لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
رمضان المبارک کے اولین لمحات میں جب
مغرب کی نماز ادا کی جارہی تھی تو بجلی غائب ہوگئی، بجلی کے یو ں بے وقت
جانے پر لوگوں کا فطری طور پر یہی تبصرہ تھا کہ حکومت نے تو رمضان میں بجلی
نہ جانے کی خبر دی تھی، اور ہوا یہ ہے کہ بالکل آغاز میں ہی بجلی چلی گئی۔
کافی دیر کے بعد بجلی آئی تو تراویح میں بھی اس نے یہی کام دکھایا، اس کا
آنا جانا لگا رہا۔ صبح ابھی سحری جاری ہی تھی کہ معمول کی لوڈشیڈنگ کا وقت
ہوگیا۔ پہلا روزہ بجلی کی آنکھ مچولی میں گزرا، مغرب کی نماز کے کچھ دیر
بعد جب کچھ کھانے پینے کا وقت ہوا (کیونکہ افطاری میں تو گرمی کی وجہ سے
صرف شربت پینے کا ہی کام ہوتا ہے) تو چولہا منہ چِڑا رہا تھا، نماز عشاء سے
قبل ہی گیس داغِ مفارقت دے گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ اس کی ہنگامی
لوڈشیڈنگ تھی، چند منٹ کے لئے وہ پھر واپس آئی اور پھر اگلی صبح تک کے لئے
غائب۔
ایک بیان یہاں وزیراعظم کے نام سے بھی منسوب کیا گیا ہے جس میں انہوں نے
بجلی کی بلا تعطل فراہمی کا حکم جاری کیا ہے۔ اول تو ضروری نہیں ہوتا کہ
پالیسی بیان حکمران کی زبان سے ہی ادا کروایا جائے، مگر کوئی بہت اہم بات
ہو تو ایسا ہو بھی جاتا ہے، اس لئے ایسے بیانات حکمران خود بھی دیتے رہتے
ہیں، مگر جب وہ مصروف ہوں یا پھر علیل ہوں تو ان کی جگہ پر ان کے نمائندے
یہ بیان جاری کرکے حکمرانوں کے نمبر ٹانکنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بجلی کے
دونوں وزیروں نے بھی لوڈشیڈنگ پر اپنے بیانات ریکارڈ کروا دیئے ہیں، رمضان
سے قبل بھی وہ یہی کہتے آئے تھے کہ رمضان میں سحری اور افطاری کے وقت
لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، یہ کافی محتاط بیان تھا، مگر افسوس کہ وہ اس پر بھی
پورے نہیں اتر سکے۔ مگر بیان کی حد تک خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’’ اﷲ تعالیٰ
کے فضل و کرم سے ہم سحری اور افطاری میں بجلی مہیا کرنے میں کامیاب رہے ہیں‘‘۔
دوسری طرف چھوٹے وزیر عابد شیر علی کا بیان آیا ہے کہ ہم پچاسی فیصد علاقوں
میں سحرو افطار میں بجلی دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ دونوں وزیروں نے درجہ
بدرجہ ہی جھوٹ بولا ہے۔ سیاست میں یہ کام اس قدر تسلسل سے کیا جانا ایک
روایت ہے اور یہ روایت جاری ہے۔
قومی اسمبلی میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی بازگشت بہت شدت کے ساتھ سنائی دی،
یہ دلچسپ جملہ بھی کہا گیا کہ اگر لوڈشیڈنگ کا یہی عالم رہا تو یہ سلسلہ
حسین نواز کے پوتوں تک جاری رہے گا۔ کیا جانئے کہ یہ خدشہ ظاہر کرنے والے
معزز ممبر کے ذہن کے گوشے میں یہ خدشہ بھی ہو کہ حسین نواز کا پوتا بھی
حکمرانی کے مزے ہی لوٹ رہا ہوگا، اور اُس وقت کی اپوزیشن شاید اسی طرح
احتجاج کر رہی ہوگی۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور کارکنان کے لئے یہ نہایت
درجے خوشخبری ہے کہ ان کی پسندیدہ حکومت سالہا سال چلنے کے امکانات پیدا
ہوگئے ہیں، کیونکہ اپوزیشن نے اس کا خود اعتراف کرلیا ہے۔ اگر یہ کام اگلی
تین نسلوں تک چلتا رہا تو اس بات کا خدشہ بھی اپنی موت آپ مر جائے گا جس
میں پانامہ لیکس وغیرہ کا ذکر آتا ہے۔ تب سب جانتے ہونگے کہ حسین نواز کا
کاروبار تو لندن اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہے، مگر وہ اور ان کی اولاد
حکومت پاکستان میں کرتی ہے۔ ان کے لئے یہ بھی مناسب ہوگا کہ ’’میڈ اِن
پاکستان‘‘ کی سٹیمپ اپنے ساتھ ہی رکھیں، تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ
پاکستان کی بنی ہوئی مصنوعات دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کارآمد ہو سکتی
ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حسین نواز کے پوتے باہر اپنا کاروبار کریں اور
عشروں بعد آئی ٹی میں اتنی جدت آچکی ہوگی کہ وہ باہر بیٹھ کر ہی ویڈیولنک
کے ذریعے پاکستان کا نظامِ سلطنت سنبھال سکیں گے۔ میاں نواز شریف کو سیاست
میں آئے ہوئے تین عشرے مکمل ہو چکے ہیں، اگر نسلوں تک یہ سلسلہ جاری رہا تو
کوئی بعید نہیں کہ ان کی اولاد بادشاہت ہی اعلان کردے، تاہم یہ بہتر ہے کہ
بادشاہت پر جمہوریت کا ملمع چڑھا کر عوام کو حسبِ روایت استعمال کیا جاسکتا
ہے۔ قومی اسمبلی میں دیگر امور کے ساتھ لوڈشیڈنگ جیسے گھِسے ہوئے مگر اہم
ایشو پر تقریریں جاری تھیں، ہر کوئی اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا کہ
اپوزیشن کے ہی ایک رکن جمشید دستی نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کردی،
جس پر اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ خدایا یہ کیسے حکمران ہیں، کہ جن کے ہوتے
بجلی اور بجٹ پر بحث کے باوجود کورم بھی پورا نہیں ہوتا؟ |
|