پاکستان’’ابھرتی ہوئی معاشی مارکیٹ‘‘
(Dr M Abdullah Tabasum, )
دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں
کے خطے پر مرتب ہونے والے اثرات ،پاناما لیکس جیسے شوشوں سے متعدد ملکوں
میں جنم لینے والے بحرانوں اور پاکستانی معیشت کے مثبت اشاریوں کے باوجود
اندرون ملک پیدا کئے گئے بعض اندیشوں کے تناظر میں یہ خبر پاکستانی ہم
وطنوں کے لئے یقینا حوصلہ افزاء ہے کہ وطن عزیز کودوبارہ ابھرتی ہوئی
معیشتوں میں شامل میں شامل کر لیا گیا ہے ،مورگن اسٹینلے کیپٹل انٹرنیشنل
مارکیٹ انڈیکس میں پاکستان کی توثیق اس فہرست سے آٹھ سال تک باہر رہنے کے
بعد ہوئی ہے اور یہ توثیق اس حقیقت کاکھلا اظہار ہے کہ پاکستان معاشی طور
پر تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے ،اور بین الاقوامی سرمایہ داروں
کاپاکستان پر اعتماد بڑھا ہے بلکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کار ی کو اب اپنے
لئے زیادہ سودمند تصور کر رہے ہیں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کے
روز قومی اسمبلی کو یہ خوش خبری سنائی اور نشاندہی کی کہ دنیا کے22ادارے
پاکستان کے میکرو اکنامک استحکام کاپہلے ہی اعتراف کرچکے ہیں پاکستان 1994ء
سے ایمرجنسی مارکیٹ انڈیکس میں شامل تھا مگر 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے
اثرات کے نیتجے میں مذکورہ سال کے اختتام پر پاکستان کانام اس فہرست سے
نکال دیا تھا جسے منڈی کی معیشت میں کم کارکردگی کی فہرست کہا جاسکتا ہے
قیاقی بجٹ 1675ارب روپے کا ہوگا جبکہ جی ڈی پی کی 5.7فیصد شرح نمو کا ہدف
مقرر کیا گیا ہے بجٹ میں کاشت کاروں کے لئے خصوصی پیکج اور یوریا کھادوں کی
قیمتیں کم کرنے کا بھی اعلان کیا جائے گا زراعت کاہدف جی ڈی پی کا5.3فیصد ،مینو
فیکچرنگ ہدف 1.6فیصد ،خدمات کاہدف 7.5فیصد رکھنے کی منظوری دی گئی ہے ،صوبوں
کے لئے875ارب روپے اور وفاق کے لئے 800ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی بھی
منظوری دی جا چکی ہے افراط زر کی شرح کو6فیصد سے کم ،سرمایہ کاری کاہدف
7.17فیصد ،قومی بچتوں کاہدف 3.16فیصد رکھا جائے گا ،برآمدات کاہدف 24ارب
80کروڑ ڈالر اور درآمدات کاہدف 45ارب 20کروڑ ڈالر رکھا گیا ہے ،قفاقی
ترقیاتی بجٹ کے تحت وفاقی وازارتوں اورڈویثرنوں کے لئے 238ارب روپے ،کارپوریشنز
(این ایچ اے) کے لئے 320ارب روپے ۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لئے
42ارب روپے ،کیمونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 20ارب روپے ،خصوصی وفاقی
ترقیاتی پروگرام کے لئے 28ارب روپے اور ایرا کے لئے سات ارب روپے مختص کرنے
کی تجویز کی منظوری دی گئی ہے آئی ڈی پیز کے لئے 100ارب روپے ،وزیراعظم
یوتھ پروگرام کے لئے 20ارب روپے اور گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹر کیچر فنڈ کے لئے
25ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے ،گزشتہ سال انہوں نے مالی سال 2015-16کے
لئے جون2015ء میں موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ پیش کیا تھا جس کے مقاصد
1۔مجموعی قومی پیداوار میں 5.5%بڑھوتری ہوگی2،مالی خسارہ جی ڈی پی
کا4.3فیصد ہو گا3۔صوبائی سرپیلس 2.97ارب ہو گا 3۔ وفاقی ٹیکس 3418بلین روپے
جمع ہو گا جس سے ایف بی آر ریونیو کا ہدف 3104بلین روپے ہو گا ،سرکاری شعبے
میں کام کرنے والے اداروں کاخسارہ کم کیا جائے گا ،بہتر معاشی اشاریوں اور
مالیاتی خسارے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اقتصادی کمزرویوں پر قابو پایا
جائے گا ،زرمبادلہ کے ذخائے 19بلین ڈالر ہوں گے ،جاری حسابات کاخسارہ جی ڈی
پی کا ایک فیصد ہوگا ،گزشتہ 2014-15کے مقابلے میں برآمدات میں 5.5فیصد اور
درآمدات میں چھ فیصد اضافہ ہو گا ،اربوں روپے کرپشن اور کک بیکس کو منی
لانڈررنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر کے آف شور کمنیاں بنائی گئی ،افراط
زر قابو میں رہا زرمبادلہ کے ذخائیر 19ارب روپے سے تجاوز کر گے اور اب
سابقہ کارکردگی پر نئے بجٹ اہداف کا تعین کیا جار ہا ہے برآمدات میں چودہ
فیصد کمی رہی غی ڈی پی سات فیصد سالانہ تک لے جانا ہو گا ۔۔۔وزیرخزانہ
کاکہنا ہے کہ ایمرجنگ مارکیٹ انڈیکس میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت موجودہ
حکومت کی تین سال سے جاری محنتوں کاثمر ہے بدھ کے روز سیکوریٹز اینڈ ایکس
چینج کمیشن آف پاکستان میں مذکورہ حوالے سے ایک خاص تقریب منعقد ہوئی ،اس
میں اسحق ڈار کاکہنا تھا کہ پاکستان کی خود مختاری ،خوش ھالی اور ترقی کی
راہ متعین ہوچکی ہے اب معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور آنے والے برسوں میں
معاشی نمو کے لئے کام ہوگا،دوسری طرف،معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے متصادم
جاہلانہ رسومات کے خاتمے کی جانب انتہائی مستحسن قدم ہے ،جو جینا جلدی
ا’ٹھا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے غیرت کے نام پر عورتوں اور مردوں کے قتل کے
لئے مختلف علاقوں میں مختلف اصطلاحیتں گھڑی ھئی ہیں جن میں معروف کاروکاری
ہے یہ فعل بدکاری کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کار مرد اور کاری عورت کے
لئے بولا جاتا ہے ،لیکن یہ اس کا زیادہ تر نشانہ عورتیں ہی ہوتی ہیں کیونکہ
وہ آسان اور کمزور ہدف ہیں ،عام طور پر کسی کو کوری یا کارو قرار دینے کے
لئے اس کا کسی غیر اخلاقی عمل میں ملوث ہو نا ضروری نہیں ،محض شک و شبہ یا
الزام ہی کافی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زمین یا جائیداد کے ھق سے محروم
کرنے یا کسی سے بھی اپنا ذاتی انتقام لینے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے ،کسی
عورت کو کاری قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کی برادری کے لوگ از خود یہ اختیار
حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی عزت کی بحالی کے لئے غیرت کا مظاہرہ کرے اور
اس عورت اور اس کے ساتھ ملوث مرد کو چائے وہ ملوث ہے یا نہیں قتل کر دیں ،غیرت
کے نام پر قتل کے خلاف انسانی حقوق کی عالمی اور قومی تنظیمں عرصہ دراز سے
سرگرم ہیں ،قانون میں غیرت کے نام پر قتل کو’’قتل‘‘ہی قرار دیا گیا ہے ،پارلیمنٹ
نے اس حوالے سے بل بھی منظور کر رکھا ہے ،پھر حدود آرڈینس بھی موجود ہے جس
کے تحت سزا دینے کا اختیار صرف ریاست اور عدلیہ کو ہے لیکن سماجی ،معاشی
اور سیاسی مصلحتوں کے شکار معاشرے میں بین الاقوامی قوانین پوری طرح عمل
نہیں ہو پاتا ہے ،قدامت پرست اور اسلامی تعلیمات سے نا آشنا طبقے بھی عورت
کو اپی ’’پراپرٹی ‘‘ کا درجہ دیتے ہیں ان قوانین پر عمل درآمد نہیں ہونے
دیتے ہیں ،اسلام نے باپ کی کی جائیداد میں بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں نصف
حصے کا وارث قرار دیا ہے مگر بیٹی اس حق کے لئے اصرار نہیں کرتی ،اگر کرے
تو جہالت ذدہ معاشرے میں مردوں کی غیرت جاگ ا’ٹھتی ہے اور وہ اسے کوئی
الزام لگا کر جان سے مار دیتے ہیں یا پھر کوئی ڈرامہ رچا کر خودکشی یا کسی
حادثے میں مارے جانے کا رچا دیا جاتا ہے ،راقم کی ریسرچ کے مطابق 1998ء سے
لیکر 2004ء تک0 600عورتوں کو اور مرددوں کو کاروکاری غیرت کے نام پر قتل
کیا گیا ان میں سے 3700عورتیں جبکہ 2300کے قریب مرد تھے ،عدالتوں میں
صرف351مقدمات کے چالان پیش ہوئے ،قاتل برادری کے ہی تھے ایسے مواقع پر
عموما مدعی اور مدعا علیہان میں مصالحت ہو جاتی ہے ،اور مرنے والے کے خون
ناحق کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا ،قتل ناحق کی ایسی وارداتوں میں پنجاب
پہلے نمبر پر ہے ،۔۔۔ختم شد۔۔۔ |
|