عوام نواز شریف کی صحتیابی کے لیے دعا گو ہے
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
میں سمجھتا ہوں جس طرح ایک قلمکار کا فرض
ہے کہ وہ حقائق کے تناظر میں اور جستجو و تحقیق کے مراحل سے گزر کر اپنی
کاوش قارئین کے رو برو پیش کرے اسی طرح ایک سیاست دان کی ذمہ داری ہے کہ اس
کی سیاسی بصیرت،دوراندیشی،معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی جیسے اوصاف کی اڑان
اس قدر بلند پایہ ہو کہ وہ قوموں کے رحجان کو مثبت سمت دینے کی قدرت رکھتا
ہو ۔بد قسمتی سے پاکستان کو بانی پاکستان کی وفات کے بعد مذکورہ اوصاف کا
حامل سیاسی رہنما میسر نہ آ سکا جس کی ذات میں یہ خوبی موجود ہو کہ وہ قوم
کا رخ ترقی وخوشحالی کے افق کی جانب موڑ سکے ۔اگرچہ چند ایک حکمران جو شخصی
خوبیوں کے حوالے سے لاجواب تھے اورکچھ عرصہ کے لیے وہ اقتدار کے ایوانوں
میں براجمان بھی ہوے لیکن وہ بھی ایسی سیاسی لغزشوں کا شکار ہوے کہ قوم کی
حقیقی معنوں میں خدمت کا فریضہ ادا نہ کر سکے ۔اس قسم کے قابل رہنماوں میں
ذولفقارعلی بھٹو کا نام سر فہرست ہے ۔بلا شبہ بھٹو سیاسی بصیرت کے حوالے سے
پاکستانی سیاست میں ایک ناقابل فراموش کردار ہے ۔وہ اس قدر پرکشش نعرے اور
منفرد انداز سیاست کے سنگ سیاسی میدان میں آن وارد ہوے کہ دیکھتی آنکھیں
دنگ رہ گئیں لیکن بد قسمتی سے وہ طویل عرصہ تک پاکستانی عوام کی خدمت کرنے
سے قاصر رہے اور تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے ۔بھٹو کے علاوہ ان کی بیٹی
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایسے دو سیاسی کردار ہیں جو عوامی
مقبولیت کے افق پر جگمگاتے دکھائی دئیے ۔تاریخ گواہ ہے اک عرصہ تک میاں
نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مقبولیت باہم بر سر پیکار رہی اور
سیاسی دھوپ چھاوں کا یہ کھیل اک مدت تک جاری رہا۔کبھی میاں صاحب عوامی
مقبولیت کی سیڑھی پھلانگ کر مسند اقتدار کو چھو لیتے تو کبھی محترمہ بے
نظیر بھٹو عوامی محبوبیت کا زینہ طے کر کے اقتدار کی بھاگ ڈور سنبھال
لیتیں۔ مقبولیت کے نشیب و فراز کا یہ کھیل تب اختتام پذیر ہوا جب سفاک دہشت
گردوں نے تاریخی لیاقت باغ راولپنڈی کے پہلو میں محترمہ کو شہید کر دیا اور
سیاسی فہم و فراست کی شمع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کر دیا ۔محترمہ بے نظیر
بھٹو کے شہید ہونے کی دیر تھی کہ میاں نواز شریف اوربی بی کے درمیان برسوں
سے جاری عوامی پذیرائی کاکھیل بھی ماند پڑ گیا۔میاں نواز شریف محترمہ پر
حملہ کی خبر ملتے ہی ان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے اور تب روائتی سیاسی
حریف کے چہرے پر بھی دکھ اور کرب کا احساس نمایاں دکھائی دے رہا تھا ۔یہ وہ
لمحات تھے جب پاکستانی سیاست کا رخ یکسر تبدیل ہو گیا اور پیپلز پارٹی و
مسلم لیگ ن میں سیاسی مخاصمت دم توڑ گئی اور تب سے لے کر آج تک یہ تاثر
قائم ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سیاسی مفاہمت کے بندھن میں بندھ چکی
ہے ۔دونوں جماعتیں ماضی کی سیاست کو دفن کر کے اک نئی سیاست کا آغاز کر چکی
ہیں جس کی بنیاد سیاسی مفاہمت کے ستون پر قائم ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب
اک انہونی کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئیں تو پوری قوم کی آنکھیں اشکبار
تھیں اور سب کو احساس تھا کہ ملک اک زیرک رہنما سے محروم ہو چکا ہے ۔ یاد
رہے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی زندگی سیاسی میدان میں بے
شمار قربانیوں سے عبارت ہے ۔ دونوں سیاسی ہستیوں نے سیاسی راہدریوں میں
بچھے کانٹوں پر سفر کر کے ہی عوامی خدمت سر انجام دی ۔ اب جبکہ ایک ایسے
وقت میں جب وطن عزیز محترمہ کے سیاسی وژن سے تو محروم ہو چکا ہے لیکن میاں
صاحب ابھی تک عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوے ہیں۔ میاں صاحب ان دنوں دل کے
عارضہ میں مبتلا ہیں اور برطانیہ میں زیر علاج ہیں۔ تا دم تحریر ان کی اوپن
ہارٹ سرجری کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پا چکا ہے اور ان کی سرجری کے
کامیاب ہونے کی نوید بھی قوم کو موصول ہو چکی ہے ۔پوری قوم میاں نواز شریف
کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہے اور امید واثق ہے کہ میاں صاحب تندرست ہو کر
جلد ہی عوام کے درمیان ہوں گے ۔
میں بحثیت ایک قلمکار اکثر میاں صاحب کی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے نا
مناسب اقدامات اور ملکی حوالے سے ناقص پالیسیوں پر بے جھجک اور بے لاگ قلم
اٹھاتا رہتا ہوں اور اپنی دانست میں جو بہتر خیال کرتا ہوں صفحہ قرطاس کی
نذر کر دیتا ہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ میاں صاحب کے دل کے عارضہ میں مبتلا
ہونے کی خبر نے افسردہ کر دیا ہے کہ ایک ایسا حکمران جو تین دہائیوں سے
فعال اور متحرک ملک و قوم کے حالات و واقعات سے بخوبی آگاہ ہے اور اپنے
تئیں ملک کی خدمت پر مامور ہے یوں دل کی بیماری میں مبتلا بیرون ملک کروڑں
پاکستانیوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے ۔اگرچہ میاں صاحب عوام کی دعاوں کی بدولت
تیزی سے صحت یابی کی جانب گامزن ہیں لیکن ان حالات میں میاں صاحب کو ایک
عہد کر کے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھنا چاہیے وہ یہ کہ جب میں تندرستی
کے جہاز پر سوار ہو کر پاکستان پہنچوں گا تو صحت کے شعبہ میں غیر معمولی
اصلاحات اور اقدامات کا جال بچھا دوں گا تا کہ آئندہ اپنے علاج کے لیے نہ
تو مجھے بیرون ملک آنا پڑے اور نہ ہی میری عوام کا کوئی باشندہ علاج نہ
ہونے کی وجہ سے بے بسی کی علامت بنے ۔میاں صاحب کو یہ بھی مصمم عزم کرنا
چاہیے کہ وہ اک نئے حکمران کے روپ میں وطن عزیز کی فضاوں میں قدم رکھیں گے
۔ وہ نہ تو کرپشن پر کوئی سمجھوتہ کریں گے اور نہ ہی اقربا پروری کو فروغ
دیں گے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں کی بہتری ان کی ترجیح اول ہو گی ۔در اصل
انسان جب بیماری کی حالت سے گزرتا ہے اور وہ بھی اس نوع کی علالت کہ جہاں
زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت کم دکھائی دے رہا ہو تو عمومی طور پر
دیکھا گیا ہے کہ انسان کی سوچ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ میاں
نواز شریف جو ایک عرصہ سے عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں اس تکلیف دہ
صورتحال کو شکست دے کر جب مکمل صحت یاب ہوں گے تو مجھے قوی امید ہے کہ ان
کی جانب سے اگر عوامی خدمت کے میدان میں کوئی کسر رہ گئی ہے تو اس کو بھی
پورا کرنے کی کوشش کریں گے ۔ وہ ملک میں سڑکوں اور پلوں کا جال بچھانے کے
ساتھ ساتھ عالمی معیار کے حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ماڈل ہسپتالوں
اور تعلیمی درس گاہوں کا بھی جال بچھا دیں گے ۔اس طرح ایک جانب قوم صحت مند
ہو گی تو دوسری جانب علمی،فکری اور شعوری اعتبار سے بھی قوم بلند مرتبہ ہو
گی اوریوں آہستہ آہستہ قوم کی تعمیر کے امکانات روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ |
|