اجیرن زندگی!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
جناب اسحاق ڈار نے پاکستانیوں کی زندگیاں
اجیرن بنانے کی خبر دے دی ہے، مگر اُن لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
جو ٹیکس دیتے ہیں، انہوں نے زندگی اجیرن بنانے کا اعلان ان لوگوں کے لئے
کیا ہے جو ٹیکس نہیں دیتے۔یہ خبر تو عام ہے کہ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد
میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں۔ اسحاق ڈار نے یہ
خوشخبری بھی دی ہے کہ نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ اگرچہ یہ خبر خوشی سے
لوٹ پوٹ ہوجانے کی ہے، مگر کیا کیجئے کہ حکومتی دعووں اور وعدوں پر یقین
کرنا بھی اتنا آسان نہیں۔ ہر بار بتایا جاتا ہے کہ نئے ٹیکس نہیں لگیں گے،
مگر وہ لگ جاتے ہیں۔ اسحاق ڈار حکومت میں وزیراعظم کے بعد اہم ترین فرد ہیں،
ان کی اہمیت کی دو اہم وجوہ ہیں، ایک یہ کہ وہ خزانے کے وزیر ہیں، دوسرا یہ
کہ وہ وزیراعظم کے قریبی عزیز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانامہ لیکس کے ہنگامے کے
بعد جب وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے لندن تشریف لے
گئے تھے تو اُن کی غیر موجودگی میں قوم کو یہی بتایا گیا تھا کہ اسحاق ڈار
ہی معاملات کی نگرانی کریں گے۔ اسحاق ڈار کی باتیں ظاہر ہے عام آدمی کی
سمجھ میں آنے والی نہیں ہوتیں، کیونکہ حساب کتاب اور بجٹ کی گتھیاں سلجھانا
عام آدمی کا کام بھی نہیں۔ بجٹ کو ہمیشہ الفاظ کا گورکھ دھندہ کہا جاتا ہے،
جس کی عوام کی اکثریت کو سمجھ نہیں آتی۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھنے،
مہنگائی کا طوفان آنے اور غریب کی پریشانیوں میں اضافہ ہونے کے باوجود قوم
کو بڑے ہی اعتماد کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ ان اقدامات کا عام آدمی پر کوئی
اثر نہیں پڑے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا ’’عام آدمی‘‘ تلاشِ بسیار کے
باوجود کبھی کسی کو نہیں مل سکا۔ عام آدمی پر اثرانداز ہونے کا معاملہ تو
ابھی کچھ دن بعد آئے گا، مگر بجٹ سے قبل کی خبر یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے
والوں کی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی۔
ڈار صاحب! یہاں اجیرن زندگیوں کا بوجھ اٹھا کے پھرنے والوں کی پہلے ہی
بہتات ہے، کبھی آپ کو پروٹوکول، مراعات اور بے حدو حساب سہولتوں سے فرصت
ملے تو آپ دیکھیں کہ ہر روز کے اخبارات میں کس قدر خود کشیوں کی خبریں آتی
ہیں، کتنے لوگ ہیں جو سڑکوں اور عوامی مقامات پر بھیک مانگ رہے ہیں، کوئی
فرد کسی مارکیٹ وغیرہ کے سامنے رکتا ہے تو ایک منٹ کے اندر اس کے سامنے دستِ
سوال دراز ملتا ہے۔ ایسے(خواتین و حضرات معہ بچگان) بھکاری بھی میدان میں
آچکے ہیں جو صاف ستھرے کپڑے پہن کر سڑک کے کنارے تادیر کھڑے رہتے ہیں، اور
رات دیر گئے منظر سے غائب ہوتے ہیں، بعض خواتین کے پاس تو ایک سے تین تک
بچے بھی ہوتے ہیں، جو یا کبھی بیٹھے ہوتے ہیں یا اکثر سوئے ہوئے ہی ملتے
ہیں۔ کبھی باہر کی حقیقت کو سنجیدگی سے محسوس کیجئے جہاں کروڑوں بچے سکول
کا منہ دیکھنے کی پوزیشن میں ہی نہیں، دراصل تعلیم کے لئے بجٹ موجود نہیں،
اگر ہے تو وہ میگا پراجیکٹس کا حصہ ہے۔ لیپ ٹاپ لٹانے اور دانش سکول بنانے
کے لئے ہے۔ کبھی آؤٹ آف بچوں کو دیکھیں، ان کی آنکھوں میں جھانکیں، ان کو
سکول لانے کے دعوے خاک ہو چکے ہیں۔
آپ ٹیکس نادہندگان کی زندگی اجیرن ضرور کیجئے، مگر یہاں تو نصف سے زیادہ
آبادی کی زندگیاں پہلے سے ہی اجیرن ہیں، ان کے گھر کے اخراجات پورے نہیں
ہوتے اور اوپر سے بجلی کے بے پناہ بل آجاتے ہیں، ان کو ایک ایک چیز پر ٹیکس
دینا ہوتا ہے۔ ٹیکس نادہندگان تو آپ لوگوں کی ناک کے نیچے بھی بیٹھے ہوتے
ہیں، خود ارکان اسمبلی بھی اس معاملے میں اثاثے چھپاتے ہیں، کتنے ہیں جو
ٹیکس کے گوشوارے اس وقت جمع کرواتے ہیں جب ان کی رکنیت معطل ہو جاتی ہے۔
ٹیکس نادہندگان کو پکڑنا کونسا مشکل ہے، بہت بڑے گھر، بہت بڑی گاڑی اور بہت
بڑا کاروبار دیکھ کر حساب لیجئے، سب کچھ سامنے آجائے گا، مگر ان میں بہت سے
لوگ آپ کے اپنے ہونگے، اس لئے معاملہ پر پردہ ڈالنا پڑتا ہے۔سرمایہ داروں
کوگردن سے پکڑ کر ٹیکس نیٹ میں لائیے،مگر ا ن کی زندگی بھی آپ اجیرن نہیں
بنا سکتے، وہ ٹیکس وصولنے والے محکمے کے اہلکاروں کی جیب گرم کرکے بچ نکلیں
گے۔ ہاں یہاں ان کی زندگی بھی اجیرن ہے جو اپنے گھر کے اخراجات بمشکل پورے
کرتے ہیں اور انکم ٹیکس والے ان کے سر پر سوار رہتے ہیں۔ ڈار صاحب ! ٹیکس
نادہندگان کی زندگیاں اجیرن نہ بنانے کی بجائے ان سے ٹیکس وصول کیجئے۔پھر
ٹیکس کی آمدنی اپنی عیاشیوں اور مراعات پر لگانے کی بجائے ملک اور عوام کی
بہبود پر لگائیے۔ |
|