تاخیری حربوں کا زندہ قبرستان

ہمارے ہاں سیاست دان ہیں سسٹم نہیں ہے سسٹم سیاست دان بناتے ہیں لیکن پاکستان میں سیاست دان باتیں بناتے ہیں اور بے شمار بناتے ہیں اس قصہ گو کی طرح جو پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے درباروں میں ہوتے تھے ان کو معلوم تھا کہ بادشاہ بدھو ہے دلربا اور دل لبھانے والی باتیں کریں گے تو بادشاہ کی بانچھیں کھلیں گی توہمارا دال دلیا چلتا رہے گا اوریوں رائِی کے پہاڑ بنتے تھے اور بادشاہ لوگ سر دھنتے تھے ہم بھی بادشاہ لوگ ہیں ہمارے قصہ گو سیاست دان ہیں جن کے پاس باتیں ہیں باتیں ہیں اور مزید باتیں ہیں وہ کبھی ڈھلوچی بنتے ہیں اور کبھی ڈھنڈورچی ،مقصد تماشا لگانا ہوتا ہے جو وہ لگاتے ہیں ۔

تاریخ کا کوڑادن اٹھائیں تو ان اڑسٹھ برسوں میں کیا کچھ نہیں ملے گا لیکن ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے تاخیری حربے۔قائد اعظم کے ساتھی سیاست دان تو کھوٹے سکے تھے بعد میں ان کھوٹوں پر زنگ لگنے لگا خواہشات کا زنگ عصبیت اور اقربا پروری کا زنگ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا چند چند مہینے کے لئے وزیراعظم بنائے گئے اور جب عوامی مفاد کی بات آتی تو کئی کئی سال لگ جاتے ۔ بھارتی وزیراعظم نے انہیں دنوں کہا تھا کہ میں اپنی دھوتی اتنی جلدی تبدیل نہیں کرتا جتنی جلدی پاکستانی اپنا وزیراعظم تبدیل کر لیتے ہیں ۔وجہ مستقل مزاجی کی کمی اور مفادات کی دیگ کو صاف کرنے کی جلدبازی تھی ، حیلے اور حربے تھے جس نے جس کی گردن دبوچنی ہوتی تھی دبوچ لیتا تھا اور جب مفاد عام کی بات آتی تو انہیں سانپ سونگھ جاتا تھا قوم کے خادموں میں کبوتر کی خصلت پیدا ہوچکی تھی آنکھیں بند کرو اور قوم کو قوم کے حال پر چھوڑ دو۔اسکندر مرزا نے 12 جون1958 کو ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کی تو 7 اکتوبر کو موصوف نے مارشل لا اور 27 اکتوبر کو اپنے ہی محسن اسکندر مرزا کو اقتدار سےنکال باہر کیا ۔ میدان حرب کے ماہر ایوب خان سیاست کے بھی ماہر بن بیٹھے ویسے تو کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں ایوب خان میں سیاست کی خو پہلے ہی بہت تھی تبھی تو قائد اعظم بھی ان پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے تھے لیکن جب سیاست دانوں میں ہی کھوٹ ہو اور وہ اخلاقی طور پر تنزلی کی طرف جا رہے تھےتو پھر شب خون مارنے سے کسی کو کہاں روکا جا سکتا ہے؟۔
بہرحال ایوب آئے اور تاخیری حربوں کے بجائے قومی معاملات میں تیزی آئی وجہ صدارتی نظام کہہ لیں یا فرد واحد جسے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے تشبہیہ دی جاتی تھی فیصلے ہونے لگے اور جلد ہونے لگے کجا اس کے کہ اچھے تھے یا برے لیکن بقول شخصے اچھی حکمرانی وہ ہوتی ہے جس میں عوام کو فائدہ پہنچے ۔ایوب خان کے بعد یحیی خان آئے اور اپنے ساتھ خرافا ت لائے لیکن سیاست دانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی بھٹو اور مجیب کی لڑائی میں پاکستان دو لخت ہوا ایک نے ادھر ہم ادھر تم اور ٹانگیں توڑنے کی بات کی تو دوسرے نے اگرتلہ سازش کیس اور بنگلا دیش کے نام پر انتخاب لڑا۔بچھے کچھے پاکستان کا اقتدار بھٹو کے پاس آیا اس دور میں اچھے کام بھی ہوئےلیکن مدت پوری ہونے سے پہلے مارچ 1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے الیکشن کر ادئیےپاکستان قومی محاذ نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا مذاکرات کی گاڑی چلی اور اتنی دیر تک چلتی رہی کہ مارشل لا کا بھاری بھرکم کنٹینر اس پر آن گر ا اور 5 جولائی 1977 کو جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر گئی۔

ضیا الحق نے عنان حکومت سنبھالی اور نوے روز میں انتخابات کا کہہ کر خوب تاخیری حربے استعمال کئے پھر خطے کے حالا ت ایسے بنے کہ آمر کا اقتدار گیارہ سال تک چلا گیا ۔1988 میں جمہوری دور کا آغاز ہوا اور پھر و ہ کچھ ہوا جو نوے کی سیاست کے حوالے سے بدنام ہے ۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے سکیورٹی رقص قرار دیا جانے لگا کبھی ٹرین مارچ ہو ا تو کبھی تحریک نجات شروع ہوئی۔ دونوں سیاست دان ایجنسیوں سے مل کر ایک دوسر ےکو نیچا دکھانے لگے اور جب جمہور کے فائد ے کی بات ہوتی تو یہ چپ کا روزہ رکھ لیتے ۔اس وقت صدر کے پاس 58 ٹو بی کا کلہاڑا بھی ہوا کرتا تھا جو ہر دو ڈھائی سال بعد چلتا تھا اور غریب جمہور یہ جمہوری تماشا دیکھتے تھے۔ کرپشن، اقربا پروری اور آئین کی پامالی کے الزامات لگتے لیکن کبھی یہ ثابت نہ ہوئے ۔آصف زرداری کے خلاف جنہوں نے ریفرنس اور مقدمات بنائے سیاسی مصلحت کے تحت انہوں نے پھر خود ہی اسے ایک ایک کرکے ختم کردیا۔

12 اکتوبر 1999 آیا جو نوازشریف کو سرخ سلاخوں کے پیچھے لے گیا مشرف نے ان پچاریوں کو اکٹھا کیا جن کا دیوتا چڑھتا سورج تھا ۔ نوازشریف کے ہم نوالہ و ہم پیالہ میاں محمد اظہر کو ق لیگ کا سربراہ بنا دیا گیا چودھری آئے غیر چودھری آئے اور ابن الوقت سیاست دانوں کا غول در غول آتا گیا ۔مشرف گیا تو یہ موسمی پنچھی بھی ایک کرکے اڑے گئے پیپلز پارٹی نے 2008 کا الیکشن جیتا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنی 5 سال کی آئینی مد ت پوری کی جس کا کریڈٹ بہرحال آصف علی زرداری کو جاتا ہے ۔11 مئی 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو اس پر انتخابی دھاندلی اور35 پنکچر کے الزامات لگے معاملہ 4 حلقوں کا تھا حکومت نہ حلقے نہ کھولے تو مجبوراً پاکستان تحریک انصاف کو 126 دن دھرنا دینا پڑا لیکن پھر اسے خود ہی کپڑے جھاڑ کر اٹھنا پڑا ۔ پاناما لیکس آئی جوڈیشل کمیشن کی بات ہوئی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بات ہوئی اور پھر پارلیمانی کمیٹی پر بات بن گئی لیکن یہ معاملہ بھی اپنا وقت پورا کرنے کے باوجود لٹکا ہوا ہے ہر اجلا س ڈیڈ لاک کا شکار ہو رہا ہے حکومت کے اپنے ٹر مز آف ریفرنس ہیں اور اپوزیشن کے اپنے ، ایک وزیراعظم سے احتسا ب شروع کرنا چاہتا ہے تو دوسرا سب سیاست دانوں کی بات کرتا ہے تادم تحریر اونٹ کھڑے کھڑے تھک چکا ہے لیکن کسی کروٹ بیٹھ بھی نہیں رہا۔12 رکنی کمیٹی کسی ضابطہ کا رپر متفق ہو بھی جائے تو اس کے بعد جوڈیشل کمیشن کا ایک دریا ہے جو پاناما پیپر کے الزاما ت کی کشتی کو پار لگانےکی کوشش کرے گا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو گا وہی کہ یہ تمام معاملہ شیطان کی آنت بن جائے گا جیسا کہ کمیٹیوں اور کمیشنوں کے ساتھ ہمار ے ہاں ہوتا آیا ہے ۔سانحہ ماڈل ٹاون ،شریت کورٹ کا سود سے متعلق فیصلہ ، شریعت بل ،اردو کا نفاذ ہو یا پھر پانامالیکس کمیٹی کا معاملہ سب تاخیری حربوں کے زندہ قبرستان کے مردے ہیں ۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 43739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.