چھڑا ہے کیوں دہشت گردی کا فسانہ
(rahat ali siddiqui, Muzaffarnagar)
ہندوستان آزاد ہوئے 69سال ہوچکے ہیں، تاریخ
کے اوراق گواہ ہیں تقسیم وطن کے بعد سے کوئی ایسا واقعہ اس سر زمین پر
رونما نہیں ہوا جہاں مسلمانوں کے محب وطن ہونے پر شک کیا جا سکے ان کی وطن
سے محبت پر انگلی اٹھائی جاسکے ان کے کردار سے یا اعمال سے ملک کی مخالفت
جھلکی ہے 69سال کی تاریخ کا ہر ورق ورق پلٹنے کے بعد فیصلہ ہوجاتا ہے کہ
کبھی مسلمان ملک دوست ہیں یاملک دشمن ان کی رگوں میں گردش کرنےوالا لہو کیا
پکارتا ہے وہ نفرت کے قائل ہیں یا محبت کے ایک نظر ڈالنے پر ہرذی شعور فرد
ان کے خلوص پر یقین کرلے گا اور معلوم کرلے گا مسلمانون کی وطن سے محبت سے
کا کیا عالم ہے وطن سے پیار اسلام کا جز ہے جس پر مسلمان آج بھی عمل پیرا
ہے اپنا سب کچھ گنواکر بھی ہندوستانکی ترقی کی دعائیں مانگتا ہے 6دسمبر
1992کا حادثہ اتنا الم انگیز تھا اگر چٹانوں پر بھی ایسا بوجھ ڈالا جائے تو
ریزہ ریزہ ہوجائیں مگر مسلمان کوہ استقامت بنا رہا اور اس کا کوئی ایسا عمل
تاریخ کے صفحات پر درج نہ ہوسکا جو ملک مخالف ہو جس سے ملک فضا مسموم
ہوجائے امن و سلامتی کا قتل ہو ٹوٹے ہوئے دل کی کرچیوں کو چن کر اس طرح
چلتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، دل ٹوٹا ہی نہ ہو کوئی چوٹلگی ہی نہ ہو
حالانکہ اگر کوئی اس زخم کودیکھ لیتا یا محسوس کرلیتا جو بابری مسجد کی
شہادت کامسلمانوں کے قلب پر لگا تھا توبرسوں ہراساں رہتا اور سالوں کی نیند
سے ہاتھ دھو بیٹھتا لیکن مسلمان نے یہ سب کچھ برداشت کرلیا ممکن ہے کوئی
1993کے بم کانڈ کو بابری مسجد کا ردعمل کہے لیکن اسے ہوش کے ناخن لینے
چاہئیں اور حقائق سے آنکھیں ملانی چاہئیں کہ اس کانڈ میں سنجے دتجیل کی
سلاخوں کا منھ دیکھ چکے ہیں کیا وہ غیر مسلم ہوکر اس طرح کے عمل میں شریک
ہوتے ان کا ضمیر اس کی گواہی دیتا یاپھر اتنا بڑے زخم پر ایک پھایا مرہم
کافی ہوتا اس کے مقاصد جوبھی ہوں ان تمام لوگوں سزائے بھی دی جا چکیں اور
بہت سے جو گرفت میں نہیں آئے تو وطن عزیز سے جد ہوجانا بھی کسی سزا سے کم
نہیں سلسلہ آگے بڑھتا رہا ہمیشہ مسلمان صبرواستقامت کا مجاہدہ کرتے رہے وہ
قوم جو کشتوں کے پشتے لگا دیتی جس کی شجاعت و بہادری کے لئے اتنا کہنا کافی
ہے کہ عبدالحمید کوتم بھی ویر کہتے ہو اس کی خاموشیکیا بزدلی ہو سکتی ہے،
نہیں وطن سے دوستی اور محبت کے سوا کچھ بھی نہیں اوردوسری طرف ظلم و ستم کی
ختم نہ ہونے والی داستان ہے 1989کا بھاگلپور فساد کون بھول سکتا ہے زمین
کانپ اٹھی ستارے بے نور ہونے کی تمنا کرتے نظر آئے مگر مسلمانوں کے صبر کا
پیمانہ چھلک نہ سکا عورتیں بچے بچیاں مرد قتل کئے گئے اسی طرح 2002کا گجرات
فساد ظلم کی پہچان اور علامت بن کررہ گیا مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے
پہاڑ توڑے گئے حیوانیت ودرندگی کے نشانقائم کردئے گئے انسانوں نے ایسے
مظالم کئے کہ انسانیت شرمسار ہوگئیآدمیت کا وقار مجروح ہوگیا اور بہت
سیمسلم دوشیزائیں نیزوں پر جھولتی نظر آئیں، یہ وہ لمحہ تھا جب مسلمانوں کو
صبر کا دامن چھوڑ دینا چاہئے تھا اور کوئی ذی شعور ان کے اس عمل کو غلط نہ
گردانتا مگر مسلمانوں نے ہندوستان کے وقار کو اس وقت بھی داو پر نہیں لگایا
جب انکے وقار کی دھجیاں اڑ چکی تھیں ان کی عزت تارتار ہو چکی تھی اور یہ
سلسلہ ابھی رکانہیں 2014مظفرنگرفساد مسلمانوں کا خون بہا خوف وہراس کے عالم
میں راتیں گذریں عورتوں کی آنکھیںنیند سے محروم ہوئیں لاکھوں افراد کو چھت
سے بھی محروم ہونا پڑا اور زندگی کے مشکل ترین مراحل سے گذرنا پڑا یہ ظلم
وجبر کی وہ مختصر داستان ہے جو مسلمانوں پر ہوئے عفسانے اور بھی ہیں میری
حیات سے وابستہلیکن یہ چند واقعات ہی اس اظہار کے لئے کافی ہیں کہ مسلمانوں
کے ساتھ اپنے ملک میں کیسا رویہ اورسلوک رہا آج تک کسی فساد کے مجرمون کو
سزا نہمل سکی قاتل سرکاری سانڈ کی طرح آزاد گھوم رہے ہیں اور مظلوموں پر
پھبتیاں کسنے سے بھی گریز نہیں کرتے ان حالات کو سامنے رکھ کر اگر کسی
انصاف پسند سے سوال کیا جائےتو یقیناًاس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی
ہوگی اور زبان پر یہ کلمات ہونگے کہ یہ دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے لیکن
افسوس مسلمان اس ملک کی مظلوم قوم نہیں دہشت گرد قوم کہی گئی انصاف نے
آنکھیں موندلیں عدل سویا رہا اور نانصافی مسلمانوںکا مقدر ٹھری اور مظلوم
ظالم کہلائے زخم خوردہ قاتل کہلائے کیوں اس لئےکہ ان کے قلب میں خداوند
قدوس کی محبت ہے یہ سب کچھ سہ لیتے سب کچھ برداشت کرلیتے ہیں مگر یہ ملک سے
ترنگا نوچنے نہیں دیں گے یہ بھگوا تہذیب کو منظور نہیں کریں گے یہ شہادت کے
متوالے ودلدادہ ہیں انہوں نے اپنی جانیں لٹائی ہیں اس کا علم ان افراد کو
بھی ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں اور اس سے جمہوریت کا
حسین زیور چھیننا چاہتے ہیں اس لئے مسلمانوں کوہراساںکیا جاتا ہے کمزور
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے انہیں دہشت گرد بتایا جاتاہے ہے عجب فسانہ ہے تیرے
انصافکا دوسری طرف وہ ادارہ ہے جہاں علم وآگہی کا دریا بہتا ہے وطن دوستی
کا درس دیا جاتا ہے جس کی بنیاد ہی ہندوستان کی آزادی کے مقصد کے لئے رکھی
گئی جو آزادی کی تحریک تھاجس کے جیالوں نے شہادت کاجام نوش کیا اور
ہندوستان کی آزادی میں بخوبی کردار ادا کیا اس ادارہ کو دہشت گردوں کا مسکن
کہہ دیا جاتا ہے جب کہ وہاں آج تک ہتھیار چلانے نہیں سکھائے گئے اس صورت
حال کو دیکھ کر ملک میں چند افراد کیا چاہتے ہیں ہرکوئی سمجھ سکتا ہے عخدا
کرے نہ ہو آرزو تیری پوری |
|