شہروں میں شہر․․․․اپنا کراچی !

 اس وقت ہم دامن کوہ اسلام آباد میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔کیا خوبصورت منظر تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور آسمان سے برستا پانی! اﷲ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ہی دل میں خیال آیا چلو اچھا ہے اﷲ میاں نے اس ہریالی کو سیراب کرنے کا کام فرشتوں کوہی سونپا ورنہ انسان تو تْو رانی میں رانی کون بھرے پانی ؟کے مصداق ایک دوسرے پر ٹال جاتے !اپنے لاڈلے انسان کے لیے کیا زبر دست انتظام کیا ہے ! شاید یہ ہی سوچ کر بندروں کی ٹولی انسانوں کو بڑی کینہ توز نظروں سے گھور رہی تھی اور جہاں موقع ملتا حملہ کردیتی کہ حضرت انسان نے ان کی جگہ پر بھی ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ اس حوالے سے ابو نثر کا کالم یاد آیا جس میں انہوں نے سراسر انسانوں کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا کہ انہوں نے بندروں کو جنک فوڈکا عادی بنا دیاہے ۔ ہماری چائے پر بھی حملے کی کوشش کی مگر ہم نے بیگ مارنے کا اشارہ کیا تو بھاگ کھڑے ہوئے ۔اس پر بچوں نے ہمیں بہت داد دی کہ خالہ نے ہمارا بدلہ لے لیا۔ پتہ چلا کہ جب ہم نماز پڑھنے گئے تھے تو بندروں نے ان کے چائے گرادی تھی۔مغرب قریب تھی لہذا ہم سب واپسی کے لیے نیچے اتر آئے۔ ایک پر لطف اور پر مشقت دن اختتام ہوا مگر ابھی طویل مسافت طے کرکے ایک عشائیہ میں شر کت کرنی ہے۔

ذرا ٹھہریں ! ہم آپ کو آغاز سفربتاتے ہیں ! چار روز قبل ہم کراچی سے پنڈی بذریعہ ٹرین پہنچے تھے۔جانے سے پہلے موسم نے بڑی ہیبت طاری کی ہوئی تھی۔ اطلاع کے مطابق جہاں ہمیں جانا تھا وہاں چھتیس گھنٹے سے مسلسل بارش ہورہی ہے !لاہور تک درمیانہ موسم تھامگر راستے میں جگہ جگہ بارش کے آثار نظر آرہے تھے۔ نکھرے نکھرے باغات ،بھیگی بھیگی جگہیں !گجرات کے بعد موسم باقاعدہ بدلا ہوا تھا۔ گرج چمک، بارش اور ساتھ اندھیرا!سفر شروع کرنے سے قبل ہمارے میزبانوں کی موسم کے حوالے خصوصی اہتمام کی ہدایت تھی۔ سوئیٹر، کمبل ، اونی کپڑے․․․!اب بتائیں بھلا کراچی میں تو یہ اشیاء دسمبر میں بھی نہ استعمال ہوئیں اور اب مارچ کے دوسرے عشرے میں بیگ بناتے ہوئے ہم پسینہ پسینہ ہو گئے! حفظ ماتقدم کے طور پر لان کا ایک سوٹ بیگ میں رکھ ہی لیا کہ واپسی میں پہن کر آئیں گے ورنہ․․․․․! ا لحمد ﷲ سفر اچھا رہا۔ٹرین کا انتطام بہت بہتر ہو گیا ہے ۔ وقت کی پابندی ،محفوظ اور آرام دہ ! واقعی کسی بھی شعبے کو اچھا سر براہ مل جائے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے ورنہ یہ ہی ٹرینیں تھیں جن کو ردی میں میں بیچنے کا مشورہ بلور صاحب دے چکے تھے۔اور ہاں !پاکستان ریلوے اور نیشنل بک فاؤ نڈیشن کے باہم اشتراک سے تمام بڑے اسٹیشنز کے پلیٹ فار م پر کتابوں کا سٹالز بنائے گئے ہیں گویاکتب بینی کے فروغ کے لیے کافی کام ہو رہاہے جو قابل ستائش ہے !

ساڑھے آٹھ بجے ہم پنڈی اسٹیشن پر اترے تو خوشگوار ٹھنڈک کا احساس ہوا۔تقریباً آدھ گھنٹے بعد ہم اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ یہاں میزبان دسترخوان سجائے بیٹھی تھیں ۔ حالانکہ ہم ٹرین میں سب کچھ تناول کر چکے تھے مگر اتنا اہتمام کو رد کرنا ناشکری ہوتا!میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور سیر کا پروگرام بناتے رہے۔ مشورہ یہ ملا کہ نیٹ سے دیکھ کر جگہیں طے کر لی جائیں! موسم کے حوالے سے ہمیں خصوصی تاکید کی گئی کہ اسے ہر گز ہلکا نہ لیا جائے۔ صبح سو کر اٹھے تو ہمارے اوپر مزید ایک کمبل ڈلا ہوا تھا۔ ہم نے مسکرا کر اپنی میزبان کو دیکھااور مشتاق احمد یوسفی کو یاد کیا جن کے مطابق کراچی اور پنڈی میں دو لحافوں کا فرق ہے ! بعد میں معلوم ہوا اس دن مہینے کا کم ترین درجہ حرارت تھا!

مگر اگلے ہی دن چمکدار دھوپ نکل آئی۔

دو دن آرام کے بعد ہم تفریح کے لیے نکلے ۔سب سے پہلے برڈز پارک اور راول ڈیم گئے اوروہاں بوٹنگ کی۔اس سے ملحقہ جگہ پر گھڑ سواری کا انتظام تھا۔ جاسمین پارک ، روز پارک اور جاپانی پارک سر سری سا دیکھا ۔ ہماری اگلی منزل شکر پڑیاں پر واقع لوک ورثہ تھا۔وہاں سے گھنٹوں بعد نکلے تو لگا ٹائم مشین میں بیٹھ کر صدیوں کاسفر کر آئے ہوں ! اس کے بعد پاکستان مونو منٹ کی سیر کی ۔ایک پر شکوہ عمارت جو قومی یادگار کے طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس سے ملحقہ میوزیم میں بھی گئے۔وہاں سے نکلے توبوندا باندی شروع ہوگئی جو فیصل مسجد پہنچتے تیز ہوچکی تھی ۔ہم اوپر پہنچے تو نماز عصر ختم ہوچکی تھی۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر قریب ہی دامن کوہ میں جاپہنچے جس کا ذکر ہم آغاز میں کر چکے ہیں ۔

آپ خود سوچیں ایک دن میں اتنے سارے تفریحی مقامات کو دیکھ کر ہمارا کیا حال ہوگا ؟ بالکل ایسے جیسے کسی شادی کی تقریب میں رنگ برنگے کھانا دیکھ کر ہوتی ہے۔ دل چاہتا ہے سب چکھ لیں جس کا نتیجہ لازمی بد ہضمی ہوسکتا ہے اور بعد میں دل چاہتا ہے کہ وہ کھانے ایک ایک کر کے سامنے آئیں تا کہ ہر ذائقے کامزہ اٹھا سکیں مگر․․․․؟ کچھ ایسی ہی صورت حال تھی کہ ہمیں اتنے ہی وقت میں اتنے مختلف النوع مقامات کا لطف اٹھا ناتھا۔ کھانے پر یاد آیا ہم نے صبح ایک بھرپور ناشتے کے بعد مغرب تک کوئی باقاعدہ کھانا نہ کھایا۔ نہ مہلت ملی نہ ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ دن بھر آئسکریم ،چائے، اسنیکس وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔اس کی ایک وجہ تھی ہم اپنی عزیز دوست کے ہاں مدعو تھے جو صبح سے ہماری ٹریکنگ کر رہی تھیں ۔پہلے لنچ پر انتظارتھا مگر پھر اپنے گھر سے ہمارا فاصلہ دیکھ کر یہ ہی طے کیا کہ جب فارغ ہوں پہنچ جائیں ۔ اور یہ ایک مناسب بات تھی کیونکہ ان کا گھر تو پنڈی کے بھی کونے میں ہیں ۔فوجی فاؤنڈیشن سے ملحقہ نئی آباد ی جس کو ڈھونڈنے میں خاصہ وقت لگا۔چھم چھم بارش میں جب ہم اترے تو پورا گھر استقبال کوموجود تھا۔نوبیاہتا سے لے کر نومولود تک! پر تکلف کھانا اور بے تکلف محفل ! اٹھنے اور چھوڑنے کا دل نہ تھامگرڈرائیور کو دیر ہورہی تھی لہذا اجازت طلب کی مگر اس وعدے کے ساتھ پھر ملاقات ہوگی!

اگلے دن آرام کے بعد مری ایوبیہ کی سیر کو گئے وہاں برف باری سے لطف اٹھا یا۔ حالانکہ برف باری کا موسم گزر چکا تھا۔ اس بے موسم کی برف باری پر شکر ادا کیا کہ رب نے ہمیں اس منظر سے بھی محروم نہ رکھا۔یہ اور بات ہے کہ راستے خطر ناک ہونے کی وجہ سے ہم سب نڈھا ل سے ہوگئے تھے اور دل گرم گرم بستر ڈھونڈ رہا تھا۔ بہت سے تفریحی مقامات دیکھنے کے بعد ملاقاتوں کے پروگرام پر توجہ دی مگر ایک آدھ سے ہی ہوسکی باقی لوگوں سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا کچھ لوگ شہر سے باہر تھے اور ۔جس دن وہ شہر میں تھے جب ہم تفریحی دورے پرشہر سے باہر تھے لہذا ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔

ہفتہ وار چھٹیوں میں ہمارے میزبان نے زبردست تفریحی دورے کا انتظام کیا تھا۔ پہلے تو ہم ٹیکسلا میوزیم اور اس سے ملحقہ پارک گئے ۔ پھر محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام سر کپ کے کھنڈرات دیکھنے گئے۔ یہاں عجیب سی پراسرار خاموشی تھی حالانکہ موسم اور منظر دونوں بہت خوبصورت تھے۔ اس کے بعد ہم ہری پور ہوتے ہوئے صوبہ خیبر میں داخل ہوگئے ۔ یہاں خان پور ڈیم کے کنارے ایک خوبصورت ریسورٹ میں دن گزارا ۔یہاں کے خوش رنگ، رسیلے ،خوشبودار مالٹے خریدے اور کھائے ۔ رات اپنی دوست کے گھر پہنچے اور وہیں قیام کیا ۔ ( ان تمام مقامات کی تفصیلی روداد معہ تصاویر ہمارے بلاگ صبح فرحت پر دیکھی جاسکتی ہے اس کا لنک farhatahir.blogspot.com ہے )

پنڈی سے ہمارے کوچ کاوقت آپہنچا تھا مگر اس سے پہلے سیور فوڈ کھانا تھا، میٹرو میں سفر کرنا تھا،ایوب پارک دیکھنا تھا۔سیور فوڈ کو بے مزہ جان کرہماری میزبان نے اپنے ہاتھ سے تیار کردہ چٹ پٹے کھانے کھلائے۔ ایوب پارک کے بجائے مونال کا پروگرام بنا جویہ کہہ کر رد ہوگیا کہ ہم وہاں جاچکے ہیں اب دوبارہ ہمت نہیں ہے ہاں میٹرو میں سفر ضرور کیا! صرف بیس روپے میں دوسرے شہر پہنچنا زبر دست ہے۔ ہاں ! جیب کتروں سے ہوشیار رہنے کے اعلانات سن سن کر دل بہت خراب ہوا ۔ لگتاہے اسلام آباد جیب کتروں کا شہر ہے ! فیصل مسجدمیں وہی تفریحی ماحول نظر آیا۔ یہاں آنے والے زائرین اور نمازیوں کے باعزت روزگار کی دعا ہے کہ وہ جیب کتری کا دھندہ چھوڑ سکیں ! اب ہماری لاہور روانگی تھی ۔ایک دن کھاریاں جانے کا بھی پروگرام تھا کہ وہاں سے مستقل اصرار تھا مگر پنڈی سے ہی مہلت نہ ملی۔ دونوں گھروں میں بھرپور پذیرائی رہی۔ ہماری امی کہتی تھیں کہ دو گھروں کا مہمان بھوکا رہ جاتا ہے مگر ہمارے ساتھ بالکل ایسا نہ ہوا ۔ ایک جگہ میز سجی چھوڑ کر جاتے دوسری جگہ دستر خوان پر لذیذ پکوان ملتے۔سب سے بڑھ کر محبت ! اﷲ اس کو قائم رکھے اور برکت عطا کرے۔

بہر حال کھاریاں والے میزبان سے یہ طے ہوا کہ لالہ موسٰی پر تھوڑی دیر کو ٹرین رکتی ہے وہاں ملاقات کرلی جائے گی۔ دو گھنٹے بعد صبح نوبجے دو منٹ کو ٹرین رکی ۔جس میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے ان مہربانوں نے ہمارے حوالے کیے جبکہ ہم نے بھی ایک تحائف کا ایک پلندہ ان کو پکڑایا ۔ اس دو منٹ میں اتنی برکت ہوگئی کہ کئی سیلفیز بھی بنا لی گئیں۔ زبردست اڈونچر تھا !ٹرین کے دیگر مسافر بھی نیند سے بیدار ہوگئے جنہیں ہم نے اس پر تکلف ناشتے میں شریک کر لیا۔باقی کھانے کو ہم نے محفوظ کرلیا لاہور کے لیے مگر پھر بھی ہماری ضرورت سے بہت زائد تھا لہذا اسے کہیں بھجوا کر ذائقے کی داد وصول کی یہ الگ کہانی ہے!

ساڑھے بارہ بجے کے قریب لاہور پہنچے تو گرمی تھی۔ ہوٹل میں سامان رکھ کرفریش ہونے اور کھانے سے فارغ ہوکر واہگہ کی طرف چلے۔ یہاں گرین بسوں کی طرز پر گرین ٹیکسیاں اور گاڑیاں بھی چلتی ہیں! ہمارے ساتھ کراچی کی ایک ساتھی بھی شریک ہوئیں ۔راستے میں مدیرہ بتول کے فون آنے لگے ۔ ان کا شکوہ کہ آپ لاہور اپنے پروگرام کے برخلاف دیر سے آئی ہیں ۔اب صبح میری لاہور سے باہر روانگی ہے ․․․․․ملاقات کیسے ہو؟ یہ طے ہوا کہ واہگہ سے واپسی پر وہ ہماری منتظر ہوں گی۔(یہ اور بات ہے کہ ہماری تھکاوٹ ، نیند اور سب سے بڑھ کر ڈرائیور کے عدم تعاون نے یہ ملاقات ممکن نہ ہونے دی۔)
واہگہ میں پر وقار اور روح پرور تقریب تھی ۔ جذبوں کو گرمانے والی! قومی ترانے کی دھن پر پرچم لہرائے گئے اور زبر دست نعرے بازی ہوئی۔ اس میں بلاتفریق سب شریک تھے۔ہمارے پیچھے قطار میں جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس بچی نے پاکستان کا مطلب کیا لاالاالہ کا نعرہ لگایا تو ہم نے نظروں ہی نظروں میں اتنی زور سے نعرہ لگانے کوکہاکہ اس کی گونج نواز شریف تک پہنچے جو ملک کو سیکولر بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

اگلے دن ۲۳ ؍ مارچ تھااور بچوں کا مصمم ارادہ تھا کہ وہ اس دفعہ یوم پاکستان مینار پاکستان لاہور میں منائیں گے اور آپ جانیں بچے دھن کے پکے! لہذا صبح سویرے ہی ہم سب یہاں پہنچ گئے مگر سخت مایوسی ہوئی یہ دیکھ کر کہ سب کچھ کھدا پڑا ہے اورنج ٹرین منصوبے کے باعث ۔ کافی دور پیدل چلے تو نظر آ یا مگر یہ وہ تو نہ تھا جس کی امنگ لے کربچے آئے تھے۔ دھول مٹی میں اٹا ہوا ! محمد یوسف کو تو یہ تشویش کہ اب اجتماع عام کہاں ہوگا؟؟

یہاں سے بادشاہی مسجد گئے۔ علامہ اقبال کا مزار پروٹوکول کے باعث بند تھا عوام کے لیے! ویسے لوگ جوق در جوق آرہے تھے۔شاہی قلعہ اور دیگر تاریخی مقامات دیکھتے ہوئے ان کی زبوں حالی پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔ بقول ڈرائیور حکومت ان چیزوں پر توجہ دے رہی ہے جس پر اپنی تختی لگائی جا سکے۔کاش ان عقل کے اندھوں کو یہ سمجھایا جا سکے کہ تزئین و آرائش کے حوالے سے بھی ان کے نام کی تختی سج سکتی ہے ! آج لگ رہا تھا کہ پورا نہیں تو آدھا لاہور ضرور گھر سے باہر نکلا ہو اہے ۔عجائب گھرسے چڑ یا گھر، ریس کورس سے لارنس گارڈن ! ہر طرف عوام کا اژدہام نظر آیا مگر افسوسناک بات یہ کہ تقریباتی اور تفریحی کلچر کی شوقین عوام کے سامنے اس دن کی اہمیت واضح نہیں ہے کیونکہ کوئی ایک تقریب بھی اس حوالے سے نہیں نظر آ ئی۔نظریہ پاکستان پر ویسے ہی دھول ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کاش میلوں ٹھیلوں کی کی شوقین قوم کو مقصد حیات سے آگاہ کر دے کوئی! باغوں کے شہر لاہور میں پھولوں کی نمائش بھی دیکھی۔شمسی لا ئٹ سے روشن ہوتے کھمبے بڑے بھلے لگے۔یہاں میلہ بھی لگا تھا۔ اس کی بھی رونق تھی۔ پارک کے سامنے ہاسپٹل دیکھ کر ذہن میں آیا کہ خدانخواستہ حادثے کی صورت میں ․․․․․! فوراً لاحول پڑھی تھی مگر انہونی ہو کر رہی اور ہم دھک سے رہ گئے جب اقبال پارک میں بم دھماکے کی خبر کراچی واپس پہنچتے ہی ملی۔ کراچی سے چلے تھے تو یہاں ناموس رسالتﷺ کے جلسے کی دھوم تھی اور جب لاہور سے نکلے تو وہاں اس کی تیاریاں تھیں ۔

ڈرگ روڈ پر اترے تووہی گرمی کی شدت ! طویل راشد منہاس روڈ کودیکھااور اس کے دونوں طرف چلنے والی چن جی گاڑیوں کو ! رونا تو آیا مگر کراچی جیسا شہر کوئی نہیں ! یہاں کتنی ہی بد امنی ہو! کیسا ہی برا موسم ہو! کتنا ہی برا ماحول ہو! کتنا ہی حالات کا جبر ہو ! کراچی کراچی ہے ! ہم نے پورا سفر عمومی حیثیت میں کیا جوتین صوبوں پر محیط تھا اور دوران سفرہمیں جماعت اسلامی کے بینرز،جھنڈے اور پوسٹرزکراچی کے علاوہ کہیں نظرنہ آئے حتٰی کے نعرے اور اعلانات کو بھی ہماری آنکھیں ترسیں! مطلب ؟ کراچی جیسے باشعور اور باہمت شہر ی کہیں اور نہیں جو خطرے اور خدشات میں ہونے کے باوجود حق گوئی کے قائل ہیں۔ ہم نے اپنے گھر کے قریب سیکٹر آفس سے دو قدم کے فاصلے پر لگے جماعت کے بینر کو دیکھا اور سوچا اسی لیے تو اس کا بندوبست کچھ اور لوگوں کو سونپنے کی تیاریاں ہورہی ہیں!
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.