متھرا میں دوسالوں سے قائم ایک علاحدہ مملکت کا قصہ تمام لیکن!
(Shams Tabrez Qasmi, India)
متھرا ہندؤں کے مقدس اور مذہبی
مقامات میں شامل ہے ،یہ شری کرشنا کی جائے پیدائش ہے ،ان سات شہروں میں
شامل ہے جو ہندوؤں کے نزدیک مقدس اور قابل احترام مانے جاتے ہیں،کرشنا کے
مقام پیدائش پر کیشو دیو مندر بنی ہوئے جسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے ،کہاجاتاہے
کہ سراسینا کی بادشاہت کے زمانے میں متھرا راجدھانی تھی اورشری کرشنا کے
مامویہاں کے راجا ہواکرتے تھے۔
ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں واقع یہ تاریخی شہر متھراہندوستان کی
قومی راجدھانی دہلی کے انتہائی قریب ہے ،دونوں کے درمیان صرف 145 کیلومیٹر
کا فاصلہ ہے لیکن یہ جان کر دنیا حیران ہے کہ دہلی کی ناک کے نیچے جہاں
مرکزی حکومت قائم ہے ،دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والے ملک
ہندوستان کی پارلیمنٹ ہے ،وزیر اعظم سے لیکر تمام وزراء اور انتظامیہ کے
افراد رہتے ہیں وہاں ایک دوسری مملکت قائم تھی ،ایک علاحدہ ملک بنانے کی
منصوبہ بندی ہورہی تھی ،فوج سے مقابلہ کرنے کی مکمل تیار ی ہوچکی تھی ،اسلحہ
کی فیکٹری بھی قائم کرلی گئی تھی اور دوسالوں بعد انتظامیہ کو جب اس کی
بھنک لگی تو وہ اس کا مقابلہ کرنے میں بے بس نظر آئی ،فوج کے جوان آزاد
ریاست کا خواب دیکھنے والوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے،ریاست کے وزیر
اعلی کو بھی اعتراف کرنا پڑا کا پولس کو باغیوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا
۔
آئیے پہلے آپ کو بتاتے ہیں مکمل واقعہ کی حقیقت
یکم جنوری 2014 کوغازی آباد سے تعلق رکھنے والے رام ورکش کی قیادت میں
مشرقی اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور مدھیہ پردیش کے مختلف حصوں سے قریب
ایک ہزار لوگوں نے مدھیہ پردیش کے سمندر سے چل کر دہلی جنتر منتر تک پہنچنے
کے لئے متھرا میں واقع جواہر باغ میں پراؤ ڈالا،انتظامیہ سے وہاں دھرنا
کرنے کی اجازت طلب کی ،اجازت مل جانے کے بعد ان لوگوں نے 280 ایکڑ زمین میں
پھیلے جواہر باغ کے وسیع وعریض رقبہ پر مکمل قبضہ کرنا شروع کردیا ،وہاں
رہنے والے لوگوں سے مارپیٹ کی ،باغ کے مالکوں کو اندرجانے سے روکا ، آم،
آنولہ، بیر سمیت کئی باغ ویران کر دیا،ٹھیکیدار کے ساتھ بھی مارپیٹ کی،عام
لوگ باغ میں جانے سے ڈرنے لگے ،انتظامیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ،عوام
کی مسلسل شکایت کے باوجود کسی بھی ڈیم اور ایس پی نے اس مسئلہ کو حل کرنے
کی کوشش نہیں کی بلکہ ہر ڈی ایم کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ یہ مسئلہ منظر عام
پر آنے سے پہلے ہمارا یہاں سے ٹرانسفر ہوجائے ،جس کسی نے کوشش بھی کی تو اس
پر ایسا زور دار حملہ کیا گیا کہ آئندہ اس نے وہاں سے راہ فرار اختیا کرنے
میں ہی عافیت سمجھی ،بالآخر عوام نے ہائی کورٹ میں دستک دی ،جہاں سے اس
زمین کو خالی کرانے اور پچاس ہزار روپے بطور جرمانہ اداکرنے کا فیصلہ صادر
کیا گیا ،جواہر باغ پر قابض آتنگ وادی خود کو ستیہ گرہ بتارہے تھے اور کئی
سارے مطالبات لیکر بیٹھے تھے جن میں ہندوستان کے صدر اور وزیر اعظم کے
انتخاب کی منسوخی، موجودہ کرنسی کی جگہ’آزاد ہند فوج‘ کرنسی شروع کرنا، ایک
روپے میں 60 لیٹر ڈیزل اور ایک روپے میں 40 لیٹر پٹرول کی فروختگی شامل ہے۔
عدالت کے احکامات کی اطاعت کرتے ہوئے جب دو جون کو پولس جواہر باغ کا قبضہ
ہٹانے گئی تو وہ خود ہر طرف سے باغیوں کے نشانے پر آگئی ،مافیاؤں اور دہشت
گردوں نے کالی آندھی کی طرح انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا، پولیس اہلکاروں پر
شدید فائرنگ ہوئی جس میں ایس پی سٹی مکل دویدی اور ایس او سنتوش یادو کی
موت ہو گئی اور 23پولس اہلکار شدیدزخمی ہوئے ،فائرنگ میں 22 فسادیوں کی بھی
موت ہوئی ہے، جن میں 11 کی موت آگ میں جھلس کر ہوئی ہے ،یوپی پولس کا دعوی
ہے کہ جھلس کرمرنے والوں میں اس گروہ کا سرغنہ راموورکش بھی شامل ہے ۔
جواہر باغ میں ستیہ گرہ کے نام پر رہنے والے یہ لوگ کئی ہزار کی تعداد میں
تھے ،وہاں اسلحہ کی فیکٹری بھی قائم تھی ،بڑوں کے ساتھ بچوں کو بھی جنگی
مہم سر کرنے کی تربیت دی جاتی تھی ،رام ورکش نے اپنی علحدہ مملکت قائم کر
رکھی تھی ، وہ عدالت قائم کرتاتھا ،اپنے نافرمانوں کیلئے سزا کا فیصلہ صادر
رکرتاتھا ،وہاں ایک جیل بھی بنی ہوئی تھی ،ایک اطلاع کے مطابق اس اپنی
علاحدہ کرنسی بھی شروع کررکھی تھی ،عوام سے ناجائز طریقے سے پیسے وصول
کرنا،ڈھونس جمانا،غریبوں کو چوسنا اس کا محبوب مشغلہ بن چکاتھا،این ڈی ٹی
وی کی رپوٹ کے مطابق رام ورکش نے انتظامیہ سے نمٹنے کی پوری تیاری کر رکھی
تھی،اپنے لوگوں کو جنگ لڑنے کے لئے گوریلا ٹریننگ دیتا تھا، ہتھیاروں کے
ساتھ درخت پر چڑھنے اور اوپر سے حملہ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر جنگجو تیار
کئے تھے، ہتھیار اور گولہ بارود زمین کے اندر بھی چھپایا گیا تھا،حملہ کرنے
کے لئے تقریبا ایک ہزار ایل پی جی سلینڈر رکھے گئے تھے،مشکل حالات سے نمٹنے
کے لئے اس نے تقریبا 2 ماہ کا راشن بھی محفوظ کر رکھا تھا۔یوں سمجھئے کہ اس
نے جواہر باغ کواپنا ایک ملک بنارکھاتھا اوروہاں کا راجہ بن کر ہندوستان سے
مقابلہ کرنے کی تیاری میں مصروف تھا ۔
؛لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ سب ہونے کے باوجود نہ ریاستی حکومت کو اس
بھنک لگ سکی ، نہ مرکزی حکومت اور زرات داخلہ کو کچھ معلومات مل سکی ،نہ
یوپی پولس کو کچھ پتہ چل سکا ہے اور نہ ہی ملک کی ان ایجنسیوں تک یہ خبر
پہونچی جنہیں مسلمانوں کے ہرہر پل کی خبر رہتی ہے اور وقوع حادثہ سے قبل ہی
وہ تمام مجرموں کی نشاندہی کرلیتی ہے ،ملک کی میڈیا بھی یہ انکشاف کرنے میں
ناکام رہی جو اکثر مسلمانوں پر بم دھماکہ کرنے کا الزام لگا کر کسی شہر کو
خوفناک تباہی سے بچالینے کا دعوی کرتی ہے اور بے گناہ مسلمانوں کودہشت گرد
ثابت کرکے جیل بھیجنے میں پیش پیش رہتی ہے۔
متھرا میں پیش آئے اس واقعہ کے پس منظر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں
کہاجاسکتا ہے کہ یہ ہندوستان ہے یہاں صرف مسلمانوں کی حرکات وسکنات پر نظر
رکھی جاتی ہے ،خفیہ ایجنسیاں ،پولس محکمہ اور بدقسمتی سے میڈیا بھی اپنے
فرائض کی ادائیگی کیلئے صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ بناتی ہے ،انہیں صرف یہ فکر
لاحق ہوتی ہے کہ مسلمان کیا کررہے ہیں اور انہیں کیسے کسی جرم میں ملوث
ٹھہرانا ہے ،دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی غنڈہ گردی ،دہشت گردی اور مافیاگری
جیسی حرکتوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتاہے اور نہ ہی وہ اسے اپنے فرائض
کا حصہ سمجھتے ہیں ،دوسالوں سے قائم ایک علاحدہ سلطنت سے خفیہ ایجنسیوں اور
پولس محکمہ کی عدم واقفیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہندوستان میں
اکثریتی طبقہ کو ہر جرم کرنے کی کھلے عام اجازت ہے۔
عدالت سے احکامات سے صادر ہونے کے بعد جواہر باغ کا قبضہ ختم ہوگیاہے ،ایک
آزادمملکت کا قصہ تمام ہوگیا ہے ،پولس کے دعوی کے مطابق رام ورکش کی موت
بھی ہوگئی ہے لیکن اس واقعہ نے ایک مرتبہ پھرملک کی انتظامیہ ، خفیہ
ایجنسیوں ،پولس محکمہ ،میڈیا اور دیگر اداروں کے تشخص پر سوالیہ نشان قائم
کردیا ہے ۔(ملت ٹائمز) |
|