کوئی تین ماہ قبل او باما نے کہا تھا
کہ پاکستان میں اگلے دو عشروں یا شاید ایک عشرے تک امن و امان قائم نہیں ہو
سکے گا ۔ یہ گو یا آنے والے دنون کی حقیقی تصویر تھی جو اوباما نے پیش کی
تھی جسے ہم نے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ ضرب غضب کی کامیابی کے بعد یہ
محض بیان ہے ۔مگر معلوم نہیں ہم یہ کیوں فراموش کر بیٹھے کہ بھارت امریکا
کا بڑھتا رومانس ، امریکہ کی ایران پر مہربانیاں ، سعودی عرب سے دوریاں ،اور
پاکستان سے اٹھکیلیاں کوئی اچھی خبریں تھیں نہ ہیں ۔ حالیہ ڈرون حملہ اور
پاکستان میں جاری پانامہ پیپرز کا بحران اوبامہ کے اسی اعلان کی ایک ہلکی
سی جھلک ہے جو آنے والے دنوں میں اور گہری ہوتی چلی جائے گی ۔ پاکستان کی
کمزور سول حکومت اندرونی و بیرونی سازشوں کے سامنے بے بس و لاچار ہے ۔
اقتصادی راہداری کو نا کام بنانے کے لیے تمام قوتیں خم ٹھوک کر میدان میں
آئیں اور ہم خانہ جنگی کا شکار ہیں ۔
حکمران جماعت بلکہ حکمران خاندان کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں ۔ اپوزیشن
کا بے لچک رویہ مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ضرورت تھی کہ سول حکومت کو پانچ
سال پورے کرنے دیے جاتے مگر پانامہ پیپرز سیکنڈل نے حکومت کو ’’ نِسل ‘‘ کر
دیا ہے ۔
حکمران جماعت کے تعلقات اپوزیشن سے اچھے ہیں نا فوج سے ۔عجیب ستم ظریفی ہے
کہ سول حکومتیں اپنی کامیابی کے لیے اپنے ہی ماتحت اِدارے کی طرف دیکھتی
ہیں ۔خیال کیا جاتا ہے دونوں میں اختلاف کی وجہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی نو
عیت ہے ۔ قیاس یہ بھی کیا جا سکتا کہ سول حکومت گذشتہ ہونے والی جنگوں سے
سبق سیکھتے ہوئے اس قسم کی مزید مہم جوئی سے بچنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف
اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں کیا جاتا ۔قیاس اور اندازے یہی ہیں کہ دونوں
میں اختلاف کی وجہ یہی معاملہ ہے ۔اگرچہ بھارت نے پاکستان کی پر امن رہنے
خواہش کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی اور پاکستان جب بھی اپنے دفاع کے لیے یا
اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو مقابلے میں بھارت کچھ نہ
کچھ ضرور کرتا ہے جس کی تازہ ترین مثال ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر
چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر پر بھارت کی طرف سے پچاس کروڑ ڈالر کی سرمایہ
کاری ہے ۔ ایک وقت تھا بھارت ہمارے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرتا تھا اور
ہمیں اس کے تَرلے نہیں کرنے پڑتے تھے مگر کمزور سیاسی حکومتوں ،ناکام خارجہ
پالیسی اور بین الا قوامی سازشوں اور قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے اب حالات
بالکل مختلف ہیں ۔
اوباما نے تازہ ترین ڈرون اٹیک کے بعد پاکستان کے احتجاج پر کان نہ دھرتے
ہوئے یہ کہا ہے کہ امریکی مفادات کے لیے ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ اب ان
مفادات کا تعین بھی ہم نے نہیں کرنا کیو نکہ طاقت کا جادو سر چڑھ کر بول
رہا ہے اور دنیا کا اصول ہے کہ کمزور کی کوئی سنتا ہے نہ اس کی مدد کے لیے
کوئی آتا ہے ۔ طاقت کی عظمت کے سامنے سرے خم تسلیم کرنا ہی کمزوروں کی قسمت
ہے ۔ موجودہ صورت حال میں اس کا حل یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اگلے
بیس سال تک کے لیے تمام سیاسی اور غیر سیاسی ادارے آپس میں مل بیٹھیں اور
پاکستان خوشحال پالیسی بنا لی جائے پھر چاہے دشمن خون کی ندیاں بہا دے ہم
اپنے مقصد سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹیں ۔ امریکہ جیسے ملک میں معاملات صرف صدر
کے ہاتھ میں نہیں ہوتے وہاں بھی ’’ مخصوص طاقتیں ‘‘ ڈوری ہلاتی ہیں جس کو
تھنک ٹینک کا نام بھی دیا جاتا ہے مگر وہاں تو اپوزیشن جوش سے ذیادہ ہوش
مندی سے کام لیتی ہے دوسرا ایک وقت میں منتخب حکومت کے بعد اسی حکومت میں
’’ نئے انتخابات ‘‘ کے لیے پہلی حکومت کو بلیک میل نہیں کیا جاتا ۔تیسرا
وہاں الیکٹرانک میڈیا پاکستان کی طرح ’’ آزاد ‘‘ نہیں ہے کہ اپنے ہی ملک پر
چڑھ دوڑیں ۔ یہ مان لیا کہ حکومتی خاندان کرپٹ ہے مگر ابھی الزامات ثابت تو
نہیں ہوئے ۔اپوزیشن کے تمام مطالبات مان کر ٹی او آرز پر کام ہو رہا ہے تو
پھر حکمت و دانش کا تقاضا تو یہ ہے کہ اب انتظار کیا جائے مگر ہر طرف ایک
تماشا لگا ہے اور یہ تماشا انہیں قوتوں کا لگایا ہوا ہے جو پاکستان میں کسی
قیمت پر اَمن نہیں چاہتیں ۔پاکستان میں اس وقت قریب وہی حالات ہیں جب
تاتاری بغداد کے در و دیوار پر دستک دے رہے تھے اور مسلمان ایک دوسرے کو
کافر و مسلم قرار دے رہے تھے اور کوے کے حلال و حرام کی بحث میں پڑے تھے۔
امریکہ سے ہم یہ احتجاج کرتے ہیں کہ وہ ہماری سلامتی کو چیلنج کرتا ہے ۔ اس
نے تو کرنا ہے اور ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے اس نے رکنا نہیں ہے جب تک ہم
اپنے آپ کو اس قابل نہ بنائیں کہ ہماری بات سُنی جا سکے ۔ ہم داخلی و خارجی
محاذوں پر نیم جان ہیں ۔ہمارا کوئی وزیرِ خارجہ نہیں ۔ وجوہات کسی سے پو
شیدہ نہیں مگر نقصان پورا ملک اٹھا رہا ہے ۔ اپوزیشن کے پاس واحد حل نواز
شریف کی رخصتی اور عمران خان کی آمد ہے ۔ وزیرِ اعظم کی حالیہ بیماری سے
ممکن ہے اپوزیشن کی یہ خواہش بھی پوری ہو جائے ۔
تمام اِداروں ، اپوزیشن اور وزارت ِعظمیٰ کے تمام متوقع امیدواروں سے گذارش
ہے کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ۔اور یاد رکھیں پاکستان آخری چٹان ہے ۔خدارا
سب مل بیٹھیں ، خانہ جنگی کے سے ماحول سے نکل آئیں ۔آخری چٹان کو کمزور نہ
کریں ۔سڑکوں پر خارجہ و داخلہ پالیسیاں نہ بنائیں ۔
مل بیٹھ کر ماں دھرتی کی حفاظت کے لئے ایک ہو جائیں ۔ عراق ، شام اور لیبیا
میں جو ’’ امن ‘‘ قائم ہوا ہے اگر پاکستان میں بھی ایسا ہی ’’ امن ‘‘ قائم
کرنا ہے تو پھر ہر وزیرِ اعظم کسی نہ کسی لیکس کا شکار ہوتا رہے گا اور
بالا آخر آخری چٹان سرک جائے گی ۔ |