شریف خاندان بمقابلہ شریف خاندان
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
گزشتہ کالم سے لے کر اب تک اس سوچ و بچار
میں غرق تھا کہ حالات حاضرہ کے کس موضوع پر لکھوں اور کس پر نہ لکھوں
کیونکہ موضوعات کی ایک لمبی فہرست ہے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے خیر بغیر کسی
تمہید کے میں سلگتے اور دہکتے موضوع کی طرف آتا ہوں جس کا آتش فشاں مستقبل
قریب میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ قصہ یہ ہے کے آنے والا ملکی سیاسی منظر
نامہ گھمبیر ترین صورتحال اختیار کرنے جا رہا ہے۔ ملک میں حکمران جماعت کے
روح رواں شریف خاندان کو حالات نے آخر دو حصوں میں لاکھڑا ہی کیا۔ لب لباب
کی طرف جانے سے قبل میں میاں محمد شریف کے خاندان کے اثاثہ جات پر تھوڑی سی
نظر ڈالوں گا کہ شریف گروپ کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سال2000ء
میں300ملین ڈالربزنس اور 100ملین ڈالررئیل اسٹیٹ ہولڈنگز شریف خاندان کے
اثاثہ جات شامل تھے،جاتی عمرہ جو شریف خاندان کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھا
جاتا ہے وہ میاں محمد شریف کیخوشدامن شمیم اخترکی ملکیت میں تھا‘یہ تمام
اثاثہ جات 18افراد میں تقسیم ہوجاتے ہیں ان 18 افراد میں میاں محمد نواز
شریف اوران کی اولاد عاصمہ، مریم ،حسن،حسین‘ شہباز شریف اور ان کی اولاد
حمزہ،سلما ن،رابعہ عمران اور عباس شریف اوران کی اولاد جن میں 2بیٹیاں اور
دو بیٹے شامل ہیں ۔سعودی عرب میں شریف فیملی کے اثاثہ جات کی مالیت 7 بلین
تھی جس میں العزیزیہ سٹیل ملز بھی شامل تھی جو میاں محمد شریف کی وفات کے
بعد فروخت کر دی گئی تھی ، وہ کمپنیاں جو میاں نواز شریف،شہباز شریف،کلثوم
نواز،حمزہ شہباز کی ملکیت میں شامل ہیں درج ذیل ہیں۔
شریف فیڈ ملز،شریف ملک پروڈکٹس،شریف پولٹری فارم،چوہدری شوگر ملز،رمضان
شوگر ملز،رمضان انرجی ،شریف ڈیری فارم،محمد بخش ٹیکسٹائل ملز،کلثوم
ٹیکسٹائل ملز،حمزہ سپائیننگ ملز،حدیبیہ پیپر ملز ،عباس اینڈ کمپنی ،مدنی
ٹریڈنگ،مدینہ کنسٹرکشن ،کرسٹل پلاسٹک، انہار ملک، حمزہ پولٹری فیڈز ،کوالٹی
چکن جبکہ خالد سراج گروپ کا شریف فیملی کوئی تعلق نہیں خالد سراج شوگر ملز
اسی گروپ کی ملکیت ہے البتہ شہباز شریف کے شیئرز اس میں شامل ہیں،کوالٹی
چکن صرف شہباز شریف کی پہلی بیوی کی ملکیت ہے‘شریف فیملی کے تحت شریف ٹرسٹ
کے نام سے فاؤنڈیشن بھی چلائی جارہی ہے جس کے تحت شریف ایجوکیشن سٹی،شریف
میڈیکل سٹی،شریف کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی وغیرہ کام کررہے ہیں۔ ان
تمام کمپنیوں نے 2013ء میں صرف7کروڑ 26لاکھ روپے انکم ٹیکس دیا ۔2013 ء کے
اعداد و شمار کے مطابق شریف خاندان پاکستان کا چوتھا امیر ترین خاندان ہے،
2013 ء کے Declaredاثاثہ جات کے مطابق میاں محمد نواز شریف 1 ارب 89 کروڑ
22 لاکھ 87 ہزار 772 روپے کے اثاثہ جات کے مالک تھے، اسی طرح شہباز شریف42
کروڑ 55 لاکھ 96 ہزار478 روپے ‘ حمزہ شہباز 26 کروڑ28 لاکھ 3 ہزار 39 روپے
کے مالک تھے جبکہ خاندان کے دیگر افراد بھی کروڑوں روپے مالیت کے اثاثہ جات
کے مالک تھے۔2013 ء کے اعداد و شمار کے مطابق شریف خاندان کے کل (Declared)
اثاثہ جات 2 ارب58 کروڑ68 لاکھ7 ہزار289 روپے کے تھے جبکہ گزشتہ سال 2012 ء
میں یہ (Declared) اثاثہ جات صرف 82 کروڑ15لاکھ 58 ہزار454 روپے کے تھے
یعنی شریف خاندان کے2013 ء میں ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد صرف چند
ماہ کے قلیل عرصے میں شریف خاندان کی (Declared) دولت / اثاثہ جات میں 1
ارب 75 کروڑ 91 لاکھ28 ہزار835 روپے کے اثاثہ جات کا حیران کن (Declared)
اضافہ ہو گیا۔
شریف خاندان کے (Declared) اثاثہ جات کے علاوہ اور کتنے اثاثہ جات/ دولت ہے
جنہیں قوم سے چھپایا گیا اس کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے بلکہ یوں کہوں
گا کہ خود شریف خاندان کے افراد کو صحیح طرح انداہ نہیں کہ وہ کتنی دولت کے
مالک ہیں اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کیوں کہ Declared اثاثہ جات کے
علاوہ شریف خاندان اربوں روپے کی مبینہ جائیداد و دولت کا مالک ہے جس کا
صحیح معنوں میں بھانڈا اس وقت پھوٹا جب پانامہ لیکس کا بم دنیا کے سرمایہ
دارطبقوں پر گرایا گیا،لندن فلیٹس کی ہی مثال لیں جن کی موجودہ مالیت اربوں
روپے ہے۔اس کے علاوہ پانامہ لیکس میں منظر عام پر آنے والی آف شور کمپنیاں
بھی اربوں ڈالر مالیت کے اثاثہ جات رکھتی ہیں اور یہ کمپنیاں ’’میاں نواز
شریف‘‘ کی فیملی کی ملکیت ہیں۔ اب اصل کہانی کی طرف آتا ہوں کہ میاں محمد
نواز شریف جہاں ان ہاؤس تبدیلی اور حکومت کیلئے دن بدن بڑھتے ہوئے مسائل سے
دوچار ہیں وہیں انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق شریف خاندان کا ممکنہ شیرازہ
بکھرنے کے خدشے نے انہیں دیوار سے لگا دیا ہے۔ اب تک ایک نظر آنے والا شریف
خاندان اب شریف خاندان بمقابلہ شریف خاندان کی صورتحال سے دو چار ہونے والا
ہے ‘ سب کے سامنے ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن میں موجود ہیں اور
ہسپتال سے فراغت کے بعد آرام کر رہے ہیں ‘ حسب سابق امسال بھی وہ آخری عشرہ
رمضان میں گزاریں گے لیکن یہ عشرہ ان کیلئے ماضی کے عشروں جیسا نہیں ہوگا
کیونکہ انہیں خاندانی گتھیاں سلجھانے کیلئے خاصی جدوجہد کا سامنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق سعودی عرب قیام کے دوران نواز شریف اپنی فیملی سمیت عمرہ
کریں گے اور اس کے بعد شہباز شریف ہمراہ فیملی اور چوہدری نثار کو دیگر اہم
لیگی وفاقی وزراء کے ساتھ سعودی عرب بلائیں گے جہاں ان سے انتہائی اہم
معاملات پر گفتگو کی جائے گی اور وزیر اعظم آخری کوشش کریں گے کہ کسی طرح
شریف خاندان دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بچ جائے۔ میاں نواز شریف کے ہی
قریبی ذرائع کے مطابق جو کام کوئی برسوں میں نہ کر سکا وہ پانامہ پیپرز نے
کر دکھایا ہے کیوں کہ پانامہ پیپرز کے سامنے آنے کی وجہ سے شریف خاندان میں
شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی فیملی نے
میاں شہباز شریف کی فیملی کو پانامہ لیکس میں سامنے آنے والے اثاثوں کے
بارے میں پہلے کبھی نہیں بتایااور اسی وجہ سے بیگم کلثوم نواز اور بیگم
نصرت شہباز میں تلخ کلامی بھی ہوئی ہے، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پانامہ لیکس
میں سامنے آنے والے اثاثہ جات کو خاندان کے تقسیم شدہ اثاثہ جات میں شامل
نہیں کیا گیالہٰذا شہباز شریف فیملی بھی ان اثاثہ جات میں اپنا حصہ چاہتی
ہے کیوں کہ لندن میں فلیٹ آف شور کمپنیوں کے ذریعے خاندان میں جائیداد
تقسیم کرنے سے پہلے خریدے گئے تھے اور ان فلیٹس کی آج کل مالیت اربوں روپے
میں ہے۔شریف خاندان کی جانب سے مشترکہ کاروباری کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں جو
کروڑوں ڈالر جمع کروائے گئے تھے ان اکاؤنٹس کا ذکر بھی جائیداد کی تقسیم کے
وقت نہیں کیا گیا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شریف خاندان میں پھوٹ کی وجہ دو
مرکزی کردار حمزہ شہباز اور مریم نواز ہیں۔ مریم نواز مستقبل میں والد کی
جگہ وزیر اعظم بننا چاہتی تھیں اور نواز شریف کی بھی یہ خواہش تھی کہ وہ ان
کی جگہ لیں اسی لئے مریم نواز کی ٹریننگ طارق فاطمی کر رہے تھے لیکن پانامہ
پیپرز اور مریم نواز کے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں نے وزیر اعظم کی امیدوں پر
پانی پھیر دیااور اپنے ہاتھ سے اپنا سیاسی کیریئر تقریباََ ختم کر دیا‘ غور
طلب بات یہ ہے کہ آف شور کمپنیاں صرف مریم ، حسن اور حسین کے نام پر ہیں‘
شریف خاندان کا کوئی اور نام ان خفیہ کمپنیوں اور اثاثوں کا مالک نہیں نہ
ہی کسی کو بھنک پڑنے دی گئی تھی۔
دوسری جانب شریف خاندان میں اختلافات کا واضح عنصر تصویر کے ’’تیسرے‘‘ رخ
میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف نواز شریف 4 سال والے فارمولے کے ناکام
ہو جانے پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اب توسیع نہیں دینا چاہتے تو دوسری
طرف چوہدری نثار اور شہباز شریف دونوں یہ چاہتے ہیں کسی نہ کسی طرح راحیل
شریف کو کم از کم ایک سال سہی توسیع دی جائے اور اس سلسلے میں شہباز شریف و
چوہدری نثار وزیر اعظم نواز شریف کی مرضی کیخلاف آرمی چیف سے ملاقات بھی کر
چکے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سے 43سے 50 اراکین قومی اسمبلی کیساتھ
جنم لینے والی ’’عام عوام‘‘ پارٹی کی باتیں بھی بے بنیاد نہیں‘ ان میں بھی
خاصا دم خم ہے اور عین ممکن ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک ’’عام عوام‘‘
پارٹی کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا جا چکا ہو۔چوہدری نثار وزیر اعظم نواز
شریف کے بر عکس ا سٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات کافی خوشگوار کر چکے ہیں‘میاں
نواز شریف اور مریم نواز ایک اہم وجہ سے پارٹی پر اپنی گرفت آہستہ آہستہ اس
لئے کھوتے گئے کہ وہ عام پارٹی کارکن تو در کنار لیگی اراکین قومی و صوبائی
اسمبلی سے آسانی سے ملنا اور ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے اس کے بر عکس
شہباز شریف نے کم از کم اپنے دروازے عام پارٹی کارکنوں اور لیگی اراکین
قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے ہر وقت کھلے رکھے ہوتے ہیں اور آج کل اسی روش
پر حمزہ شہباز بھی چل رہے ہیں۔ نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف پر اتنا
اعتماد نہیں کرتے جتنا وہ اسحاق ڈار پر کرتے ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) کے اراکین
قومی اسمبلی کی بڑی تعداد جن کا تعلق پنجاب سے ہے وہ میاں شہبازشریف کے
حامی ہیں کیونکہ پنجاب حکومت کی جانب سے مختلف سکیموں اور ان کے نیچے
اراکین صوبائی اسمبلی کے ذریعے بھاری فنڈزمہیا کئے جارہے ہیں ‘ جبکہ نون
لیگی منتخب اراکین کو شکایت ہے کہ انہیں مریم نوازسے بھی ملنے کے لیے
مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور میاں نوازشریف کی طرح مریم نواز کا رویہ
منتخب اراکین کے ساتھ تضحیک آمیزہوتا ہے۔ شریف خاندان کے اندرونی اختلافات
ملکی سیاست میں مزید گرما گرمی پیدا کر سکتے ہیں اور بعید نہیں کہ مستقبل
قریب میں نواز خاندان اور شہباز خاندان ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو جائیں‘
ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان کا شیرازہ بکھرتا نظر آ
رہا ہے‘ اس لئے وزیر اعظم کو لگتا ہے کہ عید کے بعد ان ہاؤس تبدیلی کے لیے
ایک بھرپورمہم چل سکتی ہے جس کی پیش بندی کے لئے آخری کوشش کر کے دیکھ لی
جائے، دوسری صورت میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شریف خاندان کے افراد آنے والوں
دنوں میں بقول پیارے دوست عطاؔ الحسن کے یہ کہتے نظر آئیں کہ ۔۔
صرف تصویر رہ گئی باقی!
جس میں ہم ایک ساتھ بیٹھے ہیں! |
|