمیں اس کوٹھہراتااس کااکرام کرتااس
کی خوب خدمت کرتااوراگلے دن اس کورخصت کردیتا،اس کے گاؤں والے اسی کے
خاندان ہی کے تھے،ان سب کاقبیلہ ایک ہی تھا،گاؤں والے اس رویے کوپسند نہیں
کرتے تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ مہمانوں کویہاں نہ لایاکرے،کیونکہ وہ اپنے
گاؤںمیں اجنبی لوگوں کاآناپسندنہیں کرتے تھے،آخرکارگاؤں والوں سے نہ
رہاگیاانہوں نے مل کرعثمان کوکہاکہ تم اجنبی لوگوں کویہاں نہ
لایاکرو،آخریہاں ہماری عورتیں ہیں بچیاں ہیں،ہم نہیں چاہتے کہ کوئی
پرایاآدمی یہاں آئے،لیکن وہ اپنی اس نیکی کے جذبہ سے ایساسرشارتھاکہ گاؤں
والوں کے منع کرنے کے باوجوداگلے دن پھرایک مہمان کولے آیا،انہوں نے پھراس
کومنع کیااورساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کرلیاکہ اگریہ آئندہ اس گاؤں میں کسی
اجنبی کولایاتوہم اس کوماریں گے بھی سہی اورگاؤں سے بھی نکال دیں گے،کچھ
دنوں کے بعدوہ پھرایک مہمان کولے آیااب توگاؤں والوں کوبہت غصہ آیاانہوں نے
مل کراس کی خوب پٹائی کی اوراس کوکہاکہ ہمارے گاؤں سے نکل جاؤ،اگرآئندہ تم
ہمیں اس گاؤں میں نظربھی آئے توہم تمہیں جان سے ماردیں گے،اب تواس کی جان
پربنی مگراس کوگاؤں کوچھوڑنے کے سواکوئی چارہ نہ ہواتووہ گاؤں سے نکل
کھڑاہوا،سارادن ماراماراپھرتارہاکہ جاؤں توجاؤں کہاں؟اچانک اس کے ذہن میں
اپنے شیخ کاخیال آیا،وہ ان کابیعت تھا،اس کے شیخ اس کے گاؤں سے پانچ چھ
کلومیڑکے فاصلے پرایک دوسرے گاؤں میں رہتے تھے،وہ اپنے شیخ کے پاس آگیا،ان
کوسارامعاملہ بتایا،گاؤں والوں کے رویے سے آگاہ کیا،شیخ نے اس کی تمام بات
تفصیل سے سنی اورفرمایاکہ آج رات آرام کروصبح اٹھ کراس بارے میں کچھ سوچیں
گے۔
چنانچہ عثمان مہمان خانہ میںجاکرسوگیا،تہجدکے وقت اٹھانمازپڑھی ،تہجدکے
بعدتلاوت قرآن پاک کااس کامعمول تھا،اس نے مہمان خانہ میں ادھرادھرقرآن پاک
ڈھونڈاتواس کوپتہ چلاکہ رات کوجس طرف یہ پاؤں کرکے سویاتھااسی طرف ایک
الماری میں قرآن مجیدرکھاہواہے،یہ دیکھ کرتوعثمان بڑاپریشان ہوا،کہ ساری
رات وہ لاعلمی میں قرآن پاک کی طرف پاؤں کرکے سوتارہااوراس کوپتہ ہی نہیں
چلا،اس کوکافی دکھ ہوااس نے قرآن کریم اٹھایااس کوچومااورآنکھوں سے
لگایاسینے سے لگایااوراللہ تعالی سے معافیاں مانگنے لگاکہ یااللہ مجھے معاف
کردے مجھے پتہ نہیں تھالاعلمی میں مجھ سے یہ غلطی سرزدہوگئی ہے۔میں ساری
رات تیرے مقدس کلام کی طرف پاؤں کرکے سویارہا،مجھ سے بے ادبی ہوگئی ہے مجھے
معاف کردے،ادھریہ روروکراللہ تعالی سے معافیاں مانگ رہاتھاادھراس کے شیخ
کوخواب میں کہاگیاکہ عثمان کوکہویہاں سے نکلے،ہم اس کودنیاکی عزتیں
عطافرمائیں گے۔
شیخ کی اسی وقت آنکھ کھلی اوروہ مہمان خانہ میں آئے انہوں نے دیکھاکہ عثمان
قرآن مجیدکوہاتھ میں پکڑے رورہاہے،پوچھاکہ عثمان کیاکررہے ہو؟کیاہواہے؟کہنے
لگاکہ حضرت میں بے ادبی کامرتکب ہواہوں،ساری رات قرآن کی جانب پاؤں کرکے
لیٹارہامجھے پتہ نہیں تھا،اب پتہ چلاہے تواللہ تعالی سے معافی مانگ
رہاہوں،انہوں نے کہاتم یہاں سے فوراچلے جاؤاللہ تعالی نے چاہاتوتمہیں عزت
دیں گے،یہ سن کروہ نوجوان رونے لگاکہ حضرت مجھے پہلے گاؤں والوں نے دھکے دے
کرنکال دیااب آپ بھی مجھے یہاں سے رخصت کررہے ہیں،اوروہ بھی اس وقت جبکہ
ہرکوئی سویاہواہے؟لیکن شیخ نے کہاتم یہاں نہیں ٹھہرسکتے،ابھی اوراسی وقت
چلے جاؤ،مجھے یہی حکم ہواکہ تم کوبھیج دوں،شیخ نے نوجوان کوزبردستی بھیج
دیا۔
عثمان جب باہرنکلاتواس کودس پندرہ نوجوان مل گئے،یہ وہ نوجوان تھے جواپنی
زندگیادین کیلئے وقف کرچکے تھے،اورچاہتے تھے کہ ہماراکوئی امیربنے،لیکن ان
میں سے کوئی بھی امیربننے کوتیارنہ تھا،انہوںنے مشورہ سے یہ فیصلہ کیاکہ کل
صبح جوشخص سب سے پہلے اس شہرسے باہرنکلے گااس کوہم اپناامیربنالیں گے،انہوں
نے جب عثمان کودیکھاتوکہاجناب آپ ہمارے امیربن جائیں،ہم آپ کے
مامورہیں،عثمان توپہلے ہی دس پندرہ نوجوان دیکھ کرگھبراگیاتھاجب وہ اس کی
طرف آرہے تھے مگراب ان کی بات سن کراس کی گھبراہٹ کی جگہ حیرت نے لے
لی،عثمان نے ان سے وجہ پوچھی کہ کیابات ہے مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی آپ
مجھے امیرکیوں بناناچاہتے ہیں؟توان میں سے ایک نے کہاہم سب نے یہ فیصلہ
کیاہم سب دین کے کام کریں گے اورکسی کام میں نہیں لگیں گے ،اس اتفاق کے
بعدہمارااس بات میں اختلاف ہوگیاکہ ہماراامیرکون ہوگا؟ہم سے کوئی بھی اس
جماعت کاامیربننے کیلئے تیارنہیں ہے،آخرہم نے یہ فیصلہ کیاجوشخص اس شہرسے
صبح سب سے پہلے باہرآئے گاوہ ہماراامیرہوگااورہم نے دیکھاکہ آپ سب سے پہلے
باہرآئے ہیں لہذاآپ ہمارے امیرہیں۔عثمان نے یہ ساری بات سن کرحامی بھرلی
اورامیربننے کیلئے تیارہوگیا،اب یہ پوری جماعت کی صورت میں چلنے لگے،جس
گاؤں سے بھی ان کاگزرہوتالوگ ان سے پوچھتے آپ کون ہیں ؟تویہ ان کوبتاتے کہ
ہم نے دین کی خاطراپنی زندگیاں وقف کی ہیں،ہم اللہ کے دین کے لئے جارہے
ہیں،اورساتھ ہی ان کے چہروں سے بھی تقوی اورطہارت کے آثارنمایاں تھے،یہ سن
ہرگاؤں میں سے کچھ نہ کچھ لوگ ان کے ساتھ ہولیتے۔
میں اکیلاہی چلاتھاجانب منزل
لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتاگیا۔
ہرگاؤں سے جب اسی طرح لوگ ملتے رہے توکچھ ہی دنوں میں وہ ایک بہت بڑی جماعت
بن گئی،جن کی تعدادہزاروں میںہوگئی،انہوںنے آپس میں مشورہ کیاکہ فلاں جگہ
کچھ غیرمسلم لوگ رہتے ہیں وہ ہربار مسلمانوں کوتنگ کرتے ہیں،کیوں نہ ان
کیساتھ جنگ کی جائے،چنانچہ وہ اسی نیت سے اس جانب روانہ ہوگئے،اللہ کی شان
وہ ابھی اس علاقہ سے کچھ دورتھے کہ اس ملک کے مخبرنے اتنی بڑی جماعت کودیکھ
کراپنے بادشاہ کواطلاع کردی،کہ اس طرح ایک بہت بڑالشکرہے جوآپ کے ملک
پرحملہ آورہونے کیلئے آرہاہے،اورآپ کی فوج ان کامقابلہ نہیں کرسکے گی
کیونکہ وہ بڑے باہمت اورجوان لوگ ہیں،وہ بادشاہ عیسائی تھا،اورتھابھی
بوڑھا،اس نے اس جماعت کی طرف پیغام بھیجاکہ آپ ہمارے ساتھ صلح کرلیں،ہم
آئندہ مسلمانوں کوتنگ نہیں کریں گے،توعثمان جوکہ اپنی جماعت کاامیرتھا،نے
کہاٹھیک ہے ہمارامقصدتویہ ہے کہ تم مسلمانوں کوتنگ نہ کرو،اگرتم اس بات
پرتیارہوتوہم کوکوئی اعتراض نہیں،اورلڑنے کی بھی ضرورت نہیں،عثمان کی یہ
بات سن کراوردوسری طرف اس کی فوج کی طاقت دیکھ بادشاہ حیران ہوگیا،اورکہاکہ
تم واقعی سچے لوگ ہو،سچے مذہب پرہواگرتمہاری جگہ ہم ہوتے توکبھی بھی نہ
چھوڑتے،تم سے لڑتے تم کوقتل کرتے تمہارے مالوں پرقبضہ کرلیتے۔لیکن تمہارااس
طرح ہم کوبغیرلڑے چھوڑدینااورصلح کرلینایہ اس بات کی علامت تم صرف اورصرف
اپنے اللہ تعالی کوراضی کرنے کیلئے جنگ کرتے ہواس میں تمہاری کوئی ذاتی غرض
نہیں ہوتی،تمہارے ان اخلاق سے میں بڑامتاثرہواہوں مجھے کلمہ پڑھاکرمسلمان
کردو،توعثمان نے اس بادشاہ کوکلمہ پڑھادیا،اتفاق سے اس بادشاہ کی صرف ایک
ہی بیٹی تھی اورکوئی اولادنہ تھی تواس بادشاہ نے کہاکہ میں چاہتاہوں کہ تم
میری بیٹی سے شادی کرلواورمیرے مرنے کے بعداس ملک کے بادشاہ بن جاناتاکہ
اسلام پھیلتاپھلتارہے،عثمان حامی بھرلی،چنانچہ باشادہ نے اپنی بیٹی کانکاح
عثمان سے کردیا،کچھ عرصہ بعدبادشاہ مرگیااوراس کی جگہ عثمان بادشاہ بن
گیا،جب عثمان کوبادشاہت ملی تووہ ایک دن اکیلے میں بیٹھ کرسوچنے لگاکہ ایک
وقت تھاکہ مجھے میرے گھروالوں نے خاندان اورقبیلے والوں نے گھرسے نکال
دیاتھا،مجھے میرے شیخ نے کہاتم نے قرآن پاک کی عزت کی اللہ تعالی اس کی
بدولت تمہیں عزت دے گا،لہذااسی قرآن پاک کی عزت کی وجہ سے مجھے آج اس ملک
کی بادشاہت ملی ہے،میں جوکچھ بناہوں قرآن پاک کے صدقے بناہوں،لہذامیں اپنے
ملک میں قرآن کاقانون نافذکروں گا،شریعت لاگوں کروں گا،چنانچہ عثمان بادشاہ
کے اس فیصلے کے بعدملک میں مکمل طورپرشریعت نافذکردی گئی،حتی کہ عدالت کے
اندرپہلے قرآن پاک لے جایاجاتاتھااورلوگ ادب سے کھڑے ہوجاتے پھربیٹھ جاتے
تھے،مجلس برخاست ہونے کے بعدبھی پہلے قرآن پاک کوباہرلایاجاتاپھرلوگ
باہرآتے تھے،اس بادشاہ کی خلافت کانام پھرخلافت عثمانیہ پڑگیا،جوکئی سوسال
تک اللہ تعالی کے حکموں کیمطابق زندگیاں گزارتے رہے۔ |
|