چیف جسٹس انورظہیرجمالی : امراض کی تشخیص اورذمہ داری کافقدان

کراچی میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا ہے کہ ملک میں ایک دوسرے پرالزامات کاکلچرپنپ رہا ہے۔یہ کلچر آج کانہیں بہت پرانا ہے اب اس میں تیزی آگئی ہے۔ہم دوسروں پرالزام لگانے میں دیرنہیں لگاتے۔کسی بھی ایسے معاملہ جس میں ہم خود مجرم ہوں توخودکوبے گناہ ثابت کرنے کیلئے نہ جانے کہاں کہاں سے دلائل تلاش کرکے لے آتے ہیں۔یہ کلچر ہرشعبہ میں پایا جاتا ہے۔ سیاست میں تویہ ایک لازمی جزوبن چکا ہے۔کتنے ہی ایسے الزامات ہیں جوسیاستدانوں پرسیاستدانوں نے ہی لگائے ہیں لیکن وہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکے۔یہ کلچرہمارے گھروں میں بھی پایاجاتا ہے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے پرالزام لگاکر ایک دوسرے کوتشدد کانشانہ بناتے ہیں۔عدالتوں میں خاص طورپرفیملی کیسزمیں تنسیخ نکاح اورواپسی جہیزکے کیسزمیں جوکچھ لکھا جاتا ہے وہ اگرسوفیصدنہیں تو۰۷ فیصدضرورجھوٹ اورالزام ہوتا ہے۔کاروباری افرادبھی اپنے مخالف کے کاروبارکومتاثرکرنے کیلئے بھی اسی کلچرکاسہارالیتے ہیں۔ اس کلچرسے مساجد بھی محفوظ نہیں جوبھی مسجدمیں نمازاداکرنے آتا ہے وہ امام مسجدکونصیحت کرنا اوراس کی ذمہ داریوں کااحساس دلانا ہے اپنا فرض عین سمجھتا ہے حالانکہ وہ تمام ذمہ داریاں امام مسجدکی نہیں ہوتیں۔نمازوقت پرنہیں ہوتی، مسجد دیرسے کھلتی ہے، کوئی کہتا ہے مسجدکیوں بندکرتے ہو۔ باتھ روم میں صفائی نہیں ہے،مسجدکی ٹوٹنیاں خراب ہیں۔یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ وہ امام مسجدکے حقوق بھی پورے کررہے ہیںیانہیں۔کیاکسی سکول، کالج، دفتر، کمپنی کاسربراہ بھی اپنے ادارے اوردفترکے باتھ کی خود صفائی کرتا ہے ؟ان کی میزکی صفائی بھی دیگرملازمین کرتے ہیں۔مسجدکی صفائی اوردیکھ بھال کرنا، ضروریات کاخیال رکھنا جن کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ خود تواپنی ذمہ داریوں کااحساس نہیں کرتے الٹاامام مسجدکوذمہ دارٹھہراتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کاکہناتھا کہ ہرشخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن ذمہ داریاں نبھانے کوتیارنہیں،انسانی حقوق کیخلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ملک میں ترقی کی رفتارسست ہونے کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہرشخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن ذمہ داریاں نبھانے کوتیارنہیں۔سیاستدان جب چاہتے ہیں اپنی تنخواہیں اورمراعات بڑھالیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین تنخواہیں بڑھانے کیلئے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔معاشرہ کے دیگرطبقات بھی حقوق، مراعات اورسہولیات کی بات کرتے ہیں ۔ ان میں سے یہ کوئی بھی نہیں دیکھتاکہ اس کی جوذمہ داری ہے کیاوہ اچھی طرح نبھارہا ہے۔کیاوہ اپنی ڈیوٹی پربروقت حاضرہوکراوربروقت چھٹی کرتا ہے۔ ان کاکہناتھا کہ قانون پرعملدرآمدکی ذمہ داری صرف عدلیہ پرنہیں پورے معاشرے پرہے۔ابھی چندروزپہلے کسی نے کہہ دیا کہ ملک میں وزیراعظم کی عدم موجودگی میںآئینی بحران پیداہوچکا ہے۔توایک شخص کہنے لگا کہ ہم نے خودکمانا ہے خودکھانا ہے تواس شخص نے کہا کہ یہ تیری گھٹیا سوچ ہے، آئین پرعمل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ،وہ کہنے لگا کہ یہ ان کامعاملہ ہے ہمارانہیں ، توآئین کی عملداری کی بات کرنے والے نے کہا کہ کیاہم ٹریفک کے اصولوں پرعمل کرتے ہیں تواس نے کہا نہیں۔ عدلیہ کاکام آئین اورقانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے جبکہ اس پرعمل کرناہم سب کی ذمہ داری ہے۔ہم صرف ٹریفک کے قوانین پرہی عمل کرلیں توآئے روز سڑکوں پرہونے والے حادثات برائے نام ہی رہ جائیں گے۔جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ مقننہ ، عدلیہ اورانتظامیہ کواپنااپناکرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی اس بات پرعمل ہوجائے توہمارے اکثرمسائل ختم ہوجائیں گے۔کراچی میں قومی گول میزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ تعلیمی معیارکی بہتری اورجدید ٹیکنالوجی کے بغیرانصاف کی فراہمی کے تقاضے پورے نہیں کیے جاسکتے، انصاف سب کاحق ہے اپنے حقوق کے حصول کیلئے شعورپیداکرنا ہوگا۔اداروں کونئے خون، نئی سوچ اورنئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔تعلیمی معیارکی بہتری اورٹیکنالوجی کاحصول ہمارے تمام اداروں کی بہتری کیلئے ضروری ہے۔جدیدتعلیم اورٹیکنالوجی کی بدولت اداروں کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مقدمات کی تفتیش اورمجرموں کی شناخت اوربھی زیادہ بہترطریقے سے ہوگی۔اداروں کونیاخون، نئی سوچ اورنئی ٹیکنالوجی فراہم کرناحکومت کی ذمہ داری ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کاکہناتھا کہ گہرائی میں جاکراپنی غلطیوں کودیکھناہوگا۔دنیاکامشکل ترین کام اپنی غلطیوں کودیکھنا اورآسان ترین کام دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔کوئی اورہماری غلطیوں کی نشاندہی کردے تویہ ہمارے لیے برداشت سے باہرہوتا ہے اورہم کسی کی غلطی دیکھ لیں توپھرخوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ جب ہم اپنی غلطیوں کودیکھیں گے نہیں تواپنی اصلاح کیسے کریں گے۔اپنے کردارکوبہترسے بہتربنانے کیلئے اپنی غلطیوں کاجائزہ لینااورپھرسے نہ کرنا ضروری ہے۔آزادکشمیرجوڈیشل کانفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس انورظہیرجمالی کاکہناتھا کہ کرپشن ملک کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہے،کرپشن ملک کودیمک کی طرح نہیں چوہوں کی طرح چاٹ رہی ہے۔یوں توملک میں اس کرپشن کے خاتمے کیلئے قوانین اورادارے موجودہیں چاہیے تویہ تھا کہ یہ کم سے کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے الٹا اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے، آئے روزاخبارات میں کرپشن کی نئی داستانیں پڑھنے کوملتی ہیں۔کرپشن ختم کرنے کیلئے اس کے خاتمہ کیلئے بنائے قوانین اوراداروں کاپھرسے جائزہ لیناہوگاکہ ان میں کون سی ایسی خرابی ہے جس کی وجہ سے کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ ایک دوسرے پرالزامات کے بجائے اپنامحاسبہ کرنا ہوگا، دوسروں پرالزام لگانا اوردوسروں کامحاسبہ کرنا ہم اپناپہلاحق تصورکرتے ہیں۔اپنا محاسبہ کرنا دنیاکے مشکل ترین کاموں میں سے ہے۔سیاستدان توایک دوسرے کے محاسبہ کامطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ گنتی کے چندسیاستدان ہی ہیں جوخودکو احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنامحاسبہ کرنے کاحوصلہ مل جائے توہم غلطیاں بھی کم سے کم کریں گے، اپنے فرائض اورذمہ داریاں اداکرنے میں کوتاہی، سستی اورلاپرواہی سے کام نہیں لیں گے، کسی کوناجائزتنگ نہیں کریں گے، اپنی ڈیوٹی کی جگہ پربروقت پہنچیں گے اوربروقت چھٹی کریں گے،کام چوری، ذخیرہ اندوزی، ناجائزمنافع خوری، رشوت وصولی سے اجتناب کریں گے۔ان کاکہناتھا کہ انصاف کی فراہمی لازمی جزو ہے۔ساٹھ فیصد مقدمات سرکاری اداروں کی نااہلی اوربدانتظامی کانتیجہ ہیں۔سرکاری ادارے اپنی کارکردگی بہتربنالیں توعدلیہ سے ساٹھ فیصدمقدمات کابوجھ ختم ہوجائے گا، جس سے مقدمات کی تعدادمیں نمایاں کمی آجائے گی۔مقدمات کم ہونے کی وجہ سے انصاف کی جلدفراہمی بھی ممکن ہوجائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ کرپشن کی بیماری ختم کرکے گڈگورننس کاماحول پیداکرنے کی ضرورت ہے۔اس بیماری کاعلاج کرنے والے ڈاکٹروں اورلیبارٹریوں کے چیک اپ کی ضرورت ہے۔کہیں ایسا تونہیں کہ اس بیماری کاعلاج کرنے والے معالج مرض ختم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کی دواتواستعمال نہیں کرارہے۔چیف جسٹس درست ہی کہتے ہیں کہ کرپشن اورنااہلی ختم کیے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔نئے حج کوٹہ آپریٹرزکی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ بدعنوانی اوراقرباپروری کاخاتمہ ہوگاتو ملک میں گڈگورننس آئے گی۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں فل بینچ نے نئے حج آپریٹرزکی درخواست نمٹاتے ہوئے وزارت حج کوپالیسی مرتب کرتے وقت عدالت کے فیصلے کومدنظررکھنے کاحکم دیا ہے اورہدایت کی ہے کہ اگرعدالتی فیصلے پرعمل نہیں ہوتا تومتاثرہ فریق دادرسی کیلئے قانون کے تحت رجوع کرسکتا ہے ۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اپنایا کہ حج پالیسی کے بارے میں عدالتی فیصلے پرعمل نہیں ہوا۔لیکن ان آپریٹرزکوبھی کوٹہ الاٹ ہواجن کے لائسنس زائدالمیعادہوچکے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم توایک عرصہ سے چیخ اورکہہ رہے ہیں کہ آخرملک میں گڈگورننس کب آئے گی۔بدعنوانی، جانبداری، اقرباپروری ،لاقانونیت اورمحرومیوں کاخاتمہ کب ہوگا۔عدلیہ ایک عرصہ سے حکومت کی توجہ گڈگورننس کی طرف دلارہی ہے۔چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے کیاثابت ہوتا ہے یہ ہمارے قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔نہ جانے یہ کام کب ہوگا، ایسے الفاظ کس وقت اورکس کیفیت میں کہے جاتے ہیں معاشرہ کاہرفرد خوب جانتا اورسمجھتا ہے۔وہ لفظ توآسان اورعام استعمال کا ہے تاہم ہم عدلیہ کیلئے وہ لفظ استعمال نہیں کرناچاہتے۔یہ ریمارکس دے کرجسٹس انورظہیرجمالی نے اس کیفیت کااظہارنہیں کیاجس کیفیت کااظہاریہ کام کب ہوگا کہنے سے ہوتا ہے انہوں نے حکومت اوراداروں کواحساس دلایا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لائیں کسی کوشکایت کاموقع نہ دیں۔اسی گڈگورننس کی عدم موجودگی کی وجہ سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے متعدد ازخودنوٹس لیے تھے۔چاہیے تویہ تھا کہ ادارے اورمحکمے اپنی کارکردگی میں بہتری لاتے اورایسا کام ہی نہ کرتے کہ جس سے چیف جسٹس کوازخودنوٹس لیناپڑے الٹا چیف جسٹس کے اس اختیاربارے باتیں ہونے لگیں ۔وہ چاہتے تھے کہ عدلیہ کایہ اختیارختم ہوجائے پھروہ جوچاہیں کریں کوئی پوچھنے والابھی نہ ہو۔ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ ملک میں گڈگورننس کی کمی سیاستدانوں کی وجہ سے ہے یااس کی ذمہ داربیووکریسی ہے۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے نجی ٹی وی چینلزپرقابل اعتراض موادنشرہونے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پگڑی اچھالنے کیلئے پیسے لے کرٹی وی پرپروگرام کیے جاتے ہیں۔جرائم کے خاتمہ کیلئے اچھی حکمرانی وقت کی ضرورت ہے۔ریاست گڈگورننس لے آئے توساٹھ فیصدمقدمات ختم ہوجائیں گے پیمراصرف ایڈوائس اوروارننگ ہی جاری کرتا ہے۔ایسی سزائیں دینے کی ضرورت ہے جومثال بن جائیں۔ چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پیمراکے ضابطہ اخلا ق پرعمل ہوتوسارے مسائل حل ہوجائیں۔اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید نے پیمراکے وکیل سے جواستفسارکیا ہے اورنجی ٹی وی چینلزکی جن نشریات بارے استفسارکیا ہے ۔پیمرااورنجی ٹی وی چینلزکوچاہیے کہ وہ اپنے چینلزپرایسا نہ ہونے دیں۔جب بھی کوئی مہمان کسی بھی ٹی وی چینلزپرقائداعظم، علامہ اقبال، نظریہ پاکستان، قیام پاکستان، ملک کے وقار کے بارے میں منفی باتیں کرے تواس کواسی وقت باہرپھینک دیاجائے۔اس طرح کی کتابوں کی اشاعت پربھی پابندی لگادی جائے اورجوکتابیں شائع ہوچکی ہیں ان کوتلاش کرکے ضبط کرلیا جائے۔ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن لاڑکانہ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ کوئی ادارہ ذمہ داری پوری نہ کرسکا ۔صرف ذاتی مفادکیلئے قانون سازی کی گئی۔ہمیں وہ قیادت نہیں مل سکی جوقو م کو بلندیوں پرپہنچادیتی بیڈگورننس ، کرپشن کے خاتمے کیلئے فرشتے نہیں اتریں گے۔ہم میں سے ہی کسی کوآگے آناہوگا۔آزادی کے بعد تیس سال مارشل لاء کی نذرہوچکے ،طبقاتی تفریق کے باعث عوام پریشان ہیں۔ کسی کے خلاف کارروائی کی جائے توبڑی لابی تحفظ کرنے آجاتی ہے،معاشی ناانصافیوں کاخاتمہ ہم سب کی ذمہ داری ہے حکومت کوچاہیے کہ وہ ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کرے جس سے بیروزگاری کاخاتمہ ہواورعوام رزق حلال کماسکیں۔راقم الحروف نے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ کوئی کسی کالیڈرہے توکوئی کسی کا ۔ ان میں سے قوم کالیڈرکوئی نہیں۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے بھی یہی بات کی ہے۔قومی قیادت ہی قوم کوبلندیوں پرپہنچادیتی ہے۔قوم کے لیڈرکوقوم کی فکرہوتی ہے اپنی نہیں۔ملک میں کبھی صدارتی نظام رہا توکبھی پارلیمانی۔جس حکومت کے مفادمیں جونظام تھا وہی رائج کردیاگیا۔جب دیکھا گیا کہ ارباب اقتدارکسی قانون کی زدمیں آرہے ہیں تواس قانون میں ترمیم کردی گئی۔خود کوقانون کے مطابق ڈھالنے کی بجائے قانون کواپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی رہی۔کسی کوتیسری باروزیراعظم بننے سے روکناہوتوتیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پرپابندی لگادی جاتی ہے اورجب کسی نے تیسری باروزیراعظم بنناہوتویہ پابندی ختم کردی جاتی ہے۔جب کسی سیاسی پارٹی کاتعاون درکارہوتا ہے تونائب وزیراعظم بھی بنادیا جاتا ہے جب یہ ضرورت نہیں رہتی توآئین سے یہ شق حذف کردی جاتی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطابات اورریمارکس میں جن خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔حکومت پاکستان ان خرابیوں کودورکرنے کیلئے موثرلائحہ عمل اختیارکرے۔انہوں نے معاشرے کے فردکواپنی اپنی ذمہ داریوں کااحساس دلایا ہے۔معاشرہ کاہرفرداپنی ذمہ داریاں دیانتداری نبھائے دوسروں کے حقوق اوراپنے فرائض کی ادائیگی کوزندگی کانصب العین بنالے تومعاشرہ خوشگوارہوجائے گا۔اس کیلئے لیڈرشپ کوابتداء کرناہوگی۔

لندن میں وزیراعظم نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری مکمل اورکامیاب ہوگئی ہے۔ قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں ملک بھرمیں ان کی صحت یابی کیلئے دعائیں کی جارہی ہیں۔ ان کی صحت یابی کیلئے بکروں کے صدقے بھی دیے گئے ہیں۔ قوم کی دعا ہے کہ وہ جلدصحت یاب ہوکروطن لوٹ آئیں اورملک کوقوم کی خدمت کریں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351011 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.