یومِ تکبیر تک کا سفر۔۔!!!
(Haseeb Aijaz Ashir, Dubai)
۲۸ مئی کے اسپیشل ایڈیشن کے لئے ’’یومِ تکبیر کے حوالے سے خصوصی تحریر۔۔۔ |
|
قوم کی بے چینی، اضطرابی ،ہاراورجیت،زندگی
اور موت کی کشمکش نے دم توڑا جب ۲۸ مئی کو پُرسکون جگمگاتے دن کا آغاز نئی
جیت اور نئی زندگی کیساتھ ہوا، سورج ڈھلنے سے پہلے دنیا پاکستان کے صوبہ
بلوچستان کے ضلع چاغی کے سیاہ و سنگلاخ پہاڑوں کو پیلے زرد رنگوں میں
نکھرتے ،بکھرتے اور اُڑتے دیکھ رہی تھی اور فضاتکبیر کے فلک شگاف نعروں سے
گونج رہا تھا،ایک کمسن کی رگوں میں بھی خون جوش مار رہا تھااورتن بدن کی
گرمائش سے اُسکا چہرہ بھی سرخ گلابی ہو رہا تھا،آنکھیں نم تھیں اور لبوں پے
بے ساختہ اﷲ اکبر اﷲ اکبر کا وردبھی جاری تھا، عجب سی کیفیت تھی،یہ فطری
جذبہ حب الوطنی ہی تھی ورنہ آٹھ سال کے بچے کو وطن اور اِس سے محبت اور پھر
محبت میں ایسی شدت کی کیا خبر؟۔۔۔۔۔۔نعرہ تکبیر’’اﷲ اکبر‘‘ کی روح پرور
صدائیں میری سماعتوں سے مدھم ہونے کو نہ تھی شاید یہی وجہ تھی کہ’’۲۸ مئی
کو ایٹمی دھماکوں‘‘پر نام تجویز کرنے کے حوالے سے وزیرِاعظم پاکستان میاں
محمد نواز شریف کی اپیل پر دل و دماغ میں ایک ہی نام ’’یومِ تکبیر‘‘ نقش بن
کر اُبھرا۔ملک بھر سے کروڑوں نام تجویز کئے گئے ۔مگر ٹی وی پرمیرا تجویز
کردہ نام ’’یومِ تکبیر‘‘ منتخب ہونے کا اعلان ہوا تو میری خوشی قابل دید
تھی۔والد ہ نے ماتھا چوتے ہوئے کہا کہ ’’مجتبی ،ہمیں تم پر فخر ہے‘‘۔
تحریری دعوت نامے پر پی ٹی وی کے زیرِاہتمام ایک تقریب میں شرکت کی اور
مجھے بدستِ ممنون حسین اور معین الدین حیدر کے وزیرِاعظم کی جانب سے
سنداعزاز سے نوازا گیا۔یہ میری زندگی کا بہت بڑا دن تھا۔اُن تاریخی لمحات
کا تذکرہ کرتے ہوئے مجتبی رفیق آج بھی آبدیدہ ہوگیااور جذباتی انداز میں فی
الفور اپنے کندھے پے لٹکے بیگ سے وہ سندِاعزاز اوروزیرِ اعظم کا خط ہمارے
سامنے ٹیبل پر رکھ دیئے۔سند پر رقم ہے ’’جناب مجتبے رفیق(کراچی)۔۔الحمداﷲ۔۔۲۸
مئی ۱۹۹۸ کو پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ اِس تاریخ ساز دن کو ہر سال منانے کے
لئے آپ نے ’’یومِ تکبیر‘‘ نام تجویز کر کے قومی خدمت انجام دی ہے۔ میں
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اِس قومی خدمت کا اعتراف
کرتے ہوئے آپ کو سند اعزاز عطا کرتا ہوں۔۔محمد نواز شریف(وزیرِاعظم اسلامی
جمہوریہ پاکستان)‘‘۔۔جبکہ وزیرِاعظم کے دستخط کیساتھ تین پیراگراف پر مشتمل
تحریری خط کے آخری الفاظ ہیں ’’امید ہے کہ روشنی کے اس سفر میں مجھے آپ کا
بھرپور تعاون حاصل رہے گا‘‘۔
’’یومِ تکبیر‘‘ نام تجویز کرنے والے ہیرو مجتبی رفیق کے معصومانہ تاثرات تک
ہی’’یومِ تکبیر تک کا سفر‘‘ محدود نہیں۔بلکہ ماضی کے اوراق پلٹے جائیں تو
مسلم ممالک کو پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنانے والے پاکستانی
ہیروز اور یومِ تکبیر تک کی داستانِ سفر قابلِ رشک بھی ہے اور بہت کٹھن بھی
،پا کستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دینے والے عظیم کرداروں کو جتنا بھی
خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔۔سفر کا آغاز ہوتا ہے قائداعظم کی ۱۹۴۸ میں
گورنمنٹ کالج لاہور میں ’’ہائی ٹینشن ہیبارٹری‘‘ کی رکھی گئی بنیاد
سے۔سلسلہ بڑھا توڈاکٹر نذیر احمد کی سربراہی میں ۱۹۵۵میں ’’ایٹم برائے امن‘‘
کے پروگرام کے تحت کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ یوں ڈاکٹر نذیر احمد کی ہی سربراہی
میں’’اٹامک انرجی کونسل‘‘ کا قیام ۱۹۵۶ میں عمل میں لایا گیا۔پھر ڈاکٹر
عشرت عثمانی کو کمیشن کا ۱۹۶۰ میں چیئرمین بنایا گیا تو ۶۰۰ بہترین نوجوان
پاکستانی طلباء کو ۱۹۶۰ سے ۱۹۶۷ کے دوران تربیت کے لئے بیرون ملک بھیجا
گیااور ایک سو چھ پی ایچ ڈی کے وطن عزیز لوٹے اور ایٹمی تحقیق کی ٹیم میں
شامل ہوئے۔پھرجذبہ حب الوطنی سے سرشار ذوالفقار علی بھٹو شہید کاولولہ و
جنون اِس یومِ تکبیر تک کے سفر میں شامل ہوتا ہے ،۱۹۶۵ میں شہید بھٹو نے
کہا تھاکہ ’’ ہم گھاس لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گیــ‘‘۔ امریکی وزیر
خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی بھی دی کہ ایٹمی پالیسی ختم نہ کرنے کی
صورت پر انہیں عبرتناک مثال بنا دیا جائیگا۔بھٹو کی اسلامی ممالک کی جانب
دوستانہ رویے کی بدولت۱۹۷۰ میں بلین ڈالر ایران اور سعودیہ عرب کی طرف سے
آئے۔بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’جب میں نے پاکستان اٹامک انرجی
کمشن کا چارج سنبھالا تو یہ ایک سائن بورڈ اور دفتر کے علاوہ کچھ نہیں
تھا۔میں نے اپنے ملک کیلئے ایٹمی توانائی حاصل کرنے کی خاطر اپنی فطری
توانائیاں صرف کرنے کا قصد کر لیا‘‘۔بھٹو نے ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ کو پاکستان کے
مایہ ناز پچاس سائنسدانوں کو ایک پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تیزتر
کرنے کیلئے اکٹھا کیا تا کہ ساوتھ ایشیا میں طاقت میں توازن قائم کیا جا
سکے۔پھر یوم تکبیر تک کے سفر میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شرکت
ایک نئا جوش پیدا کرتا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر وطنِ عزیز میں
واپس لوٹے تھے اور ۳۱ مئی۱۹۷۲ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے
قائم کردہ ’’انجیئنرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ میں اپنی خدمات پیش کرنے کا آغاز
کیا ۔ ۸ سالوں کی قلیل مدت میں ایٹمی پلانٹ کی تنصیب کو عملی شکل دے کر
عبدالقدیر خان نے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے جنرل ضیاء الحق کو دسمبر ۱۹۸۴ کو ایٹمی صلاحیت کے سبھی
کولڈ ٹیسٹ کامیاب ہونے کے بارے اِس سگنل کیساتھ آگاہ کر دیا تھا کہ دس دن
میں پاکستان باقاعدہ ایٹمی طاقت ہونے کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔منیراحمد خان نے
فروری ۱۹۷۵ میں پلوٹونیم اور یورینیم اور دیگر متعلقہ منصوبوں کے لئے
ذوالفقار علی بھٹو کے لئے ۴۵۰ ڈالر منظور کروا لئے تھے۔بھٹو کی دورحکومت
میں ڈیرہ غازی خان، کراچی، اسلام آباد، کہوٹہ اور چکلالا سمیت کئی اہم
مقامات پر یورینیم کی افزودگی کیلئے پلانٹ لگائے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد یومِ تکبیر تک کے سفر میں جنرل ضیاء
الحق نے بھی ایٹمی پروگرام میں کوئی رکاوٹ حائل نہ کی اور اِسے پورے آب و
تاب کے ساتھ جاری رکھا۔۱۸ جنوری ۱۹۸۷ کو یہ خبر پھیلی کہ انڈیا نے پنجاب
میں اپنی بھارتیا وایوسینا کی مدد سے اپنے کمانڈوز اتارنے کا منصوبہ بنا
لیا ہے تب جنرل ضیاء الحق نے ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کا سہار لیتے ہوئے بھارت کا
وزٹ کیااور اندراگاندھی کے کان میں کہا کہ ’’پٹاخہ ہمارے پاس بھی ہے‘‘تو
بھارت کا جنگی جنون اپنی موت آپ مر گیا اور بھارتی فوجوں نے واپسی کا رخ
کیا۔۱مئی ۱۹۸۱ میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اِ س لیبارٹری کو
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے منسوب کردیا ۔’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ
لیبارٹریز‘‘ یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے بہت مقبول ہے ۔اسی خدمات کے
اعتراف میں کراچی یونیورسٹی ۱۹۹۳ کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ڈاکٹر
آف سائنسدان کی اعزازی سند سے نواز ا گیا۔۱۹۹۶ میں نشانِ امتیاز اور ۱۹۸۹
اور ۱۹۹۹ میں بھی ہلالِ امتیاز انکا مقدر ہوئے ۔سابق سفیر پاکستان میاں
عبدالوحید نے اپنی خودنوشت میں سفارت خانوں کے ایٹم بم کے حصول کے حوالے سے
سبھی کرداروں کو بڑی تفصیل کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔انہوں نے ان تمام خبروں
کو جھوٹا قرار دیا ہے کہ ایٹمی پلانٹ میں نصب مشینری کو غیر قانونی طریقہ
سے حاصل کیا گیا تھا۔میاں عبدالوحید نے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی آمد سے قبل
اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے کئی اہم انکشافات بھی
کئے ہیں ۔
آخرکار فیصلہ کن گھڑیاں آن پہنچیں۔۔۱۱ مئی ۱۹۹۸ کو بھارتی ایٹمی تجربات کے
بعد یومِ تکبیر تک کا سفر اپنی درِ منزل پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف
کے ہاتھوں اپنی تقدیر کے فیصلے کا منتظر تھا۔۔صدر پاکستان مسلم لیگ(ن)چ گلف
چوہدری نورالحسن تنویر اپنے تنصیف ’’میرا قائد ‘‘ میں بھارت کے ایٹمی
دھماکوں کے جواب میں حالات کچھ اِس طرح قلم بند کرتے ہیں کہ ۲۷ مئی کی شام
وزیرِاعظم ہاؤس میں عجیب سماں تھا فوج کے تمام بڑے بڑے افسران وزیرِاعظم
ہاؤس میں جمع تھے ۔ میرے قائد کے بہت قریبی ساتھیوں کا بیان ہے کہ کئی
افسران نے پوری طرح قائد محترم کو مجبور کیا تھا کہ ابھی بھارت کے ایٹمی
دھماکوں کا جواب نہ دیں مگر میرے قائد کسی جواز کو سننے کیلئے تیار نہ
تھے۔اوہ صدر بل کلنٹن کی ۵ بلین ڈالر کے اقتصادی پیکج اور ۱۰۰ ملین ڈالر کی
ذاتی آفر کو پہلے ہی ٹھکرا چکے تھے۔یہی تھی عوامی جذبات کی حقیقی ترجمانی ،بہرحال
وزیرِاعظم ہاؤس میں عجیب سی کیفیت تھی یونہی تڑپاؤ اور تناؤ کی صورت میں
ساری رات بیت گئی۔جونہی صبح کی اذان ہوئی قائد محترم نے اپنی امامت میں
ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہمیں کچھ آرام کرنے کا کہہ کر خود اپنے کمرے میں
چلے گئے۔پھر کچھ ہی دیر بعد ہمیں ان کے کمرے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی
دی وہ ہمیں تو کچھ آرام کا مشورہ دے کر گئے تھے اور خود آرام کرنے کی بجائے
خوش الحانی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے، پھر جونہی ۲۸ مئی کا
سورج طلوع ہوا۔ قائد تمتماتے چہرے کے ساتھ اپنے کمرے سے نمودار ہوئے اور
پورے جاہ و جلال کے ساتھ ہمیں یہ نوید سنائی کہ ’’ایٹمی دھماکہ آج ہو گا
اور ہر صورت ہوگا‘‘۔
دوسری طرف چاغی کے منظر نامے کو کامران امین (پرسٹن انسٹیٹوٹ آف نینو
سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد) نے اپنے ایک مفصل تحقیقی مضمون میں کچھ
یوں لکھتے ہیں کہ’’ چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔گراؤنڈ
زیرو(ایٹمی دھماکے والے علاقے) سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹا
لیا گیا تھا۔۲ بج کر ۳۰ منٹ پر پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد،
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جاوید ارشد مرزا اور فرخ نسیم بھی وہاں موجود تھے،
تین بجے تک ساری کلیئرنس دی جا چکی تھی۔ پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے
محمد ارشد کو جنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین‘‘ڈیزائن کی تھی بٹن دبانے کی ذمہ داری
دی گئی۔تین بج کر سولہ منٹ پر محمد ارشد نے جب ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صدا بلند
کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہو
گئے۔بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا۔۔۔یہ بیس سال پر مشتمل
سفر کی آخری منزل تھی یہ بے یقینی اور شک کے لمحات سے گزر کر، مشکلات اور
مصائب پر فتح پانے کا لمحہ تھا۔جونہی پہاڑ سے دھوئیں اور گرد کے بادل اٹھے
آبزرویشن پوسٹ نے بھی جنبش کی۔ پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوا اور ٹیم کے ارکان نے
اپنی جبینیں، سجدہ شکر بجالاتے ہوئے خاک بوس کر دیں۔۔۔۔پاکستان بالآخر مسلم
دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا تھا‘‘۔یاد رہے کہ میاں نواز شریف ۱۷ مئی کو
ڈاکٹر ثمر مبارک اور اشفاق احمد کو ایک ملاقات میں ایٹمی دھماکوں کے لئے
تیار رہنے کا سگنل دے چکے تھے۔
یو ایس سنٹرل کمال کے سابق سربراہ جنرل زینی نے اپنی تنصیف ’’بیٹل ریڈی‘‘
میں مفصل قلم بند کیا ہے کہ بل کلٹن کی ہدایت پر ڈیفنس منسٹر ولیم کوہن کی
قیادت میں وفد ٹمپا کے ہوائی اڈے پر تیار، اسلام آباد سے گرین سگنل کے
منتظر رہے۔جہانگیر کرامت کی کاوششوں سے وزیرِ اعظم نے نواز شریف نے اسلام
آباد میں لینڈنگ پر رضامندی کا اظہار تو کر دیا مگر انکی کوششیں میاں نواز
شریف کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے میں بالکل ناکام رہ گئیں۔بل کلٹن نے ۲۵ منٹ
جاری رہنے والی ٹیلیفونک گفتگو میں میاں نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے
پر زور دیا مگر وزیرِاعظم پاکستان نے انکی آٹھ کالز پر انکار کیا جسے کلٹن
نے اپنی سوانح حیات میں کچھ اِس طرح لکھا ہے کہ ــ’’نواز شریف نے کہا کہ
میں نے اگر دھماکہ نہ کیا تو عوام میرا دھماکہ کر دے گی‘‘۔ٹونی بلیئر سمیت
کئی دیگر ممالک کے سربراہان کی ٹیلی فون کالز بھی وزیرِاعظم کو اپنے دو ٹوک
موقف سے نہیں ہٹا سکیں۔سعودی مفتی اعظم نے عبدالقدیر خان کو اسلامی دنیا کا
ہیرو قراردیا۔مغربی دنیا نے پاکستان کے ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ کے نام دے
کر ایک نئا پروپیگنڈاا شروع کر دیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اپنے خط
بنام وزیراعظم ِمیں ایٹمی دھماکوں کے بروقت فیصلے پر خراجِ تحسین پیش کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ہم سب نے ایک دن اس دنیا کو خیرباد کہنا ہے لیکن تاریخ
آئندہ نسلوں کو یہ یاد دہانی کراتی رہے گی کہ نواز شریف نے پاکستان کے
وجود، آزادی اور وقار کو اپنی حکمرانی پر ترجیح دی۔پانچ چاغی کے پہاڑوں میں
اور چھٹا خاران کی پہاڑوں میں کئے جانے والے ایٹمی دھماکے کے فیصلے کے
حوالے سے جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ہاں! میں باغی ہوں‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’نواز شریف ۔۔پاکستان از پراوڈ آف یو‘‘۔
یوم تکبیر تک کا سفر جتنا کٹھن تھا اُتنا دلخراش بھی،جن پاکستان کے عظیم
فرزندوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا یاانہیں تو خراجِ تحسین
پیش کیا جانا چاہیے تھا ، ماتھے کا جھومر سر کا تاج بنانا چاہیے تھا ،اُن
محسنوں کے ساتھ ہماری آنکھوں نے کیا کیا ہوتے نہ دیکھا۔بھٹو کو ۱۹۷۹ کو
تختہ دار پر لٹکتے دیکھا تو اُف تک نہ کیا ۔ضیاء الحق کے طیارے کو ہماری
آنکھیں ایک سازش کے تحت تباہ ہوتے دیکھتی رہیں ۔جسکے حوالے سے مورخ اب بھی
بے شمار سوالات کے جواب کی تلاش میں ہے ۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کو تاریخ ساز دو
تہائی مینڈیٹ لینے والے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کر کے ملیرجیل کے
۱۲۔۱۰ کے ایک کمرے میں منتقل ہوتے بھی ہم نے دیکھا ہے۔ایک بار پھر اقتدارا
نکا مقدر بنا ہے مگر سازشیں آب بھی تعاقب میں ہیں۔پرویز مشرف کی دورِ حکومت
میں پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کے حصول کے حوالے سے اہم معلومات دوسرے ممالک
کو مہیا کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تو قوم و ملت کے عظیم تر مفاد
میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اِن الزمات کے تیروں کے لئے اپنا
فولادی سینا پیش کرتے ہوئے وہ گناہ تسلیم کرتے ہوئے بھی دیکھا جو ان سے
سرزد ہی نہ ہوا تھا ۔اختتام اُسی نواجوان پرجس سے آغاز ہوا۔ مجتبی رفیق
پوسٹ گریجویٹ کر کے لندن سے پاکستان تو لوٹ چکے اور اب ہم انہیں باعزت
روزگار کے حصول کی جستجو میں گلیوں کی دھول اُڑاتے دیکھ رہے ہیں مگر کہیں
سنوائی نہیں۔اس امید کے ساتھ پچھلے دو ماہ سے لاہور میں قیام پذیراِس
جدوجہد میں ہیں کہ شایدکوئی حکمرانوں تک اِن کی سوالیہ آنکھوں کی بے بس
پکار پہنچا دے کہ’’یقینا روشنی کے ہرسفر میں آپ کو میرا بھرپور تعاون حاصل
رہے گا‘‘مگر مجھے۔۔۔۔۔۔؟؟
|
|