صاحبِ دل

ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے لندن کے ایک کلینک میں داخل ہیں او ربقول حسن نواز اور مریم صفدر ر قوم کی دعاؤں سے تیزی کے ساتھ رو بصحت ہیں ۔قوم نے ان کی صحت یابی کے لئے دل سے دعا کی ہے اور یہ بات میں اتنے وثوق سے یوں کہہ رہا ہوں کہ ان دعا کرنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔یقین مانئیے میرا صالح ظافر ،ابصار عالم ،نجم سیٹھی ،مشتاق منہاس اور سرتاجِ طائفہ جناب عطاء الحق قاسمی کے" سلسلہ التجائیہ "سے نہ تو کوئی تعلق ہے نہ ہی دل نے کبھی اس کی خواہش کی ہے۔پانامہ لیکس کے ہنگام آف شور کمپنیوں کے الزامات میں جکڑے کسی شخص کے لئے دعا حالانکہ کارے دارد ہے لیکن وزیر اعظم کی بیماری نے ایک بات واضح کر دی کہ قوم ابھی تک اخلاقیات سے اتنا عاری نہیں ہوئی جتنا ہمارے حکمران ۔نواز شریف سے خاطر خواہ خار اور عمران سے ہمدردی کے باوجود دل یہی چاہتاتھا کہ آزمائش کے اس موقع پہ عمران خان اور بلاول بھی ہاتھ ہولا ہی رکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔عمران اور بلاول بھی تو ہماری مقتدر اشرافیہ ہی کا حصہ ہیں اس لئے روم میں وہ بھی وہی کچھ کریں گے جو رومن کرتے ہیں۔
بڑھ گئی بات بات کچھ بھی نہ تھی

وزیر اعظم کی بیماری پہ دعائیں مانگتے سمے مجھے اپنے گاؤں کا لوہار یاد آیا۔خمدو لوہار،کاریگر اور کایاں۔بندوق سے لے کے نوٹ چھاپنے والی مشین تک ہر چیز بنانے کا اس پہ الزام تھا۔سنا ہے جس چیز پہ ایک بار نظر ڈال لیتا۔ اس کی ایسی نقل بناتا کہ لوگ اصل اور نقل کی پہچان بھول جاتے۔ایسے لوگوں کو زیادہ اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ لوگ ان کی فنکاری کی داد دیں ان کے عالی دماغ کے گن گائیں۔ایسے لوگ چونکہ بنیادی طور پہ فنکار ہوتے ہیں اسی لئے انکے مزاج میں درویشی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔اس کے ہنرسے فائدہ اٹھانے والے لیکن آج کے معاشرے کی پیداوار نہیں تھے کہ مطلب نکل جانے کے بعد اسے ٹشوپیپر کی طرح اٹھا کے کوڑہ دان میں پھینک دیتے۔جنہوں نے اس سے خدمت لی تو اس کا معاوضہ بھی خوب دیا۔بابا باہر سے درویش دکھتا تھا لیکن اندر سے پورا تھا۔اسے جو کچھ ملا اس نے نہائت چابکدستی سے کاروبار میں لگا دیا۔اب وہ خمدو نہیں ـ"کارخانو سیٹھ " تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔۔غریبی میں پیدا ہونے والے اس اکلوتے بیٹے کا نام نجانے کیا سوچ کے اس نے جبروت رکھا تھا۔ جب تک وہ سکول میں رہادوست اسے" جبرو"ہی کہتے رہے لیکن جونہی اس کے باپ نے پہلا کارخانہ لگایاوہ جبروت کہلانے لگا۔کارخانوں کی تعداد بڑھی تو وہ بھی جبروت خان ہو گیا۔

باپ میں پھر کچھ مروت تھی جبروت جب مقتدر ہوا تو اس نے واقعی جبر کی انتہاء کر دی۔سنا ہے ان کی بھٹی میں زندہ مزدور جلا دئیے جاتے۔ایسے ظالموں کو قدرت اکثر ڈھیل دیتی ہے لیکن سبھی کو نہیں۔جن پہ اسے رحم آ جاتا ہے انہیں بزور طاقت برائی جبر اور ظلم سے روکنے کے اسباب پیدا کر دئیے جاتے ہیں۔جبرو, معاف کیجئیے گا جبروت خان ابھی پینتیس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ" صاحبِ دل "ہو گیا ۔ڈاکٹروں نے اس کے باپ کو بتایا کہ جبروت کا دل سخت خطرے میں ہے۔فوری ا ٓپریشن ہو گا۔باپ لگتا ہے اسی خبر کا منتظر تھا۔ہفتے ہی میں اپنی ساری فنکاریوں سمیت قبر میں جا سویا۔جبروت پریشان تو تھا ہی باپ کی موت نے اسے بالکل توڑکے رکھ دیا۔اس کی دراز رسی کے لپیٹنے جانے کا وقت آ گیا تھا۔جبروت کاروبار کو اپنے کارندوں پہ چھوڑ کے اپنے تئیں شہادت کے مقام پہ فائز ہونے ڈاکٹر کے نشتر تلے جا لیٹا۔قدرت کو چونکہ اس سے ہمدردی تھی۔اسے راہ راست پہ لانا مقصود تھا۔آپریشن سے پہلے اس کے دل میں کچھ ایسا خوف پیدا ہوا کہ مرنے سے پہلے وہ مرنے لگا۔آپریشن کی رات اس نے مصلےٰ منگوایا۔اﷲ سے اپنے گذشتہ مظالم اور گناہوں کی معافی مانگی۔وعدہ کیا کہ اسے مہلت ملی تو وہ مخلوق کے ساتھ روا رکھے جانے والی تمام زیادتیوں کا کفارہ ادا کرے گا اور بچ گیا تو ساری زندگی مخلوق کی خدمت کرے گا۔معجزہ ہوا اور نا امیدی امید میں بدل گئی اور بیماری صحتِ کاملہ میں۔جبروت خان واپس آیا تو بدلا ہوا انسان تھا جیسے اس نے بد معاشی اور سینہ زوری میں نام کمایا تھا یونہی اس نے خدمت خلق میں بھی جھنڈے گاڑ دئیے۔آج جبروت خان کے مزار پہ لنگر پکتا ہے اور لوگ وہاں ہر وقت قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔

مماثلت تو کوئی خاص نہ تھی کہ وزیر اعظم ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ ایک امیر باپ کے بیٹے ہیں۔ان کی اس وقت بھی فیکٹریاں تھیں جب ہم جیسے قلم کے گھسیارے روٹی مانگ کے کھایا کرتے تھے۔ان کے جاتی امراء میں محلات ہیں۔وہ نہ صرف صنعتکار ہیں بلکہ جاگیردار بھی ۔پچھلے تیس سال سے ان کی پارٹی کسی نہ کسی صورت اقتدار میں ہے۔خاندانی اور سیاسی لحاظ سے پاکستان میں ان جیسا کوئی نہیں۔ان کا دسترخوان بہت وسیع ہے۔پاکستان تو کیا دنیا بھر میں ان کا کاروبار ہے۔ان کے بچوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور لندن کے یہ بڑے بڑے فلیٹ۔نام کے بھی وہ نواز ہیں اور شریف بھی۔ان کا اور جبروت خان کا کیا مقابلہ۔ہاں لیکن دونوں"صاحبانِ دل" ہیں۔یونہی دل میں خیال آیا کہ شاید جبروت خان کی طرح قدرت نواز شریف کی بھی مدد کرنا چاہتی ہو۔ممکن ہے نواز شریف نے بھی آ ٓپریشن کی رات مصلےٰ منگوایا ہو۔دعا مانگی ہو۔توبہ کی ہو۔مخلوق کی خدمت کرنے کاعزم کیا ہو۔زندگی ابدی تو ہے نہیں جانا تو سبھی نے ہے۔کل کلاں ممکن ہے اﷲ نواز شریف کی توبہ اور خدمتِ خلق سے خوش ہو کے نواز شریف کے مزار کو بھی مرجعِ خلائق بنا دے۔اسحاق ڈار داتا صاحب کے مزار کی طرح نواز شریف کے مزار کو بھی غسل دیا کریں۔ممکن ہے کہ دربارِ عالیہ نواز شریف پہ لاہور میں سب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی جائے۔لوگ کہیں کہ یہ وہ بزرگ ہیں جنہیں اﷲ کریم نے دنیوی اقتدار بھی دیا اور اخروی بھی۔

رات گئے نشر ہونے والے ایک مزاحیہ ٹی وی پروگرام کے اینکر کی سنجیدگی نے میری ساری امیدوں پہ پانی پھیر دیا جب اس نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کا تو آپریشن ہی مشکوک ہے جو لندن کے بہترین ہسپتالوں کو چھوڑ کے گلی کے نکڑ پہ واقع ایک کلینک میں کیا گیا۔اگر آپریشن ہی نہیں ہوا تو خوف کیا اور خوف نہیں تو توبہ کیسی؟ توبہ نہیں تو معافی کا کیا مطلب؟اگر یہ سچ ہے تو ایسوں کی رسی دراز ہوتی ہے لیکن اکثر کا انجام قارون ،ہامان، نمرود ،فرعون او رضا شاہ،قذافی اور صدام جیسا ہوتا ہے۔قذافی کا بیٹا سنا ہے اربوں ڈالر کی ٹپ دیا کرتا تھا۔کاش نواز شریف کو دل کا حقیقی عارضہ ہوا ہوتا۔کاش ان کے دل میں بھی خوف اترا ہوتا۔کاش وہ بھی مصلےٰ منگواتے اور کاش لاہور میں داتا صاحب جیسا ایک اور مزار بنتا جہاں پاکستان کے غریب پیٹ بھر کے کھانا کھاتے۔صاحب مزار کو قیامت تک دعا دیتے اور ایک رکوع قرآن کی تلاوت کرتے۔یہ نواز شریف کی زندگی کی کوتاہیوں کا بھی کفارہ ہوتا اور ان ا ٓف شور کمپنیوں کا بھی جن کی کالک الحمد ﷲ آج ہر سو ملی ہوئی ہے۔کاش،اے کاش
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 266976 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More