تحریر:مریم جہانگیر
ایک شخص نے بیج تو بویا نہیں لیکن وہ روز گملے میں پانی دیتا اور تیز دھوپ
میں گملے پر سبز جالی تان دیتا۔ اسکا انتظار ایسا تھا کہ معلوم ہوتا ابھی
پھل لگے گا اور وہ بیٹھ کر کھائے گا۔ کچھ ایسی ہی مثال ہماری بھی ہے۔ ہم
نسلِ نو سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اردو پر مہارت رکھے، اس کے استعمال میں
طاق ہو، ان کا مشاہدہ خوب ہو اور نظر تیز ہو، بصیرت میں ان کی جب تعریف کی
جائے تو ان کی سیرت کے متعلق بھی تعریف کے ڈونگرے برسائے جائیں، لیکن مسئلہ
وہی ہے کہ ہم نے بیج بویا ہی نہیں۔
عصرِ حاضر کے نونہالوں کو نہیں پتہ کہ بنٹوں کے ساتھ جفت طاق کیسے کھیلا
جاتا ہے۔ ربڑ بینڈ سے ستارہ کیسے بنتا ہے اور دھاگے کے ساتھ مختلف اشکال کا
کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہ کتابوں سے بھاگنے اور لفظوں کو نہ سمجھنے والے بچے
ہیں، لیکن مسئلہ ان نونہالوں کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ بلکہ اس مسئلے کی جڑوں
کی نشوونما میں ہماری لاپرواہی کا پانی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے
ہاں اساتذہ کرام اردو کو بحیثیت مضمون پڑھاتے ہیں، بحیثیت زبان کوئی بھی اس
کو سمجھنے کو تیار نہیں۔بس کسی طرح اتنے نمبروں تک کی تیاری ہو جاتی ہے کہ
مجموعی گریڈ اچھا آ جائے۔اس سے زیادہ پڑھنے، پڑھانے کی ضرورت نہ بچے محسوس
کرتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ۔ اردو زبان کی گرائمر سمجھنے کی چنداں کوشش نہیں
کی جاتی۔ اس لئے اردو کے انشائیہ پرچے مجموعہِ لطائف بنے ہوتے ہیں۔گھر میں
دادی نانی کے پاس اتنا وقت ضرور ہے کہ وہ دور پار کے رشتے دار کی غیبت کریں
یا کمپیوٹر پر ان رشتہ داروں کی تصاویر دیکھیں، لیکن کہانی سنانے کی رسمیں
جدید زمانے کی بنیادوں میں پڑی سسک رہی ہیں۔
اگر بات بچوں کے اردو رسائل کی ہو تو وہ بھی چپقلش و رنجش کا شکار نظر آتے
ہیں۔ کہانیاں یوں چھاپتے ہیں جیسے احسان کر رہے ہوں۔۔جو کچھ بہتر رسائل ہیں
انھوں نے اپنے لکھنے والے محدود کر لئے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کو اچھی تحریر
کے باوجود عرصہ دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی خود کو کسی قابل
سمجھتا ہے تو صرف تنقید کرتا ہے اور اصلاح سے مبرا نظر آتا ہے۔ اگر کسی نئے
لکھنے والے کو ذرا سا کچوکا لگے تو وہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ دریا کے پرانے
مگرمچھ اس کی آمد سے خائف ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مدد سے بہت سے مقابلوں
کا انعقاد یقینی بنایا گیا جو کہ مثبت پیش رفت ہے۔ لیکن ان مقابلہ جات کو
منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے ادب کے تحفظ کے لئے کاروانِ
اطفال ادب بھی اپنا حصہ ڈالنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
بچوں کے لئے لکھنے والے بچوں اور بڑوں کو توجہ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ان کے
لئے وظائف اور حوصلہ افزائی کے لئے منظم سرگرمیاں وسیع پیمانے پر منعقد
کرنی چاہیں۔ سکول کی لائیبریری میں نئی اور اچھی کہانیوں کی شمولیت بھی بہت
ضروری قدم ہے جو کہ سربراہان کو اٹھانا چاہئے۔ گھر کے ماحول میں بھی کتابوں
کے لئے گنجائش نکالنے کی ضرورت ہے۔
جب تک ہم بیج نہیں بوئیں گے ، فصل کاٹنے کی تیاری کرنا دیوانے کا خواب ہی
ہے جس کی کوئی تکمیل نہیں۔ نسلِ نو میں کچھ بننے کا حوصلہ ہی نہیں ہے،
کیونکہ ان کو پڑھنے کی عادت جو نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب تندور سیآنے والی
روٹی کے نیچے رکھا اخبار بھی چاٹ لیا جاتا تھا۔ ایسی ڈبل روٹی خریدی جاتی
تھی جس کے ساتھ کہانیوں کی چھوٹی سی کتاب مفت ملتی ہو۔ لیکن اب ویڈیو گیمز
نے بچوں کو کتاب چھونے اور چکھنے کے سرور سے نا آشنا کر دیا ہے۔ وہ چاشنی
جو صفحات سے خوشبو کی صورت ٹپکتی ہے اور ذہن کے نہاں خانوں پر دستک دے کر
سوچ کے نئے در وا کردیتی ہے، اس چاشنی سے انجان بچے جب ڈرائینگ روم میں
بیٹھتے ہیں تو بڑوں کی ادبی باتیں اور سیاسی مباحثے انھیں بے مقصد لگتے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی دلچسپی کا سامان سوشل میڈیا میں ڈھونڈتے ہیں،
یہاں وہاں کیا ہو ریا ہے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔۔۔۔سعدی، لقمان کون تھے،
انھیں کوئی پتہ نہیں۔۔۔اسلامی تاریخ ہو یا برصغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد
کا دور! ہمارے بچوں کو ذرا خبر نہیں۔۔۔۔۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کتاب کو عام کیا جائے۔ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے
والے بچوں کی اردو پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اْردو ہماری زبان بھی ہے اور
پہچان بھی ۔ہماری ثقافت بھی اس سے جڑی ہے اور ہماری عظمت بھی اسی میں
پوشیدہ ہے۔کتاب بینی کو پھر سے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ کتابیں پڑھنا نیا
مشغلہ نہیں ہے لیکن ہمیں اس کو نئے رجحان کی طرح توجہ دینا ہو گی۔
ہمیں اردو زبان کے لئے اپنے جذبات کو کاروان کی شکل دینی ہو گی۔ صرف کہنے
سے کچھ نہیں ہو گا۔ اپنے اردگرد پھر سے تحائف میں کتاب دینے کے رواج کو
پروان چڑھانا ہو گا۔ ان مہکتے پھولوں کو بولتی کتابوں کا تحفہ دینا ہو گا۔
تا کہ ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑھ سکے اور یہ دنیا کے کسی میدان
میں پیچھے نہ رہیں۔ یہ دور مقابلے کا دور ہے۔ اگر ہم نے خود کو دوڑ میں
شامل رکھنا ہے تو جدوجہد کرنی ہو گی۔ کیونکہ وقت کی رفتار بہت تیز ہے اور
وہ ہمیں پیچھے چھوڑ جانے کے در پہ ہے۔
میَں بذاتِ خود چھٹی جماعت سے بچوں کی کہانیوں میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں۔
ان میں سے بیشتر تو محفوظ بھی نہیں۔ لیکن جب باقاعدہ ادب کی دنیا میں
دوبارہ قدم رکھا تو اس بات کو دل میں مستحکم کیا کہ مجھے کسی بھی اور کتاب
کے منظرِ عام میں آنے سے پہلے بیج بونا ہے اور بچوں کی کہانیوں کی کتاب
منظرِ عام پر لانی ہے۔ اس کتاب کا مقصد میری ذات کا اطمینان ہے۔ جس میں
"رْمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز" کا بہت بڑا کردار ہے۔ میرے تخیل کے وہ پھول جو
میَں نے بچپن سے چننے شروع کئے، انہیں ارشد بھائی کی مدد سے آپ کے سامنے
کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اردو ادب کے لئے ان کا جذبہ خدمت قابلِ
قدر اور ستائش ہے۔ میَں اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب رہی اور میری تخیل
کے پھولوں کی خوشبو آپ کو کیسی لگی، بتایئے گا ضرور۔کتاب پندرہ جون سے
مارکیٹ میں گہرے نیلے سرورق ,اردو کے نامور ناول نگار محمود ظفر اقبال
ہاشمی کے اظہارِ خیال کے ساتھ اور بچوں کی سبق آموز اور دلچسپ کہانیوں کے
نام سے دستیاب ہوگی.کہنے والے کہتے ہیں کہ بچوں کی کہانیوں کی کتاب کون
پڑھے گا کون خریدے گا لیکن اب یہ آپ بتائیں گے.کتاب سے بہتر تحفہ کیا ہو
سکتا ہے.آپ کے بچوں کی چھٹیوں کا بہترین مصرف ایک کہانیوں کی کتاب سے بڑھ
کر کیا ہو سکتا ہے.ضروری نہیں کہ میری ہی کتاب ہو.گزشتہ ماہ بھی اکتیس
ادیبوں کی بچوں کی کہانیوں کی کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں سے بھی کوئی ہو
سکتی ہے.اپنے اردگرد بسنے والے بچوں کے اذہان کا رخ پلٹیں .آپ پلٹ سکتے
ہیں.ہمیں اپنی نسل کی تربیت کرنی ہے انہیں تجربے کی بھٹی سے گزارنے کے
بجائے انہیں کہانیوں سے سمجھانا ہے کہ کس گھاٹ کا پانی کیسا ہے.اپنا کردار
ادا کریں |