سنئے حضور !جب تک عوام کے پاس دھاتی کرنسی
ہے تب تک کوئی بھی غریب نہیں ہو سکتا اور سب ہماری برابری کریں گے اگر ان
پر حکومت کرنی ہے تو ایسا کوئی طریقہ وضع کرو کہ تمام تر مال ان کا ہمارے
قبضے میں آ جائے اور یہ لوگ چیخ و پکار بھی نہ کریں اس طرح ہی ہماری بقاء
ہے ۔اس طرح ایک کاغذی کرنسی متعارف کروائی جاتی ہے جو کہ لوگوں میں ان کے
زر کثیف کی جگہ بانٹ دی جاتی ہے یہ بنیے دیکھتے ہی دیکھتے امیر ہو جاتے ہیں
اور عوام غریب سے غریب تر ہوتی جاتی ہے ۔اب ان غریب لوگوں پر حکومت کرنا ان
بنیوں کیلئے معمولی بات بن جاتی ہے اور ان سے دھونس اور بربریت دیکر زر
لطیف بھی آہستہ آہستہ چھین لیا جاتا ہے اور لوگوں کو بھکاری بنا دیا جاتا
ہے ۔یہ قانون پوری دنیا میں رائج ہے لیکن چند ممالک ایسے ہیں جو شرح
خواندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے زر لطیف کے چھن جانے سے بچ گئے ہیں لیکن پھر
بھی اشرافیہ نے ملک و قوم کو دیوالیہ بنانے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی ۔اب
یہ لوگ چوری اور لوٹ کھسوٹ سے کام لیتے ہیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ چوروں کے
گروہ نے نقاب چھوڑ کراشرافیہ کا بھیس بدل لیا ہے اور گھوڑوں سے اتر کر
کاروں میں بیٹھ گئے ہیں ۔ایک وقت تھا جب لوگ نیکیوں کیلئے لڑتے تھے ،حق
کیلئے جان نثار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے اور دھوکہ دہی ،جھوٹ کو سخت
ناپسند کرتے تھے کوئی بھی شخص اپنے بارے میں کم اور دوسروں کے بارے میں
زیادہ سوچتا تھا انکے دلوں میں اﷲ کی ذات کا ڈر تھا کہ کہیں ان سے کوئی
ایسی غلطی سر زد نہ ہو جائے جس سے اﷲ خفا ہو جائے ۔لیکن جب انسان کے منہ کو
حرام لگ جاتا ہے تو اس کیلئے رشتوں ،انسانیت اور بھائی چارے جیسے الفاظ بے
معنی ہو جاتے ہیں اور جھوٹ ،بغض اور کینہ ان کی پہچان ہوتی ہے ۔ان کے لئے
زندگی کااگر کوئی مقصد ہوتا ہے تو وہ صرف مادیت ہوتا ہے جسکو حاصل کرنے
کیلئے وہ ساری زندگی بھاگ دوڑ میں گزار دیتے ہے لیکن آخر میں اسی جگہ کھڑے
ہوتے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا کیوں کہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ ہر عروج کی
انتہا زوال ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا انسان عروج پر پہنچنے کیلئے
اپنی تمام تر طاقت خرچ کر دیتا ہے اور اسکے بعد اسکی انتہا تک لیکن یہ
انتہا اس کیلئے زوال کا باعث بنتی ہے ۔بڑے بڑے بادشاہ گزرے جنہوں نے اپنی
خدائیت کادعویٰ کیا اور نیست و نابود ہو گئے فرعون کی لاش آج بھی باعث عبرت
ہے کہ جسے نہ زمین نے قبول کیا نہ پانی نے اور نہ آسمان نے بلکہ عجائب گھر
میں دنیا کیلئے عبرت کا نشان بنا ہوا ہے ،نمرود کو سزا ملی کہ خود ہی اپنے
سر میں جوتے مروا کر دم توڑ گیا اور کوئی مال و دولت اسکے کام نہ آ سکی
کتنی جگہوں میں آثار قدیمی ملے جن میں لوگوں کا مال و زر ملا لیکن وہ لوگ
اس دنیا سے نیست نابود ہو گئے۔ روزانہ کتنے لوگ مرتے ہیں کون ہے جو اپنا
مال اپنے ساتھ لے گیا ہو سب دنیا پر چھوڑ گیا اتنی عبرت آموز نشانیوں کے با
وجود انسان نہیں سیکھتا اور دن بدن مادیت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہا ہے
چاہے جتنا بھی پیسہ بنا لے جتنے بھی دولت کے پجاری ہو جائیں ایک دن انہیں
اﷲ کی عدالت میں جواب دہ ہونا ہے اور وہ وقت قریب ہے ۔ہمارے ملک کے
سیاستدانوں اور اشراف کا حال اس سے مختلف نہیں ہے کہ جنہوں نے اپنی بادشاہت
اور جھوٹی شان و شوکت کی خاطر لوگوں کا استحصال کیا ’’قرآنی آیات کا مفہوم
ہے کہ تمہاری اولاد اور مال تمہارے لئے فتنہ ہیں ‘‘اور یہ بات ہمیں پاکستان
میں واضح نظر آ رہی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی خاطر حلال و حرام کی تمیز کئے
بغیر مال و دولت اکٹھا کرتے ہیں ۔چوری اور سینہ زوری سے حاصل کیا گیا یہ
پیسہ ایک دن انہی کیلئے اژدھا بن کر انہیں نگل جائے گا اور وہ وقت نزدیک ہے
کہ جب پاناما پیپرز کے دستاویزات اژدھا بن کر انہیں اب نگلنے جا رہے ہیں جب
عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔جتنے بھی لوگوں کا نام ان پیپرز میں آیا ہے
ان کا احتساب ان سمیت ان کے قریبی رشتہ داروں ،اولاد اور ان کے سہولت کاروں
کا بھی کیا جائے تاکہ وہ سب لوگ جو اس بے ہودگی میں شامل ہیں سب کے چہرے
سرعام ہوں لیکن حیف کہ صرف عوام کی مانگ ہے لیکن پاکستان کا قانون اس بات
کی اجازت نہیں دیتا کیوں کہ ہمارے دوست ملک چین میں تو کرپشن کی سزا موت ہے
لیکن پاکستان میں ایسا نہیں کہ سوائے ایک بد اخلاقی کام ۔اور اخلاقیات کے
پیش نظر ایسے انسان کو سوائے سراہنے کے اور کوئی سزا نہیں د ی جا سکتی ۔پاناما
لیکس کے معاملے کو اس وقت کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس معاملے میں
حزب اختلاف اور حکومت کے مابین ٹی او آر پر سمجھوتا طے نہیں ہو سکا لیکن اس
بار اپوزیشن نے اپنی آخری ٹرمز آف ریفرنس حکومت کے سامنے رکھیں ہیں جن میں
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے سب سے پہلے احتساب لینے والی شرط کو ختم
نہیں کیا گیا اب دیکھنا یہ ہے حکومتی کمیٹی ان ٹرمز آف ریفرنس کو قبول کرتی
ہے یا نہیں اور پارلیمنٹ اس قانون سازی کہ جس کو عوام چاہتی ہے کے حق میں
اپنی رائے دیتی ہے یا نہیں ؟سوال یہ بھی ہے کہ اگر احتساب میں میاں صاحب
خودکو کلئیر نہیں کروا سکتے تو انکا آئندہ سیاسی مستقبل کیا ہو گا ؟ جب
عوام ان تمام لیڈروں کو باری باری آزما چکی ہے اور ان کی واضح کرپشن سے
ذہنی طور پر مفلوج بھی ہے تو وہ اپنا آئندہ مینڈیٹ کس کے حق میں دیتی ہے کہ
جو انکی امانت کو دیانت داری کے ساتھ لوٹائے؟وزیر اعظم کے گلٹی ہونے کی
صورت میں اور دیگر جماعتو ں کی کرپشن سامنے آنے سے جب ملک میں صورتحال
کشیدہ ہو گی تو اس کیلئے سٹیبلشمنٹ کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ |