رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جہاں ساری
فضا کو روحانی ماحول اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے وہاں مہنگائی کا بے قابو جن
بھی ہر طرف دھندھناتا پھرتا ہے جو کہ بلاشبہ انتظامی ناکامی کے زمرے میں
آتا ہے پاکستان کا یہ بھی المیہ ہے کہ یہاں مقدس تہواروں کے آتے ہی ذخیرہ
اندوز اور ناجائزمنافع خور حرکت میں آجاتے ہیں اور عوام کو ریلیف کی بجائے
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے‘ ایسا نہیں کہ حکومت
کی طرف سے مناسب اقدامات نہیں کئے جاتے بلکہ سب ہوتا ہے مگرحکومت قانون شکن
عناصر پر رٹ قائم کرنے میں ناکام رہتی ہے‘ عوام سراپا احتجاج رہتے ہیں
‘میڈیا چیختا رہتا ہے اور قلم کار صفحے کالے کرتے رہتے ہیں اور یونہی وقت
گزر جاتا ہے ‘بلاشبہ اس بے حسی اور نا انصافی کی ذمہ دار بالواسطہ یا بلا
واسطہ حکومت ہی ہے کیونکہ حکومت اپنے استحکام اقتدار کے مسائل میں الجھ کر
عوام کے مسائل سے مکمل طور پر لا تعلق ہو جاتی ہے‘ بریں وجہ حکومتی ورفاعی
پیکجز اورامدادی چیک کے ضمن میں مختص کی گئی رقوم خوش آمدی اور قرابت دار
کھا جاتے ہیں اگرچہ شکایات پر نوٹس لیا جاتا ہے مگر کاغذوں تک محدود رہو کر
رہ جاتاہے‘ حق دار کو حق نہیں ملتا اور ذمہ داران کو سزا نہیں ملتی ایسے
میں عوام لہو کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں‘ مفاد پرستی کا غلبہ اتنا ہوگیا
ہے کہ ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی مثال قائم ہو چکی ہے ‘ہر ذی شعور اس
سے آگاہ ہے مگر جال اس قدر خوبصورت اور دلفریب لفظوں سے بنا جاتا ہے کہ عام
آدمی سب کچھ جانتے ہوئے بھی جذبات کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے
وزرا کے ستائشی اور جوشیلے بیانات نظر سے گزرے کہ وفاقی حکومت نے ۵ ارب
روپے کے رمضان پیکج کا علان کیا ہے‘ جس سے صوبہ بھر کے عوام کو رمضان
بازاروں اور یوٹییلٹی سٹورز کے ذریعے سستی اور معیاری اشیا فراہم کی جائیں
گی‘ حکومت کی طرف سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ رمضان بازاروں میں تمام
اشیا ئے خوردونوش مارکیٹ سے کم قیمت پر دستیاب ہونگی اور ان کی کوالٹی پر
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا مزید یہ کہ مستحق افراد کا روزہ کھلوانے کے
لیے دو ہزار مدنی دسترخوان بھی لگائے جائیں گے اور ان کی نگرانی کے لیے
تمام وزراء ،ممبران اسمبلی ،سیکریٹریز اور ضلعی انتظامیہ رمضان میں خاص طور
پر فیلڈ میں ڈیوٹی دیں گے اور صارفین کو رمضان بازاروں میں ریلیف کی فراہمی
کو یقینی بنایا جائے گا‘ اس ضمن میں ذخیرہ اندوزوں ا ور ناجائز منافع خوروں
کو شکنجے میں لانے کے لیے دو ہزار پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی ڈیوٹی سرانجام
دیں گے ‘سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے فول پروف اقدامات
کئے جائیں گے‘ اس مقصد کے لیے محکمہ پولیس کا خصوصی عملہ رمضان بازاروں پر
تعینات ہوگا ‘جو مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھے گا ‘الغرض وزرا و مشران اور
قصیدہ گو دانشوران کے مطابق وفاقی حکومت کا یہ اقدام مثالی ہے ۔سوال یہ ہے
کہ کیا پنجاب حکومت اس پیکج کے تحت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو
جائے گی ؟ کیا اس ایجنڈا کے ثمرات سے عوام واقعی مستفید ہو سکیں گے یا
ہمیشہ کی طرح لوگ مہنگائی اور گرمی کے ہاتھوں بوکھلائے ہوئے اور احتجاج
کرتے دکھائی دیں گے ؟
تو عرض یہ ہے کہ لفاظی میں اور حقائق میں بہت فرق ہوتا ہے اور زمینی حقائق
یہی ہیں کہ صدیاں ہی نہیں یہاں دہائیاں بیت گئیں ہیں اس دوران کبھی جمہوریت
اور کبھی آمریت کے نام پر کئی حکومتیں برسر اقتدار آئیں مگر کوئی حکومت بھی
عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ‘نعرے تو سبھی
نے ریلیف کے ہی لگائے جبکہ درپردہ اپنی سیاست ہی چمکائی اور اس مد میں
تشہیری منصوبوں کا ہی بول بالا رہا نتیجتاً ملک اقتصادی اور معاشی طور پر
کمزور ہوتا چلا گیا اورحالات سے ستائے ہوئے لوگ خود کشیاں کرنے لگے‘
اگرپاکستان کی سیاسی تاریخ کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو خودکشی کے
رحجان کو مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دور حکومت میں نمایاں طور پر فروغ ملا ‘جب
میاں صاحب نے عوام کے بنیادی مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایسے غیر ترقیاتی
منصوبوں پر توجہ دی جو کہ ملکی بحرانوں کی وجہ بنے اور ان کی معزولی کے بعد
قلم کاروں نے یہ بھی لکھا کہ پتہ نہیں کیوں۔۔ سڑکیں میاں صاحب کی نفسیاتی
کمزوری کیوں تھیں کہ انھوں نے عوامی مسائل کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور و
فکر نہیں کیا بلکہ سیاسی اور ادھورے منصوبوں میں ملک و قوم کا پیسہ لٹا دیا
۔
اب ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھاری مینڈیٹ کے ساتھ بر سر اقتدار
ہے اور طرز حکمرانی میں بھی کوئی نمایاں فرق نہیں ہے اور لکھنے والے پھر
یہی لکھ رہے ہیں اس بار فرق ہے تو صرف اتنا کہ پانامہ لیکس نے بھی میاں
صاحب پر کئی سوالات چھوڑ دئیے ہیں‘ بلاشبہ رفتہ رفتہ یہ لیکس کا معاملہ قصہ
پارینہ ہوتا جارہا ہے مگر مؤرخ لکھ رہا ہے حالانکہ قلم خاموش ہوجائیں گے
‘آوازیں تھم جائیں گی ‘عوام بھی بھول جائیں گے مگر تاریخ انمٹ ہوتی ہے اور
وہ ایک بار پھر مشکوک باب رقم کر رہی ہے‘ ایسے میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ
عوامی مسائل کی مد میں خلوص نیت سے کام کئے جاتے تاکہ اچھائیاں برائیوں پر
غالب آجاتیں ‘اب بھی جو وزر ا نمائشی انداز میں تعریفی بیانات دے رہے ہیں
کہ ایسا رمضان پیکج پہلے کبھی نہیں دیا گیا کیا ہی اچھا ہوکہ وہ کارکنان
اور رضاکارٹیموں سے مل کر ایسے انتظامات کریں کہ حقیقتاً عوام بھی کہہ
اٹھیں کہ واقعی ایسے انتظامات اور ایسا پیکج پہلے کبھی پیش نہیں کیا گیاہے‘
کیونکہ اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ روز اول سے ہی ہماری تمام حکومتیں
دلکش وعدوں اور پر کشش نعروں کے گرد گھوم رہی ہیں‘ہر دور میں ایسے رفاعی
اور امدادی پیکجز کا اعلان ہوتا رہا ہے مگر مقام افسوس یہ ہے کہ جن لوگوں
کو ایسے کام سونپے جاتے ہیں وہ خود ہی سب کھا پی لیتے ہیں اور عوام کو ملتا
ہے صرف ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ‘ یہی وجہ ہے کہ آج عوام مکمل طور پرہر
جماعت سے بد ظن ہو چکے ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کو اﷲ تعالیٰ نے تیسری مرتبہ
موقع دیا ہے اور اس مرتبہ تو کوئی سونامی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پا ررہا
‘ایسے میں تمام مسلم لیگی کارکنان ،وزرا اور اداروں کو چاہیئے کہ اپنی
غلطیوں کو مدنظر رکھ کر رمضان المبارک میں عوام کو اشیائے ضروریہ اور جان و
مال کی سلامتی میں مکمل ریلیف فراہم کریں تاکہ عوامی حمایت حاصل ہو وفاقی
حکومت کو چاہیئے کہ ترجیحی بنیادوں پر ایسی ٹیمیں تشکیل دیں جو کہ ان سب
کاموں اور ذمہ داران کی نگرانی کریں کیونکہ اب صرف بیانات اور بہانے کام
نہیں آئیں گے عوام باشعور ہو چکے ہیں‘ ویسے بھی پاکستانی سیاستدان ہوں یا
اشرافیہ وہ تمام لوگ جو عوام سے ووٹ لیکر آج عہدوں پر برا جمان ہیں اور ان
کو دستیاب تمام پروٹوکولز ،آسائشیں ،تحفظ ،اور دلکش مفادات جو نہ صرف انہیں
حاصل ہے بلکہ ان کے پورے خاندان اس عیش و عشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ سب
غریب عوام کی کمائی ہے اور غریبوں کے ووٹ کا کمال ہے اس لیے اگر اس رمضان
المبارک بھی عوام کو ریلیف نہ ملااور ان کے بنیادی مسائل کے لیے کوئی لائحہ
عمل تیار نہ کیا گیا تو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر‘ ایک ہی میز پر سو اقسام
کے لوازمات سجا کر‘ روزہ رکھتے اور کھولتے وقت یاد رکھیئے گا کہ اس حق تلفی
کا حساب روز محشر دینا ہوگا ! |