کیسی خود مختاری ؟

لو جی امریکا کہتا ہے پاکستان کی خود مختاری اسے مقدم ہے لیکن پاکستان کے اندر شدت پسندوں کے خلاف وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا ۔ یعنی پنچائتیوں کا فیصلہ قبول لیکن پرنالہ وہیں رہے گا۔

کون سی خود مختاری ؟ کیسی خود مختاری ؟ امریکا جب چاہے جہاں چاہے کارروائی کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے شہری اٹھا کر گونتاناموبے لے گیا ۔ برسوں سے ڈرون حملے کر رہا ہے اور جس شہر یا گاؤں میں چاہے اتر کر اپنی خود مختاری کی رٹ قائم کرجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کو پاکستان کے اندر حملے کرنے کا سر ٹیفکیٹ کس نے دیا ؟ کیا دونوں حکومتوں کے درمیان کوئی باقاعدہ تحریری معاہدہ موجود ہے ؟’’ قانون پرست امریکا ‘‘ کے پاس شاید یہی جواز ہے کہ وہ ڈرون حملے کرتا رہے گا اور ہماری حکومت ’’ احتجاجی ‘‘ بیان جاری کر کے عوام کے منہ بند کرتی رہے گی ۔

ہر چہرے پر کرب ہے ‘ ہر آنکھ سوالی ہے ‘ ہر دل دکھی ہے اور ہر جانب اضطراب!!

پاکستان کا ہر شہری سراپا احتجاج ہے ۔ہر چہرے پر کرب ہے ‘ ہر آنکھ سوالی ہے ‘ ہر دل دکھی ہے اور ہر جانب اضطراب!!

اصول کی بات ہے جو جرم کرتا ہے سزا بھی وہی پاتا ہے ۔ جرم کا اعتراف کرنے والا ہی مجرم ہوتا ہے ۔یہ قوم برسوں سے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور اسے دلدل میں دھکیلنے والے بڑے فخر سے اعتراف کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ غلطی ان سے ہوئی ہے ۔ مصائب اور مشکلات ان ہی کی وجہ سے ہیں لیکن اس دلدل سے قوم کو باہر لانے کی ذمے داری ان کی ہے جو اسلام آباد کے ایوانوں پر قابض ہیں ۔ چوہدری شجاعت سے محمد علی درانی اور مشرف سے زرداری تک کوئی ایسا نہیں جو اپنے دور حکومت کی خرابیوں اور نا اہلیوں کا اعتراف نہ کرتا ہو ۔ آگ بھڑکانے کے بعد یہ سب شعلوں کا تماشا کر رہے ہیں ۔ کوئی بھی نہیں جو اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ کرے اور جرم کا اعتراف کرنے والوں کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کر سکے۔

جنرل (ر) مشرف کے دورپرفتن کی خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے پالیسیوں کا تسلسل برقرار ہے اور اس پر ستم کی بات یہ ہے کہ اسی عطار کے لونڈے سے زرداری حکومت دوا لیتی رہی اور نواز شریف حکومت بھی لے رہی ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ ‘ این جی اوز اور سول سوسائٹی سوات میں کوڑے کھانے والی ایک معصوم بچی کے لیے بے حد بے تاب اور مضطرب رہے۔ جامعہ حفصہ کی بچیوں پر فاسفورس چھڑکی گئی ‘ سندھ میں عورت کو کتوں کے آگے ڈالا گیا ‘ بلوچستان میں چھ عورتوں کو زندہ درگور کر دیاگیا ‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی درندوں نے نوچ ڈالا‘پھر کیا ہوا کچھ بھی تو نہیں ۔ جنرل مشرف کے سیاہ دور کی باقیات ہی باقی نہیں اس دور کی پالیسیاں بھی ابھی تک اسلام آباد کے ایوانوں میں موجود ہیں تو پھر شکایت اور گلہ کس بات کا ہے ؟ اس سارے منظر کو اس عمل کا رد عمل کہا جائے گا جس کا آغاز اس دور ستم میں ہوا جب پاکستان کا ایک گوریلا جرنیل امریکا کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ہوا۔ اس کی ’’ہاں ‘‘نے پوری قوم کی قسمت کا سودا کر دیا ۔امریکا کے ساتھ ہماری دوستی کی تاریخ پرانی ہے ۔ پاکستان نے ہر مشکل دور میں امریکا کا ساتھ دیا اور امریکا نے ہر مشکل زمانے میں پاکستان کو تنہا کیا ۔ آج ڈرون حملوں سے خود کش حملوں تک امریکا سے دوستی کا وہ حق ادا کیا جا رہا ہے جس کا وعدہ مشرف نے کر رکھا ہے ۔ ہم وعدوں کی پاسداری میں ویسے بھی معروف ہیں ۔ امریکا ہماری ماں کو گالی دینے اورہمارے نبی محترم ﷺ کے حق میں گستاخی کا مرتکب ہوا ۔ ہماری معصوم بہنوں کی عفت کو تاراج کیا ‘ ہمارے جوانوں اور معصوم شہریوں کو آگ میں بھوناہم نہیں بولے ۔بات یہاں تک پہنچی ہے کہ اب ہماری حکومتوں کے قیام ‘ کابینہ کی تشکیل‘ افسروں کی تقرری اور ججوں کی تنزلی بھی اسی کی ذمے ٹھہری۔

بھارت کی نسبت پاکستان کی امریکا سے دوستی پرانی ہے ۔ جس زمانے میں روس اور امریکا آمنے سامنے تھے بھارت روس کے ساتھ اور پاکستان امریکا کے ساتھ کھڑا تھا۔ ۱۹۶۲ء میں امریکا عوامی جمہوریہ چین کو سبق سکھانے کے لیے بھارت کی پشت پر چلا گیا اور دوسری طرف روس کو مٹانے کے لیے پاکستانی حکمرانوں سے ’’ محبت ‘‘ کرنے لگا تھا۔

۱۹۶۲ء میں امریکا کو ایک جھٹکے نے بھارت کو گلے لگانے پر مجبور کر دیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا کے ایک اور حریف عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ بھارت کی سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں ۔ امریکا چین کو سبق سکھانے کے لیے آگے بڑھا اور بھارت کو اسلحے کے ’’ زیور ‘‘ سے آراستہ کر دیا ۔ محبت کی پہلی سیڑھی فوجی تعاون کے ایک معاہدے کے ساتھ طے ہو گئی ۔مشترکہ جنگی مشقیں ایک اور قدم تھا۔اس ’’ رومانس‘‘ کے دو سال بعد جب ستمبر ۱۹۶۵ء میں بھارت پاکستان کو ’’ فتح ‘‘ کرنے ٹوٹ پڑا تو امریکا بہادر نے غیر جانب داری کی انتہا کر دی ۔ ’’ امن پسندی ‘‘ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے دونوں ملکوں کو اسلحے کی ترسیل بند کر دی ۔

تب وہ لمحہ تھا جب پاکستان میں امریکا کے اس رویے کے خلاف شدید رد عمل ہوا ‘ ناراضی‘ غصے اور جنگ کا شکار پاکستان کے حکمران کچھ نہ کر سکے ۔ یہ محض احتجاج تھا جس میں پاکستان امریکا کو باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ اس کے دفاعی حصار میں امریکی اسلحے نے اہم کردار ادا کرنا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ ادھر سوویت یونین سے بھارت کے لیے اسلحے کے تمام در وا تھے۔ جب دفاعی معاہدوں کی آڑ میں پاکستان نے امریکا سے اسلحے کا مطالبہ کیا تو اس کی طرف سے دوٹوک جواب ملا کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے معاہدے روس کے خلاف ہیں نہ کہ بھارت کے خلاف ۔۱۹۶۵ء کی جنگ میں امریکا کی منافقانہ پالیسی کی بدولت پاکستان محض دو اڑھائی ہفتے تک لڑ سکا ۔ یہ الگ بات ہے کہ کون جیتا……؟ کون ہارا……؟

۱۹۷۱ء میں پاکستان امریکا دوستی کی آزمائش کا ایک اور لمحہ تھا جب ’’ امریکا بہادر ‘‘ کنی کترا گیا۔ تب امریکا چین سے ’’ محبت ‘‘ بڑھانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس زمانے میں اسے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی ٹھن گئی تو پاکستان کے حکمرانوں کو پورا یقین تھا کہ اب کے امریکا پاکستان کی پشت پر ہوگا۔ امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کے لیے ان ہی دنوں فلپائن سے خلیج بنگال کی طرف روانہ ہوا تھا جو تادم تحریر یہاں نہیں پہنچا۔ سقوط ڈھاکہ ہو گیا ‘ آدھا پاکستان کٹ گیا ۔ تب امریکا نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری جنگ کو رکوانے میں ’’ اہم کردار ‘‘ ادا کیا ۔ کارگل کا زمانہ آیا ۔ پاکستان ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ گیا۔ بھارت کی گردن کارگل کے شکنجے میں پھنس گئی تھی ۔ وزیر اعظم پاکستان کو حکماً واشنگٹن طلب کیاگیا۔ کرکٹ میچ ادھورا چھوڑ کر میاں نواز شریف لاہور سے واشنگٹن روانہ ہوئے اور راتوں رات امریکا کی دوستی کا حق ادا کر کے واپس آ گئے اور کچھ رو ز بعد ہمیشہ کے لیے واپس چلے گئے۔

نائن الیون کے روز جڑواں ٹاور امت مسلمہ کی قسمت پر آن گرے۔ امریکا بہادر کو پاکستان سے ’’ دیرینہ تعلقات‘‘ یاد آئے ۔ افغانستان میں سوویت یونین کو خجل خوار کرنے کے بعد وہ لوٹ گیا تھا۔ اب کے اسے پھرسے پاکستان کے تعاون کی ضرروت پڑی ۔ پاکستان نے جو تعاون کیا اس پر کسی رائے زنی کی ضرورت نہیں ۔ پاکستان کے حکمران ان پالیسیوں کی بدولت اپنے ہی عوام کے درمیان زیر بحث رہنے لگے ۔ جون ۲۰۰۲ء میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول اور سلامتی کونسل کے امور کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے اپنا لہجہ بدل لیا۔ یہ نائین الیون کے ’’ رومانس‘‘ کے بعد پہلی ’’ گھر کی ‘‘ تھی ۔ انہوں نے دو ٹوک کہا تھا’’ پاکستان لائن آف کنٹرول کے اس پار ’’ دہشت گردوں‘‘ کو روکنے کے لیے موثر اقدام کرے ۔‘‘ یہ بھارت سے امریکا کی چھپی ہوئی محبت کا اظہار تھا۔ہم نے حکم عدولی نہیں کی اور اپنے ہی لوگوں کی گردنیں کاٹ ڈالیں۔

آج ہم امریکا سے گہری دوستی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ اس ملک کو آگ کے شعلوں کی نذر کرنے والے پورے پروٹوکول کے ساتھ مزے اڑا رہے ہیں ۔ ٹی وی چینلز کچھ پر سقراط بقراط بنے تجزیے کر رہے ہیں ۔ بھنور میں پھنسی کشتی کو نکالنے کے لیے چپو ہلانے کے بجائے کنارے پر کھڑے شور مچا رہے ہیں ۔خدا کی پناہ اس قوم کا حافظہ اتنا خراب ہو گیا ہے کہ وہ خرابیوں کے اصل ذمے داروں کو پہچاننے سے انکاری ہے۔ بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کا ایک ہی طریقہ باقی ہے اور وہ فطری راستہ ہے ۔ جن لوگوں نے امریکا کے ساتھ محبت کی راہ و رسم ڈالی ۔ برسوں تک ان پالیسیوں کا دفاع کرتے رہے آج انہیں کٹہرے میں لایاجائے جب تک ان کو سزا نہیں ملتی ‘ جب تک یہ انجام کو نہیں پہنچتے ‘خون بہتا رہا۔ اہل اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کو اب پس پشت ڈال کر امریکا بہادر سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ اگر وہ ہمارا دوست ہے تو پھر ہماری بستیوں پر یہ آگ و بارود کی بارش کس لیے ہے ؟ ہماری گلیوں اور شہروں میں خونی کھیل دراصل اس عمل کے نتیجے میں شروع ہوا جو مشرف اور اس کے ساتھیوں نے شروع کیا تھا ۔ یہ رد عمل ختم کرنا ہے تو جرم کا اعتراف کرنے والوں کو پکڑنا ہوگا‘ورنہ بڑھتا ہوا یہ سیلاب ہر چیز پامال کر دے گا۔ کچھ نہیں بچے گا یہ اقتدار اور نہ اقتدار میں بیٹھنے والے ۔امریکا کو ہماری کون سی خود مختاری عزیز ہے ؟ چپ رہ کر حملے برداشت کرنی والی یا کسی ایسے معاہدے کی جو ماضی کے حکمرانوں نے امریکا سے کر رکھا ہے۔
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 37879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.