پاکستان میں موجود کشمیریوں کے لئے بھارتی پالیسی۔۔۔1

کانگریس حکومت کے بعد مودی حکومت بھی اس سرینڈر پالیسی کونئے نام کے ساتھ از سر نو شروع کرنا چاہتی ہے۔ اس کا اعلان مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں مفتی سعید کے دور میں بھی بی جے پی ،پی ڈی پی کی اتحادی حکومت نے کیا ۔وزیر اعلیٰ(جو کشمیر کے وزیر داخلہ بھی تھے) نے قانون ساز کونسل کو تحریری جواب میں بتایا تھا کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں موجود کشمیری واپس آنا چاہتے ہیں۔ ان کی حکومت نے تفصیلات پیش کیں کہ نیپال سے 453نوجوان 147بیویوں اور 603بچوں کو لے کر بھارت میں داخل ہوئے اور اپنے گھروں میں پہنچ گئے ہیں۔یہ2015کی کہا نی ہے۔ یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ واپس آنے والوں نے سرینڈر پالیسی کے تحت طے شدہ چار راستوں کے بجائے نیپال کا راستہ اختیار کیا۔ یہ واپسی ورکنگ گروپوں کی سفارشات پر ہوئی ۔ان گروپس کی تشکیل 2006میں ہوئی تھی۔ جن کی سفارشات پر مفتی سعید عمل کرانا چاہتے تھے۔ تا ہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر حکومت نوجوانوں کی واپسی کے لئے سنجیدہ ہے تو انہیں سخت مشکلات کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے۔ انہیں بھارت میں داخل ہونے پرگرفتاری کے بعد جیلوں اور انٹروگیشن مراکز میں کیوں ازیتیں دی جاتی ہیں۔ ان کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے کیوں نہیں دیئے جاتے۔ انہیں کیوں فورسز کیمپوں اور تھانوں پر حاضری دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔مفتی سعید کی وفات کے بعد ان بیٹی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی نیپال کے راستے کھولنے کے فارمولے پر عمل کر رہی ہے۔بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ (جو بی جے پی کے صدر رہ چکے ہیں)کے ساتھ محبوبہ مفتی کی ملاقاتیں اور سرینگر سے ریاستی حکومت کی طرف سے نیپال راستہ کھولنے کا سرکاری بیان جاری کرنا اسی کی ایک کڑی ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ دہلی حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان سے کشمیریوں کی واپسی کے لئے نیپال کے روٹ کو قانونی طریقے سے کھولنا چاہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاک بھارت سی بی ایمز کے تحت سچیت گڑھ سیالکوٹ اور کرگل اسکردو روٹ بھی آر پار کے منقسم عوام کے سفر اور تجارت کے لئے کھولا جائے گا۔ یہ اعلان 2جون2016کو کیا گیا تھا۔ تا ہم کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے تناظر میں اب نئے الفاظ پیش کئے جا رہے ہیں۔ پہلے واپسی کی اس پالیسی کو سرینڈر پالیسی کا نام دیا گیا تھا۔اب اسے آباد کاری کا نام دیا جا رہا ہے۔ اسے انٹرا اور انٹر سٹیٹ سی بی ایمز کا نام دیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ محبوبہ مفتی انڈین ریزرو پولیس فورس(آئی آر پی ایف)کی مزید بٹالین تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ تا کہ مزید کشمیریوں کو اس فورس میں بھرتی کیا جا سکے۔ بظاہر یہ روزگار کے لئے ایک قدم ہو سکتا ہے۔ مگر ماضی میں سپیشل پولیس افسران (ایس پی اوز)، آئی آر پی ایف، ویلج ڈیفنس کمیٹیاں(وی ڈی سی)تشکیل دے کر انہیں آزادی کی جدوجہد مخالف اقدامات کے لئے بروئے کار لایا گیا۔

اس نئی پالیسی کے خد وخال کیا ہوں گے۔ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔کوئی مزید تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ بھارت میں میڈیا پر اس پر بحث شروع کی گئی۔ اس پالیسی کو بھارت کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔نیپال روٹ کو قانونی شکل دینے کے اعلان کے دن ہی کاٹھمنڈو میں بھارتی سفارتخانے نے اپنے ملک کے شہریوں کے لئے کیلاش مانسرور جانے کے لئے نیپال روٹ پر پابندی لگا دی۔یہ ٹریول ایڈوائزری بظاہر موسمی حالات کے تناظر میں تھی۔ اس میں نیپال گنج،سیمی کوٹ، ہلسہ روٹ کو خطرناک قرار دیا گیا۔یہ راستہ چین سرحد کے قریب ہے۔ نیپال چین تعلقات پر بھارت برہم ہے ۔ یہاں ہم اس پر بھی ایک نظر ڈالیں گے۔ پہلے آباد کاری پالیسی کے چند نکات پیش ہیں۔جو دہلی کی ہدایت پر مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں موجود مقبوضہ ریاست کے نوجوانوں کی واپسی کے لیے’آبادکاری نما ’سرینڈر پالیسی ‘‘کے زمرے میں دیئے تھے ۔
1۔پالیسی ان نوجوانوں کے لئے ہے جو 1989تا2009کشمیر سے آزاد کشمیر داخل ہوئے۔2۔پالیسی کو ریاستی حکومت نے تیار کیا اور اس کی توثیق بھارتی وزارت داخلہ نے کی۔
3۔دہلی کی ہدایت پر ریاستی کابینہ نے اس کی منظوری دی۔4۔جو کشمیری ہتھیاروں کے بغیر واپس آ کر نارمل زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں، ان کے لئے واپسی کے چینل کھولے جائیں گے۔
5۔ کشمیر کی مخلوط حکومت کی سربراہ نیشنل کانفرنس نے دعویٰ کیا تھا کہ اتحادی کانگریس کی مخالفت کے باوجود پالیسی کی منظوری دی گئی۔6۔ کمشنر/ سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنے گی جو پالیسی کے تحت کیسوں کو کلئیر کرنے کی مجازہو گی۔7۔پالیسی پر بھارتی وزارت داخلہ نے انڈین آرمی اور خفیہ ایجنسیوں سے مشاورت کی۔8۔یہ انکے لئے ہے جو تشدد کا راستہ ترک کر کے مین سٹریم میں آنا چاہتے ہیں۔9۔نوجوان کے والدین اپنے ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ(ایس پی)سے رابطہ کریں گے اور ضمانت دیں گے کہ انکا بیٹا واپس آ کر نارمل زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
10۔ریاست میں سرگرم تمام انٹلی جنس ایجنسیوں کی چھان بین کے بعد ایس پی والدین کو آرڈرز دے گا۔11۔واپس آنے والے نوجوانوں کو ایک کیمپ میں رکھ کر تین ماہ تک مانیڑ کیا جائے گا اور روزگار کمانے کے لئے ان کی کونسلنگ کی جائے گی۔12۔بیوی بچوں کے ہمراہ واپس آنے والوں کو ایمرجنسی سرٹیفکیٹس دیئے جائیں گے۔14۔جن کاوادی میں کوئی رشتہ دار نہیں، وہ اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے میں سرینڈر درخواست دیں گے۔15۔ انٹر نیٹ پر بھی آن لائن معلومات اور درخواست فارم دستیاب ہو گا۔16۔پالیسی کے باعث نیپال،بنگلہ دیش یا واہگہ بارڈر سے جعلی دستاویزات پر کشمیر آنیکا غیر قانونی داخلہ بند ہو گا۔17۔کلیئرنس پانے والے نوجوان 4انٹری پوائنٹس پونچھ راولاکوٹ(پونچھ)، اوڑی مظفر آباد(اوڑی)، واہگہ(پنجاب)اور اندرا گاندھی انٹر نیشنل ائر پورٹ(نئی دہلی)پر واپس آ سکیں گے۔18۔انٹری پوائنٹ پر انہیں گرفتار کر کے کونسلنگ سنٹرز پر پہنچایا جائے گا۔19۔ یہ یقین دہانی بھی کی جائے گی کہ وہ پاکستان کی طرف سے پلانٹ تو نہیں۔
20۔جن کے خلاف کسی پولیس سٹیشن پر کیس درج ہیں ان کو عدالتوں کا سامنا کرنا ہو گا۔21۔جنگ بندی لائن پار کرنے سے قبل اگر کوئی کسی کیس میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف مقدمہ درج ہو گا۔
22۔ریاستی کابینہ کی منظوری کے بعد پالیسی کو حتمی منظوری کے لئے دہلی بھیجا جائے گا۔23۔حتمی پیکج کا اعلان بھارتی کابینہ کرے گی۔24۔ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ نے 7فروری 2010ء کے دہلی میں بھارتی وزرائے اعلیٰ کی کانفرنس میں خطاب کے دوران آبادکاری پالیسی کی بات کی تھی۔25۔بھارتی وزارت داخلہ نے مئی 2004ء کو کانگریسی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی جانب سے قائم پانچ میں سے ایک ورکنگ گروپ کی سفارشات پرپییج کو تسلیم کیا۔ 26۔ورکنگ گروپ نے بندوق پھینک کر مین سٹریم میں لوٹنے والے ’’گمراہ نوجوانو ں‘‘ کو جنرل ایمنسٹی دینے کی سفارش کی تھی۔
27۔پالیسی کو پاک بھارت مذاکرات کے لئے بڑا سی بی ایم(اعتماد سازی کاقدم)قرار دیا جا رہا تھا۔28۔آبادکاری پیکج مسلح ٹریننگ کے لئے جانے والوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار اقتصادی اور سماجی وجوہات کے باعث جنگ بندی لائن پار کرنے والوں تک بھی بڑھایا جائے گا۔29۔واپس آنے والوں کو بھارت کی سا لمیت اور آئین تسلیم کرنا ہو گا۔جاری۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557168 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More