سلطان ٹیپو کو جس نے دھوکا دیا وہ میر صادق
تھا اس نے سلطان سے دغا کیا اور انگریز سے وفا کی انگریز نے انعام کے طور
پر اسکی کئی پشتوں کو نواز ااور انہیں ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا آج یہی
حال ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے ہم میں بہت سے میر جعفر اور میر صادق موجود
ہیں جو ہر حکومت کے کار خاص بن جاتے ہیں انکی موجودگی میں سینئر افسران
کھڈے لائن لگ جاتے ہیں اور جونیئر افسران اہم عہدوں پر تعینات ہوجاتے ہیں
ان میر وں کی موجودگی میں ملک ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں
رہتا ہے خوش آمدی اور کماؤ افسران کے سامنے ایماندار اور ملک وقوم کے خیر
خواہ بے اختیارے بن جاتے ہیں جبکہ بعض اہم سیٹوں پر جونیئر افسران تعینات
ہوجاتے ہیں ان سے سینئر ز اپنے سے جونیئرکے سامنے نوکری کی فکر میں ہاتھ
باندھے کھڑے ہوتے ہیں جس طرح ہم اپنے حکمران منتخب کرتے ہیں اس طرح تو ہم
رہڑی والے سے فروٹ بھی نہیں خریدتے بے شک ایک کلو سیب ہی لینے ہوں تو اپنے
ہاتھوں سے چن چن کر صاف اور بے داغ سیب ڈالتے ہیں مگر انتخابات میں ہم جسے
ملک وقوم کی ذمہ داری سونپنے جارہے ہوتے ہیں اس وقت ہم کسی بھی قسم کی
چھانٹی نہیں کرتے بلکہ ایسے افراد کو چن چن کر منتخب کرتے ہیں جو بعد میں
ملک وقوم کے لیے سردردی بن جائے اور وہی لوگ جن کو ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے
اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں ہم سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں وزیراعلی
اور وزیراعظم کا تو عوام سے اسی دن رشتہ کٹ جاتا ہے جس دن وہ حلف اٹھاتے
ہیں رہی بات انکے دوسرے نمائندوں کی وہ اپنے اپنے لیڈروں کی خوش آمد میں
وقت گذار کر اپنا اور ملک وقوم کا وقت برباد کررہے ہوتے ہیں منتخب حکمران
جیسے ہے اقتدار کے جھولے میں بیٹھتے ہیں وہ اپنے اردگرد بھی ایسے افراد کو
چن چن کر لے آتے ہیں جوانہیں جھولا جھلاتے رہیں اور انکی ہر ایک ہاں میں سو
بار ہاں کہیں اگر حکمران دن کو رات کہہ دیں تو انکے خوش آمدی بھی دن کو رات
ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں اور ایسا وہی افسران کرتے ہیں جو
اپنے چھوٹے سے عہدے کو بڑے عہدے میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں ایسے
ہی چھوٹے افسران کی اعلی عہدوں پر قبضہ جمانے کی سازشوں کی بدولت ملک میں
کرپشن اور چور بازاری کا راج ہوچکا ہے اور آج پاکستان میں ڈھونڈنے سے بھی
ایماندار شخص کو ڈھونڈنا مشکل ہورہا ہے اگر دیکھا جائے تو آج کتنے فیصد لوگ
ہیں جو دودھ میں پانی نہیں ملاتے ؟اپنی ڈیوٹیاں ایمانداری سے ادا کرتے ہیں
؟ بازاروں میں دوکاندار اپنی دوکانوں کے سامنے فٹ پاتھ یا سڑک پر قبضہ نہیں
کرتے ؟چیزیں مہنگی کرنے کے لیے اسٹاک نہیں کرتے؟سرکاری ملازم رشوت نہیں
لیتے اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے ؟اپنے گلی محلے ،سڑکوں
اور پارکوں کا ماحول خراب نہیں کرتے؟قوانین کا احترام کرتے ہیں ؟ان میں سے
کسی ایک کا بھی مثبت جواب نہیں ملے گا کیونکہ میرٹ کی دھجیاں اڑا کر جو
افسران اہم عہدوں پر براجمان ہیں وہ صرف خوش آمد کے ماہر ہیں کام کے نہیں
اسی لیے تو اہم عہدوں پر اپنی تعیناتیاں کروالیتے ہیں اور جو کام کرنے والے
ایماندار افسران ہوتے ہیں وہ کسی بھی سفارش کو نہیں مانتے اور ہر کام میرٹ
پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں اسی لیے حکمران انہیں کسی بھی اہم عہدے پر تعینات
نہیں کرتے اور یہ نظام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ہم اپنے نمائندوں کو
میرٹ پر منتخب نہیں کرینگے پارٹیوں سے بالاتر ہوکر محب وطن اور ایماندار
افراد کو ووٹ دیے جائیں تو ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت رائج ہوگی ورنہ
جمہوریت کی شکل میں جو آمریت ہمیں ملتی ہے اس سے ملک ترقی کرے گا نہ ہی قوم
کو ہوش آسکے گی اور حکمران یوں ہی بادشاہ بن کر ہمیں لوٹتے رہیں گے قیام
پاکستان سے لیکر آج تک ہمیں کوئی بھی حقیقی معنوں میں ایسا حکمران اور لیڈر
نہیں مل سکا جو ہم جیسی پسماندہ ،ان پڑھ ،جاہل اور غربت کی دلد ل میں ڈوبی
ہوئی مظلوم قوم کی انگلی پکڑ کر منزل مقصود تک پہنچا دیتا کیونکہ بدقسمتی
سے قیام پاکستان سے قبل جو انگریزوں کے نمک خوار تھے وہی بار بار شکلیں
تبدیل کرکے ہم پر مسلط ہوتے رہے اور ہمیں اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ ہم اپنا
آپ سنوار سکیں اور دنیا کے ساتھ قدم ملا کرترقی کی منازل طے کرلیں پیسے کے
زور پر الیکشن جیتنے والے اپنے دل فریب نعروں سے ہمیں بے قوف بنا کر غربت ،مہنگائی
اور بے روزگاری کی ایسی دلدل میں دھکیل گئے ہیں کہ آج پاکستان میں ڈھونڈنے
سے بھی ایماندار شخص کا ملنا مشکل ہوچکا ہے یہاں تک کہ روز مرہ کے استعمال
میں ہونے والی مرچیں بھی خالص ملنا محال ہیں جس رہڑی سے فرٹ خریدنا پڑ جائے
اگر خود نہ ڈالیں تو رہڑی والا دونمبری کرجائیگا سکولوں کے باہر بچوں کو
شربت بیچنے والے دونمبری کررہے ہوتے ہیں اور اس سے اوپر جتنا آپ جاتے جائیں
گے اتنا بڑا فراڈ ہوتا جائیگا ہر سرکاری ملازم نے لوٹ مار کا بازار گرم
کررکھا ہے اس وقت تک فائل آگے نہیں جاتی جب تک اسے نوٹوں کے پہیے نہ لگ
جائیں میرٹ صرف تقریروں کی حد تک رہ گیا ہے بھرتی میں بھی ایسے افراد کو
رکھ لیا جاتا ہے جو حکمران طبقہ کے پسندیدہ ہوتے ہیں جو بھی فرد ملک وقوم
کے مفاد کے خلاف کام کررہا ہے وہ آج کے دور کا میر جعفر اور میر صادق ہے
ہمیں ایسے میروں کو پہچان کر انکا راستہ روکنا چاہیے تاکہ ہماری ترقی کا
راستہ کھل سکے ورنہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کے ذمہ دار ہونگے جس
کا حساب دنیا میں بھی دینا پڑے گا اور آخرت میں بھی ۔ |