پاک افغان کشیدگی……بھارت امریکا گٹھ جوڑ کا نتیجہ
(عابد محمود عزام, Karachi)
کچھ روز سے پاکستان اور افغانستان کے
درمیان جاری کشیدگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اگرچہ سیز فائر کے بعد
دونوں اطراف سفید جھنڈے لہرادیے گئے تھے، اس کے باوجود کشیدگی موجود ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے معاملے میں پیچھے نہیں
ہٹیں گے اور پاکستان نے طورخم بارڈر کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی گیٹ بنانے
کا اعلان کردیا ہے، جبکہ افغانستان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاہدے کی خلاف
ورزی کر رہا ہے، گیٹ کی تعمیر کے نتائج کا ذمہ دار پاکستان ہوگا۔مشیر خارجہ
سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ طور خم پر گیٹ تعمیر کرکے ہم نے کسی معاہدے کی
خلاف ورزی نہیں کی۔ طورخم بارڈر پر پہلے بھی گیٹ موجود تھا اورہم نے افغان
حکام کو گیٹ کی تعمیر سے متعلق پیشگی آگاہ کردیا تھا، جبکہ وزیر دفاع خواجہ
آصف کہتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کر کے مسئلہ حل کرنے کو
تیار ہیں، مگر بارڈر مینجمنٹ ہماری قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اس سے کسی
صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جو لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان امن سے رہے اور
افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوں وہ اس میں خرابی پیدا کر رہے
ہیں۔گزشتہ دنوں گیٹ کی تعمیر کے سلسلے میں افغان فورسز کے حملے کے نتیجے
میں پاکستان کے ایک میجر سمیت متعدد جوان شہید ہوگئے تھے، جس کے بعد دونوں
ملکوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان حکومت
اِس سلسلے میں پاکستان سے تعاون کرتی، کیونکہ طور خم بارڈر پر گیٹ کی تنصیب
سے دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی نقل و حرکت کا خاتمہ ہو جائے گا، مگر
اس کی بجائے افغانستان کی حکومت کشیدگی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ گزشتہ روز پاک
فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ طورخم بارڈر پر
افغان فورسز نے فائرنگ میں پہل کی جس کا بھرپور جواب دیا گیا۔ یہاں گیٹ
لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کر کیا جو نیا نہیں، 2004 ء میں بھی
یہاں گیٹ موجود تھا جو بعد میں طورخم جلال آباد سڑک بنانے کی وجہ سے ہٹا
دیا گیا، طورخم پر چیکنگ کا نظام بہتربنانے کے لیے باڑ لگائی گئی۔ دفتر
خارجہ کے ترجمان کے مطابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ
معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سرحدی علاقے میں لوگوں اور گاڑیوں کی آمدورفت
کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تعمیراتی کام کر رہا تھا کہ افغان فورسز کی جانب سے
بلااشتعال فائرنگ کی گئی، فائرنگ موثر بارڈر مینجمنٹ کے لیے تعمیراتی
سرگرمیاں سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے سے دہشت گردی
کے واقعات روکنے میں آسانی ہو گی، اس کا فائدہ جہاں پاکستان کو پہنچے گا
وہاں افغانستان میں بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی۔ افغانستان طورخم
بارڈر پر پاکستان کی جانب سے سیکورٹی اقدامات پر تعاون کرنے کی بجائے
معاملات کو الجھا رہا ہے۔
طورخم سرحد پر افغان فورسز کی کارروائیوں کے محرکات پر بعض حلقوں کا خیال
ہے کہ پاک افغان تعلقات میں خرابی کا فائدہ تیسرا ملک بھارت اٹھا سکتا ہے،
جب کہ پاک افغان امن ڈیل کی ممکنہ کوششوں کو دھچکا لگنے کا خطرہ ہے، اس لیے
طورخم گیٹ کے معاملے میں بھارت سمیت وہ ممالک افغانستان کو گمراہ کر رہے
ہیں، جو خطے میں امن نہیں چاہتے۔ جب تک نقل و حرکت کو ریگولیٹ نہیں کیا
جاتا، انسداد دہشت گردی کی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں۔یہ پہلا موقع ہے
کہ افغان و پاکستان سرحد پر چیکنگ کا ایک ایسا نظام نافذ کیا جا رہا ہے، جو
بین الاقوامی ضابطوں کے عین مطابق ہے، اس سے پہلے افغانستان سے پاکستان آنا
اتنا ہی آسان تھا، جیسے ایک محلے سے نکل کر دوسرے محلے میں جانا، اس سے
فائدہ اْٹھا کر دہشت گرد بآسانی پاکستان میں داخل ہوتے اور قبائلی علاقوں
میں روپوش ہو جاتے، لیکن افغان فورسز کی بلااشتعال کارروائیوں سے لگتا ہے
کہ انہیں یہ فیصلہ ہضم نہیں ہو رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ
پاک افغان بارڈر پر کشیدگی بڑھانے میں بھارت کا کردار ہے، کہیں ایسا تو
نہیں کہ طور خم پر پاک افغان بارڈر کا افغانستان کی طرف کا نظام اب بھارتی
خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ہاتھوں میں ہے اور افغان حکومت کی آشیر باد سے یہ سب
کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال کے پس پردہ یقیناًکوئی بین الاقوامی
سازش کار فرما ہے۔ آج افغان فورسز کی طرف سے طور خم بارڈر پر بنائے جانے
والے گیٹ کے ردعمل میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ اِس امر کا ثبوت ہے کہ
چوکی خالی کرنے اور بعدازاں وہاں گیٹ بنانے کا فیصلہ کسی بھی طرح افغان
فورسز اور اْس کے پسِ پردہ طاقتوں کے مفاد میں نہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ
اشتعال انگیزی پر اْتر آئے ہیں اور ہر قیمت پر اِس گیٹ کی تعمیر کو رکوانا
چاہتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ اس کے پسِ پردہ امریکا اور بھارت کا ہاتھ ہے، جو
افغانستان سے پاکستان کے اندر آزادانہ در اندازی چاہتے ہیں تاکہ خطے میں
امن قائم نہ ہو اور اس امن کے ذریعے پاکستان جو فوائد حاصل کرنا چاہتا
ہے،اْن سے محروم رہے۔بھارت افغانستان میں اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے، یا
افغانستان حکومت کا اْس کی طرف جھکاؤ زیادہ ہو گیا ہے، جبکہ میں امریکا بھی
ایک بڑے فریق کے طور پر موجود ہے، جو افغانستان میں اپنی موجودگی کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام
بنائے اور چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے کردار کو کم کرے۔ گویا یہ سب کچھ خطے
میں بالادستی کی جنگ کا ایک حصہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان نے دہشتگردی ختم کرنے کے معاملے میں کبھی پاکستان
کے ساتھ تعاون نہیں کیا، اگر اس نے تعاون کیا ہوتا تو آج اس کے مثبت نتائج
سامنے آتے۔ یہ واضح رہے کہ امریکی نائن الیون کے بعد بش کے دور حکومت میں
افغان سرزمین پر امریکی نیٹو فورسز کے ذریعہ شروع کی گئی دہشتگردی کے خاتمے
کی جنگ میں پاکستان کے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے امریکی فرنٹ لائن
اتحادی کا کردار قبول کیا تو اس کے ردعمل میں دہشت گردوں نے ہماری سرزمین
کی جانب رخ کرلیا، چنانچہ اس پرائی جنگ میں دہشتگردی کا عفریت ہماری سلامتی
کے خلاف فعال اور تروتازہ ہوگیا، جس کی بھینٹ چڑھ کر ہماری سیکورٹی فورسز
کے جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 60 ہزار سے زاید باشندے جام شہادت نوش
کرچکے ہیں، جبکہ سو ارب ڈالر سے زیادہ کا ہماری معیشت کو نقصان پہنچ چکا
ہے۔ ہمارا یہ نقصان زیادہ تر امریکا اور افغانستان کے ہمارے خلاف دشمنی پر
مبنی رویے کے باعث ہوا، جنہوں نے دہشتگردی کی جنگ میں ہماری خدمات،
ایئربیسز اور لاجسٹک سپورٹ تو حاصل کی، مگر افغانستان سے فرار ہو کر
پاکستان آنے والے دہشتگردوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا، نہ افغان سرحد پر
دہشتگردوں کی نقل و حمل روکنے میں کسی قسم کی معاونت کی۔ چنانچہ فرنٹ لائن
اتحادی ہونے اور دہشتگردی کی جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانے
کے باوجود پاکستان کے اندر دہشتگردوں کی سرکوبی کے لیے تنہاء ہماری سیکورٹی
فورسز کو مرحلہ وار آپریشن کرنا پڑے، اسی تناظر میں آرمی چیف نے موجودہ سال
کو دہشتگردی کے خاتمہ کا سال قرار دے رکھا ہے۔ ابھی تک دہشتگردوں کا مکمل
صفایا نہیں کیا جاسکا۔ دہشتگردوں کے اس طرح اب تک بچے رہنے کے پس پردہ
محرکات میں یقیناً افغان سرزمین سے انہیں کمک حاصل ہونا بھی شامل ہے اور یہ
بدقسمتی ہے کہ ہماری سلامتی کے خلاف شروع دن سے درپے ہمارے دشمن بھارت کو
بھی اس مقصد کے لیے افغان سرزمین پر ہی سہولت حاصل ہوئی، جہاں اس نے ’’را‘‘
کا نیٹ ورک قائم کرکے کابل انتظامیہ کی آشیرباد سے دہشتگردوں کو تربیت دینا
شروع کی جو یقیناً کابل انتظامیہ کی معاونت سے ہی بھاری اسلحہ اور گولہ
بارود سمیت افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں دہشتگردی
کی وارداتوں میں انسانی خون کی ندیاں بہاتے رہے ہیں۔ افغانستان میں اشرف
غنی کے برسر اقتدار آنے کے بعد کچھ توقعات پیدا ہوئی تھیں کہ اب دونوں
برادر مسلم ممالک کے مابین بہتر تعلقات کار کی فضا استوار ہو جائے گی مگر
شروع کے چند ماہ کے علاوہ اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ وہی رویہ اختیار
کرلیا جو ان کے پیشرو کرزئی نے بھارتی ایماء پر اختیار کیا تھا۔ یہ طرفہ
تماشا ہے کہ پاکستان کی جانب سے تو ہمیشہ افغانستان میں قیام امن کے لیے
قربانیاں دی جاتی رہیں، لیکن کابل انتظامیہ نے ہماری اس خیرسگالی کا جواب
سنگین نتائج کی دھمکیوں اور دشمنانہ رویوں کے ذریعے دیا۔موجودہ صورتحال
ہماری خودمختاری اور سالمیت کے لیے کھلم کھلا چیلنج ہے۔ قوم اس وقت امریکا
اور افغانستان کی جنگ میں اپنے ملک کو میدان جنگ بنا چکی ہے اور ہزاروں
جانیں قربان کرچکی ہے، لیکن جن کی خاطر ہم نے قربانیاں دی آج وہی لوگ ہمیں
آنکھیں دکھا رہے ہیں۔لہٰذا اب ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو سنجیدگی سے
سوچنا ہوگا کہ اب فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرنا ہوگا۔
|
|