بیسوی صدی انسانی تاریخ کا سب سے اہم باب
ہے، یہ وہ صدی ہے جس میں بہت سی قومیں پوری قوت سے اٹھی اور مٹ گئی۔ جس میں
ایسی ایجادات ہوئیں جنہوں نے انسانی دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ایسے ہولناک
فتنوں نے سر اٹھایا کہ اہلِ عالم نے پہلے کبھی ایسے فتنوں کا سامنا نہ کیا
تھا۔ ایسی جنگیں ہوئیں کہ جنہوں نے نوجوانوں کو بوڑھا کر دیا۔مجموعی طور پر
دیکھا جائے تو یہ صدی انقلابوں کی صدی بھی تھی اور انتشار کی صدی بھی تھی،
اس صدی میں انسانی سوچ اپنی معراج کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر اہلِ علم
اس صدی کو مجموعی طور پر ’’Century of the Devil‘‘ کہنے کو اس وجہ سے
مجبورہیں کیونکہ باوجود اپنی تمام تر ترقی کے اس پوری صدی میں انسانیت نے
وہ نقصان اٹھایا کہ جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دو ہولناک
عظیم جنگوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے نا صرف دنیا کا نقشہ
بدل کر رکھ دیا بلکہ ایسے نئے فتنوں کو جنم دیا جس نے آگے کی تمام انسانی
تاریخ کا تعین کر دیا۔نئے نئے قومی ،معاشی اور معاشرتی نظریات نے جنم لیا
جس نے ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کو Global Village بنا دیا اور اب یہ حال
ہے کہ اگر بم دھماکہ ممبئی میں ہو تو ٹوکیو ایکسچینج مارکیٹ تباہ ہوجاتی
ہے، دنیا کے کسی ایک کونے میں ہونے والے واقعات دنیا کے دوسرے کونے کے
لوگوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتے۔
دو عظیم جنگیں تاریخِ انسانی کے ایسے دو فتنے ہیں جس میں شیطانی کارندوں نے
انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں۔ مگر ان دو عظیم جنگوں نے اپنی تمام تر تباہی کے
باوجود کچھ ایسے نتائج برآمد کیے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے کہ
مسلمان ملکوں کی آزادی اور دوسری طرف دو ایسی نظریاتی ریاستوں کا جنم جو کہ
پہلے دن سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار رہی ہیں
اور جنہوں نے آج تک ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ ان میں ایک تو
پاکستان ہے اور دوسرا اسرائیل جسے اگر ’’اسرائیلِ عظیم‘‘ کہا جائے تو زیادہ
مناسب ہوگا۔ ان دو ملکوں نے پوری دنیا کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
مگر یہاں ہم صرف ’’اسرائیلِ‘‘ کے بارے میں ہی بات کریں گے۔ کہ کس طرح سے یہ
ملک وجود میں آیا ، اس کے وجود کے تاریخی محرکات کیا تھے ، اس نے اپنے بننے
کے لیے کیا کیا کارنامے کیے۔اور اس کے وجود نے عالمی سیاست میں کیا کیا
کارہائے نمایاں سر انجام دیئے اور اس ننھے منھے سے ملک نے کس طرح ۲۲ عرب
ملکوں کو ان کے تیل اور گیس کے کنووں اور مضبوط معاشی استحکام کے باوجود
تگنی کا ناچ نچایا۔سب سے پہلے ہم اسرائیل کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں
کہ تاریخ میں اس قوم کی کیا اہمیت ہے اور یہ قوم کس طرح ہزاروں سالوں کا
سفر طے کر کے اپنی موجودہ شکل میں دنیا کے تمام خشک و تر پر قابض ہے۔انسانی
تاریخ کے پہلے لکھے ہوئے تاریخی دستاویزات ہمیں ایک یونانی تاریخ دان
Herodotus کے حوالے سے ملتے ہیں اس سے پہلے کا کوئی بھی تاریخی دستاویز
ہمیں میسر نہیں مگر ہمارے پاس Archeologyکی وساطت سے کچھ ایسے ثبوت ہاتھ
آئے ہیں جن سے تاریخ دان سود مند نتائج تک پہنچنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ان
حوالوں کے علاوہ ہمارے پاس بائبل اور قرآن کے حوالے بھی موجود ہیں جن پر ہم
انحصار کر کے بنی اسرائیل کی تاریخ کو بیان کر سکتے ہیں۔
جیسے کہ ہمیں بائبل اور قرآن کے مستند حوالوں سے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت
ابراہیمؑ (Abraham)ابوالانبیاء ہیں اور ان کے بعد قریب قریب تمام انبیاء و
رسل انہی کی اولاد سے ہوئے اور بائبل کے ایک حوالے کے مطابق ان نبیو ں اور
رسولوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن
اور بائبل میں باقاعدہ نام لے کر کیا گیا ہے۔اسرائیل کی تاریخ کو ابراہیمؑ
(Abraham)اور ان کے بیٹوں سے ملانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اب اسرائیل والے
خود اپنی تاریخ کو انہی تاریخی پہلوؤں سے ابراہیمؑ(Abraham) اور ان کی
اولاد سے ملاتے ہیں اور بنی اسرائیل حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولاد کے
یہودی یا عیسائی ہونے کے بارے میں جھگڑتے رہے ہیں اور اسرائیلیوں کا دعوٰی
ہے کہ حضرت ابراہیمؑ ہی پہلے یہودی تھے جس کا قرآن یوں جواب دیتا ہے۔
’’بلکہ تم یوں کہتے ہو کہ ابراہیم و اسمٰعیل و اسحاق و یعقوب اور ان کے
بیٹے یہودی یا نصرانی تھے تم فرماؤ کیا تمہیں علم زیادہ ہے یا اللّٰہ کو
(ف۳۵۲) اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جس کے پاس اللّٰہ کی طرف کی گواہی ہو اور
وہ اسے چھپائے اور خدا تمہارے بے تُکے دعووں سے بے خبر نہیں‘‘ سورۃ
البقرہ(۱۴۰)
’’اے کتاب والو ابراہیم کے باب میں کیوں جھگڑتے ہو تورات وانجیل تو نہ اتری
مگر ان کے بعد تو کیا تمہیں عقل نہیں‘‘ سورۃ آلِ عمران(۶۵)
ابراہیمؑ کے والد کا نام بعض کے مطابق تارح(Terah) اور بعض کے مطابق
آزر(Azar) ہے، ان کے تین بیٹے ہوئے جن میں ایک ابراہیمؑ(Abraham) دوسرے
ناحور(Nahor) اور تیسرے لوطؑ (Lot)کے والد حران(Haran) تھے، ابراہیمؑ
(Abraham)نے اپنی پہلی شادی سارہ ؓسے کی جو کہ انتہائی خوبصورت تھی، اس کے
بعد حکمِ خداوندی سے ابراہیم ؑمیسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) سے ہجرت کر کے
زمینِ مصر میں جا آباد ہوئے جہاں انہوں نے ہاجرہؓ (Hajir) سے شادی کی۔
ہاجرہؓ سے انہیں رب باری تعالیٰ نے اسمٰعیلؑ(Ishmael) ؑ عطا کیے اور اس وقت
ابراہیمؑ کی عمر چھیاسی سال(اور بعض کے مطابق اس سے کم یا زیادہ) تھی۔
توسارہؓ (Sara)اور ہاجرہ کے درمیان جگڑا رہنے لگا کیونکہ سارہ کی ابھی تک
کوئی اولاد نہ تھی۔حکمِ خداوندی سے ہاجرہؓ اواسمٰعیلؑ(Ishmael) کو مکہ کی
بے آب و گیا وادی میں چھوڑ آئے اور اسمعٰیل کے ایک روایت کے مطابق ایک بیٹا
ہوا جس کا نام قیدار تھا اور بائبل کی روایت کے مطابق ۱۲ بیٹے ہوئے اور قصص
الانبیاء میں ایک والی روایت کو زیادہ مستند کہا گیا ہے۔ بعد میں سارہؓ کے
ہاں اﷲ تعالیٰ نے اسحاق پیدا کیا اور اس وقت ابراہیمؑ کی عمر نوے سال سے
کچھ زیادہ تھی اور قصص الانبیاء میں ہے کہ سارہ ہی سے دو اور بیٹے بھی تھے
جن کا نام مدین اور مدائن تھا۔ اسحاقؑ کی پیدائش کو قرآن میں بیان کیا گیا
ہے۔کہ جب فرشتے ابراہیمؑ کے پاس قومِ لوطؑ کو تباہ کرنے سے پہلے حاضر ہوئے
تو بی بی سارہ انہیں دیکھ کر کسی بات پر ہنسی جسے قرآن میں یوں بیان کیا
گیا ہے۔
’’اور اس کی بی بی(سارہ) کھڑی تھی وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی
خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی بولی ’’ہائے خرابی! کیا میرے بچّہ
ہوگا اور میں بوڑھی ہوں اور یہ ہیں میرے شوہر بوڑھے بیشک یہ تو اچنبھے کی
بات ہے ۔‘‘ فرشتے بولے کیا اللّٰہ کے کام کا اچنبھا کرتی ہو اللّٰہ کی رحمت
اور اس کی برکتیں تم پراور اس گھر والوپر ہو بیشک وہی ہے سب خوبیوں والا
عزت والاہے۔‘‘سورۃ ھودؑ(۷۱۔۷۳)
پھر جب اسمٰعیلؑ(Ishmael) بڑے ہوئے تو قربانی والا واقعہ جسے قرآن حضرت
اسمعیلؑ سے منسوب کرتا ہے بائبل وہ واقعہ حضرت اسحاقؑ( Issac)سے منسوب کرتی
ہے اور یہی وہ تبدیلیاں ہیں جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے کہ اہلِ کتاب نے
تورات میں اپنی مرضی سے کر لیں تھیں۔ پھر اسحاق ؑکے ریبیکاؓ(اور یہ ریبیکاؓ
ابراہیم ؑ کے دوسرے بھائی ناحور کی اولاد میں سے تھی۔)سے دو بیٹے ہوئے ایک
کا نام عیسو(Easue)اور دوسرے کا نام یعقوبؑ(Jacob) تھا۔اور اسحاقؑ اخیر عمر
میں اندھے ہوگئے تھے اور جانشینی کے متعلق عیسو(Easue)اور یعقوبؑ(Jacob) کے
درمیان با ئبل میں ایک واقعہ بیان ہوا جو حق سے دور معلوم ہوتا ہے اور اس
کا بیان غیر ضروری ہے۔
پھر یعقوبؑ نے متعدد شادیاں کیں اسلامی حوالوں کے مطابق ۴ شادیاں کیں جن سے
۱۲ بیٹے ہوئے اور بائبل کے مطابق بادشاہ لبان جو کہ بادشاہِ عراق میں سے
تھا نے اپنی بیٹی سے شادی کروائی اور جب وہ مری تو ان کی چھوٹی بہن سے
کروادی یہاں تک کہ ایک ایک کر کے سب مرتی رہیں اور یعقوبؑ کے عقد میں یکے
بعد دیگرے چھ کی چھ بہنیں آئیں جن میں سے ہر ایک سے ۲ بیٹے پیدا ہوئے۔ مگر
یہ روایت کمزور ہے۔ اسلامی حوالوں سے جو ۴ بیویاں تھیں وہ یہ ہیں۔
۱):راحیلہ(Rachel)(بقولِ بعض راحیل) ۲):بلھاء(Bilha) ۔ ۳):لیۂ(Leah)۔ ۴):
زِلفہ (Zilpa) اور بارہ بیٹوں کے نام جن سے آگے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل
ہوئے درج ذیل ہیں:
۱):روابین (Reoben) ۲):شمعون (Simeon) ۳):لاوی (Levi) ۴): یہودہ (Judah)
۵):دان (Dan) ۶):نفتالی(Naphtali)
۷):جاد(Jad) ۸):آشیر(Asher) ۹):یساکار(Issachar) ۱۰):زبولون(Zebulon)
۱۱)۔یوسف(Joseph) جن سے آگے دو گروہ ہوئے : ا):ماناسہ ب):افرایم اور
۱۲):بنیامین(Benjamin)
جن میں سے یوسف ؑ اور بنیامین راحیلہ میں سے تھے اور باقی دوسری ماؤں سے
تھے اور یہی بنیامین کو یوسفؑ نے اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا تھا جس کا قرآن
میں ذکر ہے۔ حضرت یعقوب(Jacob)۱۲۷ سال زندہ رہے جس میں سے ۱۷ سال انہوں نے
اہلِ مصر میں گزارے جب انکے فرزند یوسفؑ مصر کے حکمران(فرعون)بنے۔ اور جب
فوت ہوئے تو اپنی نصیحت کے مطابق ابراہیمؑ کے ساتھ ملکِ فلسطین میں دفن
ہوئے۔جب یوسفؑ کو بھائیوں نے کنویں میں ڈالا اور پھر کنعان(Canaan)سے مصر
جاتے ہوئے قافلے نے انہیں نکال لیا اور مصر کے بازار میں بیچ دیا جس کے بعد
زلیخا والا واقعہ قرآن میں مذکور ہے جس کے بعد قید میں ڈالے گئے اور سورہ
یوسف کے مطابق بادشاہ ولید بن ایان کے خواب کی تعبیر بتانے کے لیے قید خانے
سے نکالے گئے تو ان کے خیر خواہوں میں شامل ہو گئے جس کے بعد آپ کی دیانت
دیکھتے ہوئے شاہِ مصر نے آپ کو پہلے عزیز مصر(جس کی بیوی زلیخا تھی) کی
وفات پر آپ کو عزیزِ مصر بنا دیا اور عزیز اس وقت کھیتی باڑی اور غلے کے
وزیر کو کہتے تھے۔ اس کے بعد جب سات سالہ قحط جسے تاریخ میں قحطِ عظیم کہا
جاتا ہے آیا تو بقول بعض تاریخ دانوں اور مفسروں کے بادشاہ نے آپ کو ہی
بادشاہ بنا دیا کیونکہ صرف آپ ہی اس وقت ملک کا انتظام چلا سکتے تھے۔ تب وہ
اور ان کا سارا خاندان کنعان(Canaan)(جو کہ موجودہ اسرائیل، لبنان، شام اور
اردن کے علاقوں پر مشتمل ایک خطہ تھا جس کی آبادی قریباً ایک لاکھ سے زیادہ
تھی) سے آکر مصر میں آباد ہوگیا اور ایک عرصہ مصر کی اشرافیہ(Royal Family)
میں شمار کیا جاتے رہے۔ مگر جونہی حضرت یوسفؑ نے وفات پائی تو بنی اسرائیل
کمزور ہو گئے اور اہلِ مصر جنہیں قبطی (Copt)کہا جاتا تھا ان کے قیدی بن
گئے اور وہ انہیں شدید اذیتیں دیتے تھے۔ خدا کی کرنی بنی اسرائیل کی تعداد
میں اس قدر اضافہ ہوا کہ بارہ بھائیوں کی اولاد سے بارہ قبیلے بن گئے اور
چونکہ یہ لوگ اہلِ علم اور صاحبِ ہنر تھے اس لیے مصری بادشاہوں کے مقبروں
(اہرامِ مصرPyramids of Egypt-)پر کام کرنے پر معمور کر دیے گئے۔ اور ایک
لمبی مدت جو ایک ہزار سال کے قریب ہے اسی مشقت میں مبتلا رہے۔ مگر یہ
انتہائی اہلِ علم تھے اس لیے صحائف ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ سے
وہ جانتے تھے کہ ان کو چھڑانے کے لیے ایک نجات دہندہ آئے گا۔ اور یہ لوگ
صدیوں سے اس کے منتظر تھے۔
پھر صورت حال کچھ یوں ہوئی کہ فرعونِ مصر کے نجومیوں نے اس کو اطلاع دی کہ
آسمان پر ایک ہلچل ہوئی ہے جس کے مطابق غلاموں میں ایک لڑکا جنم لے گا جو
تیری بادشاہت کا خاتمہ کرے گا تو فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل
کروانا شروع کر دیا(جو کہ پہلے بھی متعدد بار ہوتا رہا تھا اور اب تو بنی
اسرائیل میں عام تھا کہ اہلِ مصر ان کے بیٹوں کو قتل کر دیتے اور عیش کے
لیے انکی بیٹیوں کو زندہ رکھتے جو کہ نہایت خوبصورت ہوتیں تھیں۔)، عمران کی
بیوی نے اپنے لڑکے کوخدا کے حکم سے نیل میں ڈال دیا جس کے بعد فرعون کے گھر
والوں نے اٹھا لیا اور فرعون کے دل میں موسیٰ اس وقت تک کھٹکتا رہا۔ایک
روایت کے مطابق جب تک اس نے امتحان لینے کے لیے موسیٰ کے سامنے دو برتن
رکھے ایک میں سونا تھا اور دسری میں دہکتے کوئلے تھے اور خیال کیا کہ اگر
یہ بچہ اس قابل ہوا کہ میرا تخت الٹا سکے تو یقیناسونے کی طرف لپکے گا ۔
اور واقعی جب برتن رکھے گئے توموسیٰ سونے والے برتن کی طرف لپکے ،مگر خدا
نے جبریلؑ کو حکم دیا کہ موسیٰ کا منہ کوئلوں کی طرف پھیر دو تو موسیٰ نے
ایک دہکتا کوئلہ اٹھا کر منہ میں ڈال لیا جس سے آپ کی زبان جل گئی (ااور سی
وجہ سے موسیٰؑ بات کرتے ہوئے اٹکتے تھے)تو فرعون نے دل میں خیال کیا کہ یہ
بچہ تو بالکل گیا گزرا ہے یہ کیسے میری بادشاہت ختم کرے گا اور موسیٰ کی
طرف سے مطمئن ہوگیا۔اور قرآن نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے
’’اور بیشک ہم نے ایک اور بار بھی تم پر احسان کیا جب ہم نے تیری ماں کو
الہام کیا جو الہام کرنا تھا کہ اس بچّے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال
دے تو دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھالے جو میرا دشمن اور اس کا
دشمن اور میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبّت ڈالی اور اس لئے کہ تو میری نگاہ
کے سامنے تیار ہو تیری بہن چلی پھر کہا کیا میں تمہیں وہ لوگ بتادوں جو اس
بچّہ کی پرورش کریں ۔تو ہم تجھے تیری ماں کے پاس پھیر لائے کہ اس کی آنکھ
ٹھنڈی ہو اور غم نہ کرے اور تو نے ایک جان کو قتل کیا تو ہم نے تجھے غم سے
نجات دی اور تجھے خوب جانچ لیا تْو تو کئی برس مدین والوں میں رہا ۔‘‘سورۃ
طہٰ(۳۷۔۴۰)
پھر جب موسیٰ شعیبؑ کی بیٹی سے شادی کرنے کے بعد مصر واپس آرہے تھے تو رستے
میں نبوت ملی اور حکم ہوا کہ تو اور تیرا بھائی میری نشانیوں(جو کہ در
حقیقت نو معجزے تھے) سے فرعون کو ڈراؤ کہ وہ بڑا سرکش ہو رہا ہے۔ اور اسے
کہو کہ وہ بنی اسرئیل کو تمہارے ساتھ جانے دے مگر فرعون کی سرکشی بڑھتی گئی
تو طرح طرح کے عذاب بھیجے گئے جیسے مینڈک، خون، جُوویں، ٹڈیاں اور اندھا
طوفان جو چالیس چالیس دن تک رہا مگر جب فرعون ان چیزوں سے بھی نہ مانا تو
حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو رات کے اندھیرے میں لے کر نکل جاؤں اور تمہارا
دشمن تمہارا تعاقب ضرور کرے گا اور ہم اسے ڈبو دیں گے۔پھر جب موسیٰ بنی
اسرائیل کو لے کر بحیرہ احمر(Red Sea) سے پار ہوگئے تو فرعونی بھی تعاقب
کرتے ہوئے پیچھے ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں سمندر میں ڈبو دیا ۔پھر موسیٰ
کو تورات دینے کے لیے کوہِ طور پر بھلایا تو اس کے بعد جو ہوا قرآن اسے یوں
بیا کرتا ہے۔
’’اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچالیا اور فرعون والوں
کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ڈبو دیا۔اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا
وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم ظالم
تھے ۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی دی کہ کہیں تم احسان مانو ۔‘‘ سورۃ
البقرہ (۵۰۔۵۲)
تب بنی اسرائیل نے اصرار کیا ہم اس وقت تک خدا کو نا مانیں گے جب تک کہ ہم
اسے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔
’’اے محبوب ﷺاہل کتاب تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار
دوتووہ تو موسٰی سے اس سے بھی بڑا سوال کرچکے کہ بولے ہمیں اللّٰہ کو
اعلانیہ دکھا دو تو انہیں کڑک نے آلیا ان کے گناہوں پر پھر بچھڑا لے بیٹھے
بعد اس کے کہ روشن آیتیں انکے پاس آچکیں تو ہم نے یہ معاف فرمادیا اور ہم
نے موسٰی کو روشن غلبہ دیا‘‘سورۃ النساء (۱۵۳)
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بناکر اپنی
جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک
دوسرے کو قتل کرو یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے تو
اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان
ہے۔اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک
اعلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے
۔‘‘سورۃ البقرہ(۵۵)
تو اﷲ نے ان کی یہ سزا مقرر کی کہ جنہوں نے کفر کیا تھا انہیں مومنوں سے
قتل کروادیا اور موسیٰؑ سخت غصے ہوئے اور اپنے بھائی ہارون کی داڑھی اور سر
کے بال کھینچے اور اس غصے میں تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دی۔ پھر جب غصہ
کم ہوا تو اپنی قوم سے ستر برگزیدہ لوگوں کو منتخب کیا اور معافی کے لیے
کوہِ طور کی طرف گئے۔
’’اور موسٰی نے اپنی قوم سے سترمرد ہمارے وعدہ کے لئے چنے پھر جب انہیں
زلزلہ نے آ لیا۔توموسٰی نے عرض کی اے رب میرے تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں
اور مجھے ہلاک کردیتا۔کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے
عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا۔ تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ
دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولیٰ ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مِہر کر اور
تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے ‘‘ سورۃالاعراف(۱۵۵)
اس کے بعد جب تمام بنی اسرئیل ایمان لا چکے تو انہیں حکم ہوا کہ وہ ملکِ
شام میں داخل ہوجائیں جہاں پر قومِ عمالیق(عمالقہ) آباد تھے اور یہ سخت
جنگجو اور پکّے کافر تھے۔ اور طرح طرح کے بتوں کی پوجا کرتے تھے اور انہی
کی دیکھا دیکھی بنی اسرائیل نے موسیٰؑ سے سوال کیا کہ ہمارے لیے بھی ایک
ایسا ہی خدا بنا دو تو موسیٗ نے کہا تم تو بڑے جاہل ہو اور جب موسیٰؑ طور
پر گئے تو انہوں نے سامری کی سرپرستی میں سونے کا بچھڑا بنا کر اسے پوجنا
شروع کر دیا تھاجس کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے۔اور ابنِ اسحاق کے مطابق اسی
قوم عمالیق سے بنی اسمٰعیل کے ایک شخص عمرو بن لحی نے بت لے جا کر عربوں
میں بت پرستی کا آغاز کیا۔تو جب بنی اسرئیل کو جہاد کا حکم ہوا اور موسیٰؑ
جب قومِ بنی اسرائیل کو لے کر ’’ارضِ مقدس‘‘ یعنی کہ فلسطین کے دروازوں تک
پہنچ گئے توانہوں نے ان الفاظ میں انکار کیا۔
’’اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جو اللّٰہ نے تمہارے لئے لکھی ہے اور
پیچھے نہ پلٹو کہ نقصان پر پلٹو گے۔بولے اے موسٰیؑ! اس میں تو بڑے زبردست
لوگ ہیں اور ہم اسمیں ہر گز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں
ہاں وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم وہاں جائیں۔دو مرد (کالب بن یوحنا اور یوشع
بن نون جو ان نقبا میں سے تھے جنہیں حضرت موسٰی علیہ السلام نے جبارین کا
حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا تھا)کہ اللّٰہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے
اللّٰہ نے انہیں نوازا بولے کہ زبردستی دروازے میں ان پر داخل ہو اگر تم
دروازے میں داخل ہوگئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے اور اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرو
اگر تم میں ایمان ہے۔بولے اے موسٰی ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ
وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔موسٰی
نے عرض کی کہ اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو
تْو ہم کو ان بے حکموں سے جدا رکھ ۔فرمایا تو وہ زمین ان پر حرام ہے چالیس
برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم اْن بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ ۔‘‘
سورۃالمائدہ(۲۱۔۲۶)
اس کے بعد یہ لوگ چالیس سال تک میدان تیہ (میدانِ توٰی ) میں بھٹکتے رہے
اور اس واقعہ کو مفسرین یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ زمین جس میں یہ لوگ بھٹکتے
پھرے نوفرسنگ تھی اور قوم چھ لاکھ ، جو اپنے سامان لئے تمام دن چلتے تھے جب
شام ہوتی تو اپنے کو وہیں پاتے جہاں سے چلے تھے یہ ان پر عقوبت تھی سوائے
حضرت موسٰی و ہارون و یوشع و کالب کے کہ ان پر اﷲ تعالٰی نے آسانی فرمائی
اور ان کی اعانت کی جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لئے آ گ
کو سرد اور سلامتی بنایا اور اتنی بڑی جماعتِ عظیمہ کا اتنے چھوٹے حصّہ
زمین میں چالیس برس آوارہ و حیران پھرنا اور کسی کا وہاں سے نکل نہ سکنا
خوارقِ عادات میں سے ہے ، جب بنی اسرائیل نے اس جنگل میں حضرت موسٰی علیہ
السلام سے کھانے پینے وغیرہ ضروریات اور تکالیف کی شکایت کی تو اﷲ تعالٰی
نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے ان کو آسمانی غذا من و سلوٰی عطا
فرمایا اور لباس خود ان کے بدن پر پیدا کیا جو جسم کے ساتھ بڑھتا تھا اور
ایک سفید پتّھر کوہِ طْور کا عنایت کیا کہ جب رختِ سفر اْتارتے اور کسی وقت
ٹھہرتے تو حضرت اس پتّھرپر عصا مارتے اس سے بنی اسرائیل کے بارہ اسباط کے
لئے بارہ چشمے جاری ہو جاتے اور سایہ کرنے کیلئے ایک اَبر بھیجا اور تیہ
میں جتنے لوگ داخل ہوئے تھے ان میں سے جو بیس سال سے زیادہ عمر کے تھے سب
وہیں مر گئے سوائے یوشع(Joshua) بن نون اور کالب بن یوحناکے اور جن لوگوں
نے ارضِ مقدّسہ میں داخل ہونے سے انکار کیا ان میں سے کوئی بھی داخل نہ ہو
سکا اور کہا گیا ہے کہ تیہ میں ہی حضرت ہارون اور حضرت موسٰی علیہما السلام
کی وفات ہوئی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی وفات سے چالیس برس بعد حضرت یوشع
کو نبوّت عطا کی گئی اور جبّارین پر جہاد کا حکم دیا گیا۔ آپ باقی ماندہ
بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر گئے اور جبّار ین پر جہاد کیا۔
اس کے بعد یکے بعد دیگرے انبیاء نے ان میں دعوتِ حق کو پھیلایا ور یہ اس
قدر شرارتی اور نافرمان تھے کہ ان میں سے اکثر انبیاء کو قتل کر دیتے تھے
اور ایسا بھی ہوا کہ ایک وقت میں بنی اسرائیل نے ستر ستر نبیوں کو قتل کیا
اور پھر اﷲ نے طالوت(King Saul) اور ان کے داماد داؤدؑ(King David) سے بنی
اسرائیل کو ملک میں حکومت اور غلبہ دیا جس پر قرآن اس طرح شاہد ہے۔
’’اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا بیشک اللّٰہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ
بنا کر بھیجا ہے بولے اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہوگی اور ہم اس سے زیادہ
سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی فرمایا اسے
اللّٰہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور
اللّٰہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللّٰہ وسعت والا علم والا ہے ۔ نبی نے
فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں
تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور
معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے
تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا
ہوا بولا بیشک اللّٰہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی
پیے وہ میرا نہیں اور جو نہ پیے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چْلّو اپنے ہاتھ
سے لے لے تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے
مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں کی
بولے وہ جنہیں اللّٰہ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے
زیادہ گروہ پر اللّٰہ کے حکم سے اور اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے ۔پھر جب
سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے، عرض کی اے رب! ہمارے ہم پر کے صبر
دھانے کھول دے اور ہمارے پاؤں جمے رکھ کافر لوگوں پرہماری مدد کرتو انہوں
نے ان کو بھگادیا اللّٰہ کے حکم سے اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور
اللّٰہ نے اسے(داؤدؑکو) سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا
اور اگر اللّٰہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ
ہوجائے مگر اللّٰہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے ‘‘ سورۃالبقرہ(۲۴۷۔۲۵۱)
جنابِ طالوت جو کہ قبیلہء بنی بنیامین میں سے تھے کو حضرت شمویلؑ(Samuel)نے
بنی اسرائیل کا بادشاہ مقر ر کیا اور یہی طالوت وہ شخص تھے جنہوں نے بنی
اسرائیل کی پہلی سلطنت بنائی اور یہی اس کے حکمران بنے اور یہ لگ بھگ
کیارہویں صدی قبل از مسیح(1100BC)کا واقعہ ہے انہوں نے ہی تمام بنی اسرائیل
کو اکٹھا کیااور موجودہ اسرائیل،فلسطین، شام، لبنان اور اردن کے کچھ علاقوں
پر حکومت قائم کی اور قومِ عمالیق کو بری طرح شکست دی۔ان کے بعد حضرت داؤدؑ
حکمران بنے اور وہ بہترین حکمران تھے اور انہوں نے اس وقت کی دونوں سپر
پاور وں سلطنتِ مصر اور سلطنتِ میسو پوٹیمیا کے درمیان اپنی آزاد حیثیت کو
نہ صرف برقرا رکھا بلکہ اپنی حکومت کو دور دراز علاقوں تک پھیلایاداؤدؑ ہی
وہ پہلے شخص ہیں جن کے وجود کا ثبوت Archeologyسے ملا ہے۔انہی کو اﷲ تعالیٰ
نے پرندوں کی زبان سکھائی تھی ، اور حضرت داؤدؑ کی آواز نہایت شیریں تھی کہ
آپ جب اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے تو پرندے ان کے گرد گھیرابنا لیتے اور
پہاڑ ان کے ساتھ حمدِ باری تعالیٰ کرتے۔
’’اور داؤد ؑکے ساتھ پہاڑ مسخّر فرمادئیے کہ تسبیح کرتے اور پرندے اور یہ
ہمارے کام تھے ۔‘‘سورۃ الانبیاء(۷۹)
مگر جب یہ یعنی داؤدؑ بادشاہ بنے تب بھی بالکل کھلی نشانیوں کے باوجود بنی
اسرائیل نے انہیں جھٹلایا اس کے بعد ان کے بیٹے سلیمانؑ ان کے جا نشین ہوئے
اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایک سلطنتِ عظیم عطا کی اور جنوں کو ان کا غلام بنا
دیااور انہیں بہت زیادہ علم عطا کیا مگر بنی اسرائیل نے انہیں بھی جھٹلایا
اور ان سے خوب جھگڑا کیا کہ ہم آپ سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں اور ان پر
معاذاﷲ کفر کا الزام بھی لگایا جس کو بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے اور
قرآن اس کا یوں جواب دیتا ہے۔
’’سلیمانؑ نے کفر نہیں کیا ہاں مگر شیاطین کافر ہوئے‘‘ سورۃ البقرہ(۱۰۲)
اور ان کے زمانے میں ان کے عروج کو اﷲ تعالیٰ یوں بیان کرتا ہے،
’’اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا اور دونوں نے کہا
سب خوبیاں اللّٰہ کو جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت
بخشی ۔اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی
سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہرفضل ہے۔اور جمع
کئے گئے سلیمان کے لئے اس کے لشکر جنّوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ
روکے جاتے تھے ۔‘‘سورۃ النمل(۱۵۔۱۶)
’’اور سلیمان کے لئے تیز ہوا مسخّر کردی کہ اس کے حکم سے چلتی اس زمین کی
طرف جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور ہم کو ہر چیز معلوم
ہے۔‘‘سورۃالانبیاء(۸۱)
اور جب سلیمانؑ اور ملکہِ قومِ سبا کا معاملہ آتا ہے تو قرآن یوں گواہی
دیتا ہے،
’’سلیمان نے فرمایا اے درباریو تم میں کون ہے کہ وہ اس کا (ملکہِ سباکا)تخت
میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہوکر حاضر ہوں ۔ایک بڑاقوی
ہیکل جن بولا میں وہ تخت حضور کی خدمت میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور
اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانتدار ہوں۔اس شخص(آصف بن
برکیہ ؓ)نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے خدمتِ حضور میں
حاضر کردوں گا ایک پلک جھپکنے سے پہلے پھر جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس
رکھا دیکھا توکہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر
کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو
ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والاہے‘‘سورۃ النمل(۳۸۔۴۰)
مندرجہ بالا تمام اوصاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیمانؑ کو اﷲ تعالیٰ نے سلطنتِ
عظیم عطا کی تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت ساری خوبیوں اور بہترین علم سے
نوازا تھا اور بعض اہلِ علم کے مطابق یہ(سلیمانؑ) ان چار اشخاص میں سے تھے
جنہیں اﷲ تعالیٰ نے ہفت اقلیم(اس وقت کی موجود دنیا)کی حکومت عطا کی تھی ان
میں سے دو توکافر ہوئے اور دو مومن تھے۔ کافروں میں نمرود اور بخت نصر تھے
اور مومنوں میں سے ذوالقرنین اور سلیمان وہ دو شخص تھے جن کو ہفت اقلیم کی
حکومت عطا کی گئی تھی۔اور انہی سلیمانؑ نے ہیکلِ سلیمان تعمیر کیاجو ایک
عظیم و الشان عبادت گاہ تھی جسے مسجدِ اقصیٰ بھی کہا جاتا ہے اور یہی وہ
جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں قربانی کی جاتی تھی جسے آسمان سے
آگ آکر جلاتی تھی۔ اور اسی جگہ سے حضور ﷺ نے معراج کا سفر کیا اور یہی آپﷺ
نے تمام انبیاء و رسل کی امامت کروائی اور یہی دنیا کے مقدس ترین جگہوں میں
سے ایک ہے اور ہیکل (مسجدِاقصیٰ)کی تعمیر میں جنوں کی جماعتوں نے مزدوری کی
جس کو قرآن میں ایسے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
’’اور سلیمان کے بس میں ہَوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور
شام کی منزل ایک مہینے کی راہ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا
چشمہ بہایا ۔اور جنّوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے
اور ان میں جو ہمارے حکم سے پھرے ہم اسے بھڑکتی آ گ کا عذاب چکھائیں گے اس
کے لئے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے
برابر لگن اور لنگردار دیگیں، اے داؤد والو شکر کرو اور میرے بندوں میں کم
ہیں شکر والے ۔پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا ۔ جنّوں کو اس کی موت
نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی پھر جب سلیمان زمین
پر آیا جنّوں کی حقیقت کْھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو وہ اوران کے خواری
کے عذاب میں نہ ہوتے ‘‘سورۃسبا(۱۲۔۱۴)
قیاس کیا جاتا ہے کہ( 930BC-1050BC)تک یہ سلطنت قائم رہی۔سلیمانؑ کے بعد ان
کی حکومت کئی حصوں میں ٹوٹ گئی جس سے سلطنت اشوریہ یااسوریہ(Assyrian
Empire)نے جنم لیا اور سلطنتِ اسرائیل(Kingdom of Israel)دو حصوں میں ٹوٹ
گئی ایک شمالی اسرائیل(Kingdom of North, Israel) جس میں سماریہ(Samaria)
شیشم(Shechem)جیسے شہرتھے اور دوسرا جنوبی سلطنتِ یہودا(Kingdom of South,
Judea)جس میں یروشلم (Jerusalem)مرکزی شہر کی حیثیت رکھتا تھا اور شہر
ہیبرون(Hebron)شامل تھا وجود میں آئی۔سلطنتِ اسرائیل میں دس قبائل شامل تھے
اور حکومتِ یہودا میں دو قبائل تھے جن میں قبیلہ بنی بنیامین اور قبیلہ بنی
یہود شامل تھا۔ شمالی علاقے دس قبائل کی حکومت جسے سلطنتِ اسرائیل کہا جاتا
ہے 722B.Cکے قریب قریب قائم رہی حتٰی کہ اسے سلطنتِ اشوریہ(Assyrian
Empire) نے فتح کر لیا اور یہ دس قبائل تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے اور
اکثر محققین کا خیال ہے کہ یہ دس گمشدہ قبائل افغانستان، کشمیر اور پاکستان
کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے لیکن ہمارے پاس کوئی بھی تحریری یا تاریخی
ثبوت نہیں اور قیاس پر صرف اتنا کہنا ہی مناسب ہے۔ جنوبی علاقوں پر حکومتِ
یہودا(Kingdom of Judea) جو کہ عمومی طور پر غیر بنی اسرائیلی قبائل پر
مشتمل ایک ریاست تھی کو کچھ نہ کہا کیونکہ یہ اشوری حکومت(Assirian
Goverment)کے ساتھ امن معاہدے کیے ہوئے تھی۔ یہاں تک کہ ایک وقت آیا جب
بابلی سلطنت (Babylonian Empire)کے حکمران بخت نصر(Nebuchadnezzar II)
نے586B.C میں جنوبی یہودا ریاست(State of Judea)کو تاراج کر دیااور یہ قوم
عمالقہ کا ایک لڑکاتھا ان کے بت ''نصر''کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس
کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا نام بخت نصر
(نصر کا بیٹا)رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہراسف بادشاہ کی
طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا۔ پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا
بادشاہ ہو گیا۔ اور اس کا ذکر قرآن اور بائبل میں موجود ہے۔ اور یہ ذکر کچھ
یوں ہے کہ
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں وحی بھیجی کہ ضرور تم زمین میں دوبار
فساد مچاؤ گے۔ اور ضرور بڑا غرور کرو گے پھر جب ان میں پہلی بار کا وعدہ
آیا ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے سخت لڑائی والے تو وہ شہروں کے اندر
تمہاری تلاش کو گھسے اور یہ کہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہوناتھا۔پھر ہم نے تم
کو ان کے مقابلے میں مدددی اور تم کو مالوں اور بیٹوں سے نوازا اور تمہارا
جتھا بڑھا دیا اگر تم بھلائی کرو گے تواپنا بَھلا کرو گے اور اگر بْرا کرو
گے توبھی اپنا ہی برا کرو گے۔‘‘سورۃ بنی اسرائیل(۴۔۶)
اور یہ پہلے عذاب کے وعدے کا وقت علماء اہلِ کتاب اور علماء اسلام کی رائے
میں درحقیقت بابلی بخت نصر کا حملہ ہی تھا ۔ جس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں
نے خوب فساد مچایا تھا، انبیاء سے سرکشی کی اور ان میں سے اکثر کو قتل
کردیتے تھے اور ہر جگہ شرارت اور لگائی بجائی کرتے پھرتے تھے اور
اشوری(Assyrian) حملے کے وقت انہوں نے اپنے ہی نسبتی شمالی قبائل کے خلاف
اشوریہ کی مدد بھی کی تھی۔ تو جب بخت نصر شہرِ یروشلم میں داخل ہوا تو اس
نے ایک خوبصورت عبادت گاہ(مسجد) دیکھی جس کی نظیر اس کی سلطنت میں نہ تھی
اور غصے کے سبب تمام عمارت کو آگ لگا کر مسمار کر دیا اور تورات جو کہ کچھ
عرصہ پہلے ہی لکھی گئی تھی کی تمام جلدیں جلا ڈالیں اور تورات کے چالیس
ہزار حفاظ کو قتل کر دیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ تورات میں جتنی بھی تحریف
ہوئی اس واقعہ کے بعد ہی ہوئی۔بخت نصر نے تمام مردوں کو غلام بنا لیا ،
تمام عورتیں لونڈیاں بنا لی گئی اور اپنے ساتھ بابل لے گیا اور تمام بچوں
اور بوڑھوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور تمام کے تمام شہر کی ایک ایک
عمارت گرادی۔انہی غلاموں میں حضرت عزیزؑ بھی تھے جو کسی طور وہاں سے بھاگ
آئے اور جب یہ یروشلم پہنچے تو تمام کا تمام شہر بے آباد اپنی چھتوں پر گرا
پڑا تھا اور کوئی ایک شخص بھی وہاں نہ تھا تو شہر کو دیکھا کہ ہر طرف میوے
پکے ہوئے ہیں مگر کوئی اتارنے والا نہیں تو انگوروں کو نچوڑ کر رس پیا اور
کچھ محفوظ کر لیا اور دل ہی دل میں نہایت پریشان ہوئے اور خیال آیا کی اﷲ
اس شہر کو کیسے دوسری بار آباد کرے گا تو اﷲ نے اسی وقت ان پر موت طاری
کردی اور آپ ۱۰۰ سال مردہ رہے اور کسی انسان، چرند پرند تک کو آپ کی خبر تک
نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ فارسی بادشاہ( King Persian) سائرس اعظم (Cyrus the
Great)نے عروج پکڑا اور اس نے اہلِ بابل کو شکست دی اور اپنی حکومت قائم
کرکے 539 B.C میں اہلِ یہود کو وہاں سے ۷۰ سال بعدرہا کیا اور ان کو شہر کو
آباد کرنے کے لیے بہت سا مال دیا اور وہ تمام مال بھی واپس کردیا جو بخت
نصر نے ان سے لوٹا تھا ۔ یہ چونکہ صرف بنی یہود سے اور کچھ بنی بنیامین سے
تھے اس لیے یہود کہلائے۔ ان لوگوں نے واپس آکر شہر کو دوبارہ آباد کیااور
پہلے سے بڑھ کر آباد کیا ۔ سائرس اعظم(Cyrus the Great) کی اسی پالیسی اور
رحم کی وجہ سے بائبل میں اسے اچھے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے اور بعض مسلمان
علماء کا خیال ہے کہ یہی سائرس ذوالقرنین تھے مگر یہ کمزور روایت ہے(واﷲ
علم)۔ تو جب اہلِ یہود وہاں آکر آباد ہوگئے تو اﷲ تعالیٰ نے عزیرؑ (Ezra)کو
زندہ کیااس وقت ان کی عمر چالیس سال ہی تھی جو مرنے سے پہلے تھی اور پوچھا
کہ کتنی دیرمردہ رہے ہو تو انہوں نے کہا ایک دن کا کچھ حصہ تو اﷲ تعالیٰ نے
وحی کی کہ تم ایک سو سال مردہ رہے ہو۔ پھر یہ عزیرؑ(Ezra)شہر میں داخل ہوئے
تو کوئی انہیں پہچانتا نہ تھا سوائے ایک اپاہج بڑھیا کے جس نے ان کی مستجعب
الدعا ہونے کی نشانی سے خود کو شفا یاب کروایا اور گواہی دی اور آپ نے
لوگوں کو تورات پڑھ کر سنائی تو لوگوں نے شک کیا۔ تو ایک کہنے والے نے کہا
کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب حملے کے وقت تورات کی تمام جلدیں جلائی جا
چکی اور تمام حفاظ قتل کیے جاچکے تھے تو ایک جلد کسی جگہ چھپا دی گئی تھی
اگر اس کو ڈھونڈ لیا جائے تو معاملہ صاف ہوجائے گا۔ جب وہ تورات برآمد کی
گئی تو حضرت عزیرؑ کی تورات بالکل ویسی ہی تھی تو اہلِ یہود نے یہ کہنا
شروع کردیا کہ کوئی انسان ایک سو سال مردہ رہ کر زندہ نہیں ہو سکتا بیشک
عزیرؑ اﷲ کے بیٹے ہیں(معاذاﷲ)۔ اور یہ قصہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے،
’’ اس کی طرح ایک شخص جو گزرا اس بستی پر اور وہ گری پڑی تھی اپنی چھتوں پر
بولا اسے(شہر) کیونکر زندہ کرے گا اللّٰہ اس کی موت کے بعد تو اللّٰہ نے
اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا عرض کی دن
بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم فرمایا نہیں تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے
کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بونہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس
کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں) اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی
کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت
پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ
اللّٰہ سب کچھ کرسکتا ہے۔‘‘ سورۃ البقرہ(۲۵۹)
اس کے بعد اس شہر نے خوب ترقی کی مگر اس میں پھر انہی برائیوں نے زور پکڑا
جن کے سبب یہ پہلے ذلیل کیے گئے تھے، تب 4 BCکو آسمان پر ایک ستارہ طلوع
ہوا جو بنی اسرائیل کے آخری سلطان کی خبر لایا بقول بائبل مسیح ابنِ مریم
کی پیدائش پر وہ نیزرتھ(Nazreth) سے بیتھلیہم( Bethlehem)چلے گئے اور وہاں
جانوروں کے باڑے میں مریم کے خاوند یوسف( جنہوں نے مریم ؓ سے اس وقت شادی
کی تھی جب وہ حاملہ ہو چکی تھی )کی موجودگی میں مسیح کو جنم دیامگر قرآن کا
اس پیدائش کے بارے میں خیال مختلف ہے ، قرآن کہتا ہے،
’’اب مریم نے اسے پیٹ میں لیا پھر اسے لئے ہوئے ایک دور جگہ چلی گئی ۔پھر
اسے جننے کا درد ایک کھجور کی طرف لے آیا بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے
مَرگئی ہوتی اور بھولی بسری ہوجاتی ۔تو اسے اس کے تلے سے پکارا کہ غم نہ
کھابیشک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ جاری کردیاہے اور کھجور کی جڑ پکڑ
کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکّی کھجوریں گریں گی تو کھا اور پی اور آنکھ
ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمٰن کا
روزہ مانا ہے تو آج ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کرو ں گی ،تو اسے گود میں لئے
اپنی قوم کے پاس آئی وہ بولے اے مریم بیشک تو نے بہت بری بات کی۔اے ہارون
کی بہن تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار۔اس پر مریم نے بچّے
کی طرف اشارہ کیاوہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو کہ ابھی پنگھوڑے کا
بچّہ ہے ۔‘‘سورۃمریم (۲۲۔۲۹)
اوپر دئیے گئے قرآنی اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مسیحؑ کی پیدائش کھجور کے
تنے کے نیچے ہوئی تھی اور وہ بچے کو لے کر اپنے لوگوں کی طرف گئی نہ کہ کسی
نئی جگہ ہجرت کی جو ان کو انکے خاندان اور ان کے بھائی کو اچھی طرح جانتے
تھے،تو یہ مسیح یہودیوں کی نجات کے لیے آئے تھے اور ان کے بارہ حواری تھے
اور بقول بعض اس سے کم یا زیادہ تھے اور انہوں نے طرح طرح کے معجزے ظاہر
کیے اور اہلِ یروشلم کے دل جیت لیے جس سے یہودی علماء کو اپنی اجارہ داری
ختم ہوتی نظرآئی تو انہوں نے مسیح ؑ پر توہینِ مذہب اور توہینِ خدا کا
الزام لگایا اور انہیں رومی گورنر پونتیس پائلیٹ(Pontius Pilate) کی عدالت
میں لے گئے جو اپنی سخت گیری کے باوجود مسیح کو سولی نہیں دینا چاہتا تھا
مگر یہودیوں علماء نے زور دے کر اس سے عیسیٰؑ کے لیے سولی کی درخواست کی۔
اور بقول بائبل30سے 33ADکے درمیان انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا اور تین دن
بعد وہ زندہ ہو گئے مگر قرآن کہتا ہے کہ اﷲ نے انہیں پہلے ہی آسمانوں پر
زندہ اٹھا لیا اور رومیوں نے ان کی مشابہہ صورت کے ایک شخص کو عیسیٰؑ سمجھ
کر سولی چڑھا دیا۔تو قرآن ان کے معاملے میں کہتا ہے،
’’تو ان کی انہی بدعہدیوں کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور اس لئے کہ وہ
آیاتِ الٰہی کے منکر ہوئے اور انبیاکو ناحق شہید کرتے اور ان کے اس کہنے پر
کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں بلکہ اللّٰہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر
مہر لگادی ہے تو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے ،اور اس لئے کہ انہوں نے کفر
کیا اور مریم پر بڑا بہتان اٹھایا ۔اور اْن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح
عیسٰی بن مریم اللّٰہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اْسے
قتل کیا اور نہ اْسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اْس کی شبیہ کا ایک بنادیا
گیااور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شک میں
پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے
شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔‘‘سورۃالنساء(۱۵۵۔۱۵۷)
جب دوبارہ انہوں نے حدودِ خداوندی کو توڑا اور انبیاء کو قتل کیا اور زمیں
میں فتنہ پھیلایا اور حد سے تجاوز کی تو دوبارہ اﷲ تعالیٰ کے وعدے کا وقت
آن پہنچا جسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’پھر جب دوسری بار(تم نے کج روی کی) تو ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے بھیجے
کہ مار مار کر تمہارے منہ بگاڑ دئیے اور مسجد میں داخل ہوگئے جیسے پہلی بار
داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر قابو پایا تباہ کرکے برباد کردیاقریب ہے کہ
تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم پھر شرارت کرو تو ہم پھر عذاب کریں گے
اور ہم نے جہنّم کو کافروں کا قید خانہ بنایا ہے۔ ‘‘سورۃ بنی اسرئیل(۶۔۸)
اور یہ دوسری بار کا وعدہ اس لیے بھی آیا کہ انہوں نے حضرت یحییٰؑ کو قتل
کر دیا اور ان کے والد ذکریاؑ کو بھی اور مسیح ابنِ مریمؑ کو قتل کرنے کی
سازش کی۔تو ربّ جبار و قہار نے دوبارہ انہیں پکڑ لیا اور رومن شہزادہ
طیطس(Titus) 70 A.Dمیں اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ اہلِ کتاب کو کچلتا
گیا اور ایک دن میں قریب قریب گیارہ لاکھ یہودیوں کو صرف یروشلم میں ہی تہ
تیغ کر ڈالا اور ہیکل کو بالکل مسمار کر دیا اور ایک ستون بھی سلامت نہ
چھوڑا ، یہودیوں کو وطن بدر کر دیا اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیا اور
یروشلم کو رومن سلطنت میں ہمیشہ کے لیے شامل کر لیا اور اس کے بعد کبھی بھی
یہودی نہ ہی یروشلم میں اکٹھے ہو سکے اور نہ ہی مکمل یا نیم خود مختار
حیثیت برقرار رکھ سکے۔ اور یہ ان کی اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی تھی۔اور اﷲ نے
وعدہ کیا کہ اگر تم پھر وہی اعمال کرو گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ پہلی کی
طرح کا سلوک کریں گے۔
اس کے بعد یہودی پوری دنیا میں پھیل گئے اور ان میں کوئی مرکزی حیثیت کسی
کو بھی حاصل نہ ہوئی اس جلا وطنی کو یہود diasporaکہتے ہیں۔ وہ دنیا کے ہر
اس خطے میں آباد ہوئے جہاں انہیں کچھ نفع میسر آسکتا تھامثلاً ہندوستان کے
بادشاہ سیرا پریمل جسے ہندوستانی تاریخ میں ایروبرہمن بھی کہا جاتا نے
379A.Dمیں یہودیوں کو ہندوستان میں مکمل مذہبی آزادی کا فرمان تانبے کی ایک
تختی پر لکھ دیا تھاجس میں لکھا تھا کہ یہودیوں کو ہندوستان میں اس وقت تک
مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے جب تک کہ یہ سورج اور چاند ہے۔ مگر ان کا اصل
بیڑا اس وقت غرق ہوا جب 325A.Dمیں رومن باشاہ کنسٹنٹائن(Constantine)نے
عیسائی مذہب قبول کیا اور نائشیہ میں عیسائیوں کی کونسل بلائی(Council of
Nicaea)جہاں دنیا جہاں کے عیسائی علماء اکٹھے ہوئے اور عیسائیت کے چیدہ
چیدہ قانون وضع کیے گئے اور اسی کونسل میں ’’مسیح کو خدا کا بیٹا‘‘ ہونے کے
لیے ووٹنگ ہوئی جس کے مطابق مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا گیا اور ترمیم
شدہ انجیل کو قبول کر لیا گیا مگر وہاں ایک اقلیت اس کے خلاف آواز اٹھاتی
رہی مگر ان کی آواز دبا دی گئی اور عیسائیت کو رومی سلطنت کا ریاستی مذہب
ہونے کا درجہ مل گیا۔ اس کے بعد عیسائیوں کو حکومت اور طاقت مل گئی تو
انہوں نے یہودیوں سے بدلہ لینا شروع کیا کیونکہ بقول ان کے مسیحؑ کو سولی
چڑھوانے والے یہودی تھے اور انہوں نے ان کو تعلیمات سے کفر کیا تو یہ کافر
تھے اور قابلِ مذمت تھے اس لیے ان میں ایک کثیر تعداد کو قتل کر دیا گیا
اور بہت سے قید کر لیے گئے اور بہت سے رومی حکومت کی پہنچ سے دور عرب اور
یورپ کے دوسرے ممالک میں آباد ہو گئے۔اب عیسائیوں نے باوجود اپنی مذہبی
نرمی کے یہودیوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو انہوں نے ان سے اس سے بیشتر کیا
تھا کہ اکثر حورایوں کو قید اور قتل کروادیا تھا اور رومی حکومت کے دل میں
یہ بات ڈال دی تھی کہ عیسائی مذہب کی تبلیغ ان کی حکومت کے لیے خطرہ
ہے۔اسلام کے آنے سے پہلے تک عرب کے یہود تو موج میں تھے مگر وہ جو شام ،
مصر یا اسپین میں رومی حکومت کے سائے میں رہ رہے تھے ان کو چھوٹے جرم کے
بدلے سخت سخت سزائیں دی جاتی اور ان سے ان کی مذہبی، معاشی اور معاشرتی
آزادی سلب کر لی گئی تھی ہاں البتہ ایرانی سلطنت کے زیرِ سایہ یہودیوں کے
حالات رومی یہودیوں سے قدرے بہتر تھے۔ مگر جب اسلام آیا تو اکثر یہودیوں
نے16،17ہجری میں مصر اور شام کی فتح کے وقت اپنے پہلے آقاؤ ں کے خلاف
مسلمانوں کی مدد کی جس سے مسلمانوں کی قربت انہیں نصیب ہوئی۔اور انہیں بہت
سی مراعات اور رعایت مسلمانوں سے مل گئی مگر عرب کے یہود قبائل کی بد
عہدیوں اور ان کے پھیلائے ہوئے فتنوں کی وجہ سے عرب یہودیوں کو مسلمانوں نے
خوب سیدھا کیا جن میں قبیلہ بنو نظیز، بنو قریظہ اور بنو غطفان جیسے قبائل
قابلِ ذکر تھے۔ اسی طرح جب 40ہجری میں راشدین خلافت کا خاتمہ ہوا تو اموی
خلافت میں بھی انہوں نے اچھا خاصہ اثرورسوخ بنا لیا اور معاویہؓ کے دور میں
ہی بہت ساری ایسی جگہوں پر جہاں پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت تھی وہاں یہودی
کام کرتے تھے جن میں ٹیکس اور سفارت کا محکمہ اہم ترین تھے۔معاویہؓ کے بعد
کے اموی خلفاء کے دور میں بھی یہودیوں کے حقوق بڑھے ہی کم نہیں ہوئے پھر جب
92سالہ حکومت کے بعد جب عباسیوں نے امویوں کو تہ تیغ کیا اور 132ہجری
میں(750 A.D)اپنی خلافت قائم کی جو 1258A.Dتک رہی اور جس کا مرکز بغداد تھا
میں بھی یہودی بہت سے اہم عہدوں پر فائز تھے اور ان کی اہمیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتاہے کے عیسائیوں کو خلافتِ بغداد کی زمین میں رہنے کے
لیے جزیہ دینا پڑتا تھا مگریہودی ایک عرصہ اس سے آزاد رہے اور باہر والے
عیسائی بغیر بغداد حکومت کی اجازت کے سلطنت میں داخل نہیں ہو سکتے تھے مگر
یہودی بغیر کسی روک ٹوک کے سلطنت میں کہیں بھی آجا سکتے تھے مگر حیرت کی
بات کہ بغداد کے خلاف سازشوں میں بھی یہودیوں کا کوئی نہ کوئی گروہ
بازنطینیوں(Byzantine Empire )کے جاسوس کی حیثیت سے کام کرتا ہی رہا پھر جب
صلیبیوں نے 1095سے لے کر بارہویں صدی تک جاری رہے ان جنگوں میں کبھی مسلمان
ہاوی ہوتے تو کبھی صلیبی مگر یہود نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ
دونوں کو خوش رکھا اور کہا جاتا ہے کہ پہلی صلیبی جنگ کا آغاز بھی یہودیوں
کی شرارت سے ہوا تھا کیونکہ ان میں سے اکثر تاجر تھے اور یروشلم میں رہتے
تھے اور انہیں مسلمانوں کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ تھی تو یہ یہودی تاجر جب
کاروبار کے سلسلسے میں یورپی عیسائی ملکوں کا سفر کرتے اور وہاں کے حکمران
ان سے ارضِ مقدس میں عیسائیوں کی حالت کے بارے میں پوچھتے تو یہ لوگ سدا کے
اپنے منافقانہ رویے کی وجہ سے ہمیشہ بڑھا چڑھا کر ان کی مظلومیت کا رونا
روتے اور جب یروشلم میں ایک کلیسا ایک بیوقوف مسلمان نے گرا دیا تو یہودیوں
نے اس کے بارے میں بھی یورپ میں بہت سے افواہیں مشہور کر دیں حالانکہ اگلے
بادشاہ نے پہلے سے بہتر کلیسا عیسائیوں کو تعمیر کر کے دیا تھا اور پہلے
بادشاہ کے عمل پر ان سے معافی بھی مانگی تھی مگر یہودیوں کی شرارتیں اور
افواہیں کام کر گئی اور پوپ اربن چہارم نے مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی
ایک فوج اکٹھی کروائی جس نے 1099میں یروشلم پر حملے کر کے اسے اپنے قبضے
میں لے لیا جس کے بعد اگلے سو سال تک جنگوں کا سلسلہ رک نہ سکا اور ارضِ
مقدس سو سال تک امن کو ترستی رہی۔پھر جب 1299میں عثمان اول نے عثمانی خلافت
کی بنیاد رکھی تو اس میں بھی یہودیوں کی اچھی خاصی شخصی اور مذہبی حاصل تھی
جو اخیر وقت تک رہی مگر عثمانی خلافت میں سینکڑوں ایسے واقعات مل جائیں گے
جب یہودیوں نے ترکوں کے خلاف روسیوں اور دوسرے یورپی ملکوں کی امداد کی جن
میں آسٹریا اورہنگری سب سے اہم تھے۔خلیفہ بایزید دوم نے 1492میں اسپین سے
جلا وطن کیے جانے والے2لاکھ یہودیوں کا نہ صرف سنطنتِ عثمانیہ میں آکر آباد
ہونے کا دعوت نامہ بھیجا بلکہ ان کو بچانے کے لیے کثیر تعداد میں کشتیاں
بھی بھیجیں گئیں۔ یہودیوں کی طرف عثمانیوں کی نرمی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے
کے سولہویں صدی کے نصف میں ایک یہودی عالم یوسف ناسی(Joseph Nasi)ہی وہ
پہلا شخص تھا جس نے خلیفہ کی حمایت سے پرتگیزی یہودیوں کو یروشلم میں اکٹھا
کرنے کی کوشش کی یہ الگ بات کہ بعد میں جب خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو
یہی یوسف ناسی مسلمان ہوگیا۔سترہویں صدی میں ایک یہودی عالم سباطائی
زیوی(Sabbatai Zevi)(1626-1676 A.D)نے یہودیوں کا مسیح ہونے کا اعلان کیا
جس سے بہت سے یہودی اس کے گرد جمع ہوگئے جس نے ارضِ مقدس میں یہودیوں کو
آباد کرنے شروع کیا جس میں غزہ اور سمیرینہ(Gaza and Smyrna)کے شہروں میں
اس نے یہودیوں کو آباد کیا۔
انیسویں صدی میں دنیا میں 10.5ملین یہودی آباد تھے جو کہ اس وقت کی دنیا کی
آبادی کا 0.25%تھے۔ان کی اکثریت مشرقی یورپ اور روس میں رہتی تھی جو کہ
7.5ملین تھی۔ شمالی امریکہ میں ان کی تعداد 1ملین تھی جرمنی کی آبادی میں
یہ 5لاکھ تھے۔ انگلینڈ میں ان کی تعداد 2لاکھ تھی عربوں میں یہ 5لاکھ کی
تعداد میں موجود تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے فلسطین میں 50ہزار یہودی آباد تھے
اور باقی پوری دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ں 3،4لاکھ یہودی پھیلے ہوئے
تھے۔جنہوں نے ہر جگہ اپنا کچھ نہ کچھ اثر ورسوخ بنا لیا تھا۔یہ وہ زمانہ
تھا جب سلطنتِ انگلستان میں سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا ، حکومتِ روس
زار(Tzar)کی سرکردگی میں اپنے آخری دن گن رہی تھی ، فرانس اور جرمنی کا
سورج طلوع ہو رہا تھا اور خلافتِ عثمانیہ آخری سانسیں لے رہی تھی اور اس
وقت ترکی کو ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘کہا جاتا تھا۔ ان سارے حالات میں روس
میں انتہائی غربت اور افلاس کی وجہ سے مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے ہڑتالیں
کرنی شروع کردیں وہ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی تبدیلی چاہتے
تھے۔بیسوی صدی کے آغاز میں 1905ء میں روس میں ایک انقلاب لانے ی کوشش کی
گئی جس کی وجہ سے زار(Tzar) دسمبر میں ایک پارلیمنٹ(Doma)بنانے پر رضامند
ہوگیامگر یہ پارلیمنٹ اس وقت ختم کردی گئی جب زار(Tzar)کی فوجوں نے
انقلابیوں کو کچل دیا۔ ہزاروں کو قتل کر دیا گیا اور ہزاروں کو سائبیریا
(Siberia)میں جلا وطن کر دیا گیا۔اس سب کا ذمہ دار یہودیوں کو قرار دیا گیا
اور یہودیوں پر حملے، ان کا قتل، ان کے گھروں کو لوٹنااور ان کی عورتوں سے
جنسی زیادتی کرنا اس وقت روس میں معمول بن گیا۔امریکی یہودیوں نے اس پر
احتجاج کیا اور صدر تھیوڈرروزویلٹ(Theodore Roosevelt) نے زار(Tzar)کو ایک
احتجاجی خط لکھا جس کا زار(Tzar) نے سردمہری سے کوئی جواب نہ دیا۔1881ء سے
1912ء کے درمیان 1.89ملین یہودیوں نے روس سے دوسرے ملکو ں میں نقل مکانی
کی۔ جس میں سے اکثریت امریکہ میں جا آباد ہوئی، 2%فیصد کینیڈا میں جا بسے ،
2.5%فلسطین چلے گئے باقی کچھ مغربی یورپ اور جنوبی امریکی ممالک میں چلے
گئے۔کچھ سونے کی چمک سے مرعوب ہو کر ساؤتھ افریقہ چلے گئے کچھ آسٹریلیا میں
جا آباد ہوئے۔ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے بہت سارے یہودی اسکالرز نے
یہودیوں کو بچانے کے لیے مختلف طریقوں کو سوچنا شروع کر دیا، پہلا خیال تو
یہ تھا کہ کچھ ایسے طور طریقے اپنائے جائیں کہ ان پر ظلم و ستم ختم ہو جائے
جیسے کہ ’’یہودی ہی نہ رہو‘‘، ماڈرن ہو جاؤ، سیکولر ہوجاؤ اور نئے نظریات
کو قبول کر لو جن میں کمیونزم(Communism) اور سوشلزم(Socialism)اس وقت سب
سے زیادہ رائج انقلابی خیالات تھے یہی وجہ تھی کہ جب روس میں کمیونسٹوں نے
سر اٹھایا تو ابتدائی کمیونسٹوں میں سے بہت سارے یہودی ہی تھے جنہوں نے
حکومت قائم کرکے اپنے ہی بھائی بندوں یہودیوں کو سیدھا کیا۔اوران سب چیزوں
اور نظریات کا آغاز یہودیوں میں ہسکلا تحریک(Haskalah Movement) سے شروع ہو
جو اٹھارویں صدی میں انگلستان سے شروع ہوئی جو روایتی طریق کار اور تورات
کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا،یہ تحریک یہودیوں کو ماڈرن اور سیکولر بنانے کی
ایک کوشش تھی جس نے انہی میں سے جنم لیاجس کی ابتداء امانویل کانٹ(immanual
Kant)کے فلسفے سے شروع ہوئی جس میں خدا کا کوچھٹی پر بھیج دیا گیاتھا
کیونکہ کانٹ کے فلسفے کے مطابق انسان اپنی تمام تکلیفوں کا خود مداوا کر
سکتا ہے اور خدا پر منحصر ہونا اس کی توہین کرنے کے برابر ہے۔مگر یہود ہی
ایسی قوم تھی جو سب سے کم ہونے کے باوجود سب سے مضبوط اور سب سے سخت جان
تھے انہوں نے ہزاروں سالوں کا سفر کیا تھا اور وہ ہر عہد، ہر قوم اور ہر
حکومت میں اپنی مذہبی حیثیت برقرار رکھتے آئے تھے اس لیے وہ اس تحریک سے
بھی زیادہ کچھ متاثر نہ ہوئے بلکہ اس کے مقابلے میں یہودی مذہبی مدرسہ سسٹم
نے زور پکڑا اور بہت سارے یہودیوں نے اپنے اپنے مدرسے قائم کر لیے جیسا کہ
ہندوستان اورایران میں مسلمان عالموں نے سلطنتوں کے دور میں کیا تھا جس سے
روایات کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہوئی۔اور یہاں سے ایک نئی تحریک نے جنم لیاجس کا
نام ’’موسر تحریک(Musar Movemennt)‘‘ تھااورجس کا آغاز1850'sمیں ربی
اسرائیل سلانتر(Rav Yisrael Slanter) نے کیا۔مگر یہ تحریک جنگِ عظیم اول کے
اختتا م پر ختم ہوگئی۔یوشیوا روس سے مختلف قسم کے یہودیوں جن میں بہترین
ربی، سوشلسٹ، کمیونسٹ، سیکولر اسکالرز،اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹوں نے جنم لیا۔
جب انیسویں صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب آیا تو اس کے اثرات امریکہ میں
بھی پہنچ گئے ۔مزدوروں اور مالکوں میں ایک تناؤ کی صورت نے جنم لیا چونکہ
ان مزدوروں میں اچھی خاصی تعداد یہودیوں کی تھی انہوں نے مزدور یونینیں
بنائیں کیونکہ اس وقت مزدوروں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اور سرمایہ دار سب
کچھ ہڑپ کر جاتا تھا تمام فیکٹریوں میں مزدوروں کی حالت ناقابلِ بیان تھی
حتٰی کہ ان فیکٹریوں میں بھی جن کے مالک یہودی تھی انہی مزدور یونینوں نے
مستقبل کے عظیم لیڈروں کوجنم دیااور سوشلزم نے اسی کے بعد عروج پکڑا کیونکہ
سوشلسٹوں کا خیال تھا کہ دنیا کے تمام مسائل کی جڑ مزدور کلاس پر ظلم اور
ان کے حقوق پر سرمایہ داروں کا غاصبانہ قبضہ ہے جس سے Class Struggleجنم
لیتی ہے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں سوشلسٹوں میں بھی یہودیوں کی ایک کثیر
تعداد تھی۔اسی وجہ سے انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں
جرمن فلسفی کارل مارکس(Karl Marx)کے نظریات کو پذیرائی ملی اور بقول مارکس
وہ امید کر رہا تھا کہ کمیونسٹ انقلاب انگلستان میں آئے گا مگر روس کے
مزدوروں کے بد ترین حالات اور جنگِ عظیم اول نے انقلاب کا رخ روس کی طرف
موڑ دیا۔یہودیوں نے یورپ میں جو لیبر یونینیں بنائیں ان میں Wrokmen
Circleسب سے اہم ہے جو بڑھ کر ایک عظیم لیبر یونین میں تبدیل ہو گئی جس
کوGeneral Jewish wokrer Unionبھی کہا جاتا ہے جو کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی
تھی اور جس کے ارکان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اور اسی کو Boondبھی کہا
جاتا ہے یہ پہلی یونین نے تھی جس نے مزدوروں کے حقوق متعارف کروائے۔اسی
یونین نے ایسی روایات متعارف کروائی جس سے مزدور آپس میں بھائی بھائی بن
گئے اور اب Polishمزدور یہودی مزدور سے نہیں بلکہ Polishمالک سے نفرت کرنے
لگا۔شروع میں Boondمذہبی روایات کے خلاف نہیں تھی وہ یومِ ٖکپور کو اپنی
دعوتیں رکھتے، مذہبی روایات اور کلچر کو اپنا یا اور کئی ماڈرن سکول کھولے
جن میں یہودی بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی مگر وقت کے ساتھ اس یونین میں
تبدیلیاں آئیں اور انہوں نے ایک ایسا ایجنڈادیا جو کے صیہونی
(Zionists)یہودیوں کے بالکل مخالف تھا۔ان کے مطابق صیہونیوں نے دو ناقابلِ
معافی غلطیاں کی تھیں ایک تو یہ کہ انہوں نے سرمایہ داروں کو بھی اپنی
تحریک میں شامل کیا تھا جو ہمیشہ سے اکثریت کے حقوق پامال کرتے آئے تھے اور
بعد میں انہی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں صیہونی تحریک کی بھاگ ڈور چلی
گئی۔کیونکہ Boondکے مطابق یہودیوں کو مصنوعی طریقے سے اکٹھا نہیں ہونا
چاہیے تھا بلکہ ایک مضبوط نظام کے تحت ہونا چاہیے تھا جس میں کوئی آقا اور
کوئی غلام نہ ہو۔ ان کے مطابق صیہونیوں(Zionists) کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی
کہ وہ چاہتے تھے کہ تمام دنیا کے یہودی ہزاروں میلوں کا سفر کر کے ایک ایسی
ترقی پذیر جگہ پر اکٹھے ہوں جہاں پر رہنا یورپ میں رہنے سے کہیں زیادہ مشکل
ہے۔انہی دو وجوہات کی بنا پر Boondصیہونیوں(Zionists) کے شدید مخالف تھے
اور ان کا سیاسی تعلق روس کی Social Democatic Party سے تھا مگر اپنے یہودی
نظریات اور شرارتوں کی وجہ سے جب بالشویک(Bolshevik)1917ء میں روس میں
حکومت میں آئے اور 1939ء میں پولینڈ میں حکومت میں آئے تو انہوں نے Boondکے
کارندوں کو چن چن کے ختم کیا۔پھر یہی سوشلسٹ یہودی امریکہ چلے گئے اور وہاں
انہیں ایک مختلف ماحول کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے نظریات سوشلسٹ تھے
اور امریکہ ایک سرمایہ دار ملک تھا۔ پھر وہی امریکہ میں ہی ان لوگوں نے
ماڈرن یہودیت اور روایتی یہودیت کی بنیاد رکھی جن میں ایک عرصہ کشمکش کے
بعد روایت نے ماڈرنزم کو بری طرح شکست دی اور وہ جو ایک وقت میں
Boondکہلاتے تھے انہی کی اولاد صیہونی(Zionists)بن گئے۔
صیہونی تحریک(Zionist Movement)یہودیوں کی ایک قومی اور سیاسی تحریک ہے جس
کاباقاعدہ آغاز آسٹریا۔ہنگری(Austro-Hungarian)کے ایک صحافی تھیوڈر
ہرزل(Theodre Herzl)نے کیا جب اس کی کتاب Der Judenstaat(یہودی ریاست)1897ء
میں چھپ کر منظرِ عام پر آئی۔اس تحریک کا مقصد بیت المقدس میں ایک یہودی
ریاست کا قیام تھے جس میں وہ اسرائیل کی ریاست بنا کر کامیاب ہوچکے ہیں۔اس
تحریک کے کارکن دنیا کے تمام ممالک اور ہر حصے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا
اولین مقصد اسرائیل کی حفاظت کرنا اور عالمی اداروں میں ان کی وکالت کرنا
ہے۔ یہ انہی صیہونیوں کی محنتوں کا ثمر ہے کہ ریاستِ اسرائیل نہ صرف قائم
ہوئی بلکہ چار بڑی جنگوں اور بے شمار چھوٹی محاذ آرائیوں کے باوجود آج تک
اپنا وجود برقرار رکھ ہوئے ہے اور روز بروز ترقی کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ
عربوں کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔ یہ تحریک کیوں چلی اس کے تاریخی محرکات
کیا تھے اور کیوں یہودیوں کو چار ہزار سال بعد ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت
پیش آئی اور اس تحریک نے کیا کیا کارنامے سر انجام دئیے ، یہ وہ سوال ہیں
جن کا جواب ہم اس حصے میں معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔
لفظ Zionismعبرانی جو کہ یہودیوں کی آبائی زبان ہے کے ایک لفظ Tzi-Yonسے
نکلا ہے جس کا مطلب ہے’’ یروشلم ‘‘ سے متعلق ہے۔جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا
کہ کس سیاسی اور معاشی صورت حال کے پیشِ نظر یہودیوں نے اپنے آپ کو منظم
کرنا شروع کیا تھا یہی وہ محرکات تھے جس سے صیہونی تحریک(Zionist
Movement)نے جنم لیا۔صیہونی تحریک مختلف اقسام اور مختلف حصے تھے، جیسے کہ
عام ٰصیہونیت، مذہبی صیہونیت، لیبر صیہونیت، کلچرل صیہونیت اور گرین
صیہونیت جن میں بہت سے اختلافات تھے مگر سب کا صرف اس بات پر اتفاق تھا کہ
یہودیوں کے لیے ایک آزاد ریاست وجود میں آنی چاہیے۔ہرزل نے شروع میں بہت
سارے منصوبوں پر غور کیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہودیوں پر ظلم و ستم بند
ہو اور اس کی قوم بھی امن کی زندگی گزار سکے۔اس کے ذہن میں پہلا منصوبہ یہ
آیا کی کیوں نہ تمام یہودی عیسائی ہو جائیں مگر اپنی روایتی مذہبی نظریات
کی وجہ سے وہ جانتا تھا کہ کوئی بھی یہودی اس پر رضامند نہ ہوگا۔پھر اس نے
دوسرے منصوبہ یہ بنایا کہ یہودیوں کو اگر ایک آزاد ریاست مل جائے تو وہ
سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس
نے بہت سے ملکوں کے سفر کیے بہت سے عالمی اور یہودی لیڈروں سے ملاقاتیں
کیں، شروع شروع میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے حق میں نہیں تھابلکہ
وہ کسی اور جگہ پر یہ ریاست بنانا چاہتا تھا مگر وقت کے ساتھ اور لوگوں کے
رجحان کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنی کتاب میں فلسطین کا ذکر کیا۔ سب سے
پہلے1901ء میں وہ ترک سلطان عبدالحمید کے پاس گیاسلطان اور اس سے درخواست
کہ وہ یہودیوں کو فلسطین میں ایک آزاد خودمختار ریاست بنانے کی اجازت دے دے
، چونکہ فلسطین اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کے قبضے میں تھامگر سلطان عبدالحمید
نے اس سے نا صرف ملنے سے انکار کر دیا بلکہ جواب بھجوایا کہ تم یہ چاہتے ہو
کہ تم اکٹھے ہو جاؤ اور مسلم سلطنت کا ایک حصہ کاٹ لو۔ جس کے لیے مسمانوں
نے اپنے خون بہایا اور اپنے خون سے اس خطے کی آبیاری کی ،اگر فلسطین میں
کوئی یہودی ریاست وجود میں آئے گی تو وہ میرے زندہ رہتے ہوئے تو نہیں
آسکتی، اور خدا کی کرنی یہ سلطان مرا تو اسی کے مرنے کے بعدیہودیوں کی
چالیں کامیاب ہونا شروع ہوئیں اور اسی کے بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں
آئی۔اس کے بعد وہ لندن گیا اور وہاں بادشاہ کے سامنے اپنے مطالبات رکھے اس
نے ان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ فلسطین کی بجائے اگر یہودی افریکی ملک
یوگنڈا(Uganda)میں اپنی ریاست بنانا چاہیں تو لندن ان کی مدد کرے گا کیونکہ
فلسطین ترکوں کی سلطنت میں ہے اور وہاں ان کاکسی قسم کا زور نہیں چلتاتھا۔
ہرزل نے تمام یہودی لیڈروں سے مل کر ایک مضبوط تنظیم بنائی جس کا نام
Zionist Movementرکھا گیا اس تحریک کی ہر سال ایک سالانہ میٹنگ ہوتی جسے وہ
صیہونی کانگریس کہتے تھے، چھٹی صیہونی کانگریس جو Basselمیں اگست 1903ء کو
ہوئی اس میں سب سے بڑا ایجنڈا افریکا کے خطے یوگنڈا میں یہودی ریاست کا
قیام تھا۔مگر اس ایجنڈے کو بری طرح مسترد کردیا گیا اور اسرائیل کی ریاست
فلسطین میں ہی بنانے پر زور دیا گیا۔ ان سب محرکات سے ہم اندازہ لگا سکتے
ہیں کہ یہ تحریک کس طرح اور کب سے اپنے مقصد کے لیے کام کر رہی تھی۔
جب خلافتِ عثمانیہ کے بلکان(Balkan)کے خطے جو کہ موجودہ یونان، سربیا،
اسٹونیا،آرمینیا، لیٹویا، روس اور آسٹریا کے علاقوں پر مشتمل وہ خطہ تھا
جسے ترکوں نے پندرہویں صدی سے لے کر سترہویں صدی کے دوران فتح کیاتھا اس
میں بیسویں صدی کے آٖغاز میں بغاوت شروع ہوگئی اور 1912ء تک روس، آسٹریا،
اٹلی اور انگلستان کی مدد سے یونانیوں نے اعلانیہ بغاوت کردی اور خطے میں
ایک بہت بڑی جنگ کا آغاز ہوا س سے ذرا پہلے Young Turksنے سلطان کو مجبور
کردیا کہ وہ اپنے اختیارات پارلیمنٹ بنا کر اسے منتقل کرے جس کی باہمی
چپقلش میں سلطان عبدالحمید 1909ء کو تحت سے ہٹا دیا گیا اور اس دوران
یہودیوں کو اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔اور انہوں نے ترکوں
کے خلاف یورپیوں کی حمایت کی۔جس کے نتیجے کے طور پر بہت سی ریاستیں ترکوں
کے قبضے سے نکل گئیں۔ اسی طرح یورپ میں اسی وقت سیاسی کشمکش کا آغاز
ہوگیاجب برطانیہ نے بہت سے ملکوں پر قبضہ جما لیا فرانس کی حکومت بھی کافی
ملکوں پر قائم ہو گئی مگر جرمنی کے حصے کچھ نہ آیا تو جرمنی نے اپنے دفاعی
بجٹ میں اضافہ کرنا شروع کردیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عین ممکن ہے فرانس
اور برطانیہ جرمن علاقوں پر بھی قبضہ کرلیں۔1910سے 1914کے درمیان جرمنی نے
اپنے دفاعی بجٹ میں73%، روس نے39%،برطانیہ نے 13%، اور فرانس نے 10% اضافہ
کیا۔اسی دوران سلطنتِ آسٹریا۔ہنگری(Astro-Hungarian Empire)کے ہونے والے
شہنشاہ آرکڈیوک فرانز فرڈینیڈ(Archduke Franz Ferdinand) اور اس کی فیملی
کو سربیا (Serbia) کے شہر سراجیو(Sarajevo) میں 28جون 1914ء کوقتل کردیا
گیا جس کا الزام ایک سرب باشندے گوریلا پرنسپ پر لگا جس سے آسٹریا۔ہنگری
اور سربیا میں جنگ کا ماحول بن گیا۔اس وقت چونکہ ملکوں میں دفاعی معاہدے
ہوئے پڑے تھے جن میں ایک طرف فرانس، روس، اور برطانیہ آپس میں معاہدے میں
تھے جب کہ دوسری جرمنی اور آسٹریا۔ہنگری نے دفائی معاہدہ کیا ہوا تھا۔ جب
آسٹریا۔ہنگری نے 28جولائی 1914کو سربیا پر حملہ کردیا توسربیا چونکہ روس کا
حلیف ملک تھا اس لیے روس نے آسٹریا۔ہنگری پر حملہ کردیا۔جرمنی نے پہلے روس
اور پھر فرانس پر دھاوا بول دیا۔ جب جرمن فوجیں فرانس پر حملہ کرنے کے لیے
بیلجیم سے گزرنے لگی تو برطانیہ جو کہ بیلجیم کے ساتھ معاہدے میں تھا جرمنی
کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس دوران بلکان جنگوں کی وجہ سے سلطنتِ
عثمانیہ نے جرمی کی حمایت کا اعلان کردیا، اور اس طرح جنگِ عظیم اول پورے
زور و شور کے ساتھ شروع ہوگئی۔یہودی چونکہ فلسطین میں اپنی ایک آزاد ریاست
بنانا چاہتے تھے اور یہ اسی طور ممکن تھا کہ فلسطین سلطنت عثمانیہ کے قبضے
سے نکلے اس لیے پوری دنیا کے یہودیوں نے Alliesجس میں برطانیہ، فرانس اور
روس شامل تھے ان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ Rothschildخاندان جس کا سرمایہ
تقریباً چھ سات یورپی ملکوں میں تھا اور یہ ایک یہودی خاندان تھا نے دو
جماعتوں Allies، اور Centralکو قرض کی صورت میں امداد مہیا کی جس سے جنگ
شدید سے شدید ہوتی گئی اس طرح امریکی صیہونیوں نے اپنا اثر ورسوخ استعمال
کرتے ہوئے امریکہ کو Alliesکی طرف مائل کردیا۔یہاں تک کہ امریکہ جو اس وقت
سب سے بڑی قوم کے طور پر ابھر رہا تھا نہ صرف ان کی امداد کی بلکہ خود ان
کے ساتھ جنگ میں شریک بھی ہوگیا۔ جنگ سے کچھ پہلے قومیت پرستی کے نئے
نظریات نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ قومیت کا نظریہ مذہب کی بجائے،
زبان، کلچر اور خطے پر تھی اس سے بہت ساری یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ عثمانی
خلافت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔جس کی وجہ سے عربوں میں قومیت پرستی نے رواج
پکڑا ، اور 1916 سے 1918کے درمیان شریفِ مکہ حسین بن علی نے ترک خلافت کے
خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ، جس کی حمایت کے لیے جنگ کے دوران 1916ء میں
برطانیہ نے اپنا ایک قابل جاسوس تھامس لارنس عربوں کے پاس بھیجاجس نے شاہ
فیصل کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کیے جس نے برطانیہ کی سفارشات کے مطابق
ترکوں کے خلاف بغاوت کو ہوا دی اورا نہیں جنگ کے خاتمے پرمتحدہ آزاد عرب کی
آزادی کا وعدہ کیا مگرعربوں کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا، اورجنگ کے اختتام پر
Alliesنے معاہدہ سیورے(Treaty of Sevre)جو 10اگست 1920کو ہوا اس میں ترکی
پر معاہدہ ورسالی (Treaty of Versailles)سے بھی بہت زیادہ سخت پابندیاں
ترکی پر لگائیں جس کی وجہ اتحادیوں کی گیلی پولی (Gallipoli) کے محاذ
پرمصطفی کمال کے ہاتھوں شکستِ فاش تھی۔ جس کا انہوں نے اس معاہدے میں بدلہ
لے لیا۔جس کے مطابق ترکی اتحادیوں کی ایک کالونی بن کے رہ گیااور اس کے سرخ
و سفید پر اتحادی قابض ہو گئے، شام اور لبنان پر فرانس نے قبضہ جما لیا۔
عراق اور فلسطین پر برطانیہ قابض ہو گیااسی طرح دوسری ریاستوں کا بھی انجام
ہوا اور آزاد عرب کا خواب عرب کے صحراؤں کی ریت میں بکھر گیا۔دوسری طرف
ترکی کو یورپ کے اپنے تمام علاقوں اور اپنے قومی تشخص کے ساتھ ساتھ اپنے
ترک علاقوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑاجن کو یونان کو تحفہ کر دیا گیا۔ اس
معاہدے کو سلطان محمد ششم نے اپنی کابینہ کے ساتھ منظور کر لیا مگر مصطفی
کمال اتاترک نے 23 اپریل 1920میں انکرہ(Ankara)میں ترکی کی پہلی گرینڈ
پارلیمنٹ قائم کرکے اس معاہدے کی مخالفت کی اور اتحادیوں اور یونانیوں سے
لڑائی شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں اس نے نہ صرف ترکوں کو اتحادیوں سے آزاد
کروایا بلکہ یونان کے تسلط سے بہت سارے علاقے بھی چھڑوا لیے اور معاہدہ
لوزین(Treaty of Lausanne)(جو 24جولائی 1923کو سوئزر لینڈ میں ترکی اور
اتحادیوں کے مابین ہوا)کے مطابق ترکی اپنی تمام غیر ترک علاقوں سے ستبردار
ہوگیا۔اور باقی ترک علاقوں پرسیکولرجمہوریہ ترکی وجود میں آگیا۔ اتاترک نے
نومبر 1922کو سلطا ن کی حکومت کو ختم کر دیا، اورمارچ 1924میں اسمبلی
نے1299 سے قائم عثمانیہ خلافت کا خاتمہ کردیا۔ معاہدہ ورسالی (Treaty of
Versailles) 28جون 1919میں فرانس میں طے پایا جس سے جنگِ عظیم اول کا خاتمہ
ہوا جو نومبر 1918میں پہلے ہی رک گئی تھی۔ اس معاہدے کے تحت فرانس نے جرمنی
کو بھاری تاوان دینے پر مجبور کیااور ترکی کے حصے بخیے کردیے اور خلافت ختم
ہوئی جس سے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور مسلمان آج تک ایک
مرکز پر اکٹھے نہیں ہو سکے اور مرکز کی تلاش میں کبھی تو طالبان کی حمایت
کردیتے ہیں اور کبھی داعش جیسی جماعت کے فریب میں آجاتے ہیں۔
جنگِ عظیم اول میں صیہونیوں نے اپنی تحریک کو تیز تر کردیا،اور اعلان
بالفور حاصل کر لیااعلانِ بالفور حقیقتاً ایک خط تھاجو کہ صیہونیوں کی
انتھک محنت اور بے شمار چالوں کا ثمر تھا۔ جو حکومتِ برطانیہ کے سیکرٹری
خارجہ جیمزآرتھر بالفور(James Arthus Bilfour)نے2نومبر1917کو والٹر
روتھزچائلڈ (Walter Rothchild)کو لکھا جو اس وقت برطانوی یہودیوں کا لیڈر
تھا۔ جس کا مقصد واضح طور پر یہودیوں سے ٹھیک اس وقت امداد حاصل کرنا تھا
جب برطانیہ کو اس کی سخت ضرورت تھی۔اس کے کچھ ہی دنوں بعد برطانوی
وزیرِاعظم ڈیوڈلائڈ جارج(David Lloyd George) جو کہ 1916ء سے 1922ء تک
برطانیہ کے وزیرِ اعظم رہے انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں کرسمس پر یروشلم
چاہیے جس کے فوراً بعد برطانوی فوجوں نے یروشلم پر حملے تیز تر کر دیے اور
بالآخر ترکوں کو یروشلم چھوڑنا پڑا۔اور جنرل ایلن بی (Allenby)11دسمبر
1917کو لندن کی خصوصی ہدایت بغیر کوئی جھنڈا لہرائے پیدل شہر میں داخل ہوا
جس کا مقصدان معصوم عربوں کو یقین دلانا تھا جو ترکوں کے خلاف برطانیہ کے
ساتھ لڑ رہے تھے کہ ہم نے یروشلم تمہارے لیے فتح کیا ہے کیونکہ جنگ میں
ابھی ان کی ضرورت تھی۔تمام تر کوششوں کے باوجود یروشلم کی فتح برطانیہ میں
صلیبی جنگوں کی فتح کے طور پر منائی گئی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
یروشلم جیسے مقدس شہر کولائڈ جارج اور بالفور نے یہودیوں کے حوالے کیوں کر
دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالفور اور لائڈ جارج ایک ہی مذہبی گروہ سے
تعلق رکھتے تھے اور بائبل کی پیشین گوئیوں میں ان کا پکا یقین تھا اور
بائبل میں لکھا تھا کہ یہودی یروشلم میں واپس لوٹیں گے اور آخری جنگ جس میں
مسیح ؑ دوبارہ زمین میں تشریف لائے گے اور اہلِ کتاب کے ساتھ ایک عظیم جنگ
جس کو وہ War of Armageddonلڑیں گے مگر اس کے لیے یہودیوں کا پہلے ارضِ
مقدس میں واپس لوٹنا ضروری ہے اس لیے وہ تو خدا کے حکم کو پورا کرنے میں
ایک عظیم مذہبی فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔اعلانِ بالفور کی وجہ سے ہی
برطانیہ کو جنگِ عظیم اول کے بعد فلسطین مینیڈیٹ مل گیا اور لیگ آف نیشنز
میں بھی اس کو شامل کیا گیا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی ایک عظیم طاقت بن کر ابھر رہا تھا مگر جنگِ
عظیم اول میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کی شکست نے جرمن قوم کو تباہ کر کے
رکھ دیا اانہیں تمام جرمن کالونیوں سے دستبردار ہونا پڑااور ان پر طرح طرح
کی سخت معاشی اور دفاعی پابندیاں لگائی گئیں۔ جنگ میں یہودیوں اور صیہونیوں
نے بے شمار دفعہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا کیونکہ ان کے
مفاد ات ان کے ساتھ منسوب تھے اس لیے جرمن فوج میں یہ تاثر بن گیا کہ وہ
میدانِ جنگ میں نہیں ہارے بلکہ سیاست کی میز پر جنگ ہارے ہیں جس کی وجہ صرف
اور صرف یہودیوں اور کمیونسٹوں کی چالیں تھیں۔ 1919ء میں ایک جرمن اینٹن
ڈکسلر(Anton Drexler)نے ایک سیاسی پارٹی بنائی جس کا نام National
Socialist German Workers Partyتھا۔اب ذکر ایک عظیم لیڈر کا جسے لوگ ہٹلرکے
نام سے جانتے ہیں۔ہٹلر 20اپریل1889میں آسٹریا کے ایک قصبے
برونو(Braunau)میں پیدا ہوا شروع میں وہ آرٹسٹ بننا چاہتا تھا مگر اسکول سے
نکا ل دیا گیا اس کا ماننا تھا کہ آسٹریا، ہنگری اور جرمن ایک ہی نسل سے
تعلق رکھتے ہیں جو کہ جرمن نسل ہے مگر یہ نسل تقسیم ہوگئی ہے۔ جب 1914میں
جنگِ عظیم اول کا آغاز ہوا تووہ جرمن قوم کے ساتھ مل کر لڑا اس جنگ میں اس
نے بہادری کے کافی کارنامے کیے جس کی وجہ سے اسے جرمن فوج کا بہترین اعزاز
دو دفعہ(Iron Cross)دیا گیا۔ مگر جب جنگ ختم ہوئی تو جرمنی ہار گیا اور
ہٹلر بہت زیادہ مایوس اور غصے ہوا۔ 1919ء میں ہٹلر کوNazi پارٹی کی تفتیش
کے لیے میونخ بھیجا گیا وہاں وہ اس پارٹی کا رکن بن گیا اور 1921ء کو اس نے
پارٹی پر اپنا قبضہ جما لیا 1923ء کے دوران اس نے حکومت کو ہٹانے کی کوشش
کی جس کی وجہ سے اسے جیل میں ڈال دیا گیا جہاں اس نے ایک کتابMein Kamfلکھی
جس میں اس نے دنیا کی نسلوں کو ایک ترتیب میں لکھا جس میں سب سے اوپر اس نے
جرمن آریائی نسل کو رکھا اور سب سے نیچے اس نے یہودیوں، پولش، چیکس اور
روسیوں کو رکھا۔ اس کتاب نے ہٹلر کر بہت زیادہ مضبوط کر دیا کیونکہ یہ کتاب
اس وقت کے جرمن رویے کے بارے میں تھی۔پانچ سال کی سزا ہوئی تھی مگر 9مہینے
بعدہی اسے چھوڑ دیا گیا جس کے بعد نازی پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا شروع
میں تو انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی1930ء میں انہوں نے 18%ووٹ
حاصل کیے،1932ء میں 30%ووٹ ملے، مگر پھر 1933ء میں اس نے تمام جرمن سیاسی
جماعتوں کو ہرا دیا اوربہت واضح اکثریت سے اس نے الیکشن جیت لیا، اور
30جنوری 1933کو وہ جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ اگست1934ء تک اس نے تمام جرمنی
میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرلی اس کے بعد اس نے جرمن قوم کو منظم کیا،
بیروزگاری کا خاتمہ کیا اور جرمن قوم کوصرف6سال میں دنیا کی بہترین قوم بنا
دیا۔اگست میں اس نے روس کے ساتھ امن معاہدہ کیا جس کی روح سے اس نے سٹالن
کے ساتھ مل کر پولینڈ سے اپنے جرمن علاقے واپس لینے کا اعلان کیا کیونکہ
پہلی جنگ عظیم کے بعد ورسالی معاہدے کے تحت جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم
کرکے روس اور جرمنی کا سینہ چیر کر پولینڈ کی ریاست کو وجود میں لایا
گیا۔اس لیے ہٹلر چاہتا تھا کہ وہ جرمن علاقے واپس لے، ہٹلر نے پولینڈ کو
دھمکی دی کہ وہ اس کے علاقے واپس کر دے مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی جس کی
وجہ سے یکم ستمبر 1939ء صبح پانچ بجے ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اور
ایک ہی دن میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا(Warsaw)تک جا پہنچاجس کی وجہ
سے3ستمبر کو برطانیہ اور فرانس جنہوں نے پولینڈ بنایا تھا جرمنی پر حملہ کر
دیا۔ جرمنی،آسٹریا، ہنگری، اٹلی اورجاپان کا معاہدہ تھا اسی طرح روس ،
برطانیہ ، فرانس کا معاہدہ تھا۔ شروع میں تو جرمنی نے اتحادیوں کو خوب مار
ماری۔ایک مہینے میں جرمنی نے پولینڈ فتح کر لیا، چھ ہفتوں میں فرانس ،
بیلجیم، ہالینڈ، لکسم برگ (Luxemberg)نے جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔دو
مہینوں میں اس نے ناروے اور ڈنمارک کو فتح کر لیا اسی دوران صرف برطانیہ اس
کے سامنے مردِ آہن کی طرح کھڑا تھا جس کی وجہ یہ تھی برطانیہ نے اپنی تمام
کالونیوں سے فوج اور وسائل اکٹھا کر کے جرمنی کا مقابلہ کیا۔ مگر جرمنی نے
برطانیہ پر بمب مار مار کر اسے ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اس کے بعد اس نے روس
پر حملہ کیا اور شروع میں روسی فوجوں کو ماسکو تک دھکیل دیا مگر سٹالن گریڈ
شہر جرمن فوجوں کا قبرستان ثابت ہو اور وہاں سے روسیوں نے جرمنی کو واپس
دھکیلنا شروع کیا۔دسمبر 1941کو جاپان نے امریکی جزیرے Pearl harbourپر حملے
کر کے امریکہ کو بھی باقاعدہ جنگ میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا۔1943کے بعد
جرمنی اوراس کے اتحادیوں کو شکست پر شکست ہونے لگی اور 1945کے اپریل 30تک
جرمن فوج برلن شہر تک محدود ہوگئی،اور 30اپریل 1945ء کوروسی فوجیں برلن میں
داخل ہوگئیں اورکہا جاتا ہے کہ ہٹلر نے اپنی بیوی ایوا براؤن(Eva Brown)کے
ساتھ جس سے ایک دن پہلے اس نے شادی کی تھی کے ہمراہ خود کشی کر لی اور اس
کی لاش اسی کے حکم پر جلا دی گئی۔مگر کبھی بھی یہ بات بین الاقوامی طور پر
ثابت نہیں کی جا سکی کہ ہٹلر نے واقعی خود کشی کی تھی یا وہ بھاگ نکلا
تھا۔کیونکہ ایک عرصہ تک امریکی ایجنسیاں اس کی تلاش کرتیں رہیں ہیں۔اگست
1945ء کو امریکہ نے جاپان پرنیوکلیئر حملہ کر کے 2لاکھ سے زائد جاپانیوں کو
نیست و نابود کر دیا اور لاکھوں افراد زخمی ہوئے جس کے ساتھ جاپان نے بھی
ہتھیار ڈال دئیے اور جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ہٹلر کی موت کے بعد اور اس سے پہلے
ہی اس پر بے شمار الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سے سب سے بڑا الزام یہ ہے
کہ ہٹلر یہودیوں سے شدید نفرت کرتا تھا اور یہ الزام حقیقت بھی ہے ۔ اور
دوسرا الزام یہ لگایا جاتا ہیے کہ اس نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا جس
کے لیے اس نے کیمپ بنائے اور زہریلی گیس کے ذریعے اور بہت سے خطرناک طریقے
استعمال کر کے یہودیوں کا ہولوکاسٹ(Holocaust)کیا ۔اس بات کو پوری دنیا آج
مانتی ہے کیونکہ یہودیوں نے دنیا پر اپنی (Hollywood)قربانیوں کا میڈیا کے
ذریعے خوب پرچار کیا اور اپنے آپ کو دنیا کی معصوم ترین قوم ثابت کیا۔جس کی
وجہ سے دنیا کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ہولوکاسٹ کے بارے میں بہت سی تحقیق کے
بعد جہاں پوری دنیا اسے مانتی ہے تو بہت سارے محقق اس کا کھلا انکار بھی
کرتے ہیں۔ ہٹلر کے دور کے ماہر David Irvingکا کہنا ہے کہ یہ کس طرح ممکن
ہے کہ ہٹلر بغیر کسی تحریری دستاویز کے لاکھوں لوگوں کو مارنے کا حکم دے،
یہ کس طرح ممکن ہے وہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کو مار سکے جب کہ اس وقت جرمنی اور
اس کے گردونواح مفتوحات میں صرف پچاس لاکھ کے قریب یہودی موجود تھے۔ اگر یہ
بھی مان لیں کہ اس نے سارے کے سارے مار دیے پھر بھی دس لاکھ وہ مارنے کے
لیے کہاں سے لے کر آیا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے سب سے پسندیدہ مشغلے
یعنی کہ یہودیوں کو مارنے والے کیمپوں میں ایک دفعہ بھی نہیں گیا۔کیونکہ
باوجود اپنے شدید میڈیا پروپگنڈا سے بھی آج تک ان میں سے ایک حقیقت بھی
یہودی ثابت نہیں کر سکے۔ جنگ کے بعدتمام جرمن اتحادی جنرلوں کو جو جنگی
جرائم میں ملوث تھے سخت سزائیں دی گئیں مگر امریکہ نے جاپان پر نیوکلئیر
بمب پھینک کر 2لاکھ عام لوگوں کو مار کر جو جرم کیا اس کا کوئی احتساب نہیں
ہوا نہ ہی روسی فوج نے لاکھوں جرمن اور اس کے اتحادیوں کی عورتوں سے جنسی
زیادتی کی اس کا کوئی احتساب ہوا۔ایسے بہت سے سوال ہیں جن کو اٹھایا جائے
تو اس سے مغرب کا دوہرا پن کھل کر سامنے آجائے گا۔
جنگ کے بعد یہودیوں نے اپنی معصومیت کی بنا پر دنیا سے الگ ملک کی حمایت
کرنے کے لیے بہت بڑی تحریک چلائی جو کسی حد تک کامیا ب بھی ہوگئی۔جب
برطانوی حکومت نے صیہونیوں کو فلطین میں آنے کی کھلی چھٹی دے دی تو ہزاروں
کی تعداد میں وہ یہودی جنہیں ہٹلر (Hitler)کے دورِ اقتدار میں جرمنی،
پولینڈ، آسٹریا، ہنگری اور دوسرے ملکوں میں جہاں جہاں ہٹلر پہنچ سکا کافی
کچھ سہنا پڑا۔جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے یہودی گروہوں نے ہتھیار اٹھا
لیے اور چار پانچ سال وہ اپنے دفاع کے لیے گوریلا جنگ لڑتے رہے جونہی
برطانوی حکومت نے انہیں کھلی اجازت دی تو وہ سب کے سب یہودی فلسطین آگئے جن
ے پاس ہتھیار تھے اور وہ جنگ لڑنے کے عادی بھی تھے۔ جب عربوں نے ان کے
داخلے میں مزاحمت کی تو یہودیوں نے ایک بار پھر لڑائی شروع کردی اب کی بار
انہوں نے برطانوی افواج، ریلوے، عمارتوں اور سامان لے جانے والے قافلوں کو
نشانہ بنانا شروع کر دیاجب برطانوی راج نے عربوں اور یہودیوں کے درمیان
مفاہمت کی کوشش کی تو عرب اور یہودی دونوں کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے ۔ یہ
ناممکن تھا کہ عرب اس تقسیم کو مان جاتے کیونکہ کوئی بھی انسان اس طرح کی
تقسیم جس میں ایک شخص آپ کے گھر آجائے اور طاقت کے زور پر کہے کہ مجھے
تمہارا آدھا گھر چاہیے اور امید کرے کہ وہ گھر والا اس کے خلاف کچھ نہیں
کرے گا ایک کھلی حماقت ہے۔اس لیے عربوں نے بھی لڑنا شروع کردیا مگر عربوں
کو ماڈرن جنگ کا کچھ بھی تجربہ نہ تھا اس لیے انہیں گوریلا جنگ میں زیادہ
تر شکست ہی کھانی پڑی۔جب حالات برطانیہ کے بس سے باہر ہوگئے تو اس نے اپنی
بھلائی اسی میں سمجھی کہ وہ فلسطین سے بحفاظت اپنے فوجی نکال کر لے جائے
اور اسے اس چیز کے رتی پھر بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے نکلنے کے بعد عرب
اور یہود ایک دوسرے کا کیا حال کرتیں ہیں جس طرح انہوں نے ہندوستان کو جلتا
چھوڑ دیا تھااور خود نکل گئے تھے اسی طرح وہ وہاں سے نکلنا چاہتے تھے جس کے
لیے اس نے معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا ، یہ معاملہ جنرل اسمبلی میں
تھا اور سلامتی کونسل میں معاملہ بھیجنے کے لیے جنرل اسمبلی کے دو تہائی
ارکان کی منظوری ضروری تھی جو کہ اس وقت یہودیوں کو کسی صورت حاصل نہ تھی
اس وقت برطانیہ اور خصوصاً امریکہ یہودیوں کی مدد کو میدان میں کود پڑے۔
کلارک کلیفورڈ(Clark Clifford) جو کہ ہیری ٹرومین (Harry Truman)کا سیاسی
مشیر تھا اس نے صدر کو مشورہ دیا کہ اسے اسرائیل کے وجود اور فلسطین کی
تقسیم کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ اس سے آنے والے الیکشن میں امریکی
یہودیوں کی حمایت صدر کو حاصل ہو جائے گی ۔ ٹرومین کے مخالف ڈیوی(Dewey)نے
بھی یہی پالیسی اختیار کی۔جنگِ عظیم دوم کے مشہور امریکی جنرل جارج
مارشل(George Marshall)جس نے جنگ کے اختتام پر مارشل پلان دیا اور ٹرومین
کی کابینہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ تھا، اس نے اسرائیلی حمایت کے بارے میں
ٹرومین کے رویے پر کہا، ’’یہ چند ووٹ خریدنے کے لیے واضح دھوکہ ہے۔‘‘
امریکی بہترین سفارتکارہنری ایف۔ گریڈی(Henry F. Grady)نے اس کے بارے مین
مزید کہا،’’میرا ایسے گروہوں(Lobbies)سے معاملات نمٹانے کا بڑا اچھا تجربہ
ہے مگر انہوں نے اپنا کام وہاں سے شروع کیا ہے جہاں میرا تجربہ ختم ہو تا
ہے ‘‘ مارشل نے اس بارے میں کہا’’اور اگر صدر(ٹرومین)نے اسرائیل کے وجود کی
حمایت کی تو میں ضرور بالضروراگلے الیکشن میں صدر کے خلاف ووٹ دوں گا۔‘‘
اسی طرح کے یہودیوں کے منصوبوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن ِحکیم میں
کہا ہے، ’’انہوں نے (بہت بڑی بڑی)تدبیریں کیں اور ان کی( سب) تدبیریں خدا
کے ہاں لکھی ہوئی ہیں گو وہ تدبیریں ایسی (غضب کی)تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی
جگہ سے ٹل جاتے۔‘‘سورۃ ابراہیمؑ (۴۶)
جب صیہونیوں نے دیکھا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کے حق میں ۲
تہائی ووٹ نہیں بن رہے تو پہلے تو انہوں نے ووٹنگ رکوا دی اور اس دوران
انہوں نے لوگوں کو اپنے منصوبے کے مطابق چلانے کے لیے ہر طریقہ ہر حربہ
استعمال کیا، رابرٹ نیتھن(Robert Nathan)امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے
صیہونی نے لکھا ہے،’’ہم نے ہر ایک حربہ استعمال کیا، ہم نے ملکوں کو ڈرایا
کہ اگر وہ ہمارے حق میں ووٹ نہیں دیں گے تو ہم اپنا اثر و رسوخ استعمال
کرتے ہوئے ان کی امداد رکوا دیں گے۔‘‘ اور ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ یہ جنگِ
عظیم دوم کے بعد کا زمانہ ہے جب تمام یورپ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا
اور امریکہ ہی تمام یورپ اور جنوبی امریکی ممالک کی مدد کر رہا تھا۔لاطینی
امریکی مندوبین(Delegates) سے کہا گیا کہ اگر وہ تقسیم کے حق میں ووٹ دینے
ہیں تو امریکہ Pan-Americanہائی وے منصوبے پر جلد کام شروع کر دے گا۔ لمبے
عرصے سے صدارتی مشیر برنارڈ باروخ(Bernard Baruch)نے فرانس کو دھمکایا کہ
اگر فرانس تقسیم کے حق میں ووٹ نہیں دے گا تو اس کی تمام امریکی امداد روک
دی جائے گی اور یہ وہ وقت تھا جب فرانس نیا نیا جنگ کے حالات سے نکلا تھا
اور تعمیرِ نو کا کام ہو رہا تھا۔اسی طرح امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس
فرینکفرٹ(Justice Felix Frankfurter)
نے اپنے ساتھی کلارک کلیفورڈ(Clark Clifford) اور دس کانگرسی ممبرز کے
ہمراہ فلپائن کو دھمکی دی اور اس وقت فلپائن پر دس بل کانگریس میں زیرِ غور
تھے۔وائٹ ہاؤس Top executive assistant ڈیوڈ نائل(David Nile)نے
لائبیریا(Liberia) کو تقسیم کے حق میں ووٹ پرمجبور کیا،ہیٹی(Haiti)کو تقسیم
کے حق میں ووٹ دینے پر امداد کا وعدہ کیا گیا۔کوسٹا ریکا(Costa Rica)کے
صدرجوز فگرز(Jose Figueres)کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو ایک Blank
Checkbook پیش کی گئی کہ اگر وہ تقسیم کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو اپنی مرضی
کی رقم ان کو تحفہ کے طور پر دی جائے گی۔چوبیس گھنٹوں بعد بہت سے ملکوں کے
مندوبین(Delegates)نے اپنا ووٹ تقسیم کے حق میں دے دیا۔ اور 29نومبر 1947ء
کو قراردادِ تقسیم 181پاس ہوگئی۔ مگر جنرل اسمبلی کی یہ قرارداد کسی طور
بھی ایک ریاست کے قیام کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی جب تک کے
سکیورٹی کونسل اس کی اجازت نہ دے ابھی قرارداد سکیورٹی کونسل نے پاس نہیں
کی تھی کہ فلسطین میں صیہونیوں نے دہشت گردی کی کاروائیاں شروع کردیں۔
اقوامِ متحدہ کے ایک بہترین سویڈش آفیسر کو یہودی حملے روکنے کے لیے بھیجا
گیا اور یہ وہی شخص تھا جس نے جنگِ عظیم دوم میں بہت سے یہودیوں کو بچایا
تھا مگر ان صاحب کو صیہونی دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔اور ۳۳ دفعہ قتلِ عام
کیا گیاجنرل اسمبلی کی قرارداد کے مطابق 55%فلسطین کا حصہ اسرائیل کو دینا
تھا مگر14مئی 1948ء کو فلسطین کے 70%پر اسرئیل کی ریاست قابض ہو کر وجود
میں آگئی جسے اسی دن امریکہ اور روس نے فوراً قبول کر لیا امریکہ کا
اسرائیل کو تسلیم کرنے تو سمجھ میں آتا ہے مگر روس نے صرف اس لیے اسرائیل
کو تسلیم کر لیا کیونکہ تاریخِ یہود میں روس نے یہود پر بڑے مظالم ڈھائے
تھے ایک تو وہ ان کا ازالہ کرنا چاہتے ہوں گے اوردوسرا وہ چاہتے تھے کہ
روسی یہودی یہاں سے نکل کر اورپولینڈ کو خالی کرکے اسرائیل چلے جائیں۔
جب جنرل اسمبلی نے اسرئیل کے حق میں دو تہائی اکثریت سے ووٹ دے دیا تو
اقوامِ متحدہ نے ایک کمیٹی فلسطین بھیجی جس سے یہودیوں نے تو بات چیت کی
مگر عربوں نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اب صیہونیوں کے خلاف عرب اشرافیہ
نے جلسے منعقد کروانے شروع کیے جس میں عربوں کو صیہونیوں کے خلاف اٹھ کھڑے
ہونے کا وعظ کیا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک جلسے میں فلسطین کے سب سے بڑے بزرگ
اورخطیب محترم شیخ سبریاالدین نے کہا کہ اگر یہودی ہم سے ہمارا ملک چھیننا
چاہتے ہیں تو ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم انہیں سمندر میں پھینک دیں گے اور اس
نے انگلی سے Mediterranean کی طرف اشارہ کیاجو جلسہ گاہ سے صرف دو سے تین
سو میٹر دور تھا۔عرب اشرافیہ سمجھتی تھی کہ اگر تقسیم ان پر تھوپی گئی تو
وہ اسے طاقت سے ختم کر سکتیں ہیں عرب لیڈر جمال الحسینی کا ماننا تھا کہ
اگر اس کے پاس چار سے بندوقیں ہوں تو وہ یہودیوں کو پورے فلسطین سے باہر
پھینک دے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب کتنے کم علم اور معصوم تھے کہ
انہیں اپنے اس وقت کے دشمن کی طاقت کا رتی بھر بھی اندازہ نہیں تھا۔ جب
تقسیم عربوں پر تھوپ دی گئی اور 14مئی 1948کو حکومت برطانیہ اپنا بوریا
بستر لپیٹ کر وہاں سے نکلی اسی دن صیہونی تحریک کے قائد ڈیوڈبن
گوریان(David Ben Gurion)نے ریاست اسرائیل کے قائم ہونے کا اعلان کردیا اور
یہ عربوں کی زندگی کا سیاہ ترین دن تھا جس پر وہ جتنا بھی روئے پچھتائیں کم
ہے ۔ بن گوریان اسرائیل کا پہلاوزیراعظم اور خائم ویزمین(Chaim Weizmann)جو
عرصہ دراز سے صیہونی تحریک کا قائد تھا پہلا صدر منتخب ہوگیا۔
فلسطینیوں نے اسرائیل کو ماننے سے انکار کر دیا اور جلال الحسینی کے خاندان
سے عبدالقادر الحسینی نے ہتھیار اٹھا کر صیہونیوں سے لڑنا شروع کر دیا اس
نے ان پر کامیاب حملے کیے اور بہت سے شہروں میں ان کی سپلائی لائن کاٹ دی
جن میں تل اویو(Tel Aviv) جو کہ یہودیوں کا مرکز تھا سے یروشلم سے جاننے
والی سپلائی لائن کاٹنا اس کا بڑا کارنامہ تھا، یہودیوں نے اپنی سپلائی
لائن کو بچانے کے لیے عرب قصبوں پر حملہ کرنا شروع کردیا عربوں نے ہر گھر
سے حملے کیے جس کے جواب میں صیہونی پہلے ہر گھر میں دو، تین گرنیڈ پھینکتے
اور پھر جو بچتا اس کو گولیوں سے اڑا دیتے اس محاذ آرائی میں بہت سی
عورتیں، بچے اور بوڑھے شہید ہوئے، اسی مہم میں اسرائیلی پلماخ یونٹ(Palmach
Unit)جس کی ڈیوٹی کمک کے لیے رستہ محفوظ کرنا تھا نے کسٹل نام کے قصبے پر
حملہ کرتے ہوئے عبدالقادر الحسینی کو شہید کر دیا ، عبدالقادر کی لاش کو
اٹھانے کے لیے عرب مجاہدوں نے بہت زور کا حملہ کیا اور وہ لاش اٹھانے میں
کامیاب ہو گئے جس کے ساتھ انہوں نے یہودی کمک کا صفایا کردیا مگرعبدالقادر
کی شہادت کے ساتھ فلسطینی مجاہدین کی کمرٹوٹ گئی اور اسی دن یہودیوں نے
دیریاسین نامی قصبے پر حملہ کرکے پورے قصبے کا صفایا کردیا۔اس کے بعد15مئی
1948ء کو ہمسایہ عربوں ملکوں جن میں شام،عراق، لبنان، اردن اور مصر شامل
تھے ایک متحدہ آرمی بنائی اور اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ عربوں میں سب سے
بڑی آرمی مصر کی تھی جس کا جنگ لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور اس کا قائد
پلے بوائے(Play Boy) شاہ فاروق تھا جس نے ساری زندگی عیاشی کے علاوہ کچھ
نہیں کیا تھا۔پانچ عرب ملکوں کے چار کروڑ عرب ایسے لگتا تھا کہ پانچ لاکھ
یہودیوں کا مکمل صفایا کردیں گے۔ مصر کی فوج نے جنوب سے حملہ کیا اور ان کا
ٹارگٹ تل اویو(Tel Aviv)تھا مگر یہ فوج صرف غزہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب
ہوئی۔ اردن نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر حملہ کرکے بہت سا علاقہ فتح
کر لیاجس میں پرانا یروشلم شہر بھی شامل تھا۔شام نے نیزرتھ(Nazreth)پر حملہ
کیااور لبنان نے شمال سے بھرپور حملہ کیاجنگ کے شروع میں عربوں کو کچھ
فتوحات ہوئیں یہاں تک کہ مصری فوج تل اویو(Tel Aviv)سے صرف اور صرف بیس
کلومیٹر دور رہ گئی۔ان حالات میں یہودی جی جان سے لڑے اور تین ہفتے کی جنگ
میں عربوں کو ایک دفعہ مزید بڑھنے سے روک دیا۔ان حالات میں یہودی پوری دنیا
میں پاگلوں کی طرح ہتھیار خریدنے کو بھاگے مگر چیکو سلواکیہ جو کے روس ہی
تھا کے سوا کسی نے بھی انہیں ہتھیار نہیں دیے حتیٰ کے امریکیوں نے بھی نہیں
اور جونہی یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھ آئے تو جنگ کی صورت ہی بدل گئی اب
یہودیوں نے عربوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا، اس حالت میں عرب فوج کے
افسرکے حواس باختہ ہوگئے۔اسی دوران مصری فوج اور اردنی فوج کو اسرائیلیوں
نے گھیر لیا اور پیچھے مصر میں اخوان المسلمین نے وزیرِاعظم محمودالنقراشی
پاشا(Mahmoud an-Nakrashi Pasha) کو 28دسمبر1948ء کوقتل کردیا جس سے مصر کی
رہتی سہتی ہمت بھی ٹوٹ گئی۔اس کے جانشین عبدالہادی پاشانے کہا اس جنگ میں
ہمارا کوئی مستقبل نہیں اس لیے ہمیں جنگ روک دینی چاہیے۔10مارچ 1949ء کو
عربوں اور اسرئیل میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا جو بعد میں 20جولائی میں
مکمل ہوا۔ اردن نے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا اور مصر غزہ پر اپنی حق جما
بیٹھا جس سے فلسطینوں کے پاس کچھ بھی نہ بچا اور ایک آزاد فلسطین خواب بن
کر رہ گیا۔
مصری فوج اپنی ہار سے بالکل ہل کر رہ گئی اس صدمے سے متاثر فوج کی ایک
تنظیم ینگ آفیسرز(Young Officers)نے انقلاب کے ذریعے محمد علی سلطنت کے
سلطان شاہ فاروق (جو کہ مصر اور سوڈان کا بادشاہ تھا)اس کی حکومت
کو23جولائی1952ء کو ختم کردیا اور اسے اٹلی میں وطن بدر کردیاجہاں وہ 45سال
کی عمر میں 18مارچ 1965میں گمنامی کی موت مر ا۔اس کے بعد مصر کی بھاگ ڈور
جنرل نجیب نے سنبھال لی،خود مصر کے پہلے صدر بنے اور کرنل جمال عبدالناصر
اس کے وزیرِاعظم مقرر ہوئے ۔کہا جاتا ہے کہ انقلاب کی روحِ رواں جمال
عبدالناصر ہی تھا مگراپنی کم عمری کی وجہ سے اس نے خود جنرل نجیب کو صدر
بننے دیاکیونکہ اس وقت جمال عبدالناصر کی عمر فقط34سال تھی۔اس کے بعد نجیب
کی کاہلی اور سستی دیکھتے ہوئے اور اپنی حکومت کے لیے رستہ صاف پاکرجمال
عبدالناصر نے14نومبر1954ء کو نجیب کو نظر بند کردیاپہلے تو اس نے صدارت نہ
سنبھالی مگر 23جون1956 کو خود مصر کا صدر بن گیااور 54ء سے 62ء تک وہ
وزیرِاعطم بھی رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ عبدالناصر کی بڑھتی ہوئی شہرت اور
نکتہ چینی سے تنگ آکر نجیب نے اسے کچھ عرصہ کے لیے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا
تھا جس کی وجہ سے ان میں اختلافات نے زور پکڑا۔ جمال عبدالناصر نے مصر کو
غربت سے نکالنے کے لیے نیل پر اصوان ڈیم(Aswan Dam )بنانے کا منصوبہ بنایا
جس سے انڈسٹری اور عوام کو بجلی مہیا ہونی تھی اور ہزاروں ایکڑ کا رقبہ
زیرِ کاشت آنے سے مصرایک امیر ملک بننے کے راستے پر تھا۔مگر چونکہ اسرائیلی
جانتے تھے کہ اگر مستقبل میں ہمیں کبھی کسی ملک سے خطرہ ہے تو وہ مصر سے ہے
اس لیے انہوں نے مصر کی مغربی دنیا سے امداد کو اپنے ذرائع استعمال کرتے
ہوئے رکوا دیا۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ فرانس نے اسرائیل کو پہلے جیٹ فائٹر
طیارے فراہم کیے تو ناصر نے بھی اپنے دشمن کو مضبوط ہوتے دیکھ امریکہ اور
برطانیہ سے ہتھیاروں کی باربار مانگ کی مگر دونوں نے ہتھیار نہ دیے چونکہ
یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اس لیے اگر امریکہ اور برطانیہ نہ کرتا ہے تو روس
یقینا ہاں کرے گا اور روس نے واقعی مصر کو ہتھیار دے دئیے جو کہ
27ستمبر1955ء کو اسکندریہ پہنچے جسے اسرائیل نے ناصر کا کمیونسٹ ہونا
ظاہرکرکے امریکیوں کو اس کے خلاف کر دیا، حالانکہ ناصر اپنے ملک میں
کمیونسٹوں کو گرفتار کر جیلیں بھرتا رہا تھا اور اس کی ہر تقریر میں اﷲ
رسول کا نام بکثرت ملتا تھا اور وہ خود نماز پڑھتا تھا اور ایک نیشنلسٹ
مسلمان تھاجو کہ سوشلسٹ ضرور تھا مگر کمیونزم کے خلاف تھا۔ فروری1955ء کو
جمال عبدالناصر برطانوی وزیرِاعظم انتھونی ایڈن(Anthony Eden)سے ملا اور
دونوں میں کوئی خوشگوار فضا قائم نہ ہوسکی۔ایڈن اور ناصر ایک دوسرے کے
بالکل مخالف نظریات رکھتے تھے، ایڈن کا خیال تھا کہ مصر ابھی تک برطانیہ کے
زیرِ تسلط ہے مگر ناصر کے مطابق مصر بالکل آزاد تھا اور اگر نہیں تھا تو
اسے مکمل آزادکروانا ناصر کی ذمہ داری تھی۔اسی دوران برطانیہ ، فرانس اور
امریکہ نے ڈیم کے لیے چالیس کروڑ ڈالر(جو کہ اس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی)
کی امداد جس کو دینے پر وہ رضا مند تھے یہودی لابی کے زور لگانے پر انہوں
نے امداد روک دی۔اس کے بعد برطانیہ نے ناصر کے خلاف آپریشن امیگا(Operation
Omega)شروع کردیا جس کے ذریعے ناصر کو میڈیا استعمال کرتے ہوئے خوب بدنام
کیا گیا اور مصر پر بہت سی پابندیاں لگا دیں گئیں۔اسی دوران لکی بریک(Lucky
Break) جو کہMI6(برطانوی انٹیلی جنس)کی ہی ایک شاخ تھی نے برطانوی
وزیرِاعظم ایڈن کو ایک رپورٹ دی جس کے مطابق اگر ناصر کو قتل کر دیا جائے
یا ہٹا دیا جائے تو مصری لوگ اس کو خوش آمدید کہیں گے جو کہ بالکل غلط
رپورٹ ثابت ہوئی۔ایڈن نے اپنے وزیرِ خارجہ انتھونی نٹنگ(Anthony Nutting)
کو فون کیا جس میں ان کے درمیان بحث شروع ہوگئی تو ایڈن نے نٹنگ سے کہا میں
ناصر کو صرف ہٹانا نہیں چاہتا بلکہ میں اسے مکمل برباد کرنا چاہتا ہوں اور
یہ نٹنگ نے اپنے1976کے ایک انٹرویو میں خودبتایا۔اس کے بعد ناصر پر تقریباً
ہر مہینے کوئی نہ کوئی قاتلانہ حملہ ہوتا جس کے پیچھے ثابت ہوچکا ہے کہ
کبھی تو اسرائیلی ہوتے، کبھی امریکی، کبھی فرانسیسی اور کبھی برطانوی ایجنٹ
ہوتے۔مگر ناصر ہر بار بچ جاتا اب انہوں نے 19جولائی 1956ء کو امریکہ میں
مصری سفیر کو امریکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بلا کر بتا دیا گیا کہ ان کی
ااصوان ڈیم کی امداد روک دی گئی ہے جس سے صاف ظاہر تھا کہ اگر ہم ناصر کو
مار نہیں سکتے تو ہم اس کے خواب ضرور چکنا چور کرسکتیں ہیں۔ ناصر کے 56ء کے
انٹرویومیں اس نے کہا کہ مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ انہوں نے ہماری
امدادروک دی ہے بلکہ اس رویے پر میں حیران ہوں جس سے انہوں نے ہماری امداد
روکی ہے یہ بالکل بے عزتی کے برار ہے۔ اسی دوران ناصر کا دھیان سویز
نہر(Suez Canal)کی طرف گیا جو کہ ایشیا کو یورپ سے ملانے والا دروازہ تھاجس
سے تجارتی بیڑوں کو افریقہ کا چکر کاٹنے سے اور ہزارں میلوں کے سفر سے
بچایا جاتا تھا اور 1869سے کروڑوں ڈالر کما رہی تھی تو جب برطانیہ نے جنگ
کے بعد اس پر تسلط حاصل کیا تو وہ ایک پیسہ بھی مصر کو نہ دیتے تھے اور
ہزاروں کی تعداد میں ناصر کے دور میں بھی برطانوی فوجی نہر کی حفاظت پر
معمور تھے اور اس نہر کو یورپی عملے اور کپتانوں کی مدد سے چلایا جاتا
تھا۔ناصر نے برطانوی اور فرانسیسی فوج کو 1956کی بہار میں ملک سے نکال باہر
کیا البتہ نہر کو ابھی بھی یورپی سوئز کمپنی ہی چلا تی تھی۔ناصر کا خیال
تھا کہ ورلڈ بینک ان کی امداد اگر روک رہا ہے تو وہ یہ پیسے سوئز کنال سے
پورے کر سکتا تھاکیونکہ نہر کی سالانہ کمائی کروڑوں ڈالر تھی۔اب جب کہ ناصر
کے خلاف صیہونی پروپگنڈا اپنے عروج پر تھا اس پر ہر مہینے قاتلانہ حملے ہو
رہے تھے اور ان پر طرح یہ کہ اس کے اسوان ڈیم کی امداد بھی روک دی گئی
تھی۔اس کے پاس اب صرف دو راستے تھے پہلا تو یہ کہ وہ مغرب کے آگے گھٹنے ٹیک
دیے اور دوسرا یہ کہ وہ مغرب کو بتلا دے کہ وہ اور مصر اس قابل ہیں کہ
مغربی استعمار کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
ایک دن ناصر نے اپنے وزیر سَمی شرف(Sami Sharaf)سے کہاکہ کیوں نہ ہم سویز
کوقومی تحویل(Nationalize) میں لے لیں؟ پہلے تو سب لوگ حیران ہو گئے مگر
پھر سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ناصر نے اپنے تین قابلِ اعتماد
ساتھیوں کا سویز کو قومی تحویل(Nationalize) میں لینے کی ذمہ داری دی جن
میں محمود یونس ان کا قائد اور اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ تھا، یونس نے
30ایسے بندے چنے جن پر وہ اعتماد کر سکتا تھا۔تین دن بعد ناصر نے
اسکندریہ(Alexandria) ایک مجمع کے سامنے تقریر کرنی تھی جس کو مصر ریڈیو پر
نشر کیا جانا تھا اور اسی تقریر میں سویز کوقومی تحویل میں لینے کے لیے ایک
کوڈ چھپا ہوا تھاجو کہ سویز نہر کو ڈیزائن کرنے والے انجینئر فرڈینینڈ دی
لسپ(Ferdinand De Lesseps)کا نام تھا، ناصر نے تقریر میں 14دفعہ یہ کوڈ
دہرایا تو کوڈ سنتے ہی محمود یونس کی ٹیم نے سویز کمپنی کے دفاتر پر قبضہ
کر کے عملے کو بتایا کہ سویز قومی تحویل میں لی جا چکی ہے اور اس کے تمام
اثاثے قومی تحویل میں لیے جا چکے ہیں۔ جب ناصر نے خبر پا کر مجمع میں تقریر
کے دوران اچانک اعلان کیا کہ سویز قومی تحویل میں لی جا چکی ہے تو مجمع
دیوانہ وار خوشیاں منانے لگا یہ وہ موقع تھا جب ناصر نے پوری دنیا کو بتا
دیا کہ مصراور ناصر میں اتنی طاقت ہے کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
سکتا ہے، ایڈن نے اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے سب سے پہلے تو جتنا بھی
یورپی عملا تھا جس میں 300یورپی کپتان تھے اسے سازش کرکے ایک ایک کرکے سویز
سے نکال کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مصریوں کے پاس اتنی ٹریننگ نہیں کہ وہ
سویز میں تیل کے کارگو گزار سکے کیونکہ نہر کہیں کہیں سے اتنی تنگ تھی کہ
اس کی چوڑائی بہت سی جگہوں سے سو میٹر سے بھی کم تھی۔ 14ستمبر کو سویز
کمپنی کے یورپی پائلٹس نے کام کرنے سے انکار کر دیا اب ناصر کے پاس کوئی
راستہ نہیں تھا یہاں تک کہ بہت سارے مغربی اخباروں نے لکھنا شروع کر دیا کہ
مصریوں کو سویز سے کارگو گزارنے کی بجائے وہاں آلو اگانے چاہیے۔مگر خوش
قسمتی سے دو تین مصری کپتان ابتدائی ٹریننگ کے لیے سویز کمپنی کے پاس
انٹرنشپ پر تھے ناصر نے ان میں سے علی نصر کو بلایا اور اسے کارگو کشتیوں
کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے لے جانے کی ذمہ داری دی جو اس نے اپنی 14دن کی
تھوڑی سی ٹریننگ کو استعمال کرتے ہوئے دن رات کام کرتے ہوئے پوری محنت اور
ایمانداری سے پوری کی نیشنلائز ہونے کے 14گھنٹے بعد علی نصر نے پہلی شپ
سویز سے گزار دی اور سویز چلتی رہی مگر جب یہ چال بھی کامیاب نہ ہوئی تو
ایڈن نے اپنے ذرائع بہت سارے کارگو سویز پر اکٹھے کر دیے جس سے وہاں ٹریفک
جام ہوگیا مگر مصریوں نے ہار نہ مانی اور دن رات محنت کرکے کنال کو چلائے
رکھا۔
اس کے بعدپیرس میں فرانس نے برطانیہ اور اسرائیل سے مل کر ایک منصوبہ
بنایاجس کا نام’’ آپریشن پروٹوکول(Operation Protocole)‘‘تھا۔جو کہ لکھا
ہوا معاہد تھا فرانس، برطانیہ اوراسرائیل کے درمیان اور اس پر تینوں ملکوں
کے وزیرِ خارجہ کے دستخط تھے۔جو کہ چالیس سال بعد برطانیہ نے ظاہر کر
دیااور اب دنیا جان گئی ہے کہ کس طرح مغربی استعمار نے ایک غریب ملک پر
حملہ کیا اور خود ذلیل ہو کر ہتھیار ڈالے۔اس منصوبے کے مطابق سب سے پہلے
اسرائیل مصر پر صحرائے سینا(Sinai Peninsula) سے حملہ کرے گا اس کے بعد
فرانس اور برطانیہ دنیا پر یہ ظاہر کرے گا کہ اب مصر سوئز کی حفاظت نہیں کر
سکتا اس لیے عالمی طاقتوں کو مداخلت کرنی چاہیے تو اس بہانے فرانسیسی اور
برطانوی فضائیہ مصر پر بھرپور حملہ کرگی جس کے بعد وہ مصر میں اپنی فوج
اتاریں گے اور اس طرح مصر فتح ہوجائے گااور پھر سے سوئز پر عالمی طاقتوں کی
اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔29اکتوبر1956ء رات کو اسرائیل نے صحرائے سینا
میں اپنی پیراشوٹ برگیڈ اتار دی اس کے بعد مصر نے اپنے دفاع کے لیے صحرائے
سینا میں اپنی فوج بھیجی شروع میں تو انہیں شکست ہوئی مگر بعد میں انہوں نے
دفاع کیا اسی دوران فرانس اور برطانیہ نے مصر کو دھمکی دی کہ وہ جنگ ختم
کرے اور سویز ان کے حوالے کر دے جس کا ناصر نے کوئی جواب نہ دیا تو دو دن
بعد فرانس اور برطانوی فضائیہ نے مصر پر زبردست ترین حملہ کر دیا اور قاہرہ
پر ہزاروں بمب گرائے اور برطانیہ نے پورٹ سعید (Port Saeed)پر اپنی فوج
اتاری جس کا مصریوں نے بڑی بہادی سے مقابلہ کیا اور پورٹ سعید بہت سے
برطانوی فوجیوں کا قبرستان ثابت ہوا، اسی دوران ہنگری کے شہر
بوداپسٹ(Budapest)میں کمیونزم پر شدید حملہ کیا گیا جس کا روس نے بھرپور
جواب دیااور دنیا کو دھمکی دی کہ برطانیہ اور فرانس اگر مصر اور بوداپسٹ
میں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو دنیا کو تیار رہنا چاہیے قریب ہے کہ لندن
اور پیرس پر نو کلئیر بمب گریں گے۔ امریکہ نے بھی فرانس اور برطانیہ کی
مخالفت کر دی۔ عالمی دباؤ کی وجہ سے 6نومبر کو برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل
کو ہتھیا ڈالنے پڑے اسرائیل واپس اپنی حدود میں چلا گیا اور ایڈن کو
استعفیٰ دینا پڑا اور وہ کیلا رہ گیااور ایک انجان موت مرااور اس جنگ کے
بعد ناصر عرب دنیا کا لیڈر اور ہیرو بن گیا کیونکہ ایک وہی تھا جو مغربیوں
کو منہ توڑ جواب دے سکتا تھا۔ اور اقوام متحدہ نے اپنی امن فوجوں کے ذریعے
برطانوی فوجیوں کو مصر سے نکالا اور اسرائیل مصر بارڈر پر امن مشن کے
فوجیوں نے اپنی پوسٹیں بنائیں تاکہ مزید جنگ کو روکا جا سکے یہ امن مشن
ہندوستانی اور کینیڈین فوجیوں پر مشتمل تھا ۔
اس کے بعد 58ء میں ناصر نے شام اور اردن کے ساتھ مل کر عرب ملکوں کو متحد
کرنے کی جی جان سے کوشش کی مگر سعودی خاندان اس کے آڑے آگیا مگر پھر بھی
شام اور عراق نے عرب یونین بنائی جس میں انہوں نے دفاعی معاہدے کیے اور
یونین اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرناک معلوم ہوتی تھی کیونکہ اگر مصر جنوب
سے اور شام شمال سے حملہ کرتا ہے تو اسرائیل کو دو محاذ پر لڑنا پڑے گا اور
اگر تھوڑی سی بھی بد قسمتی ہوئی تو اسرائیل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔1967ء
تک حالات ٹھیک رہے جس کے دوران تھوڑی بہت چپقلش چلتی رہی مگر کوئی بڑا محاذ
نہ کھلا۔ 67ء کو روسی انٹیلی جنس نے سیٹلائٹ سے لی گئی تصوریں مصر کو بھیجی
جس کے مطابق اسرائیلی اپنی فوج شام کے بارڈر گولان کی پہاڑیوں کی طرف اکٹھا
کر رہا ہے۔روسیوں نے اسرائیلیوں کو بھی منع کیا مگر اسرئیلی صدرلیوی
اشکول(Levi Ashkol)نے روسی دعویٰ مسترد کر دیا مگر مصر نے اسے سنجیدگی سے
لیا اورناصر اپنے ساتھی شام کو بچانے کے لیے اپنی فوج کو صحرائے سینا میں
تعینات کر دیا کیونکہ اسرائیل پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے اگر
اسرائیل شام پر حملہ کرتا ہے تو مصر سینا سے اس پر آسانی سے حملہ کر سکے گا
جب فوجیں صحرائے سینا میں پہنچ گئی تو ناصر کو اندازہ ہوا کہ اسرائیل کا
جنگ کا کوئی منصوبہ نہیں۔ناصر نے سوچا کہ کیوں نہ اسرائیل سے 56ء کا بدلہ
لیا جائے اور اس نے مصر اور اردن سے گزرنے والا اسرئیل کو جانے والا واحد
سمندری رستہ جو اسے مشرقی دنیا سے ملاتا تھاجسے ٹیران کا رستہ(Straits of
Tiran) کہا جاتا تھا جو خلیج عقبہ(Gulf of Aqaba)سے اسرائیل کو لگتا
تھا۔مصر نے اس کو بند کر دیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ یہ عربوں کا رستہ
ہے اور ان کے آگے سے گزرتا ہے اس لیے اس پر اسرائیل کا کوئی حق
نہیں۔اسرائیل نے اسے اعلانِ جنگ سمجھا اور امریکہ سے مشورہ کیا مگرامریکہ
نے انہیں پہلے حملہ کرنے سے منع کیا اور دھمکی دی کہ اگر اسرائیل پہلے حملہ
کرے گا تو امریکہ اس کی حمایت نہیں کرے گا۔ دوسری طرف روس نے ناصر کو بھی
یہی جواب دیا۔22مئی 1967ء کو ناصر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہماری
فوج جنگ کے لیے بالکل تیار ہے خلیج عقبہ مصر کی ہے اور ہم کسی صورت اسے
یہودیوں کو نہیں دے سکتے اگر اسرائیل جنگ کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے ہیلو
اورخوش آمدید کہتے ہیں۔ جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ پہلے حملہ کون
کرتا ہے CIAکی رپورٹ کے مطابق اگر عرب جن میں مصر، اردن اور شام اسرائیل پر
پہلے حملہ کرتے ہیں تو 7دن میں اسرائیل کا وجود ختم ہوجائے گا اور اگر
اسرائیل پہلے حملہ کرتا ہے تو وہ عربوں کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے۔اسرائیل
نے جنگ کی تیاری شروع کردی، اردن کے شاہ حسین نے مصر سے معاہدہ کیا اور
اپنی فوج ناصر کی کمانڈ میں دے دی۔اب اسرائیل کو تین محاذوں پر جنگ کی صورت
میں لڑنا تھا جنوب سے مصر سے، مشرق سے اردن سے اور شمال سے شام کے ساتھ۔اس
لیے تمام اسرائیل خوف زدہ تھا اور انہوں نے اپنے وجود کے لیے ہاتھ پاؤں
مارنے شروع کر دیے۔18سے 55تک کے تمام اسرائیلی ہتھیار اٹھا کر بارڈروں پر
آگئے تمام عورتیں نے انتظامی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور تمام کا تمام
اسرائیل جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔لیوی اشکول نے پورے ملک کو اعتماد میں لیتے
ہوئے موشی دیاں(Moshi Dhian)جو کہ 56ء جنگ کا ہیرو تھا کو اسرائیل کا دفاعی
وزیر بنایا۔اسرائیلی جنرلوں نے 5جون کی صبح حملے کا وقت مقر ر کیا۔ رات کو
آرمی چیف جنرل ریبون اور فضائی چیف جنرل ہودنے رات گھر میں گزاری اور صبح
12طیارے اسرائیل کی حفاظت کے لیے چھوڑتے ہوئے 180اسرائیل طیارے مصر پر حملہ
کرنے کے لیے اڑے انہوں نے سمندر کے اوپر سے اڑان بھری جلد ہی اس کی اطلاع
اردن کی فضائیہ نے مصر کو کوڈ ز میں بھیجی مگر خدا کی کرنی مصر نے ایک دن
پہلے ہی اپنے کوڈ بدلے تھے جس کی وجہ سے پیغام کو بروقت پڑھا نہ جا سکا اور
45منٹ کے اندر اسرائیلی طیاروں نے مغرب سے تمام مصری ہوائی اڈوں پر حملہ
کیا اور آن کی آن مصر کی فضائیہ کا صفایا کردیاشاید ہی کوئی مصری طیارہ
ہوگا جو اڑ سکا کیونکہ اسرائیلیوں نے سب سے پہلے رن ویز(Runways)اڑا دی تھی
اس طرح مصر کی فضائیہ مکمل طور پر ختم ہوگئی۔آسمانوں پر اسرائیلی فضائیہ کا
راج تھاصحرائے سینا میں مصریوں کے پاس اسرائیل سے تین گنا زیادہ ٹینک تھے
مگر وہ سب آسمانی حفاظت سے محروم تھے مصر آرمی کے چیف مارشل امیرنے شدید
دفاعی غلطی کرتے ہوئے بغیر کسی منصوبے کے فوج کو سویز کی دوسری جانب ہٹنے
کو حکم دے دیا۔واپسی کا کوئی پلان نہ ہونے کی وجہ سے مصری فوجی لوٹتے ہوئے
ایک دوسرے کوبچا نہ سکے تمام ٹینک پیچھے چھوڑنے پڑے اسرائیلیوں نے پیچھا
کیا اور بہت سی فوج اڑا دی اور یہ ایک عظیم ہزیمت تھی۔ اس جنگ میں
338اسرائیلی مرے جبکہ 15000سے بھی زیادہ مصری فوجی شہید ہوئے صحرائے سینا
میں مصر کے ٹینک مکمل طور پر تباہ ہوئے اور بہت سی گاڑیاں بھی مصریوں کو
صحرا میں چھوڑنی پڑی اور صحرائے سینا مصری فوج کا قبرستان ثابت ہوا۔اس کے
بعد اسرائیل نے اردن پر حملہ کیا اور ایک ہی دن میں یروشلم کے ساتھ ساتھ
تمام مغربی کنارہ فتح کر لیا ۔شاہ حسین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ
میری زندگی کا سب سے سیاہ دن ہے۔ اس کے بعدانہوں نے شام پر حملہ کیا سب سے
پہلے انہوں نے گولان پر اتنے بمب پھینکے کہ سب کچھ دھواں دھواں کردیا بقول
اسرائیلی چیف انہوں نے مصرپر حملے سے کہیں زیادہ بمب گولان پر پھینکے،سب
کچھ روسی غلط رپورٹ سے شروع ہوا تھاکہ اسرائیل شام پر حملہ کر رہا ہے لیکن
اب واقعی اسرائیل روس پر حملہ کر رہا تھا اس لیے روس مجبور ہوگیا کہ وہ
مداخلت کرے ۔ روس نے امریکہ کو ایک پیغام بھجوایا کہ اگر اسرائیل نے جنگ نہ
روکی تو روس شام کے ساتھ ہوکر اسرائیل کا نام و نشان مٹا دے گااور بقول
امریکی دفاعی سیکرٹری رابرٹ روس اس وقت دکھاوا نہیں کر رہا تھا اگر جنگ نہ
رکتی تو واقعی روس نے حملہ کردینا تھا۔ادھر روس نے بھی اپنے طیارے بھی تیار
کر دیے تب اقوامِ متحدہ سے اسرائیلی وزیرِ خارجہ ابی ابان(Abbe Eban)نے
وزیراعظم لیوی کی بیوی کو فون کیا اور کہاں ہم پر بہت زیادہ پریشر ہے لیوی
کو کہوکہ ابھی کہ ابھی جنگ بند کرے۔لیوی کی بیوی مریم کہتی ہے میں نے لیوی
کو فون کر کے بتایا کہ ابان نے کیا کہا ہے لیوی نے میرے فون کو یہ کہہ کر
کاٹ دیا کہ مجھے تمہاری آواز نہیں آرہی۔مریم کہتی ہے کہ مجھے پتا چل گیا کہ
یہ جان بوجھ کے کر رہا ہے حقیقتاً میں وہ گولان فتح کرنا چاہتا ہے اور اس
نے گولان فتح کر لیا۔اور 12جون کو جنگ بندی کا اعلان کرتے وقت تک اسرائیل
نے مصر سے صحرائے سینا، اردن سے یروشلم اور مغربی کنارہ اور شام سے گولان
کی پہاڑیاں چھین لیں۔ اب اسرائیل کے پاس بہترین موقعہ تھا کہ وہ عربوں سے
اپنا وجود تسلیم کروائے اور اپنی شرطیں منوائے۔اسرائیل یروشلم اور مغربی
کنارے کے ساتھ غزہ رکھنا چاہتے تھے مگر امن معاہدے بدلے وہ صحرائے سینا اور
گولان کی پہاڑیاں واپس دینے کو تیار تھے۔اگلے مہینے روس کے وزیرِاعظم
کوسیگن امریکی صدر جونسن سے ملنے امریکہ آیا جس میں انہوں نے مشرقِ وسطیٰ
میں امن معاہدہ کروانے کی کوشش کی۔جنگ میں ہار کی وجہ سے 9جون کو ایک پریس
کانفرنس میں استعفیٰ کا اعلان کر دیا مگر مصری عوام نے اسے قبول کرنے سے
انکار کر دیا۔مصری فوج کے چیف مارشل امیر نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیاجس
کی وجہ سے ناصر نے اسے قید کردیا اور وہ زیرِ حراست ہی مر گیا بعد میں کہا
گیا کہ مارشل نے خود کشی کی تھی۔تین مہینے بعد عرب لیگ کا سوڈان میں ستمبر
میں اجلاس ہوا جس میں ابھی تک ناصر ایک ہیرو سا سلوک کیا گیااس اجلاس میں
شاہ فیصل نے اسرائیل کی مکمل مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ کسی بھی جنگ
میں مصر،شام اور اردن کی مکمل حمایت کا اعلان کردیا، اس اجلاس میں عربوں نے
ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور نہ ہی
کوئی بھی اکیلا اس سے امن معاہدہ کرے گا۔اور اگر آئندہ جنگ ہوتی ہے تو سب
مل کر اسرائیل کا مقابلہ کریں گے۔
1967ء میں تھوڑے سے فلسطینیوں نے ایک انجینئر ابو عمار کی قیادت میں دریائے
اردن پر کرامے کیمپ میں ایک جہادی جمائت ’’الفتح‘‘ بنائی۔ دنیا اس انجینئر
کو یاسر عرفات کے نام سے جانتی ہے۔اس نے فلسطینی مجاہدوں کو تربیت دینا اور
منظم کرنا شروع کیا۔اس گروپ کا مقصد آزاد فلسطینی ریا ست کا قیام تھا، یاسر
عرفات نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا میں جانتا ہوں کہ یہ آسان نہیں مگر میں
فلسطین کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں چاہے وہ قیمت میری جان ہی کیوں نہ
ہو۔الفتح نے اسرئیلوں پر حملے شروع کر دیے اور یہ گوریلا جنگ کا ایک نیا
طریقہ تھا جس سے اسرائیل کو کافی پریشان تھے۔ الفتح کو اردن کی فوج کی
حمایت حاصل تھی مگر شاہ حسین ان کو لے کر زیادہ اچھے خیالات نہیں رکھتا تھا
مگر وہ انہیں روک نہیں سکتا تھا۔ ’’کرامے‘‘ ایک بڑا ملٹری کیمپ بن گیا
تھا۔الفتح نے اسرائیل کی ایک اسکول بس پر حملہ تھا جس سے کافی لوگ مارے گئے
تھے۔اس لیے اسرائیل نے مجاہدین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور وہ ٹینک لے
کر دریائے اردن پار کرکے ’’کرامے کیمپ‘‘ پر حملہ آور ہوگئے جن کا مقابلہ
300فلسطینی مجاہد کر رہے تھے۔دوپہر تک آدھے مجاہد شہید ہو چکے تھے مگر
جونہی اسرائیلی ٹینکوں کی خبر اردن کے آرمی کمانڈر جنرل حادیثاکو پہنچی اس
نے فوراً حکم دیا کہ کوئی بھی اسرائیلی ٹینک بچ کے نہیں جانا
چاہیے۔29اسرائیل کرامے حملے میں ہلاک ہوئے اور فلسطینیوں نے فتح کہ طور پر
منایا۔کرامے فتح سے بہت سے مسلمان متاثر ہو کر بہت سے ملکوں سے آکر الفتح
میں ملتے گئے اور الفتح بڑھتی گئی اور اسی کے ساتھ اردن کی مشکلات بھی
بڑھتی گئیں۔اردن حکومت کسی طور بھی الفتح کو اردن کے اندرونی معاملات میں
دخل اندازی کی اجازت نہیں دے سکتی تھی کیونکہ شاہ حسین خود ایک کمانڈر تھا
وہ خود تمام قسم کے جہازاڑا لیتا تھا ہر قسم کا ہتھیار چلا لیتا تھا اور ہر
قسم کیولری مشین چلا لیتا تھا اس لیے وہ کسی طور بھی اپنی حکومت جاتے نہیں
دیکھ سکتا تھا الفتح نے اسے اپنی راہ کا روڑا سمجھ کر ہٹانے کی کوشش
کی،الفتح سے آگے PLO(Palestinian Liberation Organization)کے علاوہ بہت سے
گروپ بن گئے جن میں سے کوئی بھی دوسرے کی بات سننے کو تیار نہ تھااس طرح
مجاہدین میں کوئی بھی مرکزی قائد اور مرکزی انتظامیہ نہ رہی۔اور کمانڈرPFLP
گروپ کے جارج حبش(George Habash) نے شاہ حسین کے قتل کا منصوبہ بنایا اور
اردن کے دارالحکومت عمان میں اس پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ بچ گیا اس
کے علاوہ حبش نے ایک آپریشن میں اردن سے چار یورپی طیارے سینکڑوں مسافروں
سمیت اپنے قبضے میں لے لیے اور ان میں سے تین کو اڑا کر صحرا میں جنگِ عظیم
دوم کے چھوڑے ہوئے ایک ائیر بیس پر اتار لیا،اردنی فوج نے ان سے گفت وشنید
کرکے 435مسافروں کو چھڑوا لیا اورPFLPنے طیاروں کے بمبوں سے اڑا دیا اور اس
کی ویڈیو دنیا بھر میں دکھائی۔اب شاہ حسین کو احساس ہوا کہ اپنی اتھارٹی کو
بچانے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، چار دن بعد 16ستمبر 1970کوشاہ نے PLOاور
تمام مجاہد گروہوں کو اردن سے باہر پھینکنے کا فیصلہ کر لیا۔
صبح ہوتے ہی اردنی فوج ٹینکوں سمیت عمان میں PLOکے کیمپوں پر حملہ کرنا
شروع کردیا تو عرفات اور دوسرے قائدین نے شام سے مدد کی اپیل کی۔تین دن بعد
شامی آرمی نے ایک برگیڈ ٹینکوں کے ساتھ شام اردن بارڈر پار کرکے فلسطینی
مجاہدین کو بچانے کی کوشش کی جسے اردن نے اپنے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیااور
اردن ائیر فورس نے شامی ٹینکوں پر حملہ کردیا انہوں نے بیشک بہت سے شامی
ٹینک تباہ کیے مگر پھر بھی شامی ٹینک آگے بڑھتے رہے جس کی وجہ سے شاہ حسین
کو اردن اپنے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس لیے اس نے امریکہ سے
امداد کے لیے کہا امریکہ نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فوراًامداد کو پہنچے
۔اپنے آقا کا حکم سنتے ہی ائیر مارشل جنرل ہود جوکہ اسرائیلی فضائیہ کا چیف
تھا، اس نے اپنے فائٹر طیاروں کو شامی ٹینکوں کی طرف بھیجا اور ان طیاروں
نے شامی ٹینکوں کو دحمکی دی کہ اگر وہ واپس نہ گئے تو ان کو تباہ کردیا
جائے گا۔جب شامی حملہ ٹل گیا تو اردن نے دوبارہ PLOپر حملے شروع کیے یاسر
عرفات نے ریڈیوسے عرب اور مسلم دنیا کو انہیں بچانے کی درخواست کی۔ جس کی
وجہ سے ہنگامی حالات میں ناصر کی صدارت میں عرب لیگ کا اجلاس طلب کیا گیا
جس میں یہ طے ہوا کہ عرب بات چیت کے لیے ایک گروہ اردن بھیجے گے جن کا
قائدسوڈانی صدر نمیری(Numeiry)کو بنایا گیا۔مندوبین نے شاہ ِاردن سے سخت
بات چیت کی حتیٰ کہ صبح ہوگئی مگر شاہ حسین نہ مانا کیونکہ اس کے مطابق اگر
PLOاردن میں باقی رہے گی تو اردن میں کبھی بھی امن نہیں ہو سکتا جب حسین نہ
مانا تو مندوبین نے یاسر عرفات کو ڈھونڈا اور اسے بھیس بدلہ کر اپنے ساتھ
طیارے پر بٹھا کر قاہرہ لے گئے بیشک ائرپورٹ پر حسین کے آدمی تھے مگر چونکہ
مندوبین کو زیادہ پوچھ گچھ نہیں ہوتی اس لیے عرفات بچ نکلا۔اس لیے جب عرفات
بچ نکلا تو حسین بھی قاہرہ جا پہنچا پہلے تو اس نے تمام عربوں کو خوب برا
بھلا کہا پھر اس نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نہیں مگر جو فلسطینیوں نے
اس کے ملک میں بدامنی پھیلائی ہے اس کے خلاف ہے۔ اس کے بعد اس نے ناصر کے
کہنے پر عرفات سے ایک سمجھوتہ کرلیا جس کے مطابق PLOکے تمام جنگجو اسی وقت
عمان سے نکل جائیں گے اور وہ نکل گئے اس کے ایک سال کے اندر اندر حسین نے
اردن سے PLOکو صفایا کردیا۔اس کے کچھ ہی دیر بعدناصر28ستمبر 1970ء کو خالقِ
حقیقی سے جا ملا ایک ہیرو اپنے بکھرے ہوئے خواب لے کر چھ فٹ مٹی کے نیچے
چلا گیا۔انور السادات اس کا جانشین بنا ۔
سادات ناصر کا پرانا دوست اور نائب تھا اس نے ناصر کا خواب چکنا چور ہوتے
دیکھے تھے اسی وجہ سے جونہی سادات صدر بنا تو اس نے اسرائیل سے صحرائے سینا
اور باقی وہ تمام علاقے واپس لینے کی ٹھانی جو اسرائیل نے 67ء میں انہوں نے
عربوں سے چھینے تھے۔سادات نے سب سے پہلے اردن اور شام کو اپنا اتحادی بنایا
مگر اردن نے اس جنگ سے کافی کچھ سیکھا تھا اس لیے وہ تو سادات کے ساتھ نہ
ہوا مگر نئے شامی صدر حافظ الاسد ایک سخت انسان اور اسرائیل کے سخت مخالف
تھے ۔گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلیوں کی موجودگی ان کے دل پر ہمیشہ تیر کی
طرح چبتی رہی۔اس لیے انہوں نے حامی بھر لی، باقی بھی سب عرب ملکوں نے حمایت
کا اعلان کیا۔سویز کی ایک طرف اسرائیلی تھے تو دوسری طرف مصری، 6اکتوبرجو
کہ یہودیوں کا مبارک دن ہے اور اس دن تمام یہودی معبد خانوں(Synagogue) میں
جمع ہوتے ہیں، جب یہ منصوبہ بنا کہ ہم اچانک اسرائیل پر اسی دن حملہ کریں
گے تو اردن کے بادشاہ شاہ حسین نے اسرائیل کا قرض چکانے کے لیے اپنے ہیلی
کاپٹر کو خود اڑا کر اسرائیل پہنچ گیا اوراس حملے کی پہلے ہی خبر دے دی۔اسی
دن 6اکتوبر 1973ء دوپہر دو بجے کے قریب مصری فوجیوں نے دنیا کو حیران کرتے
ہوئے گولوں اور گولیوں کی بارش میں سویز کو چھوٹی کشتیوں پر عبور کیا اسی
وقت شامی فوج نے 500ٹینکوں کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں سے اسرائیل پر حملہ
کردیا۔ مگر جب مصری سویش کی دوسری طرف پہنچے تو انہیں احساس ہوا کہ وہاں
ریت کی ساٹھ فٹ ااونچی دیوار کا دفاع ہے جسے کسی صورت بھی عبورنہیں کیا جا
سکتا نہ ہی ٹینک اس پر چڑھ سکتا ہے اور نہ ہی بمب سے اسے اڑایا جا
سکتاہے۔مصری فوج کے ایک جونئیر انجینئر نے ایک تجویز پیش کی کہ اگر پریشر
سے سویز سے پانی اٹھا کر ریت کی دیوار پر برسایا جائے تو دیوار بہہ جائے گی
اور ایسا ہی ہوا۔ادھر سے مصریوں نے اسرائیل کو دھکیلنا شروع کیا ادھر سے
شامیوں نے اسرائیلوں کو حواس باختہ کردیا اور وہ اپنی جگہیں چھوڑ نے لگے
مصری محاذ پر اسرائیلی فوج کو ایک اور حیران کن صورت کا سامنا کرنا پڑا جب
اسرائیلی ٹینکوں کو SAGAمیزائل نے نشانہ بنایا یہ بھی روس سے لیا گیا تھا
اور زمین سے زمین پر کسی بھی قسم کی مشین جس میں ٹینک بھی شامل تھے ان کو
نشانہ بنا سکتا تھا۔اسرائیلی فضائیہ نے چونکہ 67ء میں مصری فضائیہ کی
دھجیاں اڑا دی تھی اس لیے وہ بڑے غرور سے مصری فوج پر حملہ آور ہوئیں مگر
جونہی وہ نہر کے قریب پہنچے تو ایک کے بعد ایک لڑاکا طیارہ گرنا شروع ہوا
جسے زمین پر موجود SAMمیزائیلوں نے نشانہ بنایا۔یہ وہ میزائل تھے جو
70کلومیٹر کے دائرے میں کسی بھی لڑاکا طیارے کوزمین سے نشانہ بنا سکتے تھے
اور مصر نے روس سے خفیہ معاہدہ کرکے انہیں حاصل کیا تھا جس کی اسرائیل کو
کچھ بھی خبر نہ تھی مصری محاذ پر خود کو بے بس پا کر اسرائیل نے اپنی تمام
تر توجہ گولان پہاڑیوں پر شامی ٹینکوں کو نشانہ بنانے پر مرکوز کی جس کو
بچانے پاکستانی لڑاکا طیارے پہنچ گئے اور انہوں نے کچھ اسرائیلی طیاروں کو
نشانہ بنایا مگر اسرائیل کبھی بھی یہ ثابت نہیں کر سکا کہ پاکستانیوں نے اس
جنگ میں باقاعدہ حصہ لیا تھا۔کیونکہ پاکستانی طیاروں نے اپنے آپ کو شامی
طیاروں کی مانند بنا لیا تھا مگر جس مہارت سے اسرائیلی طیاروں کو نشانہ
بنایا گیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ کوئی غیر عرب ملک شامل ہے جس میں صرف
پاکستان یا ترکی ہی ایسے تھے جو یہ کام کرسکتے تھے آج ایک عرصے بعد پاکستان
نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے۔جب دونوں محاذوں پر کچھ بھی پیش نہ گئی تو
اسرائیل نے دوبارہ شامی محاذ پر زور دار حملہ کیا دوسری طرف مصری اپنی
پوزیشن سنبھال کر بیٹھ گئے اور آگے نہ بڑھے جس کی وجہ سے اسرائیل مصر کی
طرف سے خوف زدہ نہ رہا۔ اب جب شامی محاذ پر شامی ٹینک اڑنے شروع ہوئے تو
حافظ الاسد نے سادات سے درخواست کی کہ وہ اسے بچانے کے لیے مصری فوج کو آگے
بڑھائے تاکہ شامی فوج پر پریشر کم ہو۔ سادات نے اپنی فوج کو آگے بڑھایا مگر
مصر کے آرمی چیف جنرل شیزلی اس کے حق میں نہیں تھے جب فوج آگے بڑھی تو مصری
فوج میں ایک جگہ ہلکا سا خلا پیدا ہوا جس کی اطلاع امریکی سیٹلائٹ نے
فوراًاسرائیل کو دی اسرائیل نے شامی محاذ پر جنگ کو تقریباًروک دیا اور
اپنی پوزیشن محفوظ کرنے کے بعد مصری محاذ پر دوبارہ جی جان سے حملہ کیا مگر
آگے بہت بڑی مصری ٹینکوں کی فوج تھی مگر جونہی وہ SAMمیزائلوں سے دور ہوئے
اسرائیلی فضائیہ نے ایک ایک کر کے مصری ٹینکوں کو اڑانا شروع کیا اس لڑائی
میں 260مصری ٹینک خاکستر ہوگئے جب کہ صرف 20اسرائیلی ٹینک تباہ کیے جا
سکے۔15اکتوبرکو وزیرِاعظم گولڈا مئے کی درخواست پر امریکیوں نے اپنی ناجائز
اولاد کے لیے اسلحے کے انبار لگا دیے جس سے ساری صورت حال اسرائیل کے حق
میں بدل گئی۔جب مصری ٹینکوں میں خلا پیدا ہوا تو اسرائیلی فوج نے ایک
منصوبی بنایا تاکہ مصر میزائلوں کو تباہ کیا جا سکے اور اس حملے کی نگرانی
’’ ایریل شارون(Arial Sharon)‘‘نے کی جس کی قائدانہ صلاحیت اور جان توڑ
محنت سے اسرائیلی چائینیز فارم پر اس خلا میں سے پار ہو کر سویز کی دوسری
طرف پہنچ گئے جہاں انہوں نے ایک طرف کےSAM میزائل تباہ کردیے جب یہ صورت
حال ہوئی تو مصر نے روس کی مدد سے اقوامِ متحدہ سے زورڈلوا کر جنگ بند کروا
دی مگر اسرائیلی اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو قائم رکھتے ہوئے سویز سے آگے
بڑھتے رہے مگر جب مصر فوج نے خوب مقابلہ کیا تو وہ رک گئے اور 23اکتوبر کو
جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔جب سادات نے جان لیا کہ اس طرح لڑ کر وہ کبھی بھی
اسرائیلیوں سے اپنے علاق حاصل نہیں کر سکتے تو اس نے ان کے ساتھ امن معاہدہ
کرنے کا فیصلہ کیا جس کی حافظ الاسد نے کھل کر مخالفت کی حتیٰ کہ جب سادات
اسد کو منانے شام گیا تو اس کے مشیروں نے اسے یہاں تک کہہ دیا کہ سادات کو
گرفتار کر لو تا کہ وہ اسرائیل نہ جا سکے۔مگر اسد نے مہمان کو قیدکرنا عرب
روایت کے خلاف سمجھ کر سادات کو واپس جانے دیا۔جس کی وجہ سے 1977ء کو سادات
اسرائیل گیا اور 20نومبر کو وہاں امن کے لیے اسرائیل کی پارلیمنٹ سے یروشلم
سے خطاب کیا جس میں اس نے اسرائیل کے وجود کو مان لیا6اکتوبر 1981کو جنگ کی
سالگرہ منانے کے لیے مصر میں پریڈ ہوئی جہاں سے ایک فوجی نے نکل کر سادات
پر حملہ کر دیا اور یہ اس لیے تھا کیونکہ سادات نے اسرائیل کے وجود(Right
to Exist) کو عرب سرزمین پر قبول کر لیا تھا مگر1982تک اسرائیل نے صحرائے
سینا سے اپنی تمام فوج نکال لی اور گولان پر اقوامِ متحدہ آبیٹھی۔
شاہ حسین کی بڑھتی ہوئی کاروائیں سے تنگ آکر عرفات اور اس کے مجاہد اردن سے
نکل کر لبنان چلے گئے جہاں انہوں نے شاندار پریڈ کی، عرفات کے 1971ء کے ایک
انٹرویومیں اس نے کہا ہم نے پناہ گزینوں کو آزادی کے جانباز جنگجو بنا دیا
ہے اور اب اسرائیل کو ہم سے ڈرنا چاہیے۔PLOکے مجاہدوں نے 6ستمبر 1972کو
میونخ المپک(Munich Olympic) میں اسرائیلی کیمپ پر حملہ کرکے پوری دنیا کے
سامنے 11اسرائیلی ایتھلیٹس کا قتل کردیااسرائیل نے فوری طور پر اس کا جواب
دیا اور بیروت میں PLOہیڈ کوارٹر پر حملہ کرکے میونخ المپک کے لیے ذمہ دار
گوریلا جنگجوؤں کو قتل کردیا عرفات اس رات وہاں موجود تھا مگر وہ بچ
نکلا۔اپریل1975ء کو لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی عرفات نے مسلمانوں کا
ساتھ دیا اور عیسائیوں نے اسرائیل سے مدد حاصل کی۔اور عیسائی لبنان میں
25%سے زیادہ تھے۔لبنانی عیسائی لیڈر’’ کامیل شمعون(Camille Chamoun)‘‘نے
PLOکو دھمکی دی کہ اگر وہ مسلمانوں کی مدد سے باز نہ آئے تو وہ ان کو لبنان
سے نکال باہر کریں گے،عیسائیوں نے اسرائیل سے امداد میں ہر طرح کے ہتھیار
حاصل کیے جن میں کلاشنکوف، مارٹر، توپیں اور ٹینک شامل تھے۔پیر جمال
(عیسائی لیڈر)اور اس کے بیٹے بشیر جمال نے 1973ء جنگ کے اسرائیلی ہیرو’’
ایریل شارون(Arial Sharon)‘‘جب وہ 1981میں اسرائیل کا وزیرِ دفاع بنااس کے
ساتھ مل کر لبنان سے فلسطینیوں کے صفائے کا منصوبہ بنایااس نے بیروت میں اس
میٹنگ میں’’ پیر جمال(Peer Jamal)‘‘ کو بتایا کہ وہ لبنان پر حملہ کرنے
والا ہے۔جس میں عیسائیوں کا کام PLOکو بیروت سے باہر نکالنا ہوگا۔3جون
1982ء کو میڈیا کے مطابق ایک فلسطینی نے لندن میں ایک اسرائیلی منسٹر کو
قتل کر دیا۔اور عین ممکن ہے کہ اسرائیلیوں نے خود اپنے منسٹر کو قتل کر کے
لبنان پر حملہ کرنے کا ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہو۔اسرائیلی فوج نے لبنان بارڈر
پار کرکے بیروت پر حملہ کر دیا اور بیروت کو ڈھا کے رکھ دیا۔9ہفتے تک
اسرائیلیوں نے بیروت پر قیامت ڈھائی مگر PLOمجاہدین ابھی تک اپنی جگہ پر
قائم تھے اور عرفات نے جولائی میں اپنے جنگجوؤں سے کہا کہ یہ پہلا عرب
دارالحکومت ہے جس پر اسرائیلیوں نے حملہ کیا ہے اس لیے ہمیں اپنی جانیں دے
کر بھی اس کا دفعہ کرنا پڑے گا۔ مگر لبنان پر اسرائیل نے زمین، آسمان اور
سمندر سے اتنا قہر ڈھایا کہ عرفات یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر وہ ابھی
بھی لڑتا رہے گا تو اسرائیل بیروت کو صفہء ہستی ہی مٹا دے گا کیونکہ PLOکے
پاس صرف راکٹ لانچر اور بندوقیں تھی مگر اسرائیل کے پاس تمام لڑاکا طیارے،
مارٹر، ٹینک اور دنیا جہان کا جدید اسلحہ تھا۔اس لیے مجاہدین ان کو شہر میں
گھسنے سے تو روک سکتے تھے مگر شہر کو تباہ کرنے سے نہیں روک سکتے تھے اس
لیے عرفات نے خود بیروت کو چھوڑ دیا ، اور اپنے تمام مجاہدین کے ساتھ تیونس
چلا گیا جہاں اسے خوش آمدید کیا گیا۔ان 9ہفتوں کے دوران نہ تو غیر مہذب
دنیا اسرائیل کو اپنی سفاکی سے روک سکی اور نہ ہی مہذب دنیا ایسا کر
سکی۔اور اسرائیل نے ایک بار پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون دنیا سے
منوایا۔جس دن عرفات اور اس کے ساتھیوں نے لبنان کو چھوڑا اس کے بعد پیرجمال
کو اس کے آفس میں ایک دھماکے سے اڑا دیا گیا جس کی ذمہ داری PLOپر لگا دی
گئی۔عیسائی اس سے پاگل ہو گئے انہوں نے غصے میں انتقام لینے کی ٹھان
لی۔16اکتوبر1982ء اسرائیل نے شعلوں والی لائٹ(Glare Light)ساری رات بیروت
کو روشن کیے رکھااور اسی رات اسرائیلی فوج کی مدد سے عیسائی اپنی تمام قوت
کے ساتھ فلسطینی کیمپوں سابرا اور دوسرے کیمپوں پر حملہ آور ہوئے جہاں وہاں
انہیں ایک بھی مجاہد نہ ملا۔کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی تیونس کو نکل گئے تھے
مگر ان کیمپوں میں فلسطینی مہاجر عورتیں، بچے اور بوڑھے تھے انہوں نے ان پر
تمام انسانی اور اخلاقی حدوں کو پامال کر دیا جب صبح ہو تو ہزاروں فلسطینی
لاشے خاک وخون میں نہائے دنیا کی بے حسی پر ہنس رہے تھے۔اس کے بعد ایریل
شارون(Arial Sharon)جو اس وقت وزیرِ دفاع تھا 22ستمبر کو اسرائیلی پارلیمنٹ
سے خطاب کرنے گیا جہاں اسے سخت ذلالت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل ارکانِ
پارلیمنٹ نے اس گالیاں دیں اور اسے شیطان کا بیٹا اور انسانیت کا دشمن قرار
دیا۔ 50ہزار اسرائیلیوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔اور عرفات نے کہا
یہی ہماری فتح ہے ہم نے بیروت کو کھو دیا مگر جنگ جیت لی کیونکہ اب عقل مند
اسرائیلی بھی اپنی حکومت کی غیر انسانی کاروائیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
1985،سائپرس میں تین اسرائیلیوں کا تشدد کرکے ہلاک کیا گیاجس کا انہوں نے
الزام PLOپر لگایا، اسرائیل نے تیونس میں PLOہیڈ کوارٹر پر ایک میزائل مارا
جس سے کچھ جانی نقصان ہوا مگر عرفات بال بال بچ گیا۔اسرائیل کے نمائندے نے
کہا،’’It is appropriate to call it a gentleman's action of
slef-defence‘‘ ہمیشہ کی طرح انہوں نے دنیا کو اپنی اس حرکت کو بھی جائز
ضروری قرار دینے پر مجبور کر دیا۔10اپریل 1987ء کو اسرائیلی وزیرِ خارجہ
ایک مشن پر لندن پہنچا جہاں اردن کا شاہ حسین اپنا طیارہ خود اڑا کر پہنچ
گیا دونوں کی ملاقات ایک برطانوی وکیل کے ہاں ہوئی۔جہاں انہوں نے امن
معاہدے کے لیے مصر اور دوسرے عرب ملکوں کو اپنے ساتھ ملانے پر رضامندگی
ظاہر کی۔مگر اسرائیلPLOکے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ ان کے خیال
میں وہ ایک دہشت گرد جماعت تھی۔اس کے بعد پیرس اور لندن میں بھی ملاقاتیں
ہوئیں۔اسی دوران غزہ میں ایک اسرائیلی ٹرک نے 4فلسطینی مزدوروں کو کچل دیا
اور چاروں شہید ہوگئے جس کی وجہ سے وہاں ہنگامے شروع ہوگئے ایک اٹھارہ سالہ
فلسطینی نے اسرائیلی پولیس پتھر پھینکا جس کو انہوں نے گولی مار کر ہلاک کر
دیا۔ اس کے بعد کچھ نوجوانوں نے رات ورات کچھ پمفلٹ شائع کر کے صبح پورے
علاقے میں بانت دئیے جس کی وجہ سے اگلے دن خوب ہنگامے ہوئے اور ایک نئی
تحریک نے جنم لیا جس کو لوگ ’’انتفادہ ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔انتفادہ کی
قیادت فیصل الحسینی جو کہ قدیم فلسطینی مجاہد خاندان جمال الحسینی اور
عبدالقار الحسینی کے خاندان سے تھا، انتفادہ نے زور پکڑتے پکڑتے مغربی
کنارے کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اس کو دبانے کے لیے اسرائیلیوں نے اس
تحریک کے تمام کارکنان کو گرفتار کیا اور ان کے گھر اڑا دیے مگر تحریک دب
نہ سکی۔ اسی اثناء میں کچھ لوگوں نے ایک بس پر حملہ کر کے تین لوگوں کو قتل
کر دیا جس کی وجہ سے موساد(Israeli Intelligence)نے تیونس میں ابو جہاد کے
گھر پر حملہ کر کے اس شہید کر دیا، ابو جہاد انتفادہ کا قائد تھا۔انہی دنوں
عرفات کو بھی احساس ہو چکا تھا کہ ان تمام مسائل نہ تو گوریلا جنگ ہے اور
نہ ہی کوئی اور مزاحمت تمام مسائل کا حل سیاسی طور پر ہی نکالنا ہوگا۔ اس
لیے اسے اقوامِ متحدہ میں تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا جہاں اس نے کہا میں
ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہوں مگر میں ساتھ ہی اپنے سامنے بیٹھے ان تمام
ساتھیوں کا سلام پیش کرتا ہوں جنہیں اپنی قوم کا دفاع کرنے کے جرم میں دہشت
گرد کہا جاتا رہا ہے اور مغربی دنیا کو جان لینا چاہیے کہ دہشت گردی اور
دفاع میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔جب اس نے تقریر ختم کی تو سب نے تالیاں
بجائیں جس کا مطلب تھا کہ سب لوگ عرفات کی بات سے متفق تھے۔
2 اگست 1990ء عراقی صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا اور کچھ ہی
گھنٹوں میں سارا کویت عراق کے قبضے میں آگیا۔ صدام نے کہا کہ اگر امریکہ نے
اس جنگ میں مداخلت کی تو عراق اسرائیل کو جلا کر ملیامیٹ کر دے گا، مگر
کویت کے سعودی خاندان سے تعلقات تھے جس سے سعودی خاندان کی اجارہ داری کو
ٹھیس پہنچتی تھی اگر صدام ان کے دوستوں کو ہڑپ کر جاتا۔ سعودیوں نے امریکہ
کو اس بات پر مائل کر لیا کہ عراق سعودی عرب پر بھی حملہ کرنے والا ہے
لہٰذا معاہدے کے تحت جو سعودی خاندان اور امریکہ کے درمیان تھا امریکہ کو
سعودی عرب کی حفاظت کرنی چاہیے۔لہٰذا امریکہ سعودی خاندان سے اربوں ڈالر لے
کر عراق سے لڑنے کے لیے آنکلا کیونکہ ایران۔عراق جنگ صدام نے امریکہ کے
اشارے اور ہتھیاروں سے ہی لڑی تھی اس وجہ سے امریکہ اچھی طرح سے جانتا تھا
کہ عراق کتنے پانی میں ہے۔ اس لیے اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عراق پر اپنا
تمام جدید اسلحہ آزمایا جونہی جنگ شروع ہوئی اور امریکہ اس میں شامل ہوا تو
صدام نے اسرائیل پر میزائل گرانے شروع کر دیے اس کی لیبیا، سوڈان اور PLOنے
حمایت کی مگر ان میزائلوں سے کچھ عمارتیں اور چند لوگ مرنے کے علاوہ کچھ
نقصان نہ ہوسکا۔صدام کو لگتا تھا کہ اس کے اس عمل سے عرب دنیا اس کے ساتھ
ہو جائے گی اور وہ جنگ جیت جائے گا مگر اس کا تو الٹا ہی اثر ہوا۔ اسرائیل
نے ایک اور چال چلی اور میڈیا پر یہ واویلا شروع کر دیا کہ صدام نے ہم پر
جو میزائل پھینکیں ہیں ان میں کیمکلز شامل ہیں اور پورا اسرائیل گیس ماسک
لگا کر دنیا کو یہ دکھانے لگا کہ ان پر کبھی بھی کیمکل حملہ ہو سکتاہے۔وہ
صدام جو اس جنگ کو’’Mother of all battles‘‘ کہہ رہا تھا امریکہ نے اس جنگ
میں اس کو کچل کر رکھ دیا 30ہزار عراقی فوجی مارے گئے اور تقریباً عراقی
فوجی قوت ختم ہو گئی جبکہ صرف 300امریکی اس جنگ میں کام آئے۔اس جنگ سے کسی
نے کوئی سبق سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو مگر اسرائیل نے یہ سبق ضرور سیکھا کہ
وہ ہر دفعہ خوش قسمت نہیں رہ سکتا کیونکہ ضروری نہیں کہ اس کے ہمسایہ عرب
ہی اس پر حملہ کریں بلکہ کوئی بھی مسلم ملک دنیا میں کہیں سے بھی اس پر
حملہ کر سکتا ہے جس کے بعد انہوں نے پاکستان سمیت دنیا کے تمام اسلامی
ملکوں کی کاروائیوں پر پوری توجہ دینی شروع کی حتیٰ کے نوے کی دہائی میں
اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ کرنے کے متعد د منصوبے بنائے مگر
تب تک بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ پاکستان اپنے ایٹمی میزائل بقول ڈاکٹر
عبدالقدیر 1986ء میں ہی بنا چکا تھا۔بہرحال اس کے بعد انہوں نے گفتگو کا
عمل امریکوں کے ذریعے شروع جس کی امریکی صدر بش سینئر نے خوب حمایت کی۔اور
اپنے سیکرٹری آف اسٹیٹ جیمزبیکر(James Baker)کو اس مشن پر لگایا ۔امریکیوں
نے شام اور فلسطینیوں کو منا لیا کہ وہ ایک اکٹھی میٹنگ کریں ، اسرائیل
PLOکے ساتھ بات کرنے کو تیا ر نہ تھا اس لیے وہ لوگ اس میٹنگ میں گئے جو
PLOکے ارکان نہیں تھے مگر ان کوعرفات نے ہی بھیجا تھا ۔جب بیکر کی
فلسطینیوں سے میٹنگ شروع ہوئی تو ایک فلسطینی پروفیسر سائب اِراکت(Saeb
Erakat)نے شرارتاً اپنی جیب سے وہ خط نکالا جس میں عرفات نے ان لوگوں کو اس
میٹنگ میں جانے کے لیے خود کہا تھااس کا مقصد یہ تھا تا کہ سب کو پتا چل
جائے کہ وہ درحقیقت PLOسے ہی بات کر رہیں ہیں۔بیکر کو اس پر بڑا غصہ آیا
اور اس نے دو چار سنا دی جس پر پروفیسر سائب نے کہا ہم پر غصہ ہونے کی کوئی
ضرورت نہیں ہم پر تمہارا کچھ بس نہیں چل سکتا کیونکہ نہ ہماری کوئی ائیر
لائن ہے کہ تم ہمارے جہاز اڑنے نہ دو، نہ ہی بینکوں میں کوئی پیسا ہے کہ تم
لوگ اسے روک لو، نہ ہی کوئی اور ایسی چیز کہ تم لوگ ہم پر پابندیاں لگا
سکو۔ اس لیے عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم سے بات کرو اور ہمیں برابرسمجھو نہ
کہ ادنیٰ مخلوق کے طور پر۔
مارچ 1991ء سے لے کر اکتوبر تک کی کاروائی میں بش سینئر سب کو امن کانفرنس
میں لانے میں کامیا ب ہو گیا۔اس کانفرنس میں عربوں نے، اسرائیل نے ، امریکہ
نے ، روس نے اور فلسطینیوں نے شرکت کی۔یہ کانفرنس 30ااکتوبر1991ء کو میڈرڈ
(Madrid)رائل پیلس میں ہوئی۔ بش سینئر نے ایک تقریر کی اس کے بعد اسرائیلی
وزیرِاعظم ایزک شامیر(Etzhak Shamir)نے تقریر کی جس میں اس نے عربوں کو خوب
ڈانٹ پلائی خصوصاً شام کو اس نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کو ایک دہشتگرد ملک
کہنے سے بھی گریز نہ کیا۔جب شامیر شام پر لفظوں کے بمب گرا رہا تھا تو شامی
وزیرِ خارجہ فاروق الشرعا(Farouk al-Shar'a)کو انتہائی غصہ آرہا تھا اس نے
اپنے مشیر وزیر المعلم سے کہا کہ وہ اپنی تقریر کو دوبارہ لکھے گا تو مشیر
نے کہا پندرہ منٹ میں آپ کیسے لکھ لو گے جب کہ کل ہم نے سات گھنٹے لگا کر
پہلی تقریر لکھی تھی اس نے کہا وہ ہیڈ لائنز لکھ لے گا۔جب فاروق کی تقریر
کرنے کی باری آئی پہلے تو اس نے پوری دنیا کی بے حسی کا ذکر کیا پھر اس نے
امریکہ اور اسرائیل کی لفظوں سے دھلائی کی اس کے بعد اس نے اسرائیلی وزیرِ
اعظم کولفظوں سے خوب زَد و کوب کیااس نے کہا ہاں ہاں! شامیر ہی تو ایک ہے
جسے یہاں پر دہشت گردی پر بات کرنے کا حق ہے کیونکہ یہی تو دنیا کا سب سے
زیادہ معصوم آدمی ہے پھر اس نے شامیر کی ایک پرانی تصویر دکھائی جس پر اس
نے کہا کہ یہ وہ تصویر ہے جو اس وقت شائع کی گئی تھا جب شامیر نے اقوامِ
متحدہ کے ایک مندوب کو قتل کیا تھااور یہ اس کے انتہائی مطلوب ہونے کے لیے
شائع کی گئی تھی، کل کے دہشت گرد آج دنیا کو بتا رہے ہیں کہ کس کو دہشت گرد
کہا جائے اور کس کو نہیں، جب فاروق یہ الفاظ کہہ رہا تھا تو موجودہ اسرئیلی
صدر بنیامین نیتن یاہو(Benjamin Netanyahu)بھی وہاں موجود تھا اور وہ اس
طرح سے سو سو کر رہا تھا جیسے اس کو کسی نے آگ لگا دی ہو بلکہ پورا
اسرائیلی وفد زرد پڑ گیا تھا۔پوری کانفرنس میں ماحول گرماگرم رہا، مگر سب
سے مزے کا حادثہ یہ ہوا کہ فلسطینی پروفیسر سائب جب کانفرنس میں پہنچے تو
انہوں نے فلسطین کی پہچان کالا اور سفید اسکارف منگوا کر گلے میں ڈال لیا
جو تقریباً ہر فلسطینی کے گلے میں ہوتا ہے۔بقول پروفیسر سائب قدرتی طور پر
پروفیسر اور شامیر ایک دوسرے کے بالکل سامنے بیٹھے ہوئے تھے یہاں تک کہ ان
کی آنکھیں چار ہو رہیں تھیں۔ پروفیسر کہتا ہے کہ جب پہلی دفعہ شامیر نے
میری طرف دیکھا تو دائیں جانب منہ موڑ لیا جب دوسری دفعہ دیکھا تو بائیں
جانب منہ موڑ لیا میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو اس نے جھٹکے سے سر
پیچھے کیا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی تو کچھ اسرائیلی چمچوں نے مجھے گھیر لیا تو
میں نے ان کو کھری کھری سنا دیں۔
اس کے بعد واشنگٹن اور اوسلو میں کھلے اور خفیہ مذاکرت ہوئے مگر 1993ء تک
کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچا جا سکا۔جون اور جولائی میں دوبارہ بات چیت
ہوئی۔جس میں وہ فلسطینیوں کو غزہ کو دینے کو تیار تھے مگر عرفات مغربی
کنارے پر Jhericoاور اس کے ساتھ عرب یروشلم اور باقی مغربی کنارے کے مسلم
علاقے فلسطین کو دینے چاہیے۔یہاں تک کہ ایک سڑک بھی دی جانی چاہیے جو مغربی
کنارے اور غزہ کو ملائے۔13ستمبر 1993کو امریکی صدر بل کلنٹن(Bill
Clinton)کی سربراہی اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کرسٹوفر کی بھر پور کوشش
سے ایک معاہدہ طے پا گیا، جس میں اسرائیل نے فلسطین کو ان کی حکومت چلانے
کا حق دے دیا اور بدلے میں اسرائیل کو قبول کر لیا۔ اس معاہدے کو کروانے
والوں میں امریکہ کی طرف سے بل کلنٹن، وارن کرسٹوفر، فلسطین کی طرف سے حسن
اسفور، سائب کراتب، ابواعلیٰ، احمد تیبی،یاسر عرفات اور اسرائیل کی طرف سے
پروفیسر ییر،یوری ساویر، شمعون پیریز اور صدر ربین نام قابلِ ذکر ہیں۔جب
وائٹ ہاؤس میں معاہدے پر دستخط ہوئے تو صدر کلنٹن نے عرفات اوراسرائیلی
وزیرِاعظم ربین کو ہاتھ ملانے کو کہا ربین ہاتھ نہیں ملانا چاہتا تھامگر
عرفات نے اس کے آگے جب ہاتھ بڑھایا تو اسے مجبوراًہاتھ ملانا پڑا عرفات نے
بڑی دیر ہاتھ نہ چھوڑا جب وہ ملا چکا تو اس نے شمعون پیریز کو کہا اب
تمہاری باری ہے اب تمہیں اس جہنم سے گزرنا ہے تو عرفات نے بھی اس کے ساتھ
وہی سلوک کیا۔اور اس طرح یکم جولائی 1994ء کو عرفات فلسطین واپس لوٹا اس کے
بعد بھی حماس نے اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھی اور الفتح اور حماس میں بھی
بڑی دیر چپقلش چلتی رہی ہے۔مگر عرفات کے 30آدمیوں کے اس جہادی ٹولے نے
اسرائیل کی ناک میں دم کرکے آخرکار ان کے حلق میں ہاتھ ڈال کر فلسطین کھینچ
نکالا اور اسی لیے عرفات کو نوبل پرائز بھی دیا گیا۔
اس کے بعد 25جولائی کو اردن اور اسرائیل کے درمیان بھی امن معاہدہ طے پا
گیا اب صرف شام ہی ایک ملک بچا ہے جو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ
میں ہے اور شام کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھی نہیں اور ایک تولے کی عقل
رکھنے والا شخص بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے ضروربالضرور
اسرائیل ہی ہے اس کے بعد بھی اسرائیل اور عربوں میں حا لات سازگار نہیں
ہوئے دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ، تمام
عربوں میں انتشار کے تانے بانے اسرائیل سے جا کر ملتے ہیں اسرائیل نے کئی
دفعہ لبنان اور فلسطین پر حملہ کیا ہے مگر پوری دنیا کے مسلمان صرف کفِ
افسوس مل سکتیں ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے ۔اس وقت تو اسرائیل نے فلسطین کو
ایک ریاست کے طور پر نہیں بلکہ ایک علاقے کے طور پر دیا تھا مگر اب فلسطین
ایک ریاست بن چکا ہے یورپی یونین میں سے اکثر ملک اسے تسلیم کر چکے ہیں۔جو
ابھی رہتے ہیں وہ بھی تسلیم کرلیں گے کیونکہ قوموں کی زندگی میں سال،
دہائیاں اور صدیاں معنی نہیں رکھتی۔جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ یہودیوں نے
دو ہزارسال کی ذلت و خواری کے باعث بھی کوشش کرنا نہیں چھوڑا اور آخر کار
ایک ملک حاصل کر ہی لیا۔اسی طرح فلسطین بھی ایک دن دنیا کا ایک اہم ملک بن
جائے گااگر انہوں نے کوشش جاری رکھی۔آج تک اسرائیل جب چاہتا ہے فلسطین کی
حدیں عبور کر کے وہاں فوج کشی کردیا ہے اور جتنے فلسطینی چاہتا ہے مار دیتا
ہے اور جیسا چاہتا ہے سلوک کرتا ہے مگر جلد ایک دن آئے گا جب فلسطین کی
سرحدیں کبھی بھی عبور نہیں کی جاسکیں گی اور اسرائیلی ہر فلسطینی سے بات
کرتے ہوئے خوف کھائے گے مگر اس کے لیے فلسطین کو ابھی لمبا سفر کرنا ہے۔
ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان دنیا میں آباد ہیں جن میں شاید ہی کوئی ہو جو
یہودیوں سے نفرت نہ کرتا ہو یا انہیں اپنا دشمن نہ سمجھتا ہواس کی وجہ یہ
ہے کہ اسرائیل نے ان سب کی ناک میں دم کرنا تو دورگزشتہ پینسٹھ سالوں سے ان
کی سانس ہی روک رکھی ہے۔ہماری سب سے پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم دنیا
کو امن کی صورت میں کچھ دیں نہ کہ جنگ کی صورت میں سب کچھ چھین لیں۔مگر
اسرائیل جیسا ملک اگر ہمارے وجود کو خطرہ بن جائے اور جنگ فرض ہو جائے تو
پھر ایسی جنگ کروں کہ دشمن یاد رکھے۔ اگر واقعی ہمیں اسرائیل کا مقابلہ
کرنا ہے اور ہم کو اپنے دشمن کو سمجھنا ہو گا کہ وہ کون ہے کیا ہے اور کیا
کر سکتا ہے ؟ نہیں تو ہم معصوم جمال الحسینی کی طرح یہی کہیں گے کہ ہم اپنے
جذبہ ایمانی اور صرف چار سو بندقوں سے یہودیوں کا صفایا کردیں گے۔ان
افغانیوں سے پوچھو یا ان مصریوں سے یا ان عراقیوں سے اور اگر ان سے بھی
تسلی نہ ہو تو ان ویت نامیوں سے ، یا جاپانیوں سے پوچھ لو کہ جنگ کے لیے
کیا ضرور ی ہے وہ تمہیں بتائیں کے محب الوطنی اور جذبہ ایمانی کہا جاتا ہے
جب ایک بندوق سے نیوکلئیر طاقت کا مقابلہ کرنے جاتے ہو تب کیا ہوتا ہے جب
تم صرف گاڑی کا انجن اسٹارٹ کرتے ہو تو اس کی گرمی کو سونگھ کر میزائل اسے
جا لگتا ہے اس وقت تمہارے جذبہ ایمانی کی کیا صورت ہوتی ہے جب تم کلاشنکوف
لے کر اپنے مورچے میں بیٹھے ہوتے ہو اور اوپر سے کبھی روسی کوبرا ہیلی
کاپٹر تو کبھی امریکی F-22, F-16اورF-35میزائل گراتیں ہیں ۔ اگر ہمیں کسی
حقیقی دشمن سے لڑنا ہے تو ہمیں وہ سب کچھ اپنے پاس رکھنا ہوگا جو آپ کے
دشمن کے پاس ہے اور وہ سب کچھ جو آپ کے دشمن کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ موجودہ
تمام مسلمانوں کی عقل جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے یہودیوں کی عقل شروع ہوتی
ہے وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اس وقت خلافت خلافت کی باتیں کر رہے تھے تب
انہوں نے داعش کے ذریعے انہیں خلافت کا تحفہ دیا اور اگر دیکھا جائے تو کون
داعش کا ہتھیار دے رہا ہے۔ کوئی نہیں یا پھر وہی، سب سے پہلے شامی
صدربشارالاسدکے خلاف بغاوت کرنے والوں کو سعودی عرب اور امریکہ اسلحہ دیتا
رہا جو یقینااسرائیل کے ذریعے سے دیا جاتا تھا پھر جب داعش نے زور پکڑا تو
اس نے عراق میں موجود امریکی اسلحے پر اپنے ہاتھ صاف کیے اور تمام وہی لوگ
جو آزاد شامی فوج کے رکن تھے جو بشارالاسد کے خلاف لڑ رہی تھی وہ ہی داعش
میں شامل ہو گئے اور یہ ابوبکر البغدادی کون ہے کہ جس کا کسی کے پاس کوئی
ریکارڈ بھی نہیں اور جس کی کوئی گزشتہ تصویر بھی نہیں یہ زمین سے نکلا یا
آسمان سے ٹپکا اور کیا عراق پر حملہ کر کے صدام کو مار کر امریکہ نے
عراقیوں کو خوش کر دیا یا انہیں ایسی بھول بھلیاں میں پھنسا دیا کہ عراقیوں
اور شامیوں کو کچھ نظر ہی نہیں آرہا سوائے موت کے۔اور ہم اسرائیلیوں اور
امریکیوں پر اخلاقیات کی قدغن نہیں لگا سکتے کیونکہ قوموں کی اخلاقیات طاقت
ہے۔ایک یونانی سو فسطائی سے جب سقراط نے مکالمہ کیا تو اس پر اخلاقیا ت کا
درس جھاڑنے لگا تو اس نے آگے سے جواب دیا ’’سقراط! اخلاقیات ایک بھونڈا
مزاق ہے یہ کمزور لوگوں کی پیداوار ہے‘‘۔ یہ بات یقینا معاشرتی اور شخصی
پیمانے پر ٹھیک نہیں مگر قومی سطح پر بالکل ٹھیک ہے۔کمزور قومیں طاقتور
قوموں پر اخلاقیات کا شیشہ دکھانے کی کوشش کرتیں رہتیں ہیں مگر طاقتور
قومیں جب چاہتیں ہیں اس شیشے کو توڑ کر اپنی مرضی کرتی ہیں۔ اقبال قوموں کی
تقدیر کو ان الفاظ میں بند کیا ہے،
آتجھ کو بتاؤں کہ تقدیرِ امم کیا ہے ؟
شمشیر و ثنا اؤل، طاؤس و رباب آخر
وہ ایک جگہ اور بھی فرماتا ہے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی کؤہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اور بحیثیت قوم جس کی بنیاد ایک کتاب، ایک رسول ﷺ اور ایک معبوداﷲ ہے، قرآن
نے بھی ہمیں یہی درس دیا ہے قرآن میں ارشاد ہے۔
’’اور ان کے لئے تیار رکھو جو قوّت تمہیں بن پڑے ۔اور جتنے گھوڑے باندھ سکو
کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللّٰہ کے دشمن اور تمھارے دشمن
ہیں‘‘سورۃ الانفال(۶۰)
قرآن تو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میرے بندوں کہیں غافل نہ ہوجانا اور
تفرقے میں نہ پڑنا۔اور تم تو غفلت برتتے ہو مگر جو شیطان کی اولاد ہے وہ
غفلت نہیں کرتی ۔وہ ہمیشہ اپنے وعدے پر عمل کرتی ہے اور ہماتن تمہیں نقصان
پہنچانے میں لگی رہتی ہے۔جب73ء کی جنگ شروع ہوئی تو شروع میں اسرائیل کے
پاؤں اکھڑ گئے تو اس وقت کی خاتون وزیرِاعظم گولڈا مئے نے اسمبلی میں
امریکہ سے اسلحہ خریدنے کے لیے ایک بل پیش کیا تو اس پر کڑی تنقید کی گئی
کیونکہ بل کے مطابق اتنا مہنگا اسلحہ خریدا جا رہا تھا کہ اگر اسرائیلی ہار
جاتے تو اگلے پچیس سال تک وہ صرف ایک وقت کے کھانے پر گزارا کرتے اور دوسرے
وقت کا کھانا انہیں میسر نہ آتا۔ مگر گولڈا نے کہا کہ تم اس قوم سے مقابلہ
کرنے جا رہے ہو جن کے نبیﷺ جب فوت ہوئے تھے تو عائشہ ؓ کے پاس گھر میں دیا
جلانے کے لیے تیل نہیں تھا مگر اس وقت بھی نو تلواریں دیوار پر لٹک رہیں
تھیں تو اگر وہ اس چیز کو بھول رہیں ہیں تو تم کیوں بھول رہے ہو اور اگر
سوچوں کہ عربوں کو یہ یاد آگیا کہ وہ کس نبی کی امت ہے تو پھر ایک وقت کا
کھانا تو درکنار اسرائیل کا وجود ہی نہیں رہے گا۔اگر ہم اپنے دشمن کو نہ
سمجھ سکے تو داعش جیسے فتنے جنم لینے سے کوئی نہیں روک پائے گا کوئی بھی
ابوبکر البغدادی جس کا نہ پتا ہوگا کہ زمین سے اگا ہے یا آسمان سے گرا ہے
تمہارا خلیفہ بننے کے لیے تمہیں کتوں کی طرح آپس میں لڑوا دے گا۔ اور جہالت
کی انتہا یہی رہے گی کہ دونوں طرف سے اﷲ اکبر کے نعرے لگیں گے۔آؤں ذرا
دیکھو تو سہی کہ قرآن نے یہود کے بارے میں کیا کہا ہے۔
’’ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ
گے‘‘سورۃ المائدہ(۸۲)
یہ بھی نہیں کہ سارے یہودی ہمارے دشمن ہیں قرآن ہی کہتا ہے کہ ان میں وہ
بھی ہیں جو اپنے لوگوں اور تمہارے ساتھ امن میں رہنا چاہتے ہیں، تو ان کے
ساتھ بھلائی کا سلوک کرو۔ مگر ہمیں بحیثیت قوم یہودیوں سے ہی سبق سیکھنا
چاہیے، آئیں ہم دیکھیں کہ ہمارے دشمن کی عظمت کیا ہے اور ہمیں جس قوم سے
لڑنا ہے اس نے موجودہ دور میں کیا کیا کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔
باوجود یہ کہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف اور صرف 0.2% ہیں لیکن ان کی علمی
صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے20% نوبل انعام
یہودیوں نے ہی جیتے ہوئے ہیں۔ جن میں 13ادب (Literature)میں جو کہ ٹوٹل
کا13% ہیں، کیمیا(Chemistry)میں 27جو کہ ٹوٹل کا19%
ہیں،طب(Medicine)میں41جو کہ ٹوٹل کا28% ہیں،طبیعات(Physics)میں 40جو کہ
ٹوٹل کا26% ہیں،امن(Peace)میں7جو کہ ٹوٹل کا% 9ہیں،معاشیات(Economics)میں
23جو کہ ٹوٹل کا41% ہیں، نوبل انعام حاصل کیے ہیں۔ اور مسلمان حالانکہ دنیا
کی آبادی کا 25%سے بھی زیادہ ہیں مگر انہوں نے گنتی کے 12نوبل انعام جیتے
ہیں۔ جن میں 7 صرف امن نوبل ہیں جب کہ باقی تمام علمی و ادبی شاخوں میں صرف
5ہیں۔اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہودیوں کے حلقہ اثر کی وجہ سے انہیں اتنے
نوبل ملے ہیں تو یہ کسی حد تک تو ٹھیک ہے مگر یہ سراسر بیوقوفی، جہالت اور
ہٹ دھرمی ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ سارے کے سارے نوبل انہیں صرف اسی وجہ سے
ملیں ہیں ہم مجبور ہو جاتیں ہیں کہ ہم مانیں کہ یہودی دنیا میں علمی برتری
رکھتے ہیں اور ہمیں ماننا پڑے گاکہ یہودیوں نے دنیا کے بہترین سائنسدان،
فلسفی اور ماہرِاقتصادیات پیدا کیے ہیں ۔ اور اگر حلقہ اثر کی بات ہی کر
لیں تو ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ ہم دنیا کی آبادی کا25%ہیں اور دنیا
کے 56آزادملک مسلمانوں کے ہیں تو ہمارا حلقہ اثر ایسا کیوں نہیں؟ یہ ایک
بہت بڑا سوال ہے اور ہماری نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اور اگرمعیشت(Economics)کی بات کرلیں تو دنیا کے ارب پتی لوگوں میں سب سے
زیادہ یہودی ہیں، Forbes Magzineکے دنیا کے 100 امیرترین لوگوں میں 50%کے
قریب یہودی ہیں جن میں Larry Ellison، Michael Bloomberg، Sergey Brin،
Lawrence (Larry) Page، Steven Ballmer، George Soros Dell جیسے نام شامل
ہیں حالانکہMark Zuckerberg جیسے لوگ اس لسٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔دنیا کے
سب سے بڑے کاروباری مرکز Wall Street, New Yorkمیں 50%کے قریب کاروباری لوگ
یہودی ہیں اور انہی لوگوں کی آنکھ کے ایک اشارے سے دنیا کی معیشت میں
خطرناک یا خوش کن تبدیلیاں آتیں ہیں۔دنیا کی بہترین کاروباری کمپنیوں میں
سے اکثر کی بنیاد یا توکسی یہودی نے رکھی ہے یا پھر ان کے موجودہ مالک
یہودی ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی شہ رَگ یعنی معیشت پر
یہودیوں کی اجارہ داری ہے اور جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ ایک عرصہ مشرقی
یورپ میں عموماً اور روس میں خصوصی طور پر یہودیوں کو زمین کے مالکانہ حقوق
سے محروم رکھا گیا اور اس وقت دنیا کا اصل کاروبار زراعت تھا جو کہ زمین سے
منسلک تھا اور یہودی اس بنیادی حق سے محروم رکھے گئے تھے جس کی وجہ سے
انہوں نے دوسرے کاروبار جیسے کہ جوتے بنانا، گھوڑوں پر سواری کا سازوسامان
بنانا، فرنیچر بنانا، عمارتیں بنانا وغیرہ اپنا لیے اور جب یہی لوگ وہاں کے
بادشاہوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر شمالی اور جنوبی امریکہ کے ساتھ ساتھ
مغربی یورپ میں ہجرت کرگئے تو وہاں ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے کاروبار جمائے
جو آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے دنیا کے بہترین کاروبار بن گئے۔Florsheim
Shoes،Steve & Barry’s University Sportswear ،Intel،Oracle ،Dell Computer
،United Online جیسی سینکڑوں کمپنیوں کے مالک اور بنیاد رکھنے والے یہودی
ہیں۔
اگر سائنس کا ذکر کریں تو دنیا کی بہترین جدید ایجادات کو لے لیں تو ان میں
سے بیشترکا منبع یہود ہی ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر ہم کرتے ہیں جن کے
بغیر ہماری زندگی ہی شاید رک جائے ان
میںFacebook,Google,،Microphones،Sewing machines،Walkie Talkies،Video
tapes،Colored Photography،Fax machines،Usb flash drives،Mobile Phones
اور ان کے علاوہ بہت سارے سوفٹ وئیرز بھی یہودیوں کی دین ہیں، Medicineمیں
بھی چند کا ہم ذکر کرتے ہیں جن میں enicillin،Insulin،Prozac،Novacaine
جیسی چند ادویات شامل ہیں۔
اور اگر جدید میڈیا جن میں اخبارات، انٹرنیٹ، ٹی وی کی بات کی جائے تومیڈیا
ہی نے موجودہ دور میں تمام دنیا کی آنکھیں اور کان ہیں، ہمیں کس طرح پتا ہے
کہ داعش ایک دہشت گرد جماعت ہے جس کی تمام تر سرگرمیاں غیر انسانی ہیں اس
کی وجہ صرف یہ ہے کہ میڈیا نے ہمیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ جو وہ ہمیں
سناتے، پڑھاتے اور دیکھاتے ہیں ہم اس کے مطابق اپنی سوچ بنائے جس کی وجہ سے
ہم اپنی سوچ اسی طرح بناتے ہیں جس طرح وہ چاہتے ہیں۔اگر بغور دیکھا جائے تو
تمام کی تمام میڈیا انڈسٹری ایسا لگتا ہے یہودیوں ہی کی پیداوار اور مرہونِ
منت ہے۔ اگر ہم ان میں سے صرف چند ایک کا ذکر کریں توCapital
Cities/ABC/Disney،Advance Publications،The New York Times،The Washington
Post ،U.S. News and World Report ،Block Communications (جو کہ سینکڑون
نشریاتی اداروں کو چلا رہے ہیں)شامل ہیں۔ اور اگر بات کی جائے Hollywoodکی
تو اس کی بنیاد بھی یہودیوں نے ہی رکھی جیسا کہ بہترین فلم سٹوڈیو ز جن
میںTwentieth Century Fox،Columbia Pictures،Paramount Pictures،Universal
Pictures،Metro-Goldwyn-Mayer، Warner Brosشامل ہیں جنہوں نے یہودیوں کی
مظلومیت اور ہولوکاسٹ(Holocaust) پر سینکڑوں فلمیں بنا کر اپنے بارے میں
دنیا کا نقطہِ نگاہ ہی بدل دیا۔
یہ تو صرف ایک جھلک تھی ان کے کارناموں کی صرف اور صرف ایک جھلک اگر تفصیل
لکھنے بیٹھے تو دفتر کے دفتر بھر جائیں۔ اگر ہمیں دنیا میں اس قوم کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈالنی ہیں توان سے سیکھنا ہوگا کیونکہ قومیں وہی زندہ
رہتی ہیں جو دشمن کا مقابلہ کرتیں ہیں نا کہ گھٹنے ٹیک لیتی ہیں۔یہودی قوم
ہر ایک قوم کے لیے بہترین مثال ہے اس لیے بحیثیت قوم ہمیں یہ سوچ لینا
چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور بیحیثیت فرد بھی ہمیں سوچ لینا چاہیے کیونکہ
ایک فرد بھی قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا
چاہیے کہ کیا ہم بحیثیت قوم بدلنا چاہتے ہیں یا پھرایک سو اسی کروڑوں کو
جیسے جوتے پڑ رہیں ہیں پڑتے رہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ |