بھارت،افغانستان اور امریکہ کا گٹھ جوڑ
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
عالمی افق پر جاری مفادات کے کھیل نے اک
نئی جہت اختیار کر لی ہے ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ
افغانستان پاکستانی حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ۔ افغانستان میں
بھارتی وزیراعظم کی غیرمعمولی پذیرائی اور بھارت کی جانب سے افغانستان کی
بھرپور مدد واضح پیغام ہے کہ بھارت پاکستان کو نظرانداز کر کے بھارت کی
آغوش میں جا چکا ہے۔ بھارت نے نہایت چالاکی ،مہارت اور چابکدستی سے اپنی
خارجہ پالیسی کو منظم و مربوط کر کے نہ صرف امریکہ سے مثالی تعلقات قائم کر
لیے ہیں بلکہ افغانستان کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی اس نے خاطر خواہ
کامیابی سمیٹ لی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اپنی ناقص خارجہ پالیسی کی بدولت
نہ صرف امریکہ کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے بلکہ افغانستان اور ایران سے
تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں۔پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں محض چین ہی
ایک ایسا ملک دکھائی دیتا ہے جسے پاکستان اپنا دوست قرار دے سکتا ہے وگرنہ
تو تینوں اطراف ایسے ممالک ہیں جو باہم گٹھ جوڑ سے پاکستان کے لیے مشکلات
پیدا کر رہے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں افغانستان کا
جو دورہ کیا ہے اس میں انہوں نے اشرف غنی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دوستی
کے اک نئے سفر کا آغاز کیا ہے ۔ نریندر مودی نے افغانستان میں سلمی ڈیم کا
افتتاح کیا جسے اشرف غنی افغانستان کے لیے اک تحفہ قرار دیتے ہیں اور اشرف
غنی کا کہنا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے افغانیوں کے تیس سال پرانے خواب کی
تعبیر ہوئی ہے ۔بھارت اور افغانستان کی حالیہ ترقیاتی شراکت اس امر کا ثبوت
ہے کہ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کی جڑیں کافی گہری ہو چکی ہیں اور
لگتا کچھ یوں ہے کہ افغان حکومت بھی بھارت کو پاکستان سے مقدم رکھنے کا
فیصلہ کر چکی ہے ۔پاکستان کے لیے یہ صورتحال یقینی طور پر پریشان کن ہے ۔
پاکستان کے ایک جانب ہندوستان ہے جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے ۔ دوسری جانب
افغانستان ہے جو بھارت کی دوستی کا دم بھرنے لگا ہے جبکہ تیسری جانب ایران
ہے جو سعودی عرب سے پاکستان کی والہانہ وابستگی کی وجہ سے مضطرب ہے ۔اور اب
وہ بھی بھارت سے اچھے تعلقات استوار کر چکا ہے ۔سیاسی بصیرت کے حامل افراد
بخوبی جانتے ہیں کہ مودی کا حالیہ دورہ افغانستان بھارتی حکمرانوں کی جانب
سے ماضی میں کیے جانے والے دوروں سے قطعی مختلف نوعیت کا حامل ہے ۔کیونکہ
موجودہ تمام تر پیش رفت کا پشت پناہ امریکہ ہے جو ہر جانب سے پاکستان کو
نرغے میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ایک وقت تھا جب دنیا کے نقشہ پر دو
سپر طاقتوں کا وجود تھا جو باہم بر سر پیکار تھیں اور یہ دونوں طاقتیں اپنے
اپنے بلاک کی مضبوطی کے لیے کوشاں رہتیں جس کی وجہ سے پاکستان کی بھی غیر
معمولی اہمیت تھی ۔یہ روس اور امریکہ تھے جو کرہ ارض پر اپنی طاقت کی دھاک
بٹھائے ہوے تھے ۔پھر روس سے ایک غلطی سر زد ہو گئی اور اس نے طاقت کے نشہ
میں مخمور ہو کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔افغان سرزمین روس کے لیے اک
ڈرونا خواب ثابت ہوئی اور اس کے زوال کا ایسا سلسلہ دراز ہوا کہ اس کی ہیبت
کچھ یوں زمین بوس ہوئی کہ دنیا کہ نقشہ پر صرف ایک ہی سپر طاقت کا وجود
باقی رہ گیا ۔سرزمین افغانستان پر روس کے تکبر کا بت کچھ اس اندازا میں
ٹوٹا کہ اس کی منہ زور طاقت بھی ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئی ۔تب سے اب
تک شتر بے مہار امریکہ بہادر تن تنہا طاقت کے نشہ میں چور اپنے ظلم کا
بازار گرم رکھے ہوے ہے ۔ اسے کوئی روکنے والا ہے نہ ہی اس کے اندھا دھند
مظالم کا سلسلہ ختم کرنے کی کسی ملک میں صلاحیت موجود ہے ۔یہی وجہ ہے وہ بے
پرواہ دنیا بھر میں جہاں چاہتا ہے اپنی من مانی کرتا ہے ۔ جہاں چاہے جس ملک
پر چاہے چڑھائی کر دیتا ہے اور دیگر ممالک اس کی خوشنودی کی خاطر اس کے
کندھے سے کندھا ملانے دوڑے چلے آتے ہیں۔ان دنوں پاکستان بھی امریکی نشانہ
پر ہے جہاں وہ ہندوستان کی پشت پناہی کر کے پراکسی وار میں ملوث ہے اور
پاکستان کی سا لمیت پر گہرے گھاو لگانے میں مصروف ہے ۔دکھ کی بات تو یہ ہے
کہ امریکہ دوستی کی آڑ میں پاکستان سے دشمنی کا ایسا کھیل کھیل رہا ہے جس
کی مثال ملنا ممکن نہیں۔امریکہ بظاہر پاکستان کی دوستی کا دم بھرتا ہے اور
پاکستان کی حکومت بھی یہی گمان رکھتی ہے کہ وہ پاکستان کا اتحادی اور دوست
ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ امریکہ نے ہر اہم موقع پر پاکستان کو دھوکہ
دیا ہے ۔ جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا امریکہ نے ساتھ دینے کی
بجائے ہمیشہ ہی دغا دیا ۔بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اک مدت تک بھارت روس کے
ساتھ نتھی رہا جبکہ پاکستان کا شروع ہی سے جھکاو امریکہ کی جانب رہا ۔اس کے
باوجود جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی تنازعہ نے جنم لیا تو
امریکہ نے کبھی بھی کھل کر پاکستان کی حمایت نہ کی اور نہ ہی اس کے کسی
اقدام سے یہ تاثر ملا کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ ہے ۔اب ان حالات میں
پاکستان کو بڑی مشکل درپیش ہے نہ تو وہ امریکی دوستی سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے
اور نہ ہی امریکی دشمنی مول لے سکتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کی دوستی
اچھی نہ دشمنی ۔ تاریخ گواہ ہے جو ممالک امریکی دوستی میں رہے امریکہ نے
وقت آنے پران ممالک کو دھوکہ ہی دیا اور جب ان ممالک نے امریکہ کا حقیقی
چہرہ دیکھ کر دوستی سے ہاتھ کھینچ لیا تو امریکہ نے ان ممالک کی اینٹ سے
اینٹ بجانے میں بھی دیر نہ کی ۔میری دانست میں حکومت پاکستان کو حالات کی
نزاکت کو بھانپتے ہوے آہستہ آہستہ امریکہ پر انحصار بالکل ختم کر دینا
چاہیے اور سرے سے اسے اپنا دوست سمجھنا ہی نہیں چاہیے ۔ پاکستان کو چین کی
جانب اپنا جھکاو مذیدبڑھانا چاہیے اور اس سے تعلقات مذید مضبوط کرنے چاہییں
۔اقتصادی راہداری جیسے مذید منصوبوں کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور ایسے
اقدامات کرنے چاہییں جس سے پاکستان معاشی اور دفاعی میدان میں خودکفیل ہو
۔پاکستان نے جب سے کشمیریوں کی آواز میں آواز ملانے میں بخل سے کام لیا ہے
بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سرگرمیاں پاکستان میں بڑھ گئی ہیں ۔ پاکستان کو
کشمیر کے معاملہ پر کشمیری موقف کی برملا حمایت کرنی چاہیے اور ہر عالمی
فورم پر اس مسلہ کو اجاگر کرنا چاہیے اس سے بھارت پر دباو برقرار رہے گا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جب سے بر سر اقتدار آئے ہیں وہ نہایت
چالاکی،عیاری اور مکاری سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں
میں مگن ہیں ۔ پاکستان کو بھارت کی فریب کاریوں پر بھرپور نگاہ رکھنی ہو گی
۔ بھارت اک منصوبہ بندی کے تحت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے
پاکستان کے حالات خراب کر رہا ہے ۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے لیکن اب
اس میں شدت آ گئی ہے لہٰذا پاکستان کو بھارتی مذموم کاروائیوں پر گہری نگاہ
رکھنا ہو گی تا کہ پاکستان کی سا لمیت پر کوئی آنچ نہ آئے۔ |
|