آپریشن بلیو اسٹار خالصتان تحریک کا شعلہ جوالا
(Raja Majid Javed Ali Bhatti, )
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے
پیروکاروں کا مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ
پر حملے کے 32 برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984 کو بھارتی فوج نے آپریشن بلیو
سٹار کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
یہ آپریشن آٹھ جون تک جاری رہا۔
امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل میں 1984 میں اس آپریشن
بلیو سٹار میں آزادی پسند سکھوں کے سربراہ جرنیل سنگھ بِھنڈرا سمیت سینکڑوں
لوگ ہلاک ہوئے تھے۔بھارتی حکومت کا موقف تھا کہ حملے میں 87 فوجیوں سمیت
400 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سکھوں کا دعوی ہے کہ اس حملے میں ہزاروں لوگ
مارے گئے تھے جن میں وہاں عبادت کے لیے آنے والے افراد بھی شامل تھے۔
اس واقعے کی 32ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق
میں نعرے لگائے گئے
شمالی بھارتی شہر امرتسر میں چھ جون 1984 کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں
تقریبا 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں
کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ
وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت سکھوں کے خلاف ہونے والی اس فوجی
کارروائی کا نام آپریشن بلیو اسٹار رکھا گیا تھا۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں
کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے اور ٹیمپل کی عمارت
کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ اس حکومتی کارروائی کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا
گاندھی اپنے ہی ایک سکھ محافظ کے ہاتھوں قتل ہو گئی تھیں۔ اندرا گاندھی کے
قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی
دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا تھا۔ مختلف سکھ گروپوں کا
موقف ہے کہ یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ان سکھ کش فسادات کے نتیجے میں
ہزاروں افراد بے گھر بھی ہوئے تھے۔
تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی کی تحریک اور
خالصتان کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور
دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی
اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب
ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
اپنے لیے ایک آزاد سکھ ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والی سکھ تنظیم دل
خالصہ کے ایک ترجمان کنور پال سنگھ کا کہنا تھا کہ تارکین وطن اب بھی
خالصتان تحریک کے ساتھ منسلک ہیں اور فنڈز فراہم کرتے ہیں۔
نام نہاد امن کے علمبردار اور عوامی حقوق کے غاصب بھارت میں متعدد آزادی کی
تحریکیں چل رہی ہیں۔ عوام کو بنیادی حقوق دینے کے بجائے کچلنے کے ایجنڈے پر
عمل پیرا بھارت میں ایک بار پھر خالصتان تحریک آج کل عروج پر ہے۔ بھارت میں
جہاں ایک طرف کشمیر کے مسلمان بھرتی ظلم اور تشدد کا شکار ہیں تو وہیں ان
مظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے آسام اور خالصتان کی آزادی کی تحریکیں
بھی چل رہی ہیں۔ تحریک خالصتان سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو بھارت سے الگ
کرکے آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد
ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980کی دہائی میں خالصتان کے حصول
کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی
امداد حاصل تھی۔ کشمیر ہو یا آسام اور یا پھر خالصتان بھارت کسی کو بھی
حقوق دینے کو تیار نہیں۔
بھارت میں خالصتان کی آزادی کی تحریک زور پکڑ گئی ہے جس کے باعث بھارت کو
اپنے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیاہے ،بھارت کے سکھوں پر مظالم کے نتیجے میں
سکھوں کی ریفرنڈم کروانے کی تحریک زور پکڑ گئی ہے جو کہ اب پوری دنیامیں
پھیل چکی ہے اور بھارت کو خطرہ لاحق ہے اگر تحریک خالصتان مزید تیزی پکڑ
گئی تو اس کی دیگر ریاستوں میں چل رہی تحریکیں جو کہ اب ختم ہونے کے قریب
ہیں وہ بھی زور پکڑ جائیں گی۔ بھارت کی حکومت، فوج اور خفیہ ایجنسی الزام
عائد کرتی ہے کہ خالصتان تحریک زندہ کرنے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس
آئی کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ مودی جس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.اسی گروہ کے رہنما
ایم ایس گول والکرجو ڈاکٹر ہدگیوار کے بعد 1940میں راشٹریہ سیوک سنگھ(
آرایس ایس ) کا سربراہ بنا ، اپنی کتابہم اور ہماری قومیت میں لکھتاہے: اس
منحوس دن سے جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا آج تک ہندو قوم ان کے
خلاف بہادری سے جنگ کر رہی ہے، قومیت کا احساس جاگ رہاہے، ہندوستان میں
ہندو رہتے ہیں اور ہندو رہنے چاہیں،باقی سب غدار ہیں اور قومی مشن کے دشمن
ہیں۔ اور سادہ لفظوں میں : احمق ہیں۔ ہندوستان میں دوسری قومیں ہندوقوم کے
ماتحت رہنی چاہیں۔ بغیر کوئی حق مانگے، بغیر کوئی مراعات مانگے، بغیر کوئی
ترجیحی برتا مانگے اور نہ ہی کوئی شہری حقوق۔ اپنی قوم اور کلچر کے تشخص
برقرار رکھنے کے لئے جرمنی نے یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران
کردیا، قومیت کا فخر وہاں پیدا کردیاگیاہے۔ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا
اچھا سبق ہے۔ بھارت نے تقسیم کے وقت سکھوں کو سبزباغ دکھا کر اورجھوٹے وعدے
کرکے اپنے ساتھ ملایا تاہم سکھوں کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ پنڈت نہرو اور
سردار پٹیل نے ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیاہے۔چنانچہ سکھ رہنما
ماسٹرتاراسنگھ نے 28مارچ1953کو کہا: انگریزچلاگیالیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم
سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب
کالے آگئے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری
آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اندراگاندھی نے
اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن
ٹیمپل پر چڑھائی کی ، اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔
جبکہ31اکتوبر 1984کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی
حکمران جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی
گئی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ
وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں
پر حملے کئے گئے۔ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے، ایک اندازے کے مطابق اس مہم
میں 30ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو
اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ
بھی سکھوں پر ہونے والے ظلم وستم پرخاموش نہ رہ سکے۔شواہدموجود ہیں کہ
سکھوں کے خلاف ڈیتھ سکواڈز کی قیادت وفاقی وزیر کمل ناتھ، ارکان پارلیمان
سجن کمار، جگدیش ٹیٹلر، للت میکن، دھرم داس شاستری، ایچ کے ایل بھگت، ارون
نہرو، ارجن سنگھ، حتی کہ بالی ووڈ سٹار امیتابھ بچن کررہے تھے۔ اپنی ماں
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے سکھوں کی نسل کشی کی ان الفاظ
کے ساتھ حمایت کی تھی کہ جب ایک بڑا درخت گرتاہے تو ساری زمین پر لرزہ
ضرورطاری ہوتاہے۔ بھارت میں سکھوں کو لگائے گئے زخموں پر مرہم نہیں
رکھاگیا۔ آپریشن بلیوسٹار کو غلطی قرار دیاگیا لیکن اس غلطی کا مداوا نہیں
کیاگیا۔ اس کے بعد ہونے والے فسادات کے لئے بھی تحقیقاتی کمیشن قائم کئے
گئے لیکن انھیں اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اب بھارت کو زخم لگانے اور پھر ان
پر نمک چھڑکنے کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ خالصتان کے قیام کیلئے پنجاب کی
آزادی کی مہم پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ، زیادہ سے زیادہ سکھ اس تحریک کا
حصہ بن رہے ہیں۔ سکھ ایک دوسرے کو ریفرنڈم 2020 کا پیغام پھیلانے کے لئے
بلا رہے ہیں۔ اس تحریک کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ حق خودارادیت جس طرح ہر
انسان کا قانونی حق ہے، اسی طرح سکھوں کا بھی حق ہے۔ سکھ قوم اس یقین کے
ساتھ جدوجہد کررہی ہے کہ وہ 2020میں بہرصورت حق خودارادیت حاصل کرے گی۔
سن80 اور90کے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد
سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیاتھا، بعدازاں انھوں نے اپنے گھرانے
کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ بعدازاں وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں
بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیاجارہاتھا۔ چنانچہ وہ
اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان
کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے
جوش وخروش سے ریفرنڈم2020 کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔ خالصتانی تحریک کے ذمہ
داران کا دعوی ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں
اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی
ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔جن کا
زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وڑن اور
اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیاہے ، اس
کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ
لیاہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک
ہوگا۔ ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا، ایسے میں اس کی معیشت
کا کیاہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا
حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور
سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔
سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا ایسے دو ممالک ہیں جنھیں کوئی سمندر نہیں لگتا تاہم
وہ نہایت کامیاب ریاستیں ہیں۔ دوسری طرف ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھیں
سمندر کا کنارا لگتاہے لیکن وہ کامیاب ریاستیں نہیں ہیں۔ اس حوالے سے دو
نام قابل ذکر ہیں: پولینڈ اور یوکرائن۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران کا
کہناہے کہ مملکت خالصتان میں کسی بھی ایسے فرد کو کوئی عہدہ نہیں دیاجائے
گا جو سکھوں کے قتل عام میں بلاواسطہ یا بلواسطہ شریک رہاہو یا سکھوں پر
ظلم وتشدد کا حامی رہاہو۔اس کے بجائے انھیں گرفتارکرکے ان کے جرائم پر
مقدمہ چلایاجائے گا۔خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر
قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد
راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ
تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان
خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں- |
|