گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ اٹلی کی
اعلیٰ عدالت نے خوراک کی چوری کے ایک مقدمہ میں تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے کہا
ہے کہ مدعا علیہ نے ضرورت کے تحت خوراک اٹھائی اس لیے یہ جرم کے زمرے میں
نہیں آتا۔ عدالت نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ بھوک سے بچنے کے لیے خوراک چوری
کرنا جرم نہیں ہے۔ خبر کی مزید تفصیل کیا لکھوں۔ یہ خبر پڑھ کر پہلے تو خبر
دینے والے پر رحم آیا جو ہماری اسلامی تاریخ سے نابلد ہے۔ حضرت عمر فاروق
رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں قحط پڑا تو انھوں نے چوری کی حد والی سزا یعنی
ہاتھ کاٹنے کی موقوف کرا دی۔ انھوں نے کہا کہ اس حالت میں جو چوری کرے گا
وہ ظاہر ہے مجبور ہو کر کرے گا۔ بھوکے مارے کرے گا۔ ہمارا رپورٹر اٹلی کی
عدالت کے کیے گئے فیصلے کو تاریخی فیصلہ قراردیتا ہے۔ اگر یہ فیصلہ تاریخی
ہے تو پھر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا فیصلہ کیا تھا؟ ویسے تو چوروں کے
ہاتھ نہیں کاٹے جاتے۔ اس کی پوری تحقیق ہوتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس
پاکستان اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے نام پر بننے والا دنیا کا پہلا ملک، لیکن
اسی اسلام کی تعلیمات سے بالکل ناواقف۔ یہاں حد کا نفاذ تو دور کی بات،
اصلی چور کو ہر طرف سے چادر مل جاتی ہے۔ اصلی چور کو ہر طرف شاباش مل جاتی
ہے۔ اس کا ساتھ دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے ہو یا پھر اس
کے حق میں ہاتھ کھڑا کر کے۔ لیکن افسوس یہاں مسجد سے جوتا چرانے والے کو
سزا مل جاتی ہے۔ اس کا منہ کالا کرکے محلے بھر میں گھمایا جاتا ہے،لیکن
پانچ لاکھ ڈالر کی چوری کرنے یا منی لانڈرنگ کرنے والے کوباعزت بری کر دیا
جاتا ہے۔ یہ کہہ کر کہ اس کے خلاف ثبوت کوئی نہیں۔
کہا گیا کہ میڑو بس سروس شروع کرنے سے عوام کا معیار زندگی بلند ہوا۔ یقینا
ہوا۔ اس سے انکار نہیں کہ اپنی بہترین کاروں میں سفر کرنے والے اب میٹرو
میں سفر کرتے ہیں اور جس طرح ایک عام مزدور دیہاڑی دار دھکم پیل کرکے گاڑی
میں سوار ہوتا ہے یا اپنا سٹاپ آنے پر وہاں سے نکلتا ہے، اسی طرح یہ بہترین
کار میں سفر کرنے والا فرد بھی سفر کرتا ہے۔ لیکن کیا سفر کو آسان کرنے سے
ایک بھوکے کو کھانا مل جاتا ہے؟ کسی مریض کو ہسپتال میں عین وقت پر ڈاکٹر
مل جاتا ہے؟ صفائی کا صاف پانی اس کی قسمت میں لکھا جاتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
میٹرو بننے پر البتہ ٹھیکیداروں کے گھروں میں صاف پانی کے فلٹروں کا تو
اضافہ ہوا ہو گا۔ ان کو پرائیویٹ ڈاکٹر کو اپنی مرضی کے وقت پر دکھانے کے
لیے سہولت تو مل گئی ہو گی ۔ ان کو کسی فائیو سٹار ہوٹل کے روف ٹاپ پر
کھانے کی آسانی تو میسر ہو گئی ہو گی۔ لیکن اورنج ٹرین، گرین لائن یا
میٹروبس ٹائپ کی سروسز شروع کرنے سے آج تک کسی غریب کو تن ڈھانپنے کے لیے
کپڑ میسر نہیں ہوا۔ کسی غریب کے گھر دو وقت چولہا نہیں جل سکا۔
اب رمضان پیکج کے نام سے غریبوں سے ایک اور مذاق کیا گیا۔ ایک ارب پچھتر
کروڑ روپے رمضان پیکن کے طور پر منظور کیے گئے۔ بیس کروڑ کی آبادی پر تقسیم
کریں تو آٹھ روپے پچھتر پیسے فی فرد تقسیم ہوتے ہیں۔تمام بیس کروڑ پر اسلیے
تقسیم کیے گئے کہ ضرورت کے وقت ہمارے امیر ترین افراد بھی غریب بن جاتے
ہیں۔ اب کیا کوئی بھی ماہر معاشیات جن میں اسحاق ڈار سرفہرست ہیں، یہ بتا
سکتے ہیں کہ ان آٹھ روپے پچھتر پیسے میں ایک فرد پورے انتیس یا تیس روزے
کیسے گزارے گا۔ ایک فرد۔ نہ کہ چار پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان پینتیس
روپے میں یہ گزارہ کرے گا۔ افسوس کا مقام ہے۔ اگر یہ پیکج مہیا کرنے کی
بجائے عوام کو رمضان میں کھلے عام سحر و افطار ہی کرادیتے ، تو عوام دعائیں
ہی دیتے۔ اگر سعودی عرب کی طرح ہر مسجد میں سحر و افطار کے وقت یہ اہتمام
کرتے تو کیا مضائقہ تھا۔ لیکن اگر حکومت یہ کام کرنے لگ جائے تو پھر حکومت
کے کام کون کرے گا؟ ہے نا بہت اہم سوال۔۔۔ سونے پہ سہاگہ ابھی رمضان آیا
نہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیون نے مہنگائی ک جن آہستہ آہستہ بوتل سے
نکالنا شروع کر دیا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ
اس بار بھی امیر ہی عیاشی کریں گے اور غریب صرف انہیں دیکھ کر ترسیں گے۔
اگر حکومت ایک مہنگائی پر ہی قابو پانے میں ناکام رہتی ہے تو قومی معاملات
کے امور پر قابوپانا تو بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔
اگر ایسے حالات میں کسی دکان سے کوئی غریب یا کوئی کوڑا کرکٹ اٹھانے والا
کسی دکان سے کوئی کھانے کی چیز اُچک کر بھاگ جاتا ہے تو دکانداروں سے گزارش
ہے کہ وہ کبھی کبھی اس غریب کو جانے دیا کریں یہ سوچ کر شاید اس طرح اﷲ پاک
اس کا کوئی گناہ معاف کر دیں۔ خود بھی کبھی کبھی زکوٰۃ کے طور پر کچھ کھانے
پینے کاسامان دکان سے باہر رکھ دیا کریں تاکہ غریب اس کو بنا کسی جھجھک کے
اٹھا کر کھا سکیں۔ یہ تو سرِ راہ ایک بات ہو گئی۔ بات ہو رہی تھی کہ ہم
یورپین ممالک میں ہونے والے انصاف کو تو سراہتے ہیں لیکن اپنی تاریخ اٹھا
کر نہیں دیکھتے کہ یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ بھی نہیں بلکہ ہمارے
دین اسلام کا حصہ ہے۔ اسلام نے جو زکوٰۃ کا نظام وضع کیا ہے اگر پوری طرح
لاگو ہو جائے توسوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس پاکستان میں کوئی بھی غریب رہ
جائے۔ کوئی بھی کسی جھونپڑے میں رہے۔ ہر کسی کو دھوپ بار ش سے بچنے کے لیے
چھت میسر ہو گی، چاہے کچی ہو۔ ہر کسی کو دو وقت کا کھانا میسر ہو گا، چاہے
دال ہو۔ ہر کسی کو علاج کی سہولت ملے گی۔ پھر کوئی کسی غریب کا منہ کالا
کرکے اس کو محلے میں نہیں پھرائے گا۔
ویسے تو اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔ اور خود ننگے ہونے کے باوجود دوسروں پر
انگلی اٹھاتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اپنے گریبا ں میں کوئی نہیں
جھانکتا۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ تم سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور
دوسروں کو سکھائے۔ اس حدیث کے مفہوم کو اگر میں اس طرف لے کر جاؤں کہ پہلے
اپنے آپ کو درست کرو، پھر دوسروں کو درست ہونے کی تلقین کرو، تو فائدہ ہو
گا۔ رسول پاکﷺ کے پاک ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ آئیں۔ عرض کیا: یا رسول
اﷲ ﷺ ، میرا بیٹا میٹھا بہت کھاتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ کل آنا۔ اگلے
دن وہ خاتون دوبارہ اپنے بچے کے ساتھ گئیں۔ تو رسول اﷲ ﷺ نے بچے سے صرف
اتنا فرمایا کہ بیٹا زیادہ میٹھا مت کھایا کرو۔ جب وہ خاتون چلی گئیں تو
صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ۔ یہ بات تو کل بھی فرماسکتے تھے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ کل میں نے خود کھجوریں کھائی ہوئی تھیں تو بچے کو
کیسے منع فرماتا۔ حضرات غور کریں۔ بظاہر کوئی بڑی بات نہیں۔ ہمارے آقا تھے۔
سب آپ ﷺ کی سنتے تھے، مانتے تھے، کیا انسان، کیا چوپائے۔ لیکن پھر بھی
انسانیت کے لیے ایک نمونہ تو چھوڑنا تھا۔
خدارا جن کو اﷲ نے اﷲ نے اختیار دیا ہوا ہے، اس کو مثبت استعمال کریں۔ ایک
دوسرے کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیں۔ اپنی تنخواہیں
تو چار سو فیصد بڑھا دیں جبکہ ہر ہر سہولت بھی آپ کو میسر ہے۔ لیکن جس عوام
کو ہر سہولت درکار ہے، ان کی تنخواہ میں کیا اضافہ ہو گا، یہی کوئی دس سے
بیس فیصد۔ ان الفاظ کے ساتھ کہ خسارے کا بجٹ ہے۔ اگر آپ لوگ اپنی تنخواہیں
کم کر دو، یا بالکل نہ لو تو کیا حرج پڑتا ہے، باقی تو ساری سہولیات آپ کے
پاس ہیں۔ آپ ذرا ان لوگون کے بارے میں سوچیے جو فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور دن
کو محنت مزدوری کرکے، جو کبھی ملتی ہے، کبھی نہیں، اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ آ پ
نے اگر اپنی عاقبت، آخرت سنوارنی ہے تو یہی لوگ آپ کی گواہی دیں گے۔ ان کی
گواہی کو اپنے حق میں کرائیں۔ ورنہ خدا کی لاٹھی بہت بے آواز ہے۔ |