ضلع حویلی کا بازار اور سیاسی حسینائیں

ضلع حویلی تیس لاکھ آبادی پر مشتمل آزاد کشمیر کا ایک دور افتادہ ضلع ہے۔ شرح تعلیم میں پاکستان بھر میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔یہاں کے باسیوں کی اکثریت ملازمت پیشہ یا ملک کے دیگر علاقوں میں مزدوری کرتی ہے۔ یہاں کی سیاست صرف تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے جو کہ ٹراسفر، تقرری اور ٹونٹی(پانی کا نلکا) ہیں۔طویل عرصے تک اس پر دھڑا راجگان کا راجپوت خاندان حکمرانی کرتا رہا ہے۔ جن میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ ممتاز حسین راٹھورمرحوم، ان کے فرزندان مسعود ممتاز راٹھور اور فیصل ممتا ز راٹھور شامل ہیں۔ ممتاز راٹھور کے برعکس ان کے دونوں فرزندان نے حویلی کے عوام کو سخت مایوس کیا۔بچپن سے تاحال میرا خاندان راٹھور خاندان کے ساتھ عہد وفاداری نبھاتا رہا جس کا صلہ آج تک میرا خاندان بھگت رہا ہے۔خیر گذشتہ الیکشن میں حویلی کے باسیوں بالخصوص یہاں کے نوجوانوں نے حویلی کی تقدیر بدلنے کے لئے فیصل ممتاز راٹھور کو منتخب کیا۔ امید تھی کہ حویلی کی تقدیر بدل جائے گی، تعلیمی اور انفراسٹریکچر کا انقلاب آجائے گا، یہاں کے لوگوں نے جانی اور مالی دونوں طرح کی قربانیاں دے کر حویلی کے مقدر کو تبدیل کرنے کے لئے فیصل ممتاز راٹھور کو منتخب کرایا، مگر حویلی کے عوام کو اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب موصوف حویلی کے عوام میں کام کرنے کی بجائے اپنے حلقے کو وقت دینے کی بجائے اسلام آباد اور مظفر آباد میں پرتعیش زندگی بسر کرنے لگے۔ حویلی کے عوام چوہدری محمد عزیز کی باغیانہ طبعیت سے عاجز آچکے تھے ، کیوں کہ چوہدری عزیز کسی بھی حکومت کے سامنے کبھی بھی نہیں چکے، چھوٹے مفادات کے لئے اپنی سیاست کا سودا گوارہ نہ کیا ،ایک انقلابی سیاسی کیرئیر گذارہ ، حویلی کے عوام کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہ تھی بلکہ انہیں اپنے کاموں سے غرض تھی چاہے اس کے لئے چوہدری عزیز کو ہر فرد کے سامنے جھکنا ہی کیوں نہ پڑھے، قصہ مختصر چوہدری عزیز جو کہ اپنا اکثر وقت علاقے کے لوگوں کے درمیان گذارتے تھے ، برف کے دن ہوں تو عوام کے ساتھ محمود گلی اور لسڈنہ کا راستہ کھلاوا رہے ہوتے، سیلاب یا قدرتی آفت آتی تو عوام کی خدمت ان کا اولین مقصد ہوتا۔مگر فیصل ممتاز راٹھور کو حویلی کے عوام کے ان مقاصد سے قطعا غرض نہیں تھی، تقرریوں کا وقت آیا تو میرٹ سے ہٹ کر خواجہ برادری کو نوازہ گیا، اپنی برادری کے نوجوانوں پر خواجہ برادری کو فوقیت دی گئی، یہاں تک کہ حویلی میں ضلعی اطلاعات کا شعبہ قائم کیا گیا تو 17ویں گریڈ کی پوسٹ حویلی کے 14قابل نوجوانوں کو نظر انداز کرکے صدر ریاست کی جھولی میں ڈال دی ، جنہوں نے اپنے حلقے کے نوجوان کی اس پوسٹ پر تقرری کی۔ایسی درجنوں مثالیں حویلی کے عوام کے سامنے موجود ہیں۔جبکہ حویلی ایکسپریس وے کو بھی موصوف نے اپنے چند ممبران اسمبلی کے ساتھ دوستی پر قربان کرنے کی کوشش کی مگر بھلا ہو حویلی کے عوام کا جو اس کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑے جس کی وجہ سے ایکسپریس وے کی سیاسی قربانی نہ لگ سکی۔حالیہ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی فیصل ممتاز راٹھور نے اپنی آبائی سیٹ کی بھی قربانی دے دی اور مؤقف اختیار کیا کہ پارٹی کے لئے وہ ایسا نہیں کر رہے ، اصل وجہ حویلی کے عوام خصوصا ان کی برادری میں ان کی مقبولیت کا گرتا ہوا گراف اس کی بڑی وجہ تھی، جبکہ دیگر وجوہات میں راٹھور برادری کے نوجوانوں کا تحریک انصاف کی طرف رجحان اور سوشل میڈیا پر فیصل راٹھور کے خلاف مہم، ن لیگ کی جانب سے حویلی ایکسپریس وے اور یونیورسٹی کا تحفہ ، چوہدری عزیز کی جانب راٹھور برادری کے اکابرین کا رجحان اس کی دیگر وجوہات تھیں۔ اب جبکہ الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے ، ن لیگ کی جانب سے چوہدری محمد عزیز، پیپلز پارٹی کی جانب سے خواجہ طارق سعید، جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے زاہد ہاشمی امیدوار ہیں۔ ان تینوں امیدواران کا تقابلی جائزہ کیا جائے تومحمد عزیز اس وقت واضح برتری سے کامیاب ہوں گے۔ کیوں کہ محمد عزیز کے مقابلے میں دونوں امیدواران سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔لیکن خواجہ طارق سعید سیاسی بلوغت کے اعلیٰ مقام پر بھی فائز کئے جا سکتے ہیں کیوں کہ جس سیاست اور تجربے کے ساتھ انہوں نے اپنی برادری کے لوگوں کو نوازہ ہے وہ بے مثال ہے، زاہد ہاشمی کو راٹھور برادری کے چند نوجوانوں کی حمایت تو حاصل ہے مگر حویلی کے نوجوان اتنے بااختیار نہیں ہیں کہ وہ برادریوں کے حصار کو توڑ کر اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکیں۔حویلی میں برادریوں کے فیصلے محض ایک گھر میں نہیں کئے جاتے بلکہ اس کے لئے برادری کا ایک بڑا ہی فیصلہ سنا دیتا ہے جس کو ہر فرد کو بہرصورت منظور کرنا پڑتا ہے۔زاہد ہاشمی بھی اس وقت تک فیصل ممتاز راٹھور کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام آباد اور راولپنڈی میں اپنی سیاسی محافل برپا کئے ہوئے ہیں اور تحریک انصاف کے اس نعرے ’’ کشمیر کے فیصلے کشمیر میں‘‘ کی بھرپور نفی کر رہے ہیں۔جبکہ طارق سعید اپنی برادری پر کئے جانے والے احسانات کا بدلہ لینے برادری کے سرپنچوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔فیصل ممتاز راٹھور نے پریس کانفرنس میں طارق سعید کی حمایت کا اعلان تو کیا ہے مگر ان کی اپنی برادری کے باشعور نوجوان اس سیاسی قربانی پر سیخ پا ہیں جس کا اظہار وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس پر مسلسل کر رہے ہیں۔ فیصل ممتاز راٹھور کو راقم نے بارہا اپنی تحریروں کے ذریعے ان نتائج کے بارے میں بتانے کی جسارت کی مگر وہ کہتے ہیں ناں اقتدار کا نشہ انسان کو ہوش و ہواس سے بیگانہ کر دیتا ہے، تب پر مثبت تنقید کرنے والا شخص اپنا دشمن محسوس ہوتا ہے، بہرحال فیصل راٹھو رکی سیاسی خود کشی حویلی کی سیاست کے مستقبل کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگی، دوسری جانب چوہدری محمد عزیز کو سابق امیدوار قانون ساز اسمبلی سید علی رضا کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جو کہ ایک بار پھر سادات برادری کو قربانی کا بکرا بنانے کے لئے تیار ہیں ، شاید تحریر کے یہ الفاظ مناسب نہ ہوں مگر جس طرح سابقہ دو الیکشنز میں صاحبزادہ صاحب کا رویہ تھا ، وہی تاریخ دوبار ہ دہرائی جا رہی ہے، پہلی باز صاحبزادہ صاحب نے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن پڑا جس میں انہوں نے پیسے اور وسائل کا بے دریغ استعمال کیا مگر محض چند ہزار ووٹ ہی حاصل کر سکے، اگلی باری پر انہوں نے پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار فیصل ممتاز راٹھور کا ساتھ دیا جو کہ سادات برادری کی نظر میں ایک اچھا فیصلہ تھا، پیپلز پارٹی اور فیصل ممتاز راٹھور نے موصوف کو مشائخ کی نشست پر ممبر اسمبلی بنانے کے سہانے خواب دکھائے ، مگر سیاست بھی بے رحم کھیل ہے اس میں ساتھ دینے والے کھلاڑیوں کو بھی مسلنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر علی رضا بخاری سے سب سے بڑی سیاسی غلطی کی ، اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے اور برادری کو ایک بار پھر حویلی میں انتقامی سیاست کا نشانہ بننے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ اب کی بار بھی شاید مسلم لیگ نے انہیں یہی سپنے دکھائے ہیں ، اب کیا ہوگا یہ وقت تو بتائے گا مگر سادات برادری کو اب کی بار سوچ سمجھ کر اپنا اقدام اٹھانا پڑے گا، بلکہ میری رائے میں تو انہیں صاحبزادہ صاحب کی گارنٹی پر نہیں بلکہ ذاتی فیصلے کی بنیاد پر جس کا ساتھ دینا ہو دے۔ دیگر اقلیتی برادریاں باقی برادریوں کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہیں ، اس شعور کا ثبوت تو جولائی میں ہونے والے الیکشن ہی دیں گے۔تاہم امید کی جانی چاہئے کہ حالات جو بھی ہوں حویلی کی پسماندگی دور ہو اور وہاں بھی ترقی کے سفر کا آغاز ہو۔
Syed Amjad Hussain Bukhari
About the Author: Syed Amjad Hussain Bukhari Read More Articles by Syed Amjad Hussain Bukhari: 21 Articles with 17390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.