خطے میں امریکہ کی نئی گریٹ گیم

طورخم بارڈر پر کشیدگی کے بعد پاکستان اورافغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے وطن واپس جاتے ہی الزام لگایا ہے کہ پاکستان افغان علاقے میں چیک پوسٹیں اور گیٹ تعمیر کر رہا ہے اور افغان دیہات پر بلااشتعال فائرنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغان نائب وزیر خارجہ نے جاری پریس ریلیز میں بارڈر مینجمنٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔دوسری جانب پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کا کہنا ہے کہ افغانستان سے لوگ یہاں آکر بدامنی کرتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ گیٹ تعمیر کیا جائے۔پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان اپنی سرحد کے اندر نگرانی کرے اور ہم اپنی سرحد میں اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے جو بھی قدم اٹھائیں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک خود مختارملک کی حیثیت سے اپنی سرزمین کے اندر جو چاہے تعمیرات کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی کسی بھی قسم کی مداخلت یا ہدایات دینے کا اختیار رکھتا ہے نہ پاکستان کسی قسم کی ڈکٹیشن قبول کرے گا۔ اپنی زمین پرکراسنگ پوائنٹس کی تعمیر بھی کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔افغانستان کا یہ مطالبہ کہ پاکستان اپنے علاقے میں 35میٹر کے بجائے سو میٹر کے فاصلے پر گیٹ تعمیر کرے بلا جواز ہے کیونکہ پاکستان نے عالمی مروجہ قوانین کے مطابق اور 37میٹر پاکستانی حدود کے اندر انہیں تعمیر کیا ہے۔ دیگر کراسنگ مقامات پر بھی ایسے ہی گیٹ تعمیر کئے جائینگے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحد کا معاملہ 1893 ء سے طے شدہ ہے۔ اقوام متحدہ اورعالمی طاقتیں اسے بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتی ہیں۔پاکستان کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ افغانستان آنے جانے والوں کو سرحد پر ضروری سفری دستاویزات دکھانا ہوں گی۔یقینا افغانستان کے ساتھ ساتھ سرحد کو باقاعدہ بنانے سے بہت سی غیرقانونی سرگرمیوں، دہشت گردی اور اسمگلنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ان اقدمات سے پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان بھی براہ راست مستفید ہوں گے۔تاہم اس حوالے سے افغان قیادت کی جانب سے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی روش دال میں کچھ کالے کی نشاندہی کررہی ہے۔

طور خم پر افغان فوج کی جانب سے پاک فوج پر بلااشتعال فائرنگ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اتنی ’’جرات‘‘ کے پس پردہ محرکات اور قوتیں پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت سے پوشیدہ نہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنی ـ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کی پالیسی ترک کرکے انتہائی اخلاص سے سرحدوں کے نظم و نسق کو بہتر کرنے پر توجہ دے رہا ہے ، افغانستان کی طرف سے اچانک جارحانہ طرز عمل اصل میں خطے میں تبدیل ہوتی امریکی پالیسی کا سراغ دے رہا ہے۔ معروف گلوکارہ حمیرا ارشد کا ایک مقبول عام پنجابی گیت ’’ میں نئیں بولدی میرے وچ میرا یار بولداـ‘‘ افغانستان کا موجودہ جارحانہ طرز عمل دراصل اس کے ’’یاروں‘‘ کی زبان اور عزائم کا اظہار ہے۔یہ ’’یار‘‘ امریکہ اور بھارت ہیں جو گٹھ جوڑ کے ذریعے خطے میں ایک نئی گریٹ گیم کی بنیاد ڈالنے جارہے ہیں۔ جس کا ایک مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ،اس پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ امریکہ کی کئی دہائیوں سے پہنی’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ کی بیڑیوں کے درد کو محسوس کرتا رہے اورسب سے بڑھ کر بھارت کے آگے سرنگوں رہے ۔ دوسرا مقصد چین اور روس کی سرگرمیوں اور خطے میں ان کے اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔ خاص طورپر شنگھائی تعاون تنظیم جس کا پاکستان باقاعدہ رکن بننے جارہا ہے اور جس کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک خطے کے ممالک کے آپسی تعلقات کو فروغ دے کرایک پرامن فضا قائم کرنا ہے اور امریکہ سمیت دوسرے غیر ممالک جو اپنے ایڈونچر یا مفادات کی خاطر خطے کے امن کو برباد بنانے پر تلے ہیں، ان کی سرگرمیوں کے آگے پل باندھنا ہے۔ امریکہ ایسی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے بھارتی کندھا بھی مل چکا ہے۔ یہ نئی گریٹ گیم یقینا پاکستان بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ اس پس منظر میں افغان فوج کی گنوں میں پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے کے کیخلاف امریکہ و بھارت کے خطرناک عزائم کی بو کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

طور خم پر افغان فوج کی فائرنگ کے بعد اگر مسلز آزمانے کی بات ہوتی تو پاکستان اس کی بھرپور صلاحیتوں سے لیس ہے۔ افغان فوج جس کی وردی بھی اپنی نہیں، پاک فوج کا کا کیا مقابلہ کرے گی۔ سرحدوں پر پاک فوج کی موثر صف بندی اوردوسری طرف افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کی بدولت انہیں ایک سہارا حاصل ہے ورنہ وہ مٹھی بھر طالبان کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ امریکہ اور بھارت کو بھی افغان فوج کی ان صلاحیتوں کا بخوبی علم ہے تاہم اسلام آباد کی جانب سے بھرپور صبروتحمل کا مظاہرہ کیا گیا اور جوابی کارروائی کو ممکنہ حد تک کم رکھا گیا تاکہ معاملے کو طول نہ دیا جائے۔ پاکستان ہر ممکن حد تک اپنے افغان بھائیوں کی مدد و معاونت کرنا چاہتا ہے۔ تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین تین دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہیں ۔ ان کی وجہ سے پاکستان خود عدم استحکام کا شکار ہوا اور یہاں کلاشنکوف کلچر کے علاوہ بدامنی کو فروغ حاصل ہوا۔ مہاجرین کی کثیر تعداد کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ یہ مہاجرین آج بھی پاکستان میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں، کاروبار کررہے ہیں بلکہ قیمتی جائدادوں کے مالک ہیں۔ افغان قیادت کو یہ بھی معلوم ہے کہ افغانستان کا زمینی رابطہ پاکستان کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان نے اس سلسلے میں ہمیشہ فراخدلی کا مظاہرہ کیا اورسازوسامان کی آمدورفت میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور ہزاروں ٹرک پاکستان کی سڑکوں سے گزر کر روزانہ سرحد کے آرپار جاتے ہیں۔ پاکستان یہ حقیقت بھی تسلیم کرچکا ہے کہ پرامن افغانستان سے ہی پرامن پاکستان کے خواب کی تعبیر ممکن ہے۔ مگر افسوس پاکستان کے تمام مخلصانہ اقدامات کو پل بھر میں سبوتاژ کردیا جاتا ہے۔ ملامنصور پر ڈرون حملے سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی امیدوں پر پانی پھیردیا گیا۔ اب پاک افغان سرحد کو باقاعدہ بنانے کے سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کے ذریعے خطے میں سازشوں اور چالوں کے جو گردووغبار اڑ رہے ہیں، ان سے تو لگتا یہی ہے کہ پاکستان کی یہ خواہش پوری نہ ہو اور افغانستان کی سرزمین پاکستان اور خطے کے امن کے لیے آئندہ بھی کئی سال تک امریکی و بھارتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا مرکز بنی رہے گی۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ امریکہ کی لگائی نئی آگ میں خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بھارت اور افغانستان کو زیادہ قیمت چکانی پڑجائے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69446 views Columnist/Journalist.. View More