گذشتہ کئی دن سے بجٹ پر بہت بحث و مباحثہ
ہورہا تھا۔ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور ذہانت کے مطابق تبصرہ کررہاتھا ۔بجٹ
پر عام آدمی سے لیکر معشیت دان تک کی نظریں لگی ہوئیں تھیں۔حکومت سے ہر
فیلڈ کا آدمی بجٹ میں اپنے لیے اچھا ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا۔ مگر
اس حقیقت سے انکارنہیں کہ بقول پنجابی محاورے کے (مجاں مجاں دی پہنا
ہوندیاں نے) یعنی امیر امیر کا بھائی ہے اور وہ امیرکا ہی سوچے گا غریب کا
نہیں۔ بحرحال وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار جو اس بجٹ کو بنانے میں دن رات ایک
کیے ہوئے تھے کل انہوں نے آخر کار سانپ پٹاری سے باہر نکال دیا۔ اب اس بجٹ
میں کس کو فائدہ پہنچا اور کس کو نقصان یہ نئی بحث چھڑ جائے گی۔ اپوزیشن
میڈیا پر آکر اپنا شور شرابا کرے گی اور حکومتی ارکان اس کادفاع۔ آخر میں
اس کا رزلٹ کیا نکلنا ہے وہ آپ سب جانتے ہیں اور یہ بجٹ باآسانی منظور
ہوجائے گا۔ عوام دلدل میں جو پھنسی ہوئی ہے وہ مزید نیچے کی طرف دھکیل دی
جائے گی۔ میں کسی سیاسی پارٹی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا اور نہ کسی تجزیہ
نگار کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہتا ہوں کیونکہ کسی سوچ پر پابندی نہیں
لگائی جاسکتی۔ میری ذاتی رائے کے مطابق یہ بجٹ بھی لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔
اس میں عام آدمی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ملا بلکہ جو کچھ بھی ملا ہے وہ
امراء کو ملا ہے۔غریب کو تو بس آٹے میں نمک کے برابر ملا ہے۔
اب ایک نظر اس بجٹ پر جو اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ہمارے وزیر خزانہ اسحاق
ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے
فرمایاکہ معاشی استحکام کے بعد حکومت اب اقتصادی ترقی کی طرف توجہ دے رہی
ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال بجٹ کے حجم میں 7 فیصد اضافہ کیا
گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جاری اخراجات کا حجم 3400 ارب روپے ہے۔ نئے مالی
سال 1360 ارب روپے قرض و سود کی نذر ہو جائیں گے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے
کے لیے وفاق 3621 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہونے کی توقع کر رہا ہے ہے جبکہ
سرکار کا ارادہ ہے کہ مالی سال 17-2016 میں بجٹ خسارے کو 1279 ارب روپے تک
محدود کیا جائے۔ دفاع پر 860 ارب اور ترقیاتی منصوبوں پر 800 ارب روپے خرچ
ہوں گے۔
توانائی منصوبوں کے لیے ڈار صاحب نے فرمایا کہ جب حکومت میں آئے تو بدترین
توانائی بحران کا سامنا تھا۔ بہتر اقدامات سے لوڈشیڈنگ کی صورتحال بہتر
بنائی۔ مارچ 2018 تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی
جس سے ملک میں جاری توانائی بحران ختم ہو جائے گا ۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا
کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ شعبے کیلئے مجموعی
طور پر 380 ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ رکھا گیا۔ وفاقی بجٹ میں خیبر پختونخوا
میں تعمیر کئے جانے والے داسو ڈیم کے لئے 42 ارب روپے مختص کئے گئے۔نیلم
جہلم ہائیڈل کے لیے 61 ارب روپے رکھے گئے۔ ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے کے
3 منصوبوں کیلئے 60 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 32 ارب
روپے رکھے گئے۔ تربیلا چوتھے توسیعی منصوبہ کے لیے 16 ارب مختص کئے گئے۔
چشمہ نیو کلیئر تھری اور فور کیلئے 22 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ گومل زام ڈیم
کیلئے 2 ارب ، کچھی کینال کیلئے 5 ارب مختص کئے گئے۔ اٹامک انرجی کمیشن
کیلئے 27 ارب 56 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔ بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیموں کی
تعمیر کے لئے 20 ارب روپے رکھے گئے۔ بجٹ میں ست پارہ ڈیم، نائے گاج ڈیم کی
تعمیر کے لئے بھی فنڈ رکھے گئے۔ حکومت توانائی کے شعبے کو 157 ارب روپے
فراہم کرے گی۔ پاور سیکٹر 253 ارب روپے کے فنڈز کا خود بندوبست کرے گا۔
واپڈا کے توانائی منصوبوں کیلئے 130 ارب روپے مختص۔ پانی کے منصوبوں کیلئے
واپڈا کو 31 ارب روپے ملیں گے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے لیے 119 ارب روپے
مختص کئے گئے ہیں۔
ترقیاتی منصوبوں کیلئے وفاق نے ترقیاتی بجٹ کا حجم 875 ارب روپے رکھا ہے۔
ڈار صاحب کا کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری تاریخی منصوبہ ہے جو خطوں کو
ملائے گی جس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ منصوبے پر 46 ارب ڈالر کی سرمایہ
کاری ہو گی۔بجٹ میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کیلئے 260 ارب مختص کئے
گئے۔ ترقیاتی بجٹ میں سب سے بڑا حصہ 188 ارب روپے این ایچ اے کو ملے گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے 125 ارب مختص کئے گئے۔ لاہور سے خانیوال
موٹروے کیلئے 34 ارب روپے رکھے جائیں گے۔ ملتان سکھر موٹروے کے لیے 22 ارب
87 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔ برہان سے ڈی آئی خان موٹروے 22 ارب روپے مختص
کئے گئے۔ ریلوے کے مجموعی بجٹ کا حجم 114ارب روپے ہو گا۔ 78 ارب حکومت
فراہم کرے گی جبکہ ریونیو سے 36 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ ترقیاتی بجٹ
میں ریلوے کے لئے 41 ارب روپے مختص کئے گئے۔ پورٹس اینڈ شپنگ کیلئے بھی 12
ارب 80 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافہ
کر دیا گیا۔ مزدور کی کم ازکم اجرت تیرہ ہزار سے بڑھا کر چودہ ہزار روپے کر
دی گئی۔ سرحد پر تعینات اہلکاروں کیلئے بھی خصوصی الاونس کا اعلان کیا ہے۔۔
85 سال سے زائد عمر کے افراد کیلئے پنشن میں پچیس فیصد اضافہ کیا ہے۔ گریڈ
ایک سے پندرہ کے ملازمین کے کا واشنگ ، ڈریس الاؤنس 100 سے 150 روپے ماہانہ
جبکہ کنوئینس الاؤنس میں بھی پچاس فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا۔ ملازمین کے
کوالیفکیشن پے میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پاک فوج کے الاؤنس میں پانچ
سو سے آٹھ سو روپے کر دیا گیا۔ خصوصی افراد کیلئے ایک ہزار روپے خصوصی
الاؤنس کا اعلان بھی کیا ہے۔ حکومت نے اسسٹنٹ کا گریڈ 14 سے بڑھا کر 16 کر
دیا۔ اپر ڈویڑن کلرک کا گریڈ 9 سے بڑھا کر 11 جبکہ ایل ڈی سی کی پوسٹ گریڈ
7 سے بڑھا کر 9 کر دی گئی۔
ڈار صاحب نے بجٹ میں کاشتکاروں کے لیے بڑے پیکج کا اعلان کر دیا۔ نئے بجٹ
میں یوریا کھاد چار سو روپے سستی کر دی۔ بوری اب 1400 روپے کی ملے گی۔ ڈی
اے پی کی بوری
300 روپے کمی کے بعد 2500 روپے میں دستیاب ہو گی۔ زرعی آلات پر ڈیوٹی 5 فیصد
سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی۔ زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔
ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا یونٹ 8 روپے کے بجائے 5 روپے 35 پیسے کا ہو گیا۔
فش فیڈ کیلئے کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کی جا رہی ہے۔ مچلی اور
جھینگے کی خوراک پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی اور مچھلی کے بچوں کی درآمد پر بھی
کسٹم ڈیوٹی کو بھی ختم کر دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں پیش فنانس بل کے تحت 60 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم۔ 14 سو
سے زائد اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ۔ صدر ، وزیراعظم، گورنر،
وزراء ور ججز کے لیے تنخواہ پر انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار۔ بینکوں سے ایک دن
میں 50 ہزار سے زائد رقم نکلنے پر ٹیکس عائد۔ فنانس بل کے مطابق 508 اشیاء
پر کسٹم ڈیوٹی 15 سے بڑھا کر 16 فیصد جبکہ 9 سو اشیاء پر 10 سے بڑھا کر 11
فیصد کر دی گئی ہے۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ بجٹ میں 200 ارب روپے سے
زائد کے ٹیکس اقدامات کیئے گئے ہیں۔ زندہ مرغی پر کسٹم ڈیوٹی میں 6 فیصد،
خشک دودھ کی درآمدی ڈیوٹی پر 25 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ گاڑیوں کے ٹائرز
پر عائد 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کی گئی ہے جبکہ ڈیری، لائیو اسٹاک اور
پولٹری سیکٹر پر کسٹم ڈیوٹی 5 سے کم کر کے 2فیصد کر دی گئی ہے۔
اس بجٹ میں عام آدمی کو کیا ملا ؟ اس کا جواب تو آپ سب کو مل گیا ہوگا۔ سال
بعد مزدور کی تنخواہ میں ایک ہزار ورپے کا اضافہ۔ وہ بھی اگر دیکھا جائے تو
وہ آٹھ فیصد سے بھی کم ہے۔سرکاری ملازمین کو کیا دیا حکومت نے اپنی
تنخواہوں میں تین سو فیصد تک اضافہ کیا اور ملازمین جن کے گھر کا خرچ
تنخواہ پر چلتا ہے ان کو لولی پاپ دیکر بہلادیاہے۔ صدر ، وزیراعظم، گورنر،
وزراء ور ججز کے لیے تنخواہ پر انکم ٹیکس کی چھوٹ برقراررکھی جارہی ہے اور
عوام کے لیے مختلف اشیاء پر ٹیکس بڑھا دیا۔ کیا کھلا تضاد نہیں؟
|