درد اور دوا
(Muhammad Altaf Shahid, )
انسانی تا ر یخ میں عہد فا رو قی کو
جو مقا م حاصل ہے وہ صبح قیامت تک قائم رہے گا ۔امیرا لمومنین حضر ت عمر فا
روق ؓ اپنے دورخلافت میں رعا یا کے اس قدر خیر خواہ تھے کہ قسم کھا کر فرما
تے تھے کہ اگر میری سلطنت میں کوئی کتا دریائے فرات کے کنارے پیاسا مر گیا
تو میں اﷲ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں گا ۔آپؓنے اپنے دور خلافت میں بہت سے
ادارے اور محکمے بنائے،اور تمام محکموں کے منتظمین کو احکامات صادرفرمائے
کہ وہ عوام کے خدمت گزار بن کر کام کر یں اورجوکوئی ایسا نہ کرتااس کی سخت
سر ز نش کرتے۔ان کے عہدخلافت میں خوشیوں کی ساعتیں بھی یوں گز ر گئیں جیسے
خو شی کی با ت نہ ہو۔ عہدحاضرمیں ہم اس دور کا تصور ہی کر تے ہیں کاش آج کے
حکمران بھی ہما رے حال سے با خبر رہتے وہ ہما رے درد کی دوا بنتے۔پاکستا ن
واحد وہ ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا،مگر مقدرطبقات نے اپنے مفادات
کیلئے اسلام کے سنہری اصول فراموش کردیے اورخودقومی وسائل پرقبضہ کرلیا جس
کے نتیجہ میں پاکستان زخموں سے چورہوگیا اوراس کے عوام روزایک نیا ستم سہنے
پرمجبورہوگئے۔پاکستان اوراس کے بدنصیب عوام کوہرروزکسی نہ کسی اندوہناک
سانحہ یاالمناک حادثہ کاسامنا کرناپڑرہا ہے۔کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میرے
مادروطن کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔جس طرف دیکھتی ہوں پر یشا نی ،بے چینی
اوربے یقینی کا سماں ہے۔اﷲ تعالیٰ کوتواہل پاکستان پرترس آتا ہے مگر اس کے
حکمرانوں کے سینوں میں شاید دل نہیں پتھر دھڑکتے ہیں ۔ہر طرف ایک نیا
امتحان اورایک طوفان ہے۔ملک میں دہشت گردی ،خود کش حملے،لوڈشیڈنگ،بجلی و
گیس کی بند ش،بے رو زگا ری ، غر بت،مہنگائی،بد عنوانی،تعلیم کی کمی،صحت کے
مسا ئل نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔آج ہم کس حا ل میں جی رہے
ہیں۔ہما را تو درد زبا ں پر بیاں نہیں ہو سکتا۔کوئی سننے کو تیا ر نہیں،ہما
رے منتخب کر دہ ہما رے نما ئند ے جو ہمیں اقتدار میں آکر بھو ل جا تے
ہیں۔پھروہ ہمارادردمحسوس کرتے ہیں ،نہ کوئی ہماری اشک شوئی کرتا ہے اورنہ
انہیں ہماری آواز سنائی دیتی ہے ۔
ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں امیرطبقات امیر سے امیر تر،اوربیچارے
غریب سے غریب تر ہو تے جار ہے ہیں۔عوام الناس ضر وریا ت زندگی کو تر س رہی
ہے،ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔مہنگا ئی کا طو فا ن تھم نہیں رہا، ضروریات
زندگی کی مصنوعی قلت اورٹریڈرز کی من مانی سنگین مسئلہ بن چکی ہے،مہنگا ئی
کے اس بڑھتے ہوئے طو فا ن نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،بھوک اور
غربت سے تنگ آکر لوگ خو د کشیا ں کر رہے ہیں۔مہنگائی پر تو کنٹرول دور کی
بات حکو مت نے مہنگائی میں پچھلی حکومت کو بھی پیچھے چھو ڑ دیا ہے۔اس وقت
سے سیا ست بھی تجا رت ہے،اس وقت ملک میں مسا ئل کے انبا ر لگے ہوئے ہیں
لیکن کوئی تو جہ دینے کو تیا ر نہیں۔کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف
حکمران اوران کے حواری ہی سکو ن کی زند گی گزار سکتے ہیں۔ملک کے حالات پر
نظر دوڑائیں تو ملک میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی،اس وقت پاکستا ن
میں دو طبقے آبا د ہیں،امیر اور غریب،امیر تو اپنا گز ر بسر کر لیتے
ہیں،جبکہ غریب عوام کی زندگی اجیر ن بن گئی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے
انھیں محروم کیا جا رہا ہے،ملک میں بجلی کی گھنٹوں تک غیر اعلانیہ لوڈ
شیڈنگ کے با عث عوام کا روزگار بری طرح سے متا ثر ہواہے،خاص طور پر محنت کش
طبقہ مشکلات کا شکار ہے۔ملک میں لو ڈ شیڈنگ میں کمی کے بجا ئے ملک میں بجلی
کا بحران دن بدن شدید ہوتا جا رہا ہے،فیکٹریاں اور کا رو بار جو زیادہ تر
بجلی کی مر ہون منت ہیں لوڈ شیڈنگ کی بند ش کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں،جس سے
بیروزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے،اور عوام کا کوئی پرسا ن حال نہیں
ہے۔بیروزگاری اور افلاس سے تنگ آکر لوگ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بیچ دیتے
ہیں۔بھو ک اور غر بت سے تنگ آکر لوگ خو د کشی پر مجبو ر ہو جا تے ہیں۔صرف
عوام ہی اس دلدل میں کیوں پس رہی ہے؟؟حکمر انوں کو کیوں نظر نہیں آتا۔قوم
کو روزانہ نو ید سنا ئی جا تی ہے،کہ بجلی کی پیداوار میں ہزاروں میگا واٹ
اضافے کے لیے معاہدے کر لئے گئے ہیں اور ایم او ایو پر دستخط کئے ہیں۔کیا
صرف دستخط ہی کئے گئے ہیں؟؟؟عوام کا کون مسیحا بنے گا؟؟دوسری طرف گیس کی
غیر اعلانیہ لو ڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔گیس کے بحران کا
سلسلہ روز بروزبڑھتاجا رہا ہے۔گیس کا پریشر کم ہو نے سے لو گوں کے گھروں کے
چو لہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ملک بھر میں گیس کا بحران شدت پکڑ گیا ہے۔طویل گیس
کی لو ڈ شیڈنگ کی زد میں شہر یوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔کھانا بنا نے میں
گھر یلو خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔گیس لوڈ شیڈنگ کی ستائی عوام نے
ایل پی جی سلنڈر حاصل کرنا شروع کئے ہیں۔ایل پی جی مافیا نے اس چیز کا
فائدہ اٹھا کر قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔جس کو روکنے کے لئے حکو متی گر
فت نہ ہونے کے برابر ہے۔گیس کے لو پر یشر اور بعض علا قوں میں عدم دستیابی
سے شہری متبا دل ایند ھن کے طور پر لکڑی اور کوئلے کا استعمال کر رہے
ہیں۔۔لکڑی اور کو ئلے کی طلب بڑھنے سے دکا ندا روں نے ان کی قیمتوں میں
خودسا ختہ اضافہ کر لیا ہے۔جس کی وجہ سے شہری حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ
گئی ہے۔صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے حال پر رحم کرے۔اور کتنی بجلیاں
گرانا باقی ہیں۔اوپر سے اتنے بل؟؟
حکومت کی رٹ کمزور نظر آرہی ہے۔اس جد ید دور میں بنیادی سہو لتوں سے محرومی
ہے۔تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔اور حصول تعلیم کے بغیر
ترقی ممکن نہیں۔معا شرے میں عدل و انصاف،میرٹ کی با لا دستی،اور پر امن
ماحو ل کا قیام تعلیم کے ساتھ ہے۔تدریسی عمل تو متا ثر ہو رہا ہے۔بجلی
دستیاب نہیں بچوں کے ہا تھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا دئے گئے ہیں۔بہتر تو یہ تھا
کہ لیپ ٹاپ کے بجائے غریب طلباء کے وظائف مقرر کئے جائیں۔تاکہ وہ تعلیم
حاصل کر کے مستقبل میں ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔حکومت کو چا ہئے کہ تعلیم
کی بہتری کے لئے مکمل اقدامات کرے۔کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔بہتر تعلیمی
نظام رائج کیا جا ئے۔حکومت تعلیم کے فروغ ،اور ملک کے نو نہالوں کو زیور
تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے بھر پور اقدامات کرے۔نئی نسل کو جدید تعلیم کے
ذریعے ہنر مند اور معا شرے کا بے مثال شہری بنانا حکومت․کی اولین تر جیح
ہے۔۔اس کے لئے بہتر ین حکمت عملیاں بنانی ہوں گی۔۔ملک میں اصلاحات کی ضرورت
ہے۔غوروفکر کی ضرورت ہے۔بہترین تعلیمی نظام کا قیا م عمل میں لایا
جائے۔۔تاکہ ملک و قوم کے لئے ترقی کی راہیں ہموار ہوں مشہور مقولہ ہے جا ن
ہے تو جہاں ہے۔صحت بہت بڑی نعمت ہے۔اس وقت ملک میں بہت سے علاقے ایسے
ہیں۔جہاں کوئی مر کز صحت مو جود نہیں ہے۔ڈسپنسر یاں نہ ہو نے کی وجہ سے
لوگوں کو صحت کے بے شمار مسائل ہیں۔صاف پا نی کی دستیابی نہ ہونے کے باعث
علاقے میں بہت ساری پیٹ کی بیما ریاں ہیں۔بر وقت علاج نہ ہونے کے باعث لوگ
لقمہ اجل بن رہے ہیں۔یہ کیسی حکمرانیت ہے کہ عوام کی پر واہ کئے بغیر جی
رہے ہیں؟کیا یہ حکمرا نیت ہے۔۔حکمران تو عوام کے درد کا مسیحا ہونا چا
ہئے۔آج انسا نیت مردہ ہو چکی ہے۔جس کا درد بس اسی کا درد باقی سب تما
شائی۔ملک میں کہیں بھی نظر دوڑائیں تو ہر طرف عوام بے بس ہے۔بھوک پھر تی ہے
ہما رے ملک میں موت تھری بچوں کے سامنے منہ کھول کر کھڑی ہے۔ کسی بھی شہری
کی زندگی بچانااوربیماری کی صورت میں اس کوجدیدطبی سہولیات فراہم کرنا
حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔جبکہ سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال حکام کی
بے بسی کاشاخسانہ ہے۔صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جا نب سے بہتری کی کو
ششوں کے تمام دعوؤں کے باوجود صورتحال میں کو ئی مثبت تبدیلی نظر نہیں
آتی،وفاقی اورسندھ کی صوبائی حکومت سندھ کو تھر کا مسئلہ مستقل طور پر حل
کرنا ہوگا۔ شاہراہوں کی بجائے شہریوں اورانہیں دستیاب سہولتوں پرخصوصی توجہ
دی جائے۔پاکستان میں ہر گھڑی مفلس اورنادارپاکستانیوں کیلئے آزمائش
اورابتلاء کی گھڑی کیوں ہے۔ انسانیت کا جذبہ اور فرض کی ادائیگی کاجذبہ
حکمرانوں کے ہاں ناپید ہے۔۔اگر ہم مختلف ممالک کی تا ریخ پر نظر دوڑاتے ہیں
تو ہمیں ہر ملک میں وقت کے ساتھ ساتھ تعمیری تبدیلیاں نظر آتی ہیں لیکن
پاکستان کے نظام میں کسی قسم کی کوئی بہتری نظر نہیں آتی، ان مسا ئل سے نجا
ت کس طرح ممکن ہے ،اگرخلوص اورنیک نیتی کے ساتھ آپس میں سرجوڑے جائیں
تومسائل کاپائیدارحل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔اگرسیاستدان انتخابی اتحاد
بناسکتے ہیں توان کے درمیان انقلابی اتحاد کیوں نہیں بن سکتا ۔ریا ستی
ادارے عوام کی شرکت کے بغیر اپنے فرائض درست طر یقے سے انجام نہیں دے
سکتے۔عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے مقامی سطح پر مشاورت بے حد ضروری ہے۔تاکہ
درست اوردوررس تر جیحات متعین کر کے قومی معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ ٹیکس
اداکرنیوالے شہری ریاستی اداروں کی خدمات کے بلاامتیاز مستحق ہیں۔ ہرشہری
ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون سے گریز کرنے کے بجائے ان کادست و بازو
بنے،خطہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے ۔سیاسی جماعتوں کومتفقہ قومی ایجنڈے پر
متحد ہونا ہوگا،سوچ بچار کے بعدٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگا ۔ ارباب اقتدار
اورریاستی اداروں کے سربراہان کو اپنی اپنی ذمہ داریاں با احسن نبھاناہوں
گی۔پاکستان کی عوام میں عزم اورامید بھی ،انہیں شکست نہیں دی جاسکتی ۔تاہم
عوام کوبھی علم ہے کہ جولوگ انہیں درددے رہے ہیں وہ د وانہیں دے سکتے ۔ |
|