اسلامی جمہوریہ پاکستان
(Shahzad Saleem Abbasi, )
اچنبہ کہیں ، اچھوتا یا چمتکار ،بہرحال
پاکستان اتفاقاََ یا حادثاََ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پر ہی بنا یا
گیا جسکو انتہائی مضبوط اسلامی و جمہوری بنیادوں پر استوار کیا گیا اورواضح
کیا گیا کہ پاکستان کے آئین سے لیکر اس ملک کی معیشت، معاشرت ، داخلہ و
خارجہ پالیسیاں، رہن سہن اور اوڑھنا بچھونا فقط قال اﷲ و قال الرسول کے
سائے تلے ہو گا ۔ ہر نغمہ اور ہرصدا میں اسلامی روایات وثقافت کو مقدم رکھا
جائے گا اور ترویج و ترقی کا ہر سنہرا دور اسلامی اصولوں کے پیمانے پر قائم
رہے گا ۔ حیران کن طور پرکچھ ہٹ دھرم دینی لوگ قائد اعظم کو انگریزوں کے
قریب جبکہ کچھ نام نہاد لبرلزپائے کا وکیل، لیڈراور پاکستان کا خیر خواہ
ماننے سے ہی انکاری نظر آتے ہیں۔حالانکہ قائداعظم محمد علی جناح اپنے اقوال
و فرمودات میں فرماتے ہیں کہ" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے، اس میں
مذہبی اور مجلسی،دیوانی اور فوجداری،عسکری اور تعزیری،معاشی اور معاشرتی سب
شعبوں کے احکامات موجود ہیں۔یہ مذہبی رسومات سے لیکر جسم کی صحت تک، جماعت
کے حقوق سے لیکر فرد کے حقوق تک،اخلاق سے لیکر انسدادِ جرائم تک،زندگی میں
سزا و جز ا سے لیکر آخرت میں جزاوسزا تک غرض کے ہر قول وفعل اور ہر حرکت پر
مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔لہذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو
حیات اور ما بعد حیات کے ہر معیاراور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں" ۔
لیکن آج ہم ٹی وی آن کرتے ہیں تو آناََ فاناََ ہمیں مغربی کلچر کی بو آنے
لگتی ہے ، تقریباََ ہر پروگرام، ہر بلیٹن، ہر شو، ہرڈرامے ہر فلم میں
خرافات اور لغویات سے انسانی دماغوں کی آبیاری کا کام خوب جاری ہے۔ حقیقاََ
ہر خبر بلکہ ہر نظر یادِخدا سے بیگانہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ٹی وی پر نعتیں
اور تلاوتیں چلتی ہیں اور سابقے ، لاحقے کے طور پربھارتی اور پاکستا نی
میوزک کا تڑکا بھی لگتا ہے جو کہ سراسر قرآن و سنت کے ادب کے خلاف امر واقع
ہے ۔بعض پروگرامات پیکج پر تیار ہونے لگے ہیں، بعض سپانسرڈ چلائے جارہے
ہیں، بعض ٹی وی مالکا ن کی مرضی سے چلائے جاتے ہیں، بعض ملی بھگت کی نظر
ہوتے ہیں، بعض پی آر شپ کی منظور نظر ہو جاتے ہیں اور بعض سستی شہرت حاصل
کرنے اور ٹی آر پی کی اپ گریڈنگ کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں۔ٹی وی
پروگرامات کے نام پہ نہ جانے کیا کیا تہذیب شکن اور حواس باختہ پروگرام نشر
ہونے لگے ہیں جنہیں بیک وقت دوقسم کے معاشرتی لگاؤ سے محبت رکھنے والے
دیکھتے ہیں ان میں پہلی کھیپ ڈبے کے دودھ، جام اور بریڈ کے لاڈلوں کی تیار
ہو رہی ہے جوکل کلاں خدا نخواستہ اپنی تہذیب کو ہی کوسیں گے اور کہیں گے کہ
ہمیں یہ اسلامی جمہوریہ نظام کے بجائے لارڈ میکالی پاکستان چاہیے جہاں ہر
طرف رنگینی ہو، بلا روک ٹوک جو جی میں آئے وہ کرنے کی آزادی ہو ، جسے عرف
عام میں مدر پدر آزاد معاشرہ کہا جاتا ہے ۔ اس ماحول کے تیار کردہ لوگ
عموماََ مغربی لبرلز، روشن خیال اوردین و مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہ رکھنے
والے لوگ ہوتے ہیں۔ڈپٹی نظیر احمد کہ یہ اشعار ان پر خوب صادق آتے ہیں۔ چار
دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ ۔کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول
جا۔ یہ لوگ بعض اوقات بیرونی ایجنڈے پر عمل پیر اہو جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری
طرف کی کھیپ ان میڈیا پروگراموں کو دیکھ کر خدا کی پناہ مانگتی ہے کہ یہ
کیا عجیب معاشرہ ہے جس میں ماں بیٹی ، باپ بیٹا ، بہن بھائی اوراستاد شاگر
کی پہچان ہی ختم کر کے رکھ دی گئی ہے کہ2 عشرے پہلے تک تو گھروں میں
،تعلیمی درسگاہوں میں ماں باپ اور اساتذہ کا ادب ہوتا تھا لیکن اب تو اس
آزاد میڈیا نے تو جیسے ہر قسم کے شیطانی ہتھکنڈوں سے ہمیں برباد کرنے کی
ٹھان رکھی ہے اور اقبال کے یہ اشعارپڑھتے نظر آتے ہیں کہ "کبھی اے نوجواں
مسلم تدبر بھی کیا توں نے۔ تجھے آبا ء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی ، کہ
توں گفتار وہ کردار، توں ثابت وہ سیارا۔گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث
پائی تھی، ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا ۔یہ لوگ کچھ ماڈریٹ ذہن
کے ہوتے ہیں اور تیسری کھیپ سخت گیر ذہن کے لوگ جو خود کو مسالک سے باندھ
لیتے ہیں جو کچھ نہ کچھ فتنہ بازی اور کیچڑ اچھالنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
پہلے روشن خیال لوگ کہتے تھے کہ سرکاری چینل کتنا اچھا چینل ہے جہاں پوری
فیملی بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ سکتی ہے، لیکن آج وہی، مغربی تہذیب و تمدن ،
نمودو نمائش اور اغیار کی بد ترین ثقافت کے پچاری اور ٹھیکے دار ٹی وی پر
مذاکروں میں دلائل و شواہد کے انبار لگاتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے
لیے کچھ تو انٹرٹینمنت ہو نی چاہیے اور مغرب سے مقابلے کی فضاء بنانے کے
لئے مغربی کلچر کو دیکھنا ضروری ہے اور یہ لوگ یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ
اسلام ایک مکمل ضابطہ ِحیات نہیں اور اسلامی تشخص کو پھیلانے کی ضرورت نہیں
ہے ،حالانکہ غیرمسلموں اور غیر مذہبوں کے معاملے میں چپ سادھ لیتے ہیں۔اسی
لیے اس خاص مائنڈ سیٹ کو قطعاَ کسی ایک تشخص کو نشانہ بنا کر مختلف بل پاس
کرانا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کی باتیں کرنا اور اسلامی نشریات
کے نام پر لوگوں کی عزت نفس مجروح کرنا، اسلام کی جزئیات و کلیا ت کو
چھیڑنا کسی طرح بھی منطقی اور قابل فہم نہیں ہے جومعاشرے میں بگاڑ کا سبب
بنتا ہے ۔جس سے بالآخر نقصان اسلام اور پاکستان کا ہی ہے۔لہذا ان نام نہاد
اداکار، اداکاراؤں کو اپنی ماڈل اور ادارکاری سے ہی مطلب ہونا چاہئے نہ کہ
اسلامی اصولوں اور شریعت مطہرہ کے قوانین پر اپنے منفی جذبات کا اظہار کرنا
چاہیے ۔ یہ بات کہنا کہ ہربات حافظ حمد اﷲ کی ہی غلط ہے اورماروی سرمد ،
ڈاکٹر فرزانہ وغیر ہ سے غلطی کا احتمال ناممکن ہے ، عجیب منطق ہے ۔ اسلامی
نظریاتی کونسل کی اہمیت غیرمسلمہ ہے تومیری ناقص رائے میں سینما گھر ، فلم
پروڈکشن ہاؤس اور ڈرامہ پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے بننے والی غیراخلاقی
فلمیں اور اخلاق باختہ ڈرامے بھی غیر مسلمہ قرار دیے جائیں ؟
اسلامی نظریاتی کونسل کے معاملات کو خوش فہمی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پیمرا ٹی وی چینلز اور اخبارات کے لیے بھی ایک کوڈ آف کنڈیکٹ بنائے اور
خلاف ورزی پر جرمانے کرے۔ معاشرے میں افراتفری سے بچنے کے لیے ہر فکر
،خیال، مسلک، مذہب، عقیدہ اور یہاں تک کے ہر مختلف الطبع فر د کودوسرے کی
فکر ، خیال، مسلک ، مذہب ، عقیدہ اور طبعیت کا خیال رکھنا ہو گا اور افہام
و تفہیم سے مسائل کا حل ڈھونڈ کر دل اور دماغ کی تسکین حاصل کرنی ہو
گی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان آج جن مسائل کا شکار ہے ہم سب کو تفرقے ، اختلاف
اور ذاتی عناد سے بالا تر ہو کر وطن پاکستان کے ہر ذرے کی آبیاری کرنی ہے
اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو ہر حال میں مکمل کرنا ہے تاکہ قائد اور
اقبا ل کی یہ قوم وقار ، شان ،عزت کیساتھ سر اٹھا کر جی سکیں۔ |
|