کہتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی چاہے جتنی
بھی ترقی کرلے لیکن مسجد سے چرائی ہوئی جوتی گوگل کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ
سکتا۔کچھ ایسی ہی صورتحال امریکہ کی ہے۔ اسے جب تک اپنا مخالف نظر نہیں آتا
تب تک اسے ضرورت نہ ہو اور جیسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ امن آنے والا ہے تو
فوراََ اس کے سٹیلائیٹ کام شروع کردیتے ہیں۔خاصطور پر کبھی کبھار ایسا لگتا
ہے کہ پاکستان کے کونے کونے میں اس نے اپنے ڈرون کیمرے بھی چھوڑ رکھے ہیں
لیکن انھیں بھی طالبان دکھائی نہیں دیتے لیکن جب امریکہ کو لگتا ہے کہ امن
کی ہنڈیا پک گئی ہے تو اس میں گڑ بڑ گھٹلہ کردیتا ہے ۔ امریکی سیاسی
چالبازیاں کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن مجبوری ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود
کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا ایسے کسی بھی نظر سے دیکھے ، امریکہ کا
استدلالکچھ بھی ہو کہ اس کا دشمن اسے جہاں نظر آئے گا اسے وہ مارے گا ۔
لیکن اسے اپنا دشمن صرف پاکستان میں ہی کیوں نظر آتا ہے ۔ بعض دوستوں کا یہ
اعتراض ہے کہ ہم ڈرون حملوں پر اعتراض کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں انتہا
پسندوں کی موجودگی پر اعتراض کیوں نہیں کرتے ۔ اس پر بڑی لمبی چوڑی بحث
ہوسکتی ہے لیکن کوئی صرف اتنا سمجھا دے کہ اگر کوئی کسی کے گھر پر قبضہ
کرکے بیٹھ جائے کہ تمھارے گھر میں لڑائیاں ہیں ، میں صلح کرادیتا ہوں اور
پھر ایک ایک کرکے مکان کی دیواریں توڑتا جائے کہ میں تو امن لا رہا ہوں اور
آہستہ آہستہ پورے گھر کو مہندم کردے تو کیا اس گھر میں رہنے والے ایسا کرنے
دیں گے ۔ افغانستان میں بلاجواز امریکی جارحیت کی گئی 14/15سالوں سے ایک دن
کیلئے افغانستان میں امن نہیں لا سکا ، اس سے پہلے14سال روس نے ایسا کیا
تھا ۔ وہ بھی بیگانے کی شادی میں افغانستان میں گھس آیا تھا ۔ امریکہ نے
واپسی کی راہ لی لیکن جاتے جاتے پھر رک گیا ۔مزید فوجیں افغانستان میں
تعینات کردیں ۔ مسئلے کا حل جنگ سے تلاش کرنے لگا ۔ بھلا امن کوجنگ سے لایا
جاسکتا ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ۔ ہر ملک کو اپنی سرزمین کے دفاع کا حق ہے
۔ سعودی عرب کو اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے حد سے بھی جانے کا حق ہے ۔ یمن
کی عوام کو اپنی سرزمین پر اپنے اختیار کا حق ہے ۔ شام میں وہاں کی عوام کی
خواہشات کے مطابق حکومت کا حق ہے ۔ لبنان میں اس کے شہریوں کو اپنی مرضی سے
جینے کا حق ہے ، عراق میں رہنے والوں کو امریکہ ایران کی مرضی کے بجائے
اپنیخواہشات کے مطابق رہنے کا حق ہے ۔ ایران کو بھی یہی حق ھاصل ہے لیکن
ایسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتا
پھرے۔ایران کی مرضی ہے تو یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ ملکر سعودی عرب کی
سلامتی کو خطرے میں ڈالے ، ایران کی مرضی ہے شام میں بشار الاسد کیلئے فرقہ
وارانہخانہ جنگیوں میں اپنے فوجیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان ، افغانستان ،
الجزئر کے عوام کو خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھائے ۔ایران کی مرضی ہو پاکستان
میں داخلے کیلئے بھارتی ایجنٹوں کا سہولت کار بنے ، ایران کی مرضی ہو عراق
میں اس کی خواہش کے مطابق حکومت قائم ہو ۔ ایران اور امریکہ دونوں کی ایک
ہی پالیسی ہے دونوں نے عالمی خودمختیاری کی دھجیاں اڑائی ہوئی ہیں ، امریکہ
کی جب مرضی ہے ڈرون اٹیک کرا دیتا ہے ، جب مرضی ہو بلیک واٹر کی فوج اتار
کر اپنے مخالفین کو قتل پھراتا پھرتا ہے جب اس کی مرضی ہو کسی بھی حکومت کا
تخت الٹ دیتا ہے ۔ دراصل امریکہ پوری دنیا کی سلامتی اور امن کے لئے عظیم
خطرہ ہے ۔ مسٹر ٹام امن کے نام پر بے گناہوں کا خون کرتا رہتا ہے ، کبھی
ویتنام میں کبھی جاپان مین کبھی عراق میں کبھی افغانستان ، ہر جگہ جہاں بد
امنی ہے وہاں امریکہ کا ہاتھ ہی نہیں پورا کا پورا جسم ہے ، یہی کچھ ایران
کر رہا ہے ، امت واحدہ میں تقسیم پیدا کرکے مذہبی فرقہ وارانہ منافرت کو
ہوا دینا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے عراق سے سالوں سال لڑتا رہا بے
نتیجہ جنگ میں اربوں ڈالر و لاکھوں انسان پھونک دالے ۔ عراق میں امریکی
کندھے پر سوار ہوکر بغداد میں جا گھسا تو کرد اور نسلی امتیاز کو ہوا دیکر
عراق کی تقسیم کے درپے ہے۔فلسطین میں اسرائیل سے جنگ کے نام پر پوری دنیا
سے ہمدردی حاصل کرتا ہے لیکن بھول جاتا ہے کہ وہاں کی آزادی کیلئے وہاں کے
عوام ہی کافی ہیں لیکن وہاں بھی اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے جنگی سیاسی
شطرنج کی چالیں چل رہا ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ دیکر سعودی عرب سے
اپنی سینکڑوں سال دشمنی کا بدلہ لیکر اپنی نفرت کی آگ کو دوبارہ جلانا
چاہتا ہے جیسے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی وعنہ نے بجھا دیا تھا ۔ شام میں
گدھ بن کر مرتے لوگوں کا خون چوس رہا ہے اور جسموں کو گیڈر کی طرح بھنبھوڑ
رہا ہے ۔ بھارت کے ساتھ اٹکلیاں کرتا ہے تو افغانستان کے داخلی معاملات میں
براہ مداخلت کرتا ہے ۔ جب دنیا کا دباؤ اس پر بڑھ جاتا ہے تو اپنی شرمندگی
اور کھسیانے رویئے کو دوسرا رخ دینے کیلئے امریکہ کا مخبر بن جاتا ہے اور
ملا اختر منصور کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنا کر کئی نشانے حاصل کرنے کی
کوشش کرتا ہے ۔ بات سیدھی سی ہے کہ افغانستان کی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ
اپنے ملک میں آنے والے جارح کے خلاف ہاتھ ، زبان ، ہتھیار جس زبان میں بات
کریں کسی دوسرے ملک کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرتا
پھرے ۔ پاکستان کو بھی نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرے
پاکستان کو بھی اپنے گھر کی حفاطت کیلئے بلڈورز کو دیوار توڑنے کی اجازت
نہیں دینی چاہیے ۔پاکستان کو اپنے مسائل خود حل کرنے چاہیے ۔ایک تو یہ پتہ
نہیں چلتا کہ پاکستان کا وزیر اعظم آئین بنانے کے لئے منتخب ہوا ہے یا ملک
ریاض کے طرح سڑکیں ، پلیں اور ٹرانسپورٹ کیلئے عوام نے منتخب کیا ہے ۔ وزیر
اعلی ہے تو وہ بھی ایسے ہی ہیں ۔ پاکستان کے آئین کا تحفظ کون کرے گا اس کی
سا المیت کی حفاظت کون کرے گا ۔ جب سب کچھ فوج پر چھوڑ دیتے ہو کہ وہی سب
کچھ کرے تو آپ صرف ٹھیکے دار بن کر خوش ہو جائیں ۔ پاکستان بھی ٹھیکے پر
دیا ہوا لگتا ہے اس لئے جس کا جی چاہتا ہے پاکستان کے ساتھ ٹھیکداروں جیسا
سلوک کرتا ہے ۔ پاکستان کے یہ حکمران طبقہ ہی درست ہوجائے تو ہمیں کسی سے
امداد کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت
نہیں پڑے گی ، قدرت کے خزانوں سے مالا ہے پاکستان ، لیکن ہمارے حکمرانوں نے
ہمارے سیاست دانوں نے پاکستان کو اے اٹی ایم سمجھ لیا ہے کہ جب کارڈ دالو
جتنا پیسہ چاہیے مل جائے گا ۔ غیر ملکی بنکوں کو کریڈٹ کارڈ سمجھا ہوا ہے
کہ جب چاہے قرض لے لو ، ارے بھائی پیسہ لو گے تو سود بھی دینا ہوا گا اور
اگر نہیں دو گے تو گھر آکر غنڈے بے عزتی بھی کریں گے ۔ ہمیں کسی نظام کو
نہیں اپنے حکمرانوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ، موجودہ پارلیمانی نظام عوام
کی ترجمانی نہیں کرتا ، یہ ایک فرسودہ اور ناکام نظام حکومت ہے ۔ جس نظام
میں صدر پاکستان کا کوئی کام نہ ہو ، گورنرز کا کوئی کام نہ ہو ان پر اربوں
روپیہ کیوں خرچ کیا جارہا ہے ۔ یہ کام تو کوئی بھی ایک دن کا صدر بن کر کر
سکتا ہے۔سڑکیں ، فلائی اوور ، ٹرانسپورٹ کے تمام انتظام اگر وزیر اعلی اور
وزیر اعظم کو دیکھنا ہیں تو ان محکموں کو ختم کردیں ، امور خارجہ کیلئے
کوئی قابل اعتماد شخص نہیں تو اس محکمے کو بھی ختم کردیں ۔جب کوئی کام آئین
کے مطابق نہیں ہوتا ، آئین کے مطابق قانون سازی نہیں ہوتی بلکہ ہر جماعت کے
دو چار لوگ بیٹھ کر طے کرلیتے ہیں تو اربوں کھربوں روپے ان اسمبلیوں پر
کیوں خرچ کئے جا رہے ، انھیں بھی ختم کردینا چاہیے ۔ کچھ کو لگے گا کہ میں
جمہوریت کے خلاف ہوں ، یقینا میں ایسی جمہوریت کے خلاف ہوں جس میں بندے گنے
جاتے ہیں تولے نہیں جاتے ۔ ہمیں ایک قوم بننا ہے تو امریکہ اور ایران کی
غلامی سے کود کو آزاد کرانا ہوگا ۔ امریکہ ہمیں انسان نہیں سمجھتا ۔ دونوں
ایک سکے کے دو رخ ہیں ، ہمیں اس سکے کو ٹکسال میں ڈال کر اپنی مرضی کے سکے
ببنانے ہونگے۔کھوٹے سکوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ |