واپسی یقینی بنائی جائے
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
افغانوں کو آئے ہوئے بیسویں صدی کی
دودہائیوں کے بعد اب اکیسویں صدی کے16سال گزر چکے ہیں۔آخر مہاجرت کاکوئی نہ
کوئی عرصہ توہوتا ہے۔افغانستان میں ایک آئین نافذ ہے اور اس کے تحت ایک
حکومت قائم ہے۔افغانستان رقبہ کے لحاظ سے وسیع وعریض ملک ہے۔کچھ عرصہ بیشتر
موجودہ افغان حکومت نے یہ کہا تھا کہ ہم واپس آنے والے افغانوں کے لئے48نئے
ٹاؤنز بنارہے ہیں۔اقوام متحدہ نے اس کام کے لئے امداد فراہم کرنی تھی۔یہ
کام کسی نہ کسی حد تک ہو چکا ہوگا۔اب ضروری ہوگیا ہے کہ افغان مہاجرین کو
واپس انکے اپنے وطن بھیجا جائے۔36سال تک اگر کوئی ملک لاکھوں افغان مہاجرین
کی میزبانی کرتا ہے۔تو یہ کام بڑے پیمانے پر اورکھلم کھلا سراہنے کے قابل
ہے۔افغان مہاجرین کی پاکستان میں رہائش کی کئی دفعہ توسیع ہوچکی
ہے۔31۔دسمبر 2015ء کی تاریخ فائنل ہوچکی تھی۔اس میں افغان مہاجرین کے کمشنر
کی رائے بھی شامل تھی۔لیکن جب تاریخ قریب آئی توپھر شور اٹھا کہ مزید توسیع
کی جائے اور6۔ماہ پھر بڑھادیئے گئے۔اب یہ چھ ماہ بھی ختم ہونے کے بالکل
قریب ہیں۔اس مسٔلہ کا حل اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ افغان مہاجرین کو ان کے
اپنے پیارے ملک میں واپس بھیجا جائے۔وہ اپنے ملک میں جاکر اپنے ملک کی خدمت
کریں۔روزگار حاصل کریں اور خوش رہیں۔دنیا کے دوسرے ملکوں میں رہنے والوں کو
آخر کار اپنے ملک واپس جانا ہوتا ہے۔افغان مہاجرین کچھ رجسٹرڈ ہیں اور بہت
سے رجسٹرڈ نہیں بھی۔کچھ لوگ واپس افغانستان چلے جاتے ہیں اور دوبارہ پھر
واپس آجاتے ہیں۔اس لئے اس وقت کسی کو بھی انکی صحیح تعداد کا کچھ بھی علم
نہیں ہے۔1988ء کے آخر میں انکی تعداد کا اندازہ33۔لاکھ لگایاگیاتھا۔اور اس
وقت340کیمپوں میں انہیں رکھا گیا۔لیکن یہ یہاں سے نکل کردوسرے شہری علاقوں
میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔انکی زیادہ تعداد اب بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور
فاٹا میں ہے۔اس کے بعد انکی زیادہ تعداد بلوچستان میں ہے۔یہاں بھی کوئٹہ کے
ارد گرد زیادہ آباد ہیں۔2002ء میں کچھ افغان مہاجرین UN پروگرام کے تحت
واپس گئے۔2007ء میں21۔لاکھ افغانوں کی کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن کی گئی اور
انہیںPORجاری کئے گئے۔کارڈ پر" افغان باشندہ" کا لفظ تحریر کیاگیا۔2012ء
میں انہیں واپس بھیجنے کا تفصیلی پروگرام بنایاگیا۔کچھ تعداد واپس
گئی۔لیکن2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق15۔لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجر اب بھی
پاکستان میں ہیں۔غیر رجسٹرڈ کی تعداد بارے تمام اندازے ہیں۔لیکن ایک بات تو
طے ہے کہ غیررجسٹرڈ افغان مہاجرین کافی تعداد میں پاکستان کے مختلف شہروں
میں موجود ہیں۔بہت سے افغانوں نے یہاں جائیدادیں خرید لی ہیں ۔کاروبار بنا
لئے ہیں۔پاکستان کے لئے تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ یہ لوگ مختلف جرائم
جیسے قتل ،اغوا اور بم دھماکوں میں ملوث ہیں۔2011 ء میں لاہور پولیس اکیڈمی
پر حملے میں ایک افغان کو ملوث پایاگیا۔ایسے ہی16۔دسمبر2014ء کو آرمی پبلک
سکول پشاور پر حملے میں بھی2۔افغان پکٹرے گئے۔صوبائی وزیر خیبر پختونخواہ
مشتاق احمد غنی ان پر ایسے ہی اور بھی الزامات لگاتے ہیں۔انکی سب سے زیادہ
تعداد چونکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہے اس لئے وہاں کی حکومت انکی واپسی
کے لئے سب سے زیادہ کوشش بھی کرتی رہتی ہے۔اس صوبائی حکومت کو مرکز سے یہ
شکوہ ہے کہ مرکزی حکومت انکی واپسی کے لئے توجہ سے کوشش نہیں کررہی۔یہ تو
کوئی شک نہیں کہ یہ لاکھوں لوگ پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔جس ملک کی اپنی
مقامی آبادی کی تعداد بڑھتے بڑھتے20۔کروڑ ہوچکی ہو۔اس کے لئے لاکھوں
مہاجرین کو سنبھالنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔اقوام متحدہ سے انکے لئے
معمولی سی گرانٹ ملتی ہے۔افغانی یہاں کے بہت سے روزگار کے وسائل پر قابض
ہوچکے ہیں۔ٹرانسپورٹ اور بلڈنگ کے کاموں پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہوا ہے۔وہ
افغانی جو اپنے ساتھ وسائل لیکر آئے تھے۔وہ یہاں زبردستی کاروباروں پر چھا
گئے ہیں۔کئی مارکیٹوں پر افغانیوں کے قبضے نظر آتے ہیں۔بلوچستان والے تو ان
کے نکالے بغیر مردم شماری کرانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔انکے مطابق مقامی
پٹھانوں اور بلوچوں کی آبادی کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔رشوت دیکر
افغان مہاجرین نے نادرا سے شناختی کارڈ بھی حاصل کرلئے ہیں۔محترم جناب
چوہدری نثار علی خان کو بھی اس ساری صورت حال کا پتہ ہے۔اس لئے انہوں نے
ملا منصور کے مارے جانے کے بعد شناختی کارڈ کی چیکنگ کا نظام سخت کردیا
ہے۔حتیٰ کہ 6۔ماہ کے اندر اندر تمام پاکستانی شناختی کارڈ چیک کرنے کا حکم
دے دیا ہے۔سمگلنگ ایک اور بڑا مسٔلہ ہے۔افغانی چونکہ کاغذات کے بغیر ڈیورنڈ
لائن پارکرنیکی پرانی روایات رکھتے ہیں۔لہذا افیم۔ہیروئن ،گاڑیاں اور
الیکٹرانک کے سامان کی سمگلنگ میں اکثر یہی لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔سرحدوں
پر آباد دونوں طرف کے باشندے ایسے کاموں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔پاکستانی
خزانہ کو سمگلنگ کے کاروبار کی وجہ سے سالانہ اربوں کا نقصان ہوتا
ہے۔کیونکہ بے شمار اشیاء بغیر ڈیوٹی اداکئے آتی جاتی رہتی ہیں۔افغانیوں نے
زیادہ تر شناختی کارڈ ژوب،لورالائی،بھکر،مظفر گڑھ،ٹھٹھہ اور ڈیرہ اسماعیل
خان سے بنوئے ہیں۔اور شناختی کارڈ دکھا کر پاسپورٹ حاصل کرنا آسان ہوجاتا
ہے۔2۔لاکھ روپے ادا کر کے یہ لوگ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیتے ہیں۔اور
دنیا کے دوسرے ملکوں میں جانے کے لئے یہ پاسپورٹ استعمال کئے جارہے
ہیں۔سندھ میں انکی تعداد ایک رپورٹ کے مطابق62000ہزار بتائی جاتی ہے۔لاہور
میں بھی ہزاروں افغان مختلف کاموں میں دکھائی دیتے ہیں۔واپس جانے کے لئے ان
کو دی گئی ڈیڈ لائن میں اب ایک ماہ جون کا مہینہ رہ گیا ہے۔حکومت کو چاہیئے
کہ افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے کمشنر برائے افغان مہاجرین سے ملکر
تفصیلی پروگرام بنائے۔افغان حکومت نے کچھ عرصہ پیشتر یہ کہا تھا کہ مہاجرین
کو آباد کرنے کے لئے نئے48ٹاؤنز بنائے جائیں گے ۔وہ بن چکے ہونگے۔وزیراعظم
کی واپسی کے بعد اس پر اعلیٰ سطحی اجلاس ہونا ضروری ہے۔سب سے پہلے غیر
رجسٹرڈ افغانوں کو ملک سے نکالنے کی تفصیلی سکیم بنائی جائے۔اور اس کے ساتھ
ہی رجسٹرڈ حضرات کی واپسی کا پروگرام طے کیا جائے۔یکم جولائی سے 30ستمبر کے
عرصہ کے دوران حکومت انکی مکمل واپسی کو یقینی بنائے۔ان کی نقد شکل میں مدد
کے لئے موجودہ وفاقی بجٹ میں تھوڑی بہت رقم مختص کردی جائے۔ان کا سب سے
زیادہ بوجھ صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان پر ہے۔ان کی بات تفصیل سے سنی
جائے۔شاید یہ نیشنل ایکشن پروگرام کا حصہ پہلے بھی ہے۔لیکن اس پر عمل درآمد
ہونا ضروری ہے۔انہیں واپس بھیج کر ہم پاکستان میں امن وامان کی صورت حال
میں بہتری محسوس کریں گے۔اور پاکستان کو آگے بڑھنے میں امن و امان کی اشد
ضرورت ہے۔اگر30۔لاکھ لوگ ہماری معیشت سے نکل جائیں گے تو آبادی کی شکل میں
کچھ تو بوجھ ہلکا ہوگا۔افغان مہاجرین کی ہم36سال سے میزبانی کررہے ہیں۔اب
انہیں خودبھی سوچنا چاہیئے۔اور واپسی کا پروگرام بنانا چاہیئے۔
|
|