”مسئلہ فلسطین“پرپاکستان کےمسلم نوجوان کا کردارکیا ہونا چاہیے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم“
اسلام علیکم!میں اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کا سفر مسلم نوجوان کا کردارپرلکھنے سے شروع کیا اور آج میں مسلہ فلسطین پرلکھنے جارہا ہوں اور اس سے پہلے میں آپ سب نوجوانوں سے مخاطب ہونا چاہتاہوں کہ یہ آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہےخرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے آج کےنوجوان اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی،کیونکہ میرا اور اقبال کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مانا کہ مصائب کڑے ہیں ،مانا کہ اسباب تھوڑے ہیں۔ مانا کہ آج دھرتی ماں مقروض ٹھہری۔ ارے مانا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہاں چھا گئے۔ ارے ما نا کہ ترقی کی رفتار کم ہے ۔ ارے ما نا کہ یہاں بھوک بھی ہے اور افلاس بھی۔ ارے مانا کہ یہاں بم بھی پھٹتے ہیں ۔ ارے مانا کہ شمشیر و سناں آخر ہو گئی اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے ۔ ارے سب مانا۔ لیکن میرے غازی علم دین نے ایسے ہی حالات میں جنم لیا تھا۔ میرا جناح پونجا پھولوں کی سیج سے نہیں اگا تھا۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے آسائشوں کے پالے ہوئے نہیں تھے۔ گوہر اور جوہر حالات کی بھٹی میں جل کر کند ن ہوئے ۔ارے نسل تو اس وقت بھی عیاش تھی، قوم تو اس وقت بھی کمزور تھی، بھوک اور افلاس تو تب بھی تھی، لوگ تو تب بھی مرتے تھے۔ لیکن اقبال کے شاہین نے ،اس مشکل کی گھڑی میں گھروں میں روٹیاں نہیں بانٹیں... یہ مملکت تو سب کی ہے خواب سب کا ہے! یہ خواب ہے اس بہن کا جس کے بھائیوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ یہ خواب ہے اس باپ کا، جس کے بڑھاپے کے سہارے کو کِر پانوں نے چیر ڈالا۔ یہ خواب ہے اس ماں کا، جس کی مامتا کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ یہ خواب ہے میرا بھی ہے کہ فلسطین کو آزادی ملنی چاہیے یہ خواب ہے اس بچے کا ،جس کی غلیل نے انگریزی جہازوں پر شستیں باندھی تھیں۔ یہ خواب ہے اس بچی کا، جو گڑیوں کی شادی میں انگریزی ٹائی والے گڈے نکا ل باہر کرتی ہے۔ یہ خواب ہے اس بخت نامہ کا جو آخری ہچکی سے پہلے اپنے لہو سے آزادی کا لفظ مکمل کر تی ہے۔ یہ خواب ہے ان شہیدوں کا، جنہوں نے اپنے لہو کی بوند بوند وطن کی ناموس پر وار ڈالی اور پھر بھی ان مردانِ با صفا کی با ز گشت فضائے بسیط اب بھی گو نجتی ہے۔ کہ شہرِ جاناں میں باصفا رہا کون ہے دستِ... تاریخ گواہ ہے کہ دل والوں کی یلغاروں میں آہیں ہمیشہ دبتی چلی آئی ہیں۔ اِس کائناتِ ہست و بود نے وہ گھڑیاں بھی دیکھیں، جب 313نے آہوں کی زرہیں اتار پھینکیں، اور بدر کو اپنے خون سے لالہ زار کیا۔ جب اندلس کے ساحل پر، ہر ملک کہ’’ ملکِ خدائے ما است ‘‘کا نعرہ بلند ہوا۔ جب عرب کے تپتے ریگزاروں میں اَحد احد کی صدائیں ابھریں، جب عبدالمطلب کے مقابل ابرہہ کے ہاتھی میدان میں آئے لیکن اب کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں،کہ آج کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو کا نعرہ لگا کر، بازو بھی بہت ہیں اور سر بھی بہت کی تلقین کر نے والی زبانیں خاموش ہو گئیں ہیں۔ آج کوئی بازو نہیں جو آگے بڑھے ، آج کوئی سر نہیں جو اُوپر اٹھے۔کہ آج ؂ کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دُھول کی چادر اُڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق ہر گزرتا دن ہر جھکتی کمر کے جھکاؤ میں ایک انچ کا مزید اضافہ کر ے۔اور ؂ بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو لہو میں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں ہیر و شیما اور ناگا سا کی کی بانجھ دھرتی سے اُگنے والے لنگڑے لُولے بچوں کی نسل وجود میں آنے کو ہے۔ویت نام کے تو پخانوں سے بچا کھچا بارود تو رہ بورہ پر گرنے والے کروز مزائلوں کی شکل اختیار کر گیا ہے۔فلسطین میں آزادی کی بانسری بجاتے بجاتے یا سر عرفات کی داڑھی میں چاندی اُتر آئی ہے۔ آبِ زم زم کے کنو ئیں کے آس پا س امریکی فوجیوں کے بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔بھارت کے پرتھوی پاکستان کی سرحد پر آ گئے۔پاکستان کے غوری ہندوؤں کی یلغار کے منتظر ۔افغانستان کی حکومت ہمیشہ کی طرح چل رہی ہے خدا کے سہارے ۔عراق تباہ حال ہے ایران یا لیبیا کی باری ہے۔فلسطین و کشمیر جل رہے ہیں اسرائیل کی تباہ کاری ہے۔روس مٹ چکا ہے امریکہ کی باری ہے۔ کہ آج نام نہاد ترقی یافتہ، مذہب کو بنیاد پرستی کے نعروں میں گم کرنے والے خود صلاح الدین کی قبر کو ٹھو کر یں مار مار کر غیرتِ مسلمان کو للکارتے ہیں، اور مسلمان کرے تو کیا کرے، ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان کی وسعتوں سے ابابیلوں کا منتظر ہے۔تو کوئی طوفاں ہی آیا کر تا ہے کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو یہ تلقین کر تا ہے۔
؂ کہ تُم سے ممکن ہو تو سب روشنیاں گُل کر دو
وہ اندھیر ا ہو کہ ہر رنگ پر یشاں ٹھہرے
آنکھ پلکوں کی رفاقت سے گُریزاں ٹھہرے
شاخ در شاخ اُترنے لگے وحشت کا عذاب
شورشِ موجِ ہوا، صُورِ سرافیل لگے
رقص کرتے ہوئے بے خواب بگولوں کے بدن
رہ گزاروں کی تھکن اَوڑھ کے شَل ہو جائیں
ماند پڑ جائیں ستاروں کے قبیلوں کی رسوم
جاگتے شہر تہہِ خاکِ زمیں ہو جائیں
شہ رگِ وقت میں سیاّل سیاہی بھر دو
تم سے ممکن ہو تو سب روشنیاں گُل کر دو

تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں سرزمین فلسطین پر ظالم اور سفاک یہودیوں کا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جوروز ازل سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کا عکاسی کرتا ہے۔

سرزمین فلسطین پر یہودی آبادیاں تعمیر کر کے جس طرح فلسطین کے مقامی باشندوں اور یہودی مہاجرین کے توازن کو بگاڑا گیا اس نے عربوں میں پھوٹ ڈال کر نہ صرف ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا بلکہ نئے معاشی واقتصادی حربوں کے ذریعے انہیں ایسا قلاش اور مفلوک الحال بنا دیاکہ اپنی اراضی یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اور اس طرح ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی کاری ضرب لگی اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اگر مسلمان اسی وقت ایک ہو جاتے اوریہ تہیہ کر لیتے کہ ان مٹھی بھر یہودیوں کا سر کچلنا ہے تو آج یقینا حالات مختلف ہوتے ۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے اور متحد ہونے کے بجائے باہم دست و گریبان رہے۔

صہیونی مملکت کا نظریہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی منظر عام پر آگیا تھا۔

کیونکہ برطانیہ کو جنگی اخراجات پورے کرنے کیلئے یہودی سرمائے کی ضرورت تھی۔ جبکہ یہودی اپنی علیحدہ مملکت تشکیل دینا چاہتے تھے لیکن اس وقت انگریز عربوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ”اعلان باسفور“ میں یہودیوں کیلئے وطن کی تشکیل کا یقین تو دلایا مگر اس کی ہیت و نوعیت کو واضح نہ کیا۔ اس یہودی سلطنت کیلئے فلسطین کی سر زمین منتخب کی گئی تھی۔

دوسری عالمگیر جنگ کے دوران اس مملکت کا نقشہ نمایاں ہوا اور دنیا بھر کے یہودی فلسطین کا رخ کرنے لگے۔ فلسطین میں ان کی اس قدر تیز رفتار آمد سے عرب پریشان ہو گے۔ اور انہوں نے بڑی شدت سے اس کی مخالفت کی ۔ لیکن یہودیوں کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ کیونکہ ان کو برطانیہ اور امریکہ کی اعانت حاصل تھی۔ تاہم 1939 میں جب دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوئی تو عربوں کو خوش کرنے کیلئے یہودیوں کی آباد کاری محدود کر دی گئی۔

اس وقت یہوددیوں اور عربوں کی فلسطین میں آبادی کا تناسب 3 سے 10 تک تھا۔

1945ء عربوں نے اس نئے فتنے کو ختم کرنے کے لئے عرب لیگ کے قیام کا پروگرام بنایا۔ اس زمانے میں فلسطین کے مستقبل کے بارے میں سفارشات پیش کرنے کیلئے ایک اینگلو امریکی کمیٹی معرض وجود میںآ ئی۔ یہ چونکہ فلسطین میں یہودی مملکت قائم کرنے کے منصوبے کی ایک شکل تھی اس لیے عربوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔

مگر جنگ کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی خاصی تعداد آباد ہو چکی تھی۔ اور برطانیہ نے محسوس کر لیا تھا ک اب اگر وہ فسطین سے اپنی فوجیں ہٹا لے تو یہودی اپنی آزاد مملکت تشکیل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے فلسطین کو اقوام متحدہ کو تولیت میں دے دیا۔انگریز ایک طرف تو فسطینی عربوں کو پریشان کرتے رہے تو دوسری طرف وہ یہودیوں کو آباد کرنے میں مصروف رہے۔

1929 ء سے1933 میں یہودیوں کے خلاف فسادات ہوئے لیکن انگریز فوجیوں نے ان فسادات کو سختی سے کچل دیا۔ ہٹلر کی یہود دشمنی کے باعث فلسطین میں یہودیوں کی آمد کی نیا سلسلہ شروع ہو ا اور صرف ایک سال 1935ء میں 60 ہزار یہودی یہاں آپہنچے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران صہیونیوں نے برطانوی حکومت سے تعاون کیا اور اتھادیوں کی بھرپور مالی امداد کی ۔ جنگ کے بعد انگریزوں نے 2اپریل 1947 کو فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔
15 مئی کو اقوام متحدہ کی ایک خاص کمیٹی قائم کی گئی جس نے متفقہ طور یہ رائے ظاہر کی کہ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ختم ہونا چاہیے۔ اس کمیٹی کے ارکان مستقبل کی حکومت کے بارے میں اتفاق رائے نہیں کر سکے۔ اکثریت نے یہ تجویز پیش کی کہ وسطیٰ فلسطین سے نیچے کے علاقے میں عرب حکومت قائم کر دی جائے۔ یروشلم اور بیت اللحم کا علاقہ اقوام متحدہ کے ماتحت دے دیا جائے اور ان شہروں سے اوپر بحیرہ روم تک کے علاقہ میں یہودی مملکت قائم کر دی جائے ۔

29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کمیٹی کے ارکان کی اکثریت کی تجویز قبول کرلی۔ اسمبلی نے اس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے 5ارکان پر مشتمل ایک کمیشن بھی قائم کر دیا۔ اس کمیشن کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ یہودیوں اور عربوں کے گروپوں سے صلاح مشورے سے بعد عارضی حکومت کی تشکیل میں مدد دے۔

عربوں نے اقوام متحدہ کے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عرب علاقے میں یہودی مملکت قائم کرنے کی کوشش ایک جارحانہ کارروائی ہے اور اسکی مزاحمت کی جائے گئی۔

برطانیہ نے بھی یہ اعلان کیا کہ یہ منصوبہ طاقت کے ذریعے بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ اوربرطانوی حکومت قبضے کے خاتمے 15 مئی 1948 نظم و نسق کی ذمہ داری پوری کرے گی۔

فلسطین میں تقریباََ 6ماہ کا یہ عرصہ طوائف الملوکی کا زمانہ تھا۔ عربوں اور یہودیوں کے مابین گوریلا جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے تقسیم کے منصوبے پر عملدر آمد کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔

انتشار وافر اتفری کے عالم میں فلسطین کا آخری ہائی کمشنر سرایلن گورڈن 14 مئی 1948 کو فلسطین چھوڑ گیا۔ اور اسی روز شام کے 4بجے بن گوریان نے تل ابیب میں یہودیوں کی نیشنل کونسل اور جنرل صیہونی کونسل کے اجلاس میں یہودی مملکت ” اسرائیل کے قیام کا یکطرفہ اعلان کر دیا۔ ڈیوڈ بن گوریان کو ہی اسرائیل کی عارضی حکومت کا پہلا وزیراعظم مقرر کیا گیا اور 16مئی 1948 کو امریکہ نے اور صرف ایک دن بعد روس نے بھی یہودیوں کی مملکت کو تسلیم کر لیا۔

ارضِ فلسطین پر یہودیوں کیاس غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے کے لئے مصر، اردن ، عراق، شام اور لبنان نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ مغربی طاقتیں اسرائیل کی پشت پر تھیں اس لئے آٹھ ماہ کی شدید جنگ کے بعد عربوں کو جنگ بندی منظور کرنا پڑی۔ لیکن انہوں نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ آٹھ ماہ کی اس جنگ میں اقوام متحدہ کے ثالث برائے فلسطین کاونٹ برنارڈرت کو یروشلم میں یہودی دہشت پسندوں نے ہلاک کر دیا۔

ان کی جگہ رالف بیچ آئے جو بمشکل جنگ بند کراسکے۔تاہم یہودی اس علاقے سے کہیں زیادہ علاقے پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے۔

آج اقوام عالم کا جائزہ لیکر دیکھئے۔کہیں بھوک کی حکمرانی ہے اور کہیں جنگ مسلط ہے۔ اور جہاں کہیں نام نہاد امن ہے تو موت کا سکوت طاری ہے۔پوری دنیا بُش ڈاکٹرا ئن سے لرزہ بر اندام۔۔۔جانے اب کیا ہو گا۔۔۔جی ہاں ! جب انسان اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں تو انہیں اپنی فنا بھو لنا پڑتی ہے۔اور ڈر ہے کسی ایسے ہی لمحے میں، جب نیست و نابود ہو نے کا خوف کسی میں وہ انجانی قوت بھر دے کہ وہ اپنی تمام طاقتوں سمیت دنیا بھر کو اُلٹنے کا تہیہ کر لے۔تو پھر کوئی طوفاں آہی جا یا کر تا ہے۔آج پھر شہروں پر موت کے فرشتے منڈ لاتے نظر آتے ہیں کہ ایمل کانسی کو بچانے والا کوئی اُسامہ نہیں رہا۔آج پھر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے صدا آتی ہے کہ ٹھہرو مجھے دو بارہ تعمیر کر نے سے پہلے ذرا سو چ لو، تمھارے پا لتو ؤں کی گر دنوں کے زخم انہیں کسی لمحے بھی بغاوت پر مجبور کر سکتے ہیں۔ دھرتی کے سینے میں وہ بے چینی ہے الا ماں الاماں۔کوئی مسیحیت کا سہارا لیکر صلیب کی جے کا نعرہ بلند کر تا ہے اور کوئی لا الہ کو مقصدِ حیات کہہ کر الجہاد کا پروانہ ہو گیا ہے۔میں تو کہتا ہوں کوئی دیوار گر نے کو ہے۔۔۔کوئی نشاں ن بننے کو ہے۔۔۔کوئی مکان جلنے کو ہے۔۔۔کوئی طوفان آنے کو ہے ۔۔۔ کہ
اب تو بارُود کا اِک ڈھیر بنی ہے دنیا
اب تو باقی ہے فقط ایک دھماکہ ہو نا
اب کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں

جہاں تک فلسطینی معاملے میں پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستان دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے ۔ اس لحاظ سے پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کا شرف حاصل ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بغیر کسی خوف و خطر اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہوئے امت مسلمہ کا یکجا کرنا ہوگا۔ بلکہ اس کی قیادت کرنا ہو گی اوریقینا ہمیں عالمِ اسلام کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کا بھرم رکھنا ہو گا۔
https://www.facebook.com/attique.aslam
Attique Aslam Rana
About the Author: Attique Aslam Rana Read More Articles by Attique Aslam Rana: 13 Articles with 21901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.