دس منٹ کا وزیراعظم

موضع گوٹھ ماہی کی بستی میاں کرم قریشی میں میاں کرم قریشی کی رسم قُل خوانی پر علاقے کے تمام عزیز و احباب اکٹھے تھے۔ دہیاتوں میں یہ روایت ہوتی ہے کہ اگر کسی بھی رسم میں شامل ہوں تو اکثر لوگوں کا قیام کافی دیر تک رہتا ہے مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ شہروں میں ایسا کم ہوتا ہے سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں مختصر سے لمہ کے لیے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

قُل خوانی کی رسم سے فارغ ہونے کے بعد چند سیاسی احباب ایک درخت کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھے تھے اور سیاست پر بات کر رہے تھے۔ گائوں کی سیاست ہمیشہ برادری، شخصیت اور دوستی کی سیاست ہوتی ہے۔ اس میں نظریہ کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات اب اتنی پائیدار نہیں رہی کیونکہ کہ اب نوجوان نسل نے نظریہ کی سیاست کو سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس دن اس سیاسی محفل میں مختلف نظریات کے لوگ بیٹھے تھے، کچھ بزرگ تھے تو کچھ جوان اور سب ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف رکھتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا پہلی دفع دیکھا تھا کہ اب دہیاتوں میں بھی لوگ شعور رکھتے ہیں کہ کون سی جماعت کیا کہ رہی ہے اور اس کے پسِ پردہ وہ کیا چاہ رہی ہے؟ خیر ان سب میں ایک صاحب سیاست کے بہت پرانے کھلاڑی تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی کو چپ کیسے کروانا ہے اور یہ بھی بات سچ ہے کہ انہوں نے ایک طویل عرصہ سیاست کو دیا۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ جناب آپ کو دس منٹ دیے جاتے ہیں آپ اس ملک کے مسائل کا حل بتا دیں۔ جس سے بھی یہ سوال کیا جاتا اس کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ اور ہوتا بھی تو کیسے؟ پچھلے ٦٥سالوں کے مسائل کا حل دس منٹ میں بتانا یہ تو کوئی موجزا ہی ہو سکتا ہے یا پھر کوئی عقلِ کل ہی یہ کمال دیکھا سکتا تھا۔ مجھے بھی اسی سوال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجھے اس وقت اور تو کچھ نا سمجھ آیا میں نے دس منٹ کیلئے خود کو ملک کا وزیراعظم تصور کیا اور اپنی بات شروع کر دی۔ خودکو وزیراعظم اسی لیے تصور کیا کیونکہ اقتدار کے بغیر فیصلہ کرنا اور مسائل کو سمجھ کے حل کرنا ممکن نہ تھا۔ میں نے سب سے پہلے ملک کے صحت کے انتظام کو بہتر کیا کیونکہ کہ اگر ملک کی عوام ہی صحت مند نا ہوگی تو ملک ترقی کیسے کرے گا کیونکہ عوام ہے تو ملک ہے۔ تمام تحصیلوں میں میں نے ہسپتالوں کے معیار کو بہتر کیا، پرائیوٹ ہسپتال پر مکمل پابندی کر دی تمام علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہوگا۔ سرکاری ہسپتالوں میں تمام آنے والے معزز مریض قابلِ احترام اور اہمیت کے حامل ہوں گے۔ کسی بھی ڈاکٹر کی غفلت کے بلکل برداشت نہیں کیا جائے گا اور ٢٤گھنٹے پورے ہسپتال کی مانیٹرنگ کی جائے گی کیمروں کے ذریعے۔ تمام ادویات سرکاری ہسپتالوں سے ملیں گی پرائیوٹ اور گورنمنٹ ہی تمام ادویات خود خریدے گی تمام کمپنیوں سے میڈیکل سٹورز ختم کر دیے جائے گے انکی جگہ سرکاری ڈسپنسری ہوگی ہر جگہ پر اور تمام ادویات کومفت رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

دوسرے نمبر پر تعلیم ہے۔ تعلیم ایک انتہائی اہم جز ہے ملکی ترقی کا کیونکہ اگر ایک پڑھی لکھی ماں ایک پڑھے لکھےمعاشرے کو جنم دے سکتی ہے تو ایک پڑھا لکھا معاشرہ بلاشعبہ ایک ترقی یافتہ ملک کی ضمانت بن سکتا ہے۔ تعلیم کیلئے ہر تحصیل میں چھوٹی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی اور ماسٹر تک تعلیم کو مفت کر دیا جائے گا اور پورے ملک میں تعلیم کا نظام یکساں ہوگا۔ ٹیوشن سینٹر اور پرائیوٹ سکول کے نظام کو ختم کر دیا جائے گا اور یہ تمام سہولیات گورنمنٹ کے سکولوں میں دی جائیں گے۔ اچھے کلاس رومز، اچھی تعلیم، اورہر سکول کو کیمرے کے ذریے مانیٹر کیا جائے گا۔ اساتزہ کرام کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ان کے لیے ملک کے اندر ہر جگہ پر سفر کرنے پر پچاس فیصد رعایت ہوگی اور سب کو رہائش دی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی بھی استاد اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کا مرتکب ہوا اسے کے خلاف اتنا ہی سخت کاروائی کی جائے گی۔ تمام طلبہ و طالبات کی یونیفارم، کتابیں سب گورنمنٹ کی ذمہ داری ہوگی۔ ۔۔
 
تیسرے نمبر پر سیکورٹی کا نظام ہے۔ پاکستانی کی سرحدوں کو مضبوط کرنا لازمی جز ہے اور پاکستانی کی پولیس کے نظام کو بہتر کرنا وقت کی ضرورت کے عین مطابق یہ ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ پولیس اگر شفاف ہو گئی تو کرائم ختم ہو جائے گا، ہر پولیس اسٹیشن کا انفراسٹرکیچر بہتر کیا جائے گا اور پڑھے لکھے نو جوانوں کو موقع دیا جائے گا۔ ہر پولیس اسٹیشن میں جم کی سہولت لازمی ہوگی اور سب پر لازم ہوگا جم کرنا تاکہ جسامت کے لحاظ سے تندرست رہیں۔ پولیس شفٹ میں کام کرے گی، اور سب کی رہائش گورنمنٹ دے گی۔

چوتھے نمبر پر آتا ہے معاشیت جو بنیاد ہے ترقی کے پہیہ کی۔ پورے ملک میں جتنی بھی فرمز ہیں انکو برابری کی بنیادوں پر تمام تحصیلوں اور ضلعوں میں منتقل کیا جائے گا تاکہ سب کو روزگار گھر میں ہی مل جائے۔ ایسا نہ ہوکہ ایک شہر ترقی کرے دوسرا ختم ہو جائے۔ اسی طرح ٹیکسوں کی بھی تقسیم ہو۔۔
ابھی میری بات چل ہی رہی تھی کہ میرے دس منٹ ختم ہو گئے۔۔ لیکن اگر ایک دس منٹ کا وزیر اعظم ملک کے اتنے مسائل حل کر سکتا ہے تو اتنے سالوں سے رہنا والا وزیراعظم کیوں نہیں؟
Saddam Taj
About the Author: Saddam Taj Read More Articles by Saddam Taj: 9 Articles with 8289 views I am nothing.... View More