وقت ہر ظلم تمہارے تمہیں لوٹادے گا

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ملک میں ایسی کون سی ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی جس کیلئے اسکولوں اور کالجوں کو جو انسانوں کو تعلیم یافتہ ،مہذب اور سلیقہ مند بنانے کیلئے کھولے گئے ہیں ،ان کا اب دفاعی جنگ کیلئے بطور تربیت گاہ استعمال کیا جانے لگا ہے ۔
کچھ دنوں سے وشو ہندوپریشد اور بجرنگ دل کی جانب سے ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کی خبریں کچھ زیادہ ہی موضوع بحث بنی ہوئی ہیں ۔پچھلے ہفتے ایودھیا اور نوئیڈا کے علاقوں میں بجرنگ دل کی طرف سے منعقد کئے جانے والے شوریہ کیمپ میں سیلف ڈیفنس یعنی ذاتی تحفظ کے نام پرہتھیار چلانے کی باقاعدہ مشق کے تنازعے کا شور ابھی جاری ہی تھا کہ اب بنارس کے سگرا نامی اسکول میں وشوہندوپریشد کی خاتون ونگ نے نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دے کر بحث کا ایک اور دروازہ کھول دیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ملک میں ایسی کون سی ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی جس کیلئے اسکولوں اور کالجوں کو جو انسانوں کو تعلیم یافتہ ،مہذب اور سلیقہ مند بنانے کیلئے کھولے گئے ہیں ،ان کا اب دفاعی جنگ کیلئے بطور تربیت گاہ استعمال کیا جانے لگا ہے ۔ وشو ہندوپریشدکی ا س خاتون ونگ کا نام درگا واہنی ہے اسی نے بھارتی پبلک اسکول میں اس کیمپ کا انعقاد کیا تھا ۔اس ٹریننگ کی متعدد تصاویر اخبارات و رسائل نے شائع کی ہیں جس میں خواتین کو ہتھیاروں کے ساتھ ٹریننگ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے ، ان کے ہاتھوں میں رائفل یا بندوق جیسا ہتھیار ہے ۔

یہی نہیں ان لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ کچھ کمسن لڑکیاں بھی ٹریننگ میں شامل ہوکر ہتھیار چلانے کی مشق کررہی ہیں ۔ اس طرح کی مشق کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں یہ طے کرچکی ہیں کہ انہیں اس ملک میں امن نہیں بلکہ بدامنی کی فضا قائم رکھنا ہے۔کیونکہ وہ جو ’ دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘ والے نظرئیے پر یقین نہیں رکھتیں ، اس کے برعکس وہ ظلم و بربریت کے ذریعے عوام کو محکوم بنانا چاہتی ہیں ، تاکہ اس ملک میں ’راون‘ راج کے قیام کی راہ ہموارکی جاسکے ۔ فرقہ پرست طاقتیں یہ سارے کام ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں ،جو بہر صورت ہندوستانی آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے ، اس کے باوجود مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس کی نظرمیں وشو ہندوپریشد اور بجرنگ دل کےہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین نفرت اور دشمنی کی تخم ریزی کرنے والے بیانات و اقدامات قطعاً قابل تعزیر نہیں ۔ایسا نہیں کہ یہ حکومت نا اہلی اور کمزوری کی بنیاد پر غفلت برت رہی ہے بلکہ وہ فرقہ پرست تنظیموں کو شہ دے رہی ہے۔اس کے برعکس کوئی بھی مسلم تنظیم ،جماعت یا ادارہ دائرہ ٔ قانون میں رہ کر بھی کوئی مطالبہ کرتا ہے تو یہی حکومت انتہائی درجے پر فعال و متحرک ہوجاتی ہے ، پھر گڑے مردے اکھاڑے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پاورلوم میں استعمال ہونے والی کانڈیوں کو میزائل اور بم ثابت کرکے کتنے بے گناہوں کی زندگیاں برباد کردی جاتی ہیں ۔اس طرح کے واقعات ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں ظلم و بربریت کے گواہ بنے ہوئے ہیں ۔مسلم نوجوانوں کو بغیر کسی ثبوت کے راتوں رات اٹھا لیا جاتا ہے اور ان پرسنگین مقدمات قائم کرکے داخل زنداںکردیا جاتا ہے ۔لیکن کہتے ہیں نا کہ ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں ، بالآخر برسو ںبعد جب عدالتی فیصلے آتے ہیں تو بیشتر ملزمین باعزت بری ہو جاتے ہیں ۔ایسا ہی ایک تازہ فیصلہ مسلم نوجوان نثار الدین کی رہائی کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے، جسے گذشتہ دنوں ۲۳؍سال جیل میں گذارنے کے بعد جے پور کی ایک جیل سے باعزت رہاکردیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک بار پھر پولس اور انتظامیہ کے منھ پرسیاہی پھر گئی ہے ۔نثارالدین کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد پہلی برسی کے موقع پرہوئے ٹرین دھماکوں میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا ۔یہ گرفتاری ۱۹۹۴ء میں حیدرآباد پولس کی جانب سے کی گئی تھی۔ اس وقت وہ فارمیسی کے سال دوم کا طالب علم تھا اور کرناٹک کے اپنے گھر میں امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھا ، جو ہفتہ بھر بعد ہونے والے تھے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق نثار کالج کیلئےنکلا تو پولس کی گاڑی باہر اس کا انتظار کررہی تھی ،اس کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر اسے گاڑی میں بٹھا لیاگیا ۔وہ دن ،اور آج کا دن، پورے ۲۳؍برس، سب کچھ بدل گیا ، اس کے بقول میری تو دنیا ہی ویران ہوگئی، اب میرے لئے زندگی اور موت میں فرق ہی نہیں رہ گیا ۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کرناٹک پولس اس کارروائی سے لاعلم تھی ، کیا یہ قانون کے ساتھ مذاق نہیں ہے ۔یہ کوئی تنہا نثار کا معاملہ نہیں، نہ جانے کتنے نثارالدین اس طرح کے مسلسل عذابات جھیل رہے ہیں ، کیا حکومت و انتظامیہ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر اسے اقتدار پر بنے رہنے کا کیا جواز بنتا ہے ۔ظلم و نا انصافی زیادہ دنوں تک نہیں ٹکتے ، اب بھی وقت ہے ظالمین سنبھلنے کی کوشش کریں اور انصاف کا دامن تھام لیں ۔ورنہ و ہ دن عنقریب ہے جب وقت ان کے ہر اس ظلم کو انہیں ہی لوٹا دے گا ۔ صاحب نظر تو وہ دن دیکھ رہے ہیں، وہ بھی دیکھ سکیں تو دیکھ لیں ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.