اَب اِس بات سے حکمران لاکھ انکار کرنا بھی
چاہیں تو بھی یہ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ رپورٹ جو آج میرے کالم کے تحریر
کرنے کی وجہ بنی ہے وہ کسی غیر ملکی ادارے کی نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے
حساس اداروں کی مرتب کردہ (خطرے کا الارم بجاتے) ایک ایسی وارننگ نما رپورٹ
ہے جو اِن تمام حقائق کو ہی مدِنظر رکھ کر بنائی گئی ہے جس کی جیتی جاگتی
تصویر آج ہمارا ملک پیش کر رہا ہے مگر معاف کیجئے گا کہ ہمارے حکمران اور
سیاستدان اِس سے بھی اپنا منہ چرا رہے ہیں اور یہ گاتے پھر رہے ہیں کہ ملک
میں چاروں طرف خوشحالی کا دور رورہ ہے مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن سب کے
سب حکومتی کنٹرول میں ہیں اور اِسی طرح آج حکومتی اراکین یہ بھی کہتے نہیں
تھک رہے کہ ہم نے ملک سے غربت اور بھوک و افلاس کا خاتمہ کر دیا ہے اور سب
کچھ ٹھیک ہے۔ اگرچہ پوری پاکستانی قوم یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتی اور
سمجھتی ہے اور یہ اِس سے بھی انکار نہیں کر رہی ہے کہ ہمارے حکمران اِس
رپورٹ پر من و عن کسی حد تک یقین بھی کرلیں گے... کہ یہ رپورٹ جو ہمارے
حساس اداروں نے حکومت کو دی ہے وہ سچائی کے جذبوں کے تحت نہایت ہی نیک نیتی
کے ساتھ مرتب کی گئی ہے مگر اِس کے ساتھ ہی افسوس کی بات تو یہ ہوگی کہ اِس
کے باوجود بھی ہمارے اپنے اپنے چکّروں میں پڑے حکمران اور سیاستدان اِس
سارے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے اور اِس کی حساسیت کے باوجود بھی
ہمارے یہی حکمران اور سیاستدان دانستہ طور پر کسی ایسے لمحے کا انتظار کریں
گے.....؟ جب ملکی حالات وہی رُخ اختیار کر جائیں گے جس کا تذکرہ ہمارے حساس
اداروں نے اپنی اِس رپورٹ میں جا بجا کیا ہے تو پھر ہمارے حکمران اور
سیاستدان اپنی تباہی اور بربادی کا ڈھنڈورا ہاتھوں میں لئے اپنا منہ پیٹے
دوڑتے پھریں گے.....کہ یہ ہم نے کیا کر لیا....؟اگر بروقت اِس رپورٹ کی
نزاکت اور اِس کی حساسیت کو سنجیدگی سے چھان پھٹک لیتے تو شائد یہ دن ہرگز
نہ دیکھنے پڑتے جس سے پورا پاکستان اَب دوچار ہوچکا ہے۔ خبر یہ ہے کہ جِسے
ملک کے ایک موقر اخبار نے گزشتہ دنوں اپنے صفحہ اوّل پر اپنے نمائندے کے
نام کے ساتھ ایک رپورٹ شائع کی ہے جو اپنے ہی ملک کے حساس اداروں کی تیار
کردہ ہے جو حکمرانوں کے لئے یقیناً کسی وارننگ سے کم نہیں ہے تو وہیں یہ
رپورٹ ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام کے لئے بھی فکر کا باعث ہے کہ ملکی حساس
اداروں نے وزیر اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر میں ملکی حالات و واقعات سے متعلق
ترجیحی بنیادوں پر ایک ایسی وارننگ رپورٹ مرتب کر کے بھیجی ہے جس میں ملک
میں معاشی بدحالی کا حوالہ دیتے ہوئے واضح طور پر یہ تحریر کیا گیا ہے کہ
ملک کے 13علاقوں میں معاشی بدحالی اور غربت کے باعث خانہ جنگی کا شدید خطرہ
ہے اور اِس رپورٹ میں ملک میں گزشتہ تین ماہ سے(اور اِن سطور کے تحریر کرنے
تک )غربت اور بھوک و افلاس کی وجہ سے ہونے والے خودکشیوں کے واقعات کا
احاطہ کرتے ہوئے بالخصوص صوبہ سندھ اور پنجاب کے اُن علاقوں کی نشاندہی کی
گئی ہے جن میں غربت اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے اِن
علاقوں کی صُورتحال تیزی سے اِنتہائی تشویشناک شکل اختیار کر رہی ہے۔ اگرچہ
یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس رپورٹ میں ہمارے حساس اداروں نے جذبہ حب الوطنی کے
تحت اِس کا بھی ذکر کرتے ہوئے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مشورہ دیتے ہوئے
کہا ہے کہ اِن علاقوں میں جہاں اَب تک حکومت کی جانب سے کوئی منصوبہ بندی
نہیں کی گئی ہے اِن علاقوں میں لوگوں کے مسائل فوری طور پر حل کرنے کے لئے
جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جبکہ خبر کے ذرائع کے مطابق
ہمارے حساس اداروں کی مذکورہ وارننگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے سرکاری
اداروں میں کام کرنے والے نچلے درجے کے ملازمین جو ملک میں بگڑتی ہوئی
معاشی بدحالی اور کرپشن کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے نفسیاتی امراض
میں مبتلا ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری اداروں جن میں لازمی سروسز کے
ملازمین سمیت بالخصوص ملک بھر کے محکمہ فائر بریگیڈ کے اہلکاروں کی
کارکردگی بھی بُری طرح سے متاثر ہو رہی ہے اور اِن سارے اپنی نوعیت کے اہم
نکات کے علاوہ حساس اداروں نے اپنی اِسی رپورٹ میں ملک کے سب سے بڑے تجارتی
اور دنیا کے بارہویں انٹرنشینل شہر کراچی میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری ٹارگٹ
کِلنگ کی شکل میں ہونے والے واقعات کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کا بھی
ترجیحی بنیادوں پر ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں قائم اِس کشیدگی کے
خاتمے کے لئے بھی حکومت کو جلد از جلد ایسے اقدامات انتہائی سنجیدگی سے
کرنے ہوں گے کہ شہرِ کراچی میں پھیلی ہوئی بدامنی کا خاتمہ ہو اور یہاں امن
و امان فوری طور پر قائم ہوسکے اوراِس کے ساتھ ساتھ ہمارے حساس اداروں نے
اپنی اِس رپورٹ میں ماضی میں وفاقی حکومت کو بھیجی گئی اپنی اِسی نوعیت کی
ایک اور رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِن اِنتہائی غربت زدہ
علاقوں کی نشاندہی کے باوجود بھی ماضی کی حکومت نے اِن متاثرہ علاقوں میں
کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن
علاقوں کی صُورتحال مزید تشویشناک ہوگئی ہے۔ اِس ساری صُورتحال کے سامنے
آجانے کے بعد اَب دیکھنا یہ ہے کہ اِس وارننگ نما رپورٹ میں جس طرح ہمارے
حساس اداروں نے تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے کر حقائق پر مبنی رپورٹ
مرتب کر کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جھنجوڑ دیا ہے اور اَب یہ لوگ اس
سارے معاملے کو کس طرح خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے نمٹاتے ہیں....؟یا
پھر اِس رپورٹ کو سُرخ فیتے کی نظر کر کے حسب روایت سرد مہری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے اُس وقت کا انتظار کریں گے کہ جب پانی سر سے بہت اُونچا ہوچکا
ہوگا.....؟؟؟؟بہرحال! اَب فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ ہمارے حکمران
اور سیاستدان ملک اور عوام کی بقا و سالمیت اور اِس کے استحکام کے لئے کتنے
مخلص ہیں۔ اور کتنے نہیں.... اور اُدھر ہی ایک دوسری خبر یہ بھی ہے کہ
پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو ایک خط لکھا ہے جس میں واضح طور پر عندیہ
دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ پنجاب میں رمضان المبار کی آمد سے قبل چینی کی
درآمد مکمل کرلی جائے اِس نے اِس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ قیمتیں بڑھانے
کی غرض سے چینی کی درآمد میں جان بوجھ کر تاخیری حربہ استعمال کیا جا رہا
ہے اور ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے پنجاب میں
اِمپورٹ ڈیوٹی کا نفاذ بھی عوام کے مفادات کے خلاف ہے جو کسی قومی المیے سے
کم نہیں ہے..... میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں پیدا ہونے والی گھمبیر صُورتحال
کے ذمہ دار بھی ہمارے حکمران، سیاستدان اور وفاقی حکومت ہے.(ختم شد) |