مشیت کے آگے کسی کی نہیں چلتی ۔ اس حقیقت
کا انکشاف سیاست کی دنیا میں بہت عام ہے اس لئے کہ سیاست کھیل ہی اپنے آپ
کو زیادہ سےزیادہ بااختیار اور دوسروں کو بے اختیار کرنے کا ہے ۔اس کے
باوجود نام نہاد اصاگبِ اقتدارکی نظروں کے سامنے بہت کچھ ایسا ہوتا رہتا ہے
جو وہ نہیں چاہتے بلکہ خود انہیں بھی ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو ان پربارِ
گراں ہوتے ہیں ۔ مثلاً ایک ایسے موقع پر جبکہ حکومت ایک ہزار کروڈروپیوں
کےخطیر خرچ سے اپنا دوسالہ جشن منانے جارہی تھی گجرات کے فسادات پر رعنا
ایوب کی کتاب کا منصۂ شہود پر آئی اورذرائع ابلاغ پر چھاگئی۔ سچ تو یہ ہے
کہ گزشتہ ۱۴ سالوں میں یہ کتاب کسی بھی وقت شائع ہوسکتی تھی ۔ ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ یہ کتاب گزشتہ انتخاب سے قبل شائع ہوتی اور نئی حکومت اس پر
پابندی لگا دیتی لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا۔قسمت کےلکھے میں تاخیر یا
تعجیل کیسےممکن ہے ؟ مکافاتِ عمل پرکسی کا اختیار کب ہے ؟ گجرات فائیلس کی
پذیرائی حکومت کی مقبولیت کو منہ چڑھا رہی ہےاقتدارِ وقت بے دست و پا ۔
رعناایوب کی تعریف و ستائش اور مودی و شاہ پرلعنت ملامت ہورہی ہے ۔ کیا
زخموں کے ہرا ہونے کا یہی وقت تھا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کسی کا نہیں
ہوتا گھڑی کے کانٹوں کسی کے قابو میں نہیں آتے نہ رعنا اور نہ مودی کے۔
رعنا ایوب اور رویش کمارجیسے لوگ زعفرانی سیاست کے پرانے دشمن ہیں لیکن کون
سوچ سکتا ہے کہ گوا آر ایس ایس کا سربراہ سبھاش ویلنگر نے ان سرکاری
تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کرسکتاہے جس میں بی جے پی کے سیاستدان اورگوا
کےرہنے والےوزیر دفاع پریکر شریک ہوں؟ فی الحال ملک انہیں شکایت ہے کہ
حکومت انتخاب سے پہلے کئے گئے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہی ہے یہ شکا کس
کو نہیں ہے۔ سبھاش جی کا کہنا ہے کہ حکومت انگریزی میڈیم کے اسکولوں کو
اعانت دے کر علاقائی زبان کو قتل کررہی ہے۔ چونکہ ہر وزیر اپنے بچوں کو آر
ایس ایس کے سرسوتی ودیا لیہ کے بجائے انگریزی اسکول میں داخل کرنا چاہتا اس
لئےدھرم سنکٹ میں ہے کہ آرایس ایس کی مانے یا انگریزی میڈیم اسکولوں کی
سرپرستی کرے ؟
قوم پرست آرایس ایس کو دوہری شہریت کا مسئلہ نمٹانے والا محکمہ قائم کرنے
کے سبب وزیرداخلہ ( مملکت) کرن رجیجو سے بھی شکوہ ہے ۔ گوا ۴۵۰ سالوں تک
پرتگالیوں کی نوآبادی رہا ہے۔ ۱۹۶۱ میں جب وہ ہندوستان میں شامل ہواتو
سارے باشندوں کو ہندوستانی شہریت مل گئی لیکن جاتےہوئے پرتگالیوں نے اعلان
کردیا کہ ان کی حکومت کے دوران پیدا ہونے والے سارے لوگ پرتگالی شہریت کے
حقدار ہیں اور وہ اپنا پیدائشی سرٹیفکیٹ جمع کرکے پرتگال کی شہریت اور
آمدورفت کے دستاویز یعنی پاسپورٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ آگے چل کر پرتگال
حکومت نے اس سہولت کو دونسلوں تک بڑھا دیا۔ زعفرانیوں کے نزدیک اس طرح کا
شرک بھارت ماتا کی توہین ہے لیکن خود ان کے وزیر کرن رجیجو اس خیال سے
اتفاق نہیں کرتے۔ چین کی سرحد پر واقع اروناچل پردیش کے رہنے والے کرن
رجیجوکیا جانیں کہ راشٹر بھکتی کیا ہوتی ہے مگر گوا کے وزیراعلیٰلکشمی کانت
پرسیکر کا کیا کہ جنہوں نے جنوری میں پرتگال کے نومنتخب وزیراعظم انٹونیو
کوسٹا کے مارگو سے تعلق کی بناء پر ایوان اسمبلی کے اندرمبارکباد دی اور
جلد ہی گوا بلا کر پذیرائی کرنے کا اعلان کردیا۔
وزیراعلیٰ کے اعلان پر صوبائی وزیر رام کرشن دھولکر نے آگ بگولا ہوکرکہا
پرتگالی وزیراعظم کو ماضی کے مظالم کی معافی مانگنی چاہئے۔ آرایس ایس بھی
بی جے پی کے بجائے ایم جی پی کی حمایت میں کھڑی ہوگئی اور کہا ہم گوا کی
سرزمین پر انٹونیو کی عزت افزائی کے مخالف ہیں۔ پرتگالیوں کے مظالم ناقابل
معافی ہیں اس لئے اگر وہ آئیں تو انہیں معافی مانگنی ہوگی۔ اب ان احمقوں
کو سمجھائے کہ ناقابلِ معافی جرم کی معافی مانگنا چہ معنیٰ دارد؟ سنگھ
پریوار کے جزلاینفک بی جے پی کی کھوکھلی دیش بھکتی ماہ اپریل میں ساری دنیا
کے سامنے آگئی جب کوہ نور ہیرے کی واپسی سے متعلق عدالت عالیہ میں مودی
حکومت کے سالیسٹر جنرل رنجیت کمار نے سپریم کورٹ کو بتایا کوزارت ثقافت کا
موقف ہے کہ یہ ہیرا برطانیہ کو تحفے میں دیا گیا تھا، اسے چرایا نہیں گیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ حکومت اگر اپنے موقف پر قائم رہتی ہے تو مستقبل میں
کوہ نور کی واپسی کا راستہ بند ہو جائیگا۔اس طرح راشٹر بھکتوں کی حکومت نے
واضح الفاظ میں یہ اعتراف کرلیا کہ کوہ نور کو واپس لانے میں اس کی کوئی
دلچسپی نہیں ہے۔ اس رویہ سے سنگھ پریوار بلکہ ہندوتواوادیوں کی برطانوی
غلامی کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ اٹل جی پر مخبری کا الزام لگ چکا ہے ۔ جسٹس
کاٹجو نے ساورکر کو کھلے عام انگریزوں کا دلال قراردیا ہے۔ اب جو حکومت
ساورکرکی عزت افزائی کررہی ہو اس سے یہ توقع کیوں کر کی جائے کہ وہ برطانوی
سرکار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گی۔
سرکاری موقف کے برعکس ایک نظریہ یہ ہے کہ کوہ نور ہیراایسٹ انڈیا کمپنی نے
لاہور میں رنجیت سنگھ کے پوتے دلیپ سنگھ سے چھین کر برطانیہ بھجوا کرملکہ
وکٹوریہ کو تحفے کے میں دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ریاست نہیں بلکہ ایک تجارتی
کمپنی تھی اور اس کو ایسا کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا۔ کوہ نور ہیرا
ایک ریاست نے دوسری ریاست کو دیا جانے والاتحفہ ہی نہیں تھا اس لئے ملکہ کا
اس پر قانونی حق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوپاک میں بہت سے لوگ اسے قومی
وراثت کا حصہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے اسے واپس لایا جانا چاہیے۔یہاں
تک کہ کچھ بھارتی نژاد برطانوی اراکین پارلیمان بھی یہ مطالبہ کر چکے ہیں
کہ کوہ نور ہندوستان کو لوٹا دیا جائے کیونکہ ان کے مطابق برطانوی حکومت نے
اسے غیر قانونی طور پر حاصل کیا تھا۔ قربان جائیے دیش بھکت مودی سرکار پر
جو سبھاش چندر بوس پر تو خوب سیاست کرتی ہے لیکن قومی وقار کی علامت کوہ
نور ہیرے کو واپس لانے کی جرأت نہیں کرپاتی ۔
بی جے پی والے اٹھتے بیٹھتے ہندوستانی عوام کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ سونیا
گاندھی اطالوی ہیں اور ان کی ہمدردیاں بیرون ملک ہیں لیکن اسی کے ساتھ ان
راشٹر بھکتوں کی حکومت نے کیرالہ میں اپنےہی ماہی گیروں کے اطالوی قاتلوں
کی رہائی میں مدد کرکے انہیں اپنے وطن واپس بھیج دیا۔ ایک طرف پاکستان سے
مولانا اظہر مسعود کو واپس لینے کا دعویٰ اور دوسری طرف خود اپنی قید سے
قاتلوں کو رہا کرنے کرتوت دوغلے زعفرانیوں کا خاصہ ہے۔ بظاہر ان قاتلوں کو
عدالت نے رہا کیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ حکومت کے وکیل نے سنجیدہ کوشش نہیں
کی اور پرگیہ ٹھاکر یا ونجارہ کی مانند کیس کو کمزور کرکے انہیں رہا کروا
دیا۔ اس دوران اسلحہ کے برطانوی دلال کرسچین مائیکل نے عالمی عدالت میں
الزا م لگایا کہ آگسٹاویسٹ لینڈ کی ہیلی کاپٹر بدعنوانی کے معاملے میں
مودی سرکار نے سونیا کے خلاف شواہد کے عوض قاتلوں کو رہا کرنے کی سودے بازی
کی ۔ ہیلی کاپٹر بدعنوانی میں سونیا تو نہیں بی جے پی پھنس گئی۔ ٹینڈر میں
تبدیلی کافیصلہ کانگریس نے نہیں اٹل جی کے مشیر خاص برجیش مشرا نے کیا۔یو
پی اے نے آگسٹا کو بلیک لسٹ کیا مگربی جے پی نے اس پر سے پابندی اٹھائی۔
کانگریس نے اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جسےبی جے پی نے ٹھنڈے بستے میں
ڈال دیا ۔ جب کوتوال کو ڈانٹنے والا الٹا چور چہار جانب سے گھر گیا تو
اطالوی قاتلوں کو بھی رہا کرنا پڑا ورنہ سازش کے کھل جانے کی دھمکی مل رہی
تھی۔ اس طرح نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم بحالت مجبوری دیش واسیوں کے جن
قاتلوں کو کانگریس نے گرفتار کیا تھا اسے دیش بھکتوں کی سرکار کو رہا کرنا
پڑا۔
مودی جی نے جب سمرتی ایرانی کو انسانی وسائل کا وزیر بنایا تو یہ اقدام
لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن ان دوسالوں میں سمرتی نے ثابت کردیا ہے
کہ مودی جی کے بعد عوام کے لئے سب سے زیادہ تفریح کا سامان وہی مہیا کرتی
ہیں ۔ وہ جب بھی منہ کھولتی ہیں نئے گل کھلاتی ہیں ۔ ابھی حال میں انہوں نے
کہہ دیا کہ راہل گاندھی کا کانگریس کی کمان سنبھالنا بی جے پی لئے اچھے دن
لائیگا۔ اس ایک فقرےکے کئی معنیٰ ہیں اول تو یہ کہ ابھی بی جے پی کے اچھے
دن نہیں آئے اگر ایسا ہے تو جن کے اپنے اچھے دن نہیں آئے وہ دوسروں کے
اچھے دن کیا لائیں گے؟ دوسرے یہ کہ بی جے پی کے اچھے دن حکومت کی اچھی
کارکردگی کے باعث نہیں بلکہ راہل کی نااہلی کے سبب آئیں گے۔ سچ یہی ہے کہ
بی جے پی کو اقتدار مودی جی کی مہارت کی وجہ سے نہیں بلکہ کانگریس کے تئیں
عوامی بیزاری کے سبب ملا ہے لیکن سمرتی کو یاد رکھنا چاہئے کہ راہل لاکھ
نااہل سہی لیکن امیٹھی میںاس نے سمرتی ایرانی کو شکست فاش سےدوچار کیا ہے
اس لئے عوام کی نظروں میں تو راہل ہی اہل تر ہے۔
راہل کے سبب بی جے پی کے اچھے دن آئیں گے یا رہیں گے یہ تو کوئی نہیں کہہ
سکتا لیکن اگر شاہ جینے سمرتی کو اترپردیش کی متوقع وزیراعلیٰ نامزد کردیا
تو بی جے پی کے برے دن ضرور آجائیں گے۔ بی جے پی بجا طور پر کانگریس پر
موروثیت کا الزام لگاتی ہےلیکن کیا یہ مودی جی کی اقرباء پروری نہیں ہے کہ
انہوں سنگھ کے قدیم وفاداروں کو دروازہ دکھا کر اپنے چمچوں کو پارٹی کے
تمام اہم عہدوں پر فائز کردیا ۔ کیا بی جے پی کے پاس تڑی پار امیت شاہ سے
بہتر صدر نہیں تھا۔ کیا وزیرانسانی وسائل کی اہم ذمہ داری پر فائز کرنے
کیلئے سمرتی ایرانی کے علاوہ کوئی اور نہیں ملاتھا ۔کیابرسوں سے دانشوروں
میں کام کرنے والا سنگھ پریوار وزیر مالیات کے اہم عہدے کیلئے کوئی ماہر
معاشیات نہیں دے سکا جوایک وکیل کو اس ذمہ داری پر فائز کرنا پڑا؟ اور اب
اترپردیش سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کرنے کی خاطر گجرات کی کروڈ پتی پریتی
مہاپاترا مل گئیں ۔ ان ساروں کے پاس اپنے عہدے کا جواز مودی کی قربت کے
علاوہ کوئی اور نہیں ہے ورنہ اتر پردیش کی بی جے پی کے پاس ایوان بالا میں
نامزد کرنے کیلئے لائق و فائق لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
سونیا گاندھی کو گالی گلوچ کرنے اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کاانعام
سبرامنیم سوامی کو راجیہ سبھا کی رکنیت کے طور پر ملا ۔ وزارت کی ہوس میں
گرفتار اس شخص نے ریزرو بنک کے گورنر رگھوراج رامن کے خلاف محاذ کھول دیا ۔
وہ انہیں نااہل قرار دے کر واپس امریکہ بھیج ینا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں
بالآخر مودی جی نے خود مداخلت کی اور ساری قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ۔
اسی کے ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ وزیراعظم نے رامن کو آئندہ میقات کی پیش
کش بھی کردی لیکن رامن نے اس پیشکش کو ٹھکرا کر ازخود امریکہ نکل جانے کا
اشارہ کردیا ۔ رامن کا یہ انکار مودی سرکار کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایک طرف
مودی بھکت وزارت کے لئے تلوے چاٹ رہے ہیں اور دوسری طرف ایک خوددار افسر
اشارے کنائے میں یہ کہہ رہا ہے کہ جس کے پاس عزت نفس ہو وہ ان اجڑجاہلوں کے
ساتھ کام نہیں کرسکتا ۔ رگھو راج رامن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ ان کے سبکدوشی کی قیاس آرائی سے ڈالر کے مقابلے ہندوستانی
روپئے کی قیمت گھٹنے لگی اور چند گھنٹوں میں عشاریہ ۳ فیصد کم ہوگیا۔
ایوان بالا سےبہت جلد ۵۸ ارکان سبکدوش ہورہے ہیں جن میں سے ۶ مسلمان ہیں
۔یہ ۶ حضرات مختلف سیاسی جماعتوں سے آتے ہیں یعنی ۲ کانگریس ، ۲ بی جے پی
اورایک ایک بی ایس پی و جنتا دل (یو) سے۔ان میں سے بی جے پی کے علاوہ ساری
جماعتوں کو مسلمان ا پنا بہی خواہ سمجھتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ
ابھی تک سوائے دشمن سمجھی جانے والی بی جے پی کے کسی ایک نے بھی ہندو ارکان
کی جگہ مسلمان تو درکنار مسلمانوں کی جگہ مسلمان بھیجنے کا ارادہ بھی نہیں
کیا ہے۔ کانگریس کی طول طویل فہرست میں کوئی مسلمان نظر نہیں آتا جبکہ
راجیہ سبھا میں اس کے رہنما غلام نبی آزاد ہیں ۔ مایا وتی اس بار مسلمانوں
کی جگہ براہمنوں کو دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتی ہیں ۔ جنتادل (یو) کو
اپنے سابق صدر شرد یادو کی فکر ستا رہی ہے اس لئے وہ غلام رسول بلیاوی کی
نشست ان کی دینا چاہتی ہے۔
مسلم یادو سیاست کے ماہرلالو یادو فی الحال اپنی بیٹی میسا بھارتی اور وکیل
رام جیٹھ ملانی کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی
نےجو آئندہ سال مسلمانوں کی مدد سے انتخاب جیتنا چاہتی ہے اس موقع پر
مسلمانوں کو فراموش کررکھا ہے ۔ اس کو دو ارکان نامزد کرنے کا موقع ہے اسے
بھی کوئی مسلمان نہیں ملا۔ اب لے دے کہ بی جے پی بچ جاتی ہے جس نے اپنے
دونوں ارکان ایم جے اکبر اور مختار عباس نقوی کو دوبارہ ایوان ِ بالاکیلئے
نامزد کیا ہے۔ بی جے پی نے یہ فیصلہ مسلمانوں سے ہمدردی میں نہیں بلکہ
مجبوری میں کیاہے۔ اسے نام کیلئے نقوی جیسا وزیر چاہئے اور کام کیلئے اکبر
جیسا صحافی ۔ اس طرح جب سارے نام نہاد ہمدردوں نے امت کو بھلا دیا تو ایک
دشمن کو قدرت نے مجبور کردیا ۔
اسی بیچ ایک حیرت انگیز اور دلچسپ خبر گوہاٹی سے آئی جہاں سرفراز حسین نے
ایس ایس سی بورڈ امتحان کے اندرپوری ریاست میں اول پوزیشن حاصل کی ۔ یہ وہی
ریاست ہے جہاں حال میں پہلی بار بی جے پی کو اقتدار ملا اور پہلی بار ایک
مسلم طالب نے ۳ لاکھ ۸۰ ہزار طلباء کو ہرا کر اول مقام حاصل کیا۔ سرفراز کی
خاص بات یہ نہیں ہے کہ وہ پہلے نمبر پر آیا اس سے قبل کئی مسلم طلباء یہ
اعزاز حاصل کرچکے ہیں لیکن ان میں سے شاید ہی کسی نےآر ایس ایس کے زیر
انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کی ہو ۔ یہ حسن ِ اتفاق ہے کہ جس
وقت ہندوستان کی گدی پر ایک ظالم ترین حکمراں براجمان ہے یکے بعد دیگرے چار
ایسے ملزم رہا ہوگئے جن کو پھانسی کا حقدار سمجھ لیا گیا تھا۔ نثاراحمد،
ابر رحمت اور ڈاکٹر جلیس انصاری کو جس وقت گرفتار کیا گیا مرکز سے لے کر
صوبوں تک میں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس کے بعد جنتا دل کی حکومت آئی پھر
مسلمانوں کے تئیں ہمدرد سمجھے جانے والے اٹل جی نے زمام کار سنبھالی ۔ وہ
گئے تو سادھو سنت سمجھے جانے والے منموہن آئے لیکن ان بے قصور ملزمین کی
رہائی کیلئے مشیت نے مودی کا زمانہ منتخب کیا۔ اس مودی کا کہ جو چاہتا ہے
سارے مسلمان سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائیں لیکن جن کو اللہ رکھے ان کو کون
چکھے۔
مشیت ایزدی تاریک راتوں کے اندر امید کے چراغ روشن کرکے دکھاتی رہتی ہے کہ
دنیا کس کی مرضی سے چلتی ہے؟ اب حالت یہ ہے داؤد کو واپس لانے کا دعویٰ
کرنے والے چھوٹا راجن کی حفاظت کررہے ہیں۔ بی جے پی کے وزیر ایکناتھ کھڑسے
کا نام داؤد ابراہیم کے ساتھ رابطہ کرنے والوں میں سر فہرست ہے اور وہ بھی
بدعنوانی میں ملوث ہوکراپنے پیش رو چھگن بھجبل کی طرح جیل جانے کی تیاری
کررہے ہیں ۔ یہ قدرت کا انتقام ہے جو آخرت میں تو سارے ظالموں کا مقدر ہے
مگر دنیا میں بھی کچھ لوگوں کے حصے میں آجاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً اس طرح کے
حیرت انگیز واقعات کا رونما ہونا اہلِ دانش کیلئے سامانِ عبرت ہے ۔ مشیت
ایزدی کا یہ کھیل بہت پرانا ہے انہیں کو دیکھ کرسرکار دربار کے احاطے میں
پلنے بڑھنے والے چچا غالب نے کہا تھا ؎
بازیچہ ٔ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
|