میڈیا میں امریکہ، بھارت اور واشنگٹن کی
تہران کے درمیان میں بڑھتی ہوئی قربتوں کا بہت چرچا ہے، پاکستانی سیاستدان
خواہ وہ اہل اقتدار ہوں یا حز اختلاف سے تعلق رکھتے ہوں ، کا کہنا ہے کہ
امریکہ مطلب کا یار ہے، مطلب ہو تو ہمارے ’’واری صدقے ‘‘جاتا ہے اور مطلب
نکل جائے تو اسے ہماری اور ہماری دوستی کی کوئی پراوہ نہیں ہوتی۔ اس کی طرف
سے ہم جائیں بھاڑ میں،اسکی الفت میں دی گئی ہماری قربانیاں بے وقعت قرار
پاتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی امریکہ کی جانب سے پہلی بار ایسا
ہوا ہے، ویتنام کی جنگ ہو، بڈھ بیر کی فضاؤں میں امریکی جاسوس طیارے کی
موجودگی کے راز کا افشاء ہونے معاملہ ہو، 65 کی پاک بھارت جنگ ہو یا 71 کی
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہو…… یا پھر افغانستان میں سویت فوج کے
خلاف عظیم اسلامی جہاد کا معرکہ ہو،یہ تمام واقعات اس امر کی گواہی دیتے
ہیں کہ امریکہ نے اپنے مطلب کے لیے ہمیں استعمال کیا اور پھر ’’ٹشوپیپر‘‘
سمجھ کر پھینک دیا اور کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ پاکستان اور
پاکستانی کس حال میں ہیں۔ پاکستان کے محب وطن صحافی ،دانشور، سیاستدان،اور
جرنیل( ریٹائرمنٹ کے بعد) ہر حکومت کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے آ
رہے ہیں کہ ’’ امریکہ مطلب د ااے یار‘‘ مطلب ہووے تے پیار وی کردا بعد وچ
دیدا دھتکار‘‘ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عام پاکستانیوں کی اس حقیقت پر مبنی
آواز پر امریکہ کے یار حکمرانوں نے کان دھرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی……
لیکن آج پاکستانی عوام کے محبوب وزیر اعظم کے محبوب مشیر خارجہ سرتاج عزیز
اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ’’ امریکہ مطلب پرست ہے اسے ہماری قربانیوں کی
کوئی قدر نہیں‘‘ سرتاج عزیز کے اس بیان پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’اب کیا
پچھتائے ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘‘ آج جو اسلام آباد اور واشنگٹن کے
درمیان تعلقات میں تناؤ کی کیفیت آئی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ سول حکومت سے
زیادہ واشنگٹن سے ہمارے راولپنڈی کو شکایات ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو
مطالبات واشنگٹن کے سامنے ہمارے آرمی چیف رکھ رہے ہیں اور جس رعب اور غصے
کے عالم میں ان سے افغانستان میں مقیم ملا فضل اﷲ کو ڈرون حملے میں قتل
کرنے کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ اگر کل کسی انہونی کے باعث موجودہ
حکومت کی جگہ فوجی حکومت یا سول ملٹری ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بٹھا دی
جائے تو ہمارے جی ایچ کیو والے واشنگٹن کی بلائیں لینے لگیں گے، کیونکہ
ہمارا ماضی یہی ہے۔
پاکستان کے ارباب اقتدار امریکہ کے ایک گرین کارڈ کی مار سمجھے جاتے ہیں۔
اس حواالے سے ایک نجی محفل میں کامریڈ دوست چوہدری صفدر حسین سندھو
ایڈووکیٹ نے جماعت اسلامی اور دفاع پاکستان کونسل کی امریکہ مخالف ریلی پر
تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آج امریکہ ’’’ ویزے بانٹنا شروع کردے تو سب
مولوی دوسری عوام سے بہت آگے امریکہ کے سفارت خانے کے باہر قطاروں میں کھڑے
دکھائی دیں گے۔ چودہری صفدر حسین سندھو کی بات میں وزن اس لیے بھی ہے کہ
راقم اس قسم کے ڈھیروں واقعات کا عینی شاہد ہے۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی بات ہو رہی تھی امریکہ ،ایران اور بھارت کے
درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کی تو اس حوالے سے اسلام ااباد اور ریاض میں کافی
تشویش پائی جا رہی ہے، دارالحکومت ریاض کی جانب سے بھارت کو ایران کے قریب
آنے سے روکنے کے لیے اسے سمجھایا بجھایا جا رہا ہے، لیکن موصو لہ اطلاعات
کے مطابق بھارت ریاض کے مقابلے میں تہران کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے اور اس
حوالے سے ریاض کے مشورے ’’ ادھر سے سن کر دوسرے کان سے ان سنے کیے جا رہے
ہیں۔ غیر ملکی میڈیا جن میں عرب ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں ،کا کہنا ہے کہ
بھارت کا ایران کی جانب جھکاؤ سے متحدہ عرب امارات بھی ناخوش ہے کیونکہ وہ
سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد کا حصہ ہے، اور وہ دیگر خلیجی
ممالک کی طرح ایران کو معاشی طور اعتبار سے مضبوط ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا
بلکہ انکی خواہش ہے کہ ایران قوموں کی برادری میں تنہائی کا شکار ہو۔ممکن
ہے کہ باقی خلیجی ممالک بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرح ہی
سوچتے ہوں۔
ایران اور سعودی عرب کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی لڑائی آجکی نہیں بلکہ
یہ تو صدیوں پرانی عرب و عجم کے جاری جھگڑے کا تسلسل ہے۔ ایران اور سعودی
عرب بشمول دیگر خلیجی ریاستوں کے معاشی اعتبار سے ایک دوسرے پر سبقت لے
جانے کے خواہاں ہیں سعودی عرب کی زیر قیادت چونتیس ممالک کے اتحاد کے قیام
کے مقاصد بھی یہیں ہیں ،اس اتحاد کے اغراض و مقاصد میں کہیں یہ درج نہیں کہ
یہ اتحاد اسرائیل کی بربریت کی چکی میں پسنے والے فلسطینیوں کو اسرائیلی
مظالم سے نجات دلائے گا،یہ بھی نہیں لکھا کہ یہ اتحاد کشمیر سمیت دنیا بھر
میں نسلی اور مذہبی طور پر ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے مظلوم مسلمانوں،جن
کا جرم محض یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، کی مدد کو پہنچے گا، اس اتحاد میں سب
سے زیادہ سرگرم مصر کو دیکھیں تو وہ اس وقت اسرائیل کا فرنٹ میں ہے، اس کے
لیے یہی دلیل کافی ہے کہ مصر کے فوجی حکمران کے برسراقتدار آنے سے دنیا بھر
میں سب سے زیادہ خوشی و مسرت اسرائیل کو ہی ہوئی تھی، اس لیے یہ کہنا بے جا
نہ ہوگا کہ سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد سوائے اسرائیل کے ہر کسی سے
لڑے گا ۔
جب سے ایران کا جوہری معاہدہ ہوا ہے اور امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی عائد
کردہ ایران پر سے پابندیاں ختم ہوئیں ہیں ،تو ایران اس کوشش میں ہے کہ وہ
اس موقعہ سے جس قدر ہو سکتا ہے فائدہ اٹھائے اور پابندیوں کے باعث ہونے
والے نقصانات کا ازالہ کرے، یہ ایران کا حق ہے، ایران قیام پاکستان سے آج
تک پاکستان اور بھارت کے درمیان توازن قائم رکھے ہوئے ہے،اگر کسی کی دل
آزاری نہ ہو تو حقیقت یہ ہے ایران پاکستان کو دیکھ د یکھ جیتا ہے اور اسکی
بلائیں اپنے سر لیتا ہے، ایران کو بھارت کی آغوش میں ہم نے اپنے رویوں کی
وجہ سے ڈالا ہے،ایران کے صدر حسن روحانی کا دورہ ایران کے پاکستان کے ساتھ
مخلص ہونے کی روشن دلیل قرار دی جا سکتی ہے۔ایران کے صدر حسن روحانی کے
دورہ پاکستان میں جس سلوک کا ہم نے مظاہرہ کیا وہ سعودی عرب کے بادشاہوں کو
خوش کرنے کے لیے تھا اور اس کے سوا اس رویے کا کوئی دوسرا مقصد نہیں تھا۔
چاہ بہار کی بدرگاہ کو فعال کرنے کا ایرانی منصوبہ نیا نہیں اس منصوبے کا
خیال ایرانی قیادت کو 2003میں آیا تھا اور اسکے لیے منصوبہ سازی اسی وقت سے
کی جا رہی تھی اقوام متحدہ کی جانب سے ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں
کے باعث چاہ بہار بندرگاہ کی فعالیت کا منصوبہ وقتی طور پر پس منظر میں چلا
گیاتھا اب امریکہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ جوہری معاہدہ ہونے کے بعد اقوام
متحدہ کی پابندیاں اٹھنے کے بعد چاہ بہار بندرہ گاہ کا منصوبہ پر کام کا
آغاز ہوگیا ہے، بھارت جسے افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی کے
لیے پاکستان سے راستہ درکار ہوتا تھا اس لیے اس نے ایران سے تعاون کرنے کا
فیصلہ کیا اور چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے میں ساٹھ لاکھ ڈالر کی سرمایہ
کاری کرنے کا ایران سے معاہدہ کیا، اس کے لیے علاوہ جاپان بھی چاہ بہار
بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرنے میں اپنی دل چسپی کا اظہار کرچکا ہے اور اس
نے ایران مین سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کا دس ارب ڈالر کی گارنٹیاں
دینے کا فیصلہ کیا ہے، چاہ بہار میں سرمایہ کاری کرنے میں بھارت کا کوشی سے
پھولے نہ سمانہ سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایران کے ساتھ
سرمایہ کاری کرنے سے وہ گوادر کے قریب پہنچ گیا ہے، دوسری طرف بھارت سعودی
عرب ،قطر ،متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ریاستوں میں بھی سرمایہ کاری
کرنے میں اپنی رضامندی چاہر چکا ہے ،اس وقت سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں
میں بھارت کے تقریبا 80لاکھ کے قریب باشندے روزگار میں لگے ہوئے ہیں او ر
نامور صحافی اور بھارت ایران اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات پر گہری نظر
رکھنے والے سجاد اظہر کا کہنا ہے کہ’’ بھارت نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ
76 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رکھے ہیں اور اس کے سعودی عرب کے
ساتھ دفاعی معاہدہ بھی ہے۔
چاہ بہار اور گوادر کے درمیان کا فاصلہ ممبئی اور دہلی کے درمیانی فاصلے سے
بھی کم ہے اس لیے بھارت بغلیں بجا رہا ہے اور وہ ایسا کیوں نہ کرے کہ اسے
افغانستان ،ایران اور وسظی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کیلیے پاکستان کی
ضرورت نہیں رہیگی۔ بھارت کے علاوہ ایران چین کو بھی دعوت دے رہا ہے، ایران
اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے
لیے برداشت کرنا آسان نہیں ہوگا، ایران سے بجلی اور گیس کے منصوبوں کی
تکمیل نہ ہونے کی وجوہات میں پاکستان کا سعودی عرب سے قریبی تعلق ہے اور
پاکستان کا ایران کے مقابل سعودی عرب کو زیادہ اہمیت دینا ہے۔ اب دیکھنا
ہوگا کہ ٓانے والے حالات میں چاہ بہار اور گوادر کی جنگ میں کون فاتح
ٹھہرتا ہے پاکستان کی عسکری اور سول قیادت کئی بار ایران میں بھارت کی
موجودگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔پاکستان چاہ بہار کی بندرگاہ کی
فعالیت اور اس میں بھارتی کردار کو گوادر کی اہمیت اور کردار کو کم کرنے کی
سعی قرار دیتا ہے چاہ بہار میں بھارت کی موجودگی کو اپنے لیے خطرہ خیال
کرتا ہے، یہ خیال کس قدر درست ہے اس کا فیصلہ ٓانے والے دنوں میں ہو جائیگا۔
|